اعتکاف کے فضائل ومسائل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اعتکاف کے فضائل ومسائل
اللہ تعالیٰ کے در پر ڈیرے ڈالنے کا وقت آ پہنچا ہے، رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے، اس عشرے کی طاق راتوں میں کوئی ایک رات ایسی ہوتی ہے جس کا مقابلہ ہزار مہینے بھی نہیں کر سکتے یعنی لیلۃ القدر۔ اس رات کو پانے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرے ۔
اعتکاف کا لفظی معنی ہے:”ٹھہرنا اور رکنا“۔ اعتکاف کرنے والا کچھ مدت کے لیے ایک خاص جگہ میں یعنی مرد مسجد میں اور عورت گھر کے خاص حصہ میں جس کو اس نے منتخب کیا ہوتا ہے ٹھہرا اور رکا رہتا ہے، اس لیے اسے ”اعتکاف“ کہتے ہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰى تَوَفَّاهُ اللّهُ ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ۔
صحیح البخاری: باب الاعتكاف في العشر الأواخر، الرقم: 2026
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف فرماتی رہیں۔
فائدہ: حدیث مبارک کے آخری جملے کہ وضاحت آگے آ رہی ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ۔۔۔ وَمَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ تَعَالَى جَعَلَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبَعْدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ۔
المعجم الاوسط للطبرانی: الرقم: 7326
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کیلیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
فائدہ: ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہو گی؟
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا
سنن ابن ماجہ، باب فی ثواب الاعتكاف، الرقم: 1781
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔

1)

معتکف جتنے دن اعتکاف کرے گا اتنے دن گناہوں سے بچا رہے گا۔

2)

جو نیکیاں وہ باہر کرتا تھا مثلاً مریض کی عیادت، جنازہ میں شرکت، غرباء کی امداد، علماء کی مجالس میں حاضری وغیرہ، اعتکاف کی حالت میں اگرچہ ان کاموں کو نہیں کر سکتا لیکن اس قسم کے اعمال کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔
عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ اعْتَكَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ كَانَ كَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ ۔
شعب الایمان للبیہقی، فصل فیمن فطر صائما، الرقم: 3680
ترجمہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرے اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمروں جیسا ہوگا ۔
اعتکاف میں کیا کریں؟
اعتکاف میں انسان دوسرے کاموں سے کنارہ کش ہو کر مسجد ہی میں رہتا ہے، اس لیے اس وقت کو غیر ضروری کاموں اور آرام طلبی میں گزارنے کی بجائے تلاوت، ذکر و اذکار اور نفلی عبادات میں گزارنا چاہیے۔ اعتکاف کیلیے کوئی خاص نفلی عبادات متعین تو نہیں بلکہ جو میسر ہو سکے انسان کو کرنی چاہیےالبتہ وہ خاص نوافل جو انسان عام حالات میں نہیں کر پاتا، اعتکاف میں ان کی ادائیگی کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اس لیے چند نوافل کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ معتکف کےلیے عمل کرنے میں سہولت ہو۔
تحیۃ الوضو:
تحیۃ الوضو کی نمازکی دو رکعتیں ہیں جو وضو کرنے کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ احادیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ہم ایک حدیث مبارک نقل کرتے ہیں۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍرَضِیَ اللہُ عَنْہُ… فَأَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا يُحَدِّثُ النَّاسَ فَأَدْرَكْتُ مِنْ قَوْلِهِ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهُ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ۔
صحیح مسلم،باب الذکر المستحب عقب الوضوء، الرقم: 345
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے، پھر دورکعتیں اس طرح پڑھے کہ قلب و ظاہر کی تمام توجہ ان دو رکعات کی طرف ہو تو اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ (أَنْ لَمْ) أَتَطَهَّرْ طُهُورًا فِي سَاعَةِ (سَاعَةٍ) لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ۔
صحیح البخاری، باب فضل الطھور باللیل و النھار، الرقم: 1149
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے وقت مجھے ارشاد فرمایا:’’ اے بلال! مجھے بتاؤ تو سہی کہ اسلام میں تیرا وہ کون سا عمل ہے جس کی مقبولیت کی زیادہ امید ہو؟ کیونکہ میں نے تیرے جوتوں کی آواز جنت میں سنی ہے۔میں نے عرض کی میرا ایسا عمل تو کوئی نہیں، اتنی بات ضرور ہے کہ جب بھی میں نے وضو وغیرہ کیا دن میں یارات کسی بھی وقت، تو اس طہارت کے ساتھ جتنا ہو سکا میں نے نماز ضرور پڑھی ہے۔
تحیۃ المسجد:
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ۔
صحیح البخاری، باب اذا دخل احدکم المسجد فلیرکع رکعتین، الرقم: 444
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیا کرو ۔
اعتکاف کے ضروری مسائل:
1: رمضان کے سنت اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سےشروع ہوتاہےاورعید کا چاندنظر آنےتک رہتا ہے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ بیسویں دن غروبِ آفتاب سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے۔
2: یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے،یعنی بڑے شہروں کےمحلے کی کسی ایک مسجد میں اور گاؤں دیہات کی پوری بستی کی کسی ایک مسجد میں کوئی ایک آدمی بھی اعتکاف کرےگا توسنت سب کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے۔
3: جس محلے یا بستی میں اعتکاف کیا گیا ہے،اس محلے اور بستی والوں کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی اگرچہ اعتکاف کرنے والا دوسرے محلے کا ہو۔
4: آخری عشرے کے چند دن کا اعتکاف، اعتکافِ نفل ہے،سنت نہیں۔
5: عورتوں کو مسجد کے بجائے اپنے گھر میں اعتکاف کرنا چاہیے۔
6: سنت اعتکاف کی دل میں اتنی نیت کافی ہے کہ میں اللہ تعالی کی رضا کیلیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔
7: کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف بٹھانا جائز نہیں۔
8: مسجد میں ایک سے زائدلوگ اعتکاف کریں تو سب کو ثواب ملتا ہے۔
9: مسنون اعتکاف کی نیت بیس تاریخ کے غروبِ شمس سے پہلے کر لینی چاہیے، اگر کوئی شخص وقت پر مسجد میں داخل ہو گیا لیکن اس نے اعتکاف کی نیت نہیں کی اور سورج غروب ہو گیا تو پھر نیت کرنے سے اعتکاف سنت نہیں ہو گا۔
10: اعتکافِ مسنون کے صحیح ہونے کیلیے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں:

1)

مسلمان ہونا

2)

عاقل ہونا

3)

اعتکاف کی نیت کرنا

4)

مرد کا مسجد میں اعتکاف کرنا

5)

مرد اور عورت کا جنابت یعنی غسل واجب ہونے والی حالت سے پاک ہونا۔ یہ شرط اعتکاف کے جائز ہونے کیلیے ہے ،ا اگر کوئی شخص حالت جنابت میں اعتکاف شروع کر دےتو اعتکاف تو صحیح ہو جائے گا لیکن یہ شخص گناہگار ہو گا۔

6)

روزے سے ہونا۔ اگر اعتکاف کے دوران کوئی ایک روزہ نہ رکھ سکے یا کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے تو مسنون اعتکاف بھی ٹوٹ جائےگا۔
11: اگر کسی شخص نے پہلے دوعشروں میں روزے نہ رکھے ہوں یا تراویح نہ پڑھی ہو تو وہ بھی اعتکاف کر سکتا ہے۔
12: جس شخص کے بدن سے بدبو آتی ہو یا ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے لوگ تنگ ہوتے ہوں تو ایسا شخص اعتکاف میں نہ بیٹھے البتہ اگر بدبو تھوڑی ہو جو خوشبو وغیرہ سے دور ہوجائے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو، تو جائز ہے۔
اعتکاف کی حالت میں جائز کام:

1.

کھانا پینا (بشرطیکہ مسجد کو گندا نہ کیاجائے)

2.

سونا

3.

ضرورت کی بات کرنا

4.

کپڑے بدلنا

5.

تیل لگانا

6.

کنگھی کرنا(بشرطیکہ مسجد کی چٹائی اورقالین وغیرہ خراب نہ ہوں )

7.

مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا لیکن یہ کام بغیر اجرت کے کرے تو جائز ہیں ورنہ مکروہ ہیں۔

8.

برتن وغیرہ دھونا۔

9.

ضروریات زندگی کیلیے خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا مسجد میں نہ لایا جائے، کیونکہ مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں۔

10.

عورت کا اعتکاف کی حالت میں بچوں کو دودھ پلانا۔

11.

معتکف کا اپنی نشست گاہ کے ارد گرد چادریں لگانا۔

12.

معتکف کامسجد میں اپنی جگہ بدلنا۔

13.

بقدر ضرورت بستر،صابن، کھانے پینے کے برتن، ہاتھ دھونے کے برتن اور مطالعہ کیلیے دینی کتب مسجد میں رکھنا۔
اعتکاف کے ممنوعات و مکروہات:

1.

بلاضرورت باتیں کرنا۔خواہ آپس میں یا موبائل پر

2.

اعتکاف کی حالت میں فحش یا بےکار اور جھوٹے قصے کہانیوں یا اسلام کے خلاف مضامین پر مشتمل لٹریچر تصویر دار اخبارات و رسائل یا اخبارات کی جھوٹی خبریں مسجد میں لانا،رکھنا،پڑھنا،سننا۔

3.

ضرورت سے زیادہ سامان مسجد میں لا کر بکھیر دینا۔

4.

مسجد کی بجلی،گیس اور پانی وغیرہ کا بےجا استعمال کرنا۔

5.

مسجدمیں سگریٹ، بیٹری وحقہ پینا۔

6.

اجرت کے ساتھ حجامت بنانا اور بنوانا، لیکن اگر کسی کو حجامت کی ضرورت ہے اور بغیر معاوضہ کے بنانے والا میسر نہ ہو تو ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہےکہ حجامت بنانے والا مسجد سے باہر رہے اور معتکف مسجد کے اندر۔
حاجاتِ طبعیہ:
پیشاب،پاخانہ اوراستنجے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہے،جن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں:

1.

پیشاب، پاخانہ کیلیے قریب ترین جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔

2.

اگر مسجد سے متصل بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،تووہیں ضرورت پوری کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو دور جا سکتا ہے، چاہےکچھ دورجانا پڑے۔

3.

اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی وہاں ٹھہرنا جائز نہیں۔

4.

قضاء حاجت کے لیے جاتے وقت یا واپسی پر کسی سے مختصر بات چیت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کیلیے ٹھہرنا نہ پڑے۔
واجب غسل:
اگر کسی معتکف پر غسل واجب ہو جائے تو غسل کرنے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہےجن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں:
1: معتکف کو دن یا رات میں احتلام ہوجائے تو اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا
2: اگر مسجد کا کوئی غسل خانہ موجود ہے تو اس میں غسل کرنا چاہیے لیکن اگر مسجد کا غسل خانہ نہیں ہے یا اس میں غسل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہیں مثلاً مسجدمیں پانی کے گرنے کا خطرہ ہے تو اس صورت میں باہر جانا جائز ہے۔
3: سردیوں میں احتلام ہو جائے،مسجد میں گرم پانی کا انتظام نہ ہو اور ٹھنڈے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو تو معتکف تیمم کرے،مسجدمیں رہے اور اپنے گھر اطلاع کرے تاکہ پانی گرم ہو جائے۔اگر قرب و جوار میں کوئی گرم حمام ہو تو وہاں جا سکتا ہے ہوسکے تو وہاں بھی پہلے اطلاع کردے اورفوراً غسل کرکےآجائے۔
وضو کرنے کے لیے:
وضو کی ضرورت کے لیے معتکف باہر نکل سکتا ہےچند مسائل یہ ہیں:
1: اگر مسجد میں وضو کرنے کی ایسی جگہ موجود ہے کہ معتکف تو مسجد میں رہے اور وضو کا پانی مسجد سے باہر گرے تو مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں اور اگر ایسی جگہ موجود نہیں ہےتب وضو کیلیے کسی قریبی جگہ جانا جائز ہے۔
2: نماز فرض، سنت،نفل،سجدہ تلاوت اورقرآن کریم کو چھونے کیلیے وضو کی غرض سے باہر جا سکتا ہے کیونکہ ان سب چیزوں کیلیے وضو ضروری ہے البتہ صرف تسبیح ذکر، درود شریف وغیرہ پڑھنے کی غرض سے وضو کرنے کیلیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں کیونکہ ان چیزوں کیلیے وضو ضروری نہیں۔
3: اگر پہلے سے وضو ہے توتازہ وضو کرنے کیلیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔
کھانے پینے کی ضروری اشیاء :
1: کھانا پانی لانے کیلیےکوئی میسر نہ ہو تو اس غرض سے باہر جانا جائز ہے۔
2: ایسے وقت میں کھانا لینے کیلیے جائے جب اسے کھانا تیار ملےلیکن اگر گھر میں جا کر اسےمعلوم ہو کہ کھانے میں کچھ دیر ہے تو مختصر انتظار کر سکتا ہے۔
3: اگر کھانا لانے کی ذمہ داری کسی کی لگادی گئی ہےلیکن اتفاق سے وہ نہیں آیا تب بھی کھانا لانے کیلیے باہر جا سکتا ہے۔
جمعہ کی نماز کے لیے:
1: بہتر ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جس میں نمازِجمعہ ہوتی ہو، لیکن اگر کسی مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو دوسری مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلیے جا سکتا ہے۔ البتہ اس غرض کیلیے ایسے وقت میں نکلے جب اسے اندازہ ہوکہ جمعہ کی جگہ پہنچ کر چار رکعت سنت ادا کرنے کے فوراً بعد خطبہ شروع ہوجائے گا۔
2: کسی مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلیے گیا توفرض پڑھنے کے بعد سنتیں بھی وہیں پڑھ سکتا ہے لیکن اس کے بعد ٹھہرناجائز نہیں، تاہم اگر ضرورت سے زیادہ ٹھہرا تو چونکہ مسجد ہی میں ٹھہرا ہے اس لیے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
3: جمعہ کی نماز کےیہ احکام صرف مردوں کیلیے ہیں، عورتوں کیلیے نہیں کیونکہ عورتوں پر جمعہ واجب ہی نہیں۔لہٰذا ان کوجمعہ کیلیے جانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ان کیلیے جائز ہے۔
اذان دینے کیلئے
1: اگر کوئی مؤذن اعتکاف میں بیٹھے اور اسے اذان دینے کیلیے مسجد سے باہر جانا پڑے تو جا سکتا ہے، البتہ اذان کے بعد باہر نہ ٹھہرے۔
2: اگر اذان کی جگہ تک جانے کیلیے دو راستے ہوں ایک مسجد کی حد کے اندر سے اور دوسرا باہر سے تو اندر والے راستے سے جانا چاہیے۔
خواتین کا اعتکاف:
شریعت نے عورت کے حیا و تقدس کا بہت خیال فرمایا ہے ۔ اور عورت کی گھر کی چار دیواری کی عبادات پسند کیا ہے ۔ اس لیے خواتین اعتکاف کریں ، ضرور کریں لیکن مساجد میں نہیں بلکہ اپنے اپنے گھروں میں ۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانٍ وَإِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ دَخَلَ مَكَانَهُ الَّذِي اعْتَكَفَ فِيهِ قَالَ فَاسْتَأْذَنَتْهُ عَائِشَةُ أَنْ تَعْتَكِفَ فَأَذِنَ لَهَا فَضَرَبَتْ فِيهِ قُبَّةً فَسَمِعَتْ بِهَا حَفْصَةُ فَضَرَبَتْ قُبَّةً وَسَمِعَتْ زَيْنَبُ بِهَا فَضَرَبَتْ قُبَّةً أُخْرَى فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَدِ (الْغَدَاةِ) أَبْصَرَ أَرْبَعَ قِبَابٍ فَقَالَ مَا هَذَا فَأُخْبِرَ خَبَرَهُنَّ فَقَالَ مَا حَمَلَهُنَّ عَلَى هَذَا آلْبِرُّ انْزِعُوهَا فَلَا أَرَاهَا فَنُزِعَتْ۔
صحیح البخاری، باب الاعتکاف فی الشوال، الرقم: 2041
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے ،)حسب معمول ایک بار(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی ، پھر اپنی اعتکاف کی جگہ پر تشریف لائے ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسجد میں اعتکاف کی اجازت چاہی، انہیں اجازت دے دی گئی، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے وہاں ایک خیمہ لگایا گیا۔ اس کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا اس طرح جب یہ بات ام المومنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوئی تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا ۔ دوسرے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے مسجد میں چار خیمے لگے ہوئے دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے پوچھا ۔ آپ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا گیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : کیا تم اس سے نیکی کا ارادہ کرتی ہو؟ پھر آپ نے حکم دیا کہ خیمے اکھاڑ پھینکو۔ آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان خیموں کو اکھاڑ پھینکا گیا۔
فائدہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ناگواری بتلا رہا ہے کہ خواتین کو مساجد میں اعتکاف کے لیے نہیں آنا چاہیے۔ مزید یہ کہ آپ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جیسی مقدس خواتین کے خیموں کو اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا ۔ اور آج کا دور جب ہر طرف فتنے ہی فتنے ہیں ایسے دور میں خواتین کو اپنے گھروں ہی میں اعتکاف کرنا چاہیے۔مساجد میں جانے سے کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
ازواج مطہرات کا اعتکاف :
ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ أَيْ فِي بُيُوتِهِنَّ۔
مرقاۃ المفاتیح، باب الاعتکاف الفصل الاول ، الرقم: 2097
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے گھروں میں اعتکاف کرتی تھیں۔
الْمَرْأَة تعتكف فِي مَسْجِد بَيتهَا۔
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، رقم 5201
ترجمہ: عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے والی جگہ اعتکاف کرے گی ۔
خواتین کے اعتکاف کے چند مسائل:
1: گھر میں جو جگہ نماز کے لیے مختص کی ہوئی ہو اس جگہ اعتکاف کریں اگر مقرر کی ہوئی نہیں تو پھر کسی کمرے کی ایک جگہ مقرر کریں اور اسی میں اعتکاف کریں۔
2: عورت نے اپنے اعتکاف کے لیے جو جگہ مقرر کی ہے وہ اس کے لیے اس کا حکم مسجد والا ہے لہذا بغیر ضرورت شرعیہ کے اس جگہ سے دور نہ جائے اگر بغیر ضرورت کے جائے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
3: اگر عورت شادی شدہ ہو تو اعتکاف کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے اگر شوہر اجازت دے تو ٹھیک ورنہ یہ عورت اعتکاف نہیں کر سکتی ۔
فائدہ: مردوں کو چاہیے کہ اگر ان سے اجازت لی جائے تو دے دینی چاہیے۔
4: عورت نے اپنے شوہر کی اجازت سے اعتکاف شروع کیا بعد میں شوہر منع کرنا چاہے تو منع نہیں کرسکتا اگر منع کرے بھی تو عورت بات ماننے کی پابند نہیں ۔
5: عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حیض و نفاس سے پاک ہو ۔
فائدہ : اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ وہ پہلے سے حساب لگا لیں کہ اعتکاف کے دنوں میں ماہواری کے ایام تو نہیں آئیں گے؟ اگر ایام اعتکاف کے دنوں میں آرہے ہوں تو عورت اعتکاف نہ کرے۔
6: اگر عورت نے اعتکاف شروع کر لیا پھر دوران اعتکاف ماہواری کے ایام آ گئے تو فوراً اعتکاف ختم کر دے بس جتنا اعتکاف کر لیا وہ ہوگیا جو باقی دن رہ گئے ان دنوں میں اعتکاف واجب نہیں جس دن اعتکاف ختم کیا ہے صرف اسی دن کی قضاء لازم ہو گی۔یعنی جس دن حیض شروع ہوا ہے خاص اسی دن کی قضاء لازم ہے بقیہ دنوں کی قضاء لازم نہیں ۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد کسی دن روزہ رکھ کر اعتکاف کر لے ۔ اگر رمضان کے دن باقی ہوں تو رمضان میں قضاء کر سکتی ہے رمضان والا روزہ ہی کافی ہو جائے گا۔ اور اگر حیض سے پاک ہونے کے بعد رمضان ختم ہو چکا تو کسی دن صرف اعتکاف کے لیے روزہ رکھ کر اعتکاف کی قضاء پوری کر لے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس رمضان کو ہمارے حق میں بخشش کا مہینہ بنادیں ۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
ابو ظہبی، عرب امارات
جمعرات ،23 مئی، 2019ء