رمضان المبارک میں کثرتِ کلمہ واستغفار
اللہ تعالیٰ کی رحمت محوِ خِرام ہے، عالم اسلام کے مسلمان اپنے رب کو راضی کرنے کےلیے خوب عبادات کر رہے ہیں، اللہ کریم ان کی تمام حسنات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت نصیب فرمائے اور اس کی برکت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے تما م مسائل کو حل فرمائے۔ بالخصوص شام، فلسطین، برما اور کشمیر کے مظلوم افراد کی مدد و نصرت فرمائے۔ آمین
رمضان المبارک ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ کی طرف سے بندوں پر رحمت، لطف و کرم اور عنایات کی بارش مسلسل برستی رہتی ہے، اگر اس کی حقیقت بندے کو سمجھ آجائےتو وہ یہ تمنا کرے کہ سارا سال ہی رمضان رہے۔ چنانچہ ایک حدیث پاک میں ہے:
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي الْخَطَّابِ - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَاتَ يَوْمٍ وَقَدْ أَهَلَّ رَمَضَانُ، فَقَالَ: «لَوْ يَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ يَكُونَ السَّنَةَ كُلَّهَا۔
صحیح ابن خزیمہ، باب ذکر تزیین الجنۃ لشھر رمضان، حدیث نمبر 1886
ترجمہ: حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ رمضان کا چاند نظر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، فرمایا: اگر )اللہ کے (بندوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا ہے؟ تو وہ تمنا کریں کہ سارا سال ہی رمضان ہو ۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ ہم میں سے اکثر کی زندگیوں میں رمضان کئی بار آچکا ہے، اللہ تعالیٰ باربار نصیب فرمائے اور ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اس کو ہماری مغفرت اور جہنم سے آزادی کا ذریعہ بنائے۔
نوٹ: رمضان گزارنے کا طریقہ اور اس کے فضائل و مسائل پر مشتمل میری کتاب” رمضان المبارک فضائل و مسائل“ پڑھیں۔
عام طور پر دوست احباب پوچھتے ہیں کہ رمضان میں کون سا وظیفہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے بنیادی بات یاد رکھیں کہ رمضان میں فرائض، واجبات، سنن اور نوافل پر درجہ بدرجہ عمل کریں، سنن اور نوافل کی وجہ سے فرائض میں سستی نہ کریں اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کے بعد سنن و نوافل میں کوتاہی سے کام نہ لیں۔ کیونکہ اس مبارک مہینے میں سنن و نوافل کا اجر فرائض کے برابر بڑھا دیا جاتا ہے اور فرائض کا اجر ستر گنا زیادہ کر دیا جاتا ہے، اس لیے پورا مہینہ چاق و چوبند ہو کر چستی اور دل جمعی کے ساتھ عبادات اور دعاؤں میں مسلسل مصروف رہیں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں رمضان المبارک میں بطور خاص چار کام کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے۔
وَ اسْتَكْثِرُوْا فِيْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ وَ خَصْلَتَيْنِ لَا غِنىٰ بِكُمْ عَنْهُمَا فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ فَشَهَادَةُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ وَ تَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ أَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنىٰ بِكُمْ عَنْهُمَا فَتَسْأَلُوْنَ اللهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ۔
صحیح ابن خزیمۃ، باب فضائل شہر رمضان، حدیث نمبر 1887
ترجمہ: اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔
نوٹ: ان میں سے پہلے دو کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
1: کلمہ طیبہ: کلمہ طیبہ کے بے شمار فضائل احادیث کی کتب میں مذکور ہیں، حدیث مبارک میں کلمہ طیبہ کو افضل الذکر قرار دیا گیا ہے، صبح و شام کثرت کے ساتھ اس کو پڑھنا چاہیے۔یہاں تک کہ آخری وقت بھی یہی کلمہ زبان سے جاری ہوجائے اور جس کی زبان پر آخری وقت یہ کلمہ جاری ہو گیا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ چنانچہ حدیث مبارک میں ہے:
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ
سنن ابی داؤد، باب فی التلقین، حدیث نمبر3118
ترجمہ: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کلمہ پڑھتے ہوئے فوت ہوا تو جنت میں داخل ہو گا۔
2: استغفار: اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے دل میں اللہ کا خوف اور امید دونوں کو اکٹھے کر کے اللہ سے بخشش اور معافی کی درخواست کرنا استغفار کہلاتا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات مبارکہ میں استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ اس کی ترغیب دی گئی ہے۔
جب تک کوئی قوم استغفار کرتی رہتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل نہیں فرماتے اور جب وہ استغفار چھوڑ دیتی ہے تو طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ۔
سورۃ الانفال، آیت نمبر 33
ترجمہ: اللہ کبھی ان کو عذاب میں مبتلا نہیں فرمائے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجودگناہوں سے معصوم ہونے کے روزانہ کثرت کے ساتھ استغفار کرتے تھے، جو آپ کے بلندی مرتبہ اور امت کی تعلیم کے لیے تھا۔
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَاللهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً
صحیح بخاری، باب استغفار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الیوم واللیلۃ، حدیث نمبر 6307
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم! میں ایک دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللهِ، فَإِنِّي أَتُوبُ، فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ.
صحیح مسلم، باب فی التوبۃ، حدیث نمبر 6958
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو!اللہ کے حضور توبہ کرو کیونکہ میں بھی اللہ کے حضور دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي۔ يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي۔
جامع التزمذی، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار، حدیث نمبر 3463
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے آدم کی اولاد!تو جب بھی مجھ سے دعا کا طالب بن کر آئے گا اور مجھ سے معافی کی امید لگائے گا تو میں تیری مغفرت کر دوں گا، خواہ تونے کتنے ہی بڑے گناہ کیے ہوں مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اے آدم کی اولاد!اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور پھر بھی تو مجھ سے مغفرت مانگے میں تیری مغفرت کر دوں گا اور اس پر مجھے کسی کی کوئی پرواہ بھی نہیں۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُما عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَكْثَرَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔
مستدرک حاکم، کتاب التوبۃ والانابۃ، حدیث نمبر 7677
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کثرت سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے اور ہر غم سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں، اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عِرْقٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا۔
سنن ابن ماجہ، باب الاستغفار، حدیث نمبر 3818
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جو اپنے نامہ اعمال میں کثرت کے ساتھ استغفار پائے۔
قَالَ (علی (وَحَدَّثَنِى أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ - رَضِیَ اللہُ عَنْہُ - أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلاَّ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ. ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ (وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ) إِلَى آخِرِ الآيَةِ.
سنن ابی داؤد، باب فی الاستغفار، حدیث نمبر 1523
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ابوبکر نے یقیناً سچ ہی فرمایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب کسی بندے سے گناہ ہو جاتا ہے پھر وہ اچھی طرح پاک صاف ہو کر) وضو کر کے (کھڑا ہو کر دو رکعت نماز ادا کرتا ہے اللہ سے مغفرت مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ جس کا مفہوم یہ ہے: اور وہ لوگ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخشنے والا بھلا اور ہو بھی کون سکتا ہے؟ اورجان بوجھ کر اپنے گناہ کے کاموں پر ڈٹے نہیں رہتے۔ )تو اللہ ان کو معاف فرما دیتا ہے (
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا مَرْفُوعًا:وَالْمُسْتَغْفِرُ مِنْ ذَنْبٍ وَهُوَ مُقِيمٌ عَلَيْهِ كَالْمُسْتَهْزِئِ بِرَبِّهِ»
جامع العلوم والحکم
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہوں پر ڈٹے رہنے کی حالت میں استغفار کرنے والا اپنے رب سے مذاق کرتا ہے۔
عشرہ مغفرت شروع ہونے والا ہے اس میں کثرت کے ساتھ استغفار یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ بطور خاص صبح سحری کے وقت بھی استغفار کریں کیونکہ اللہ رب العزت نے ایسے وقت میں استغفار کرنے والے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے، قرآن کریم میں ہے: وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ۔
سورۃ آل عمران، آیت نمبر 17
ترجمہ: اور وہ لوگ صبح )بوقت سحر(اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
اسی طرح افطاری میں بھی کثرت کے ساتھ استغفار کریں کیونکہ حدیث مبارک میں ہے کہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعاء قبول ہوتی ہے۔
دعا ہے اللہ کریم رمضان المبارک کے عشرہ مغفرت میں ہم سب کی کامل مغفرت کا فیصلہ فرما دیں۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
مکہ مکرمہ ، سعودی عرب
جمعرات، 24 مئی، 2018ء