رمضان المبارک کے بعد
اللہ تعالیٰ قدر دان ہیں، جس نے اس کے بھیجے ہوئے مہمان رمضان کی قدر کی اللہ اس کو سارا سال نوازتا ہے ۔ اولیاء اللہ کا یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جو بندہ رمضان میں تقویٰ والی زندگی گزارتا ہے ، عبادات کا اہتمام کرتا ہے ، گناہوں سے بچتا ہے اللہ کریم اس کے لیےسال کے بقیہ مہینوں کوتقویٰ ، عبادات ،اور گناہوں سے اجتناب کو آسان بنا دیتا ہے۔
رمضان المبارک بخیر و خوبی گزر گیا،اس کے چلے جانے کے بعد اپنی اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے رمضان میں کیا کھویا اور کیا پایا؟
عبادات کا اہتمام:
رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اللہ، نوافل، دعا، نماز باجماعت اوراللہ کے راستے میں صدقہ و خیرات کی پابندی ہوتی ہے۔یہ رواجی، روایتی اور موسمی چیزیں نہیں جو صرف رمضان المبارک میں ہوں اور بقیہ مہینوں میں اس سے غفلت برتی جائے بلکہ مومن کی پوری زندگی ایسے گزرنی چاہیے ۔ رمضان المبارک نے جن عبادات کا شوق پیدا کیا تھا ان عبادات میں کمی نہیں ہونی چاہیے۔
ضبط نفس:
روزہ کا حقیقی مقصد ”تقویٰ“ہے یعنی شیطان اور نفس کی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرادری اختیار کرنا ۔ محض بھوکا پیاسا رہنا مقصود نہیں ۔ اس لیے رمضان کے بعد تقویٰ والی زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کی جائے، جب کبھی گناہ ہو جائے فوراً اس سے توبہ کی جائے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ.
صحیح مسلم، باب الصلوات الخمس، الرقم: 472
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں ، ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے لے کر دوسرے رمضان تک درمیانی وقت کے گناہوں کو ختم کرنے والی عبادات ہیں بشرطیکہ گناہ کبیرہ نہ ہوں ۔
فائدہ: کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے معاف نہیں ہوتے ۔ اگر مذکورہ بالا عبادات میں توبہ کی نیت کر لی جائے تو یہ عبادات بھی صغیرہ و کبیرہ ہر طرح کے گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں ۔
صبر و تحمل:
حدیث مبارک میں رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ دار کو حکم یہ ہے کہ اگر کوئی اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو یہ اسے کہہ د ے کہ میں روزے سے ہوں۔ رمضان کے بعد بھی لڑائی جھگڑے سے دور رہنا چاہیے اور صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے بلکہ اگر غور کیا جائے تو صبر کے مفہوم میں بہت وسعت ملتی ہے ۔خود کو گناہوں سے بچانے کو بھی صبر کہا جاتا ہے ۔ اس لیے آنکھ ، کان اور دیگر اعضاء انسانی کو حرام کاموں اور حرام باتوں سے بچانا ضروری ہے ، آنکھ حرام چیزیں مثلاً نامحرم اورفحش مناظر وغیرہ نہ دیکھے ۔ کان میوزک گانے بجانے اور غیبت وغیرہ نہ سنیں، زبان جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، تہمت اور فضول گوئی سے بچائی جائے۔ اسی طرح دیگر اعضاء کو تمام گناہوں سے بچانے کی کوشش کی جائے ۔
جذبۂ ایثار:
رمضان المبارک ہمیں جذبہ ایثار سے سرشار کرتا ہے ۔ روزہ کی حالت میں بھوک و پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے جس سے غریبوں کی بھوک و پیاس کا احساس ہوتا ہے ۔ حدیث مبارک میں ہے: جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کراتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے آزاد فرما دیتے ہیں ۔
حدیث مبارک میں ہے: رمضان المبارک میں اپنے ماتحت کام کرنے والوں پر نرمی والا معاملہ کرو۔ جو شخص نرمی کا برتاؤ کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا ۔
رمضان المبارک ہمیں یہ سبق دے کر گیا ہے کہ غرباء، ناتواں اور اپنے سے کمزور افراد پر محبت ، ہمدردی اور ایثار سے کام لینا چاہیے ۔ ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینی چاہیے ۔ ہمیں رمضان المبارک کے بعد بھی یہ سبق نہیں بھولنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو غریب پروری اور ایثار و ہمدردی سے کام لینا چاہیے۔
صدقہ و خیرات:
رمضان المبارک میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے پناہ صدقہ و خیرات کرنے کا اہتمام فرماتے اور اپنی امت کو اس کی ترغیب بھی ارشاد فرماتے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ امت آج بھی اپنے نبی کے احکامات پر عمل پیرا ہے۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ، نفلی اور واجبی صدقات خوب ذوق شوق سے ادا کرتے ہیں ۔ صدقہ و خیرات کرنے سے اللہ بھی راضی ہوتے ہیں اور انسان پر آنے والی آفات بھی ٹل جاتی ہیں ۔ اس لیے جیسے رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اب بھی صدقہ و خیرات اہتمام سے کرتے رہنا چاہیے۔
نظام الاوقات کی پابندی:
رمضان المبارک میں اوقات کار کی پابندی کرائی جاتی ہے: سحری سے لے کر افطاری تک انسان وقت کا پابند ہوتا ہے ۔ اس دوران اپنی مرضی سے کچھ نہ کھا سکتا ہے اور نہ ہی پی سکتا ہے ۔ سحری کے وقت میں بھی پابندی کرائی جاتی ہے جونہی ختم سحری کا وقت ہوتا ہے اب ہر چیز سامنے موجود ہونے کے باوجود اس کو کھا پی نہیں سکتا۔ افطاری کے وقت میں غروب آفتاب سے پہلے کوئی چیز نہیں کھا پی سکتا۔
رمضان المبارک کے گزر جانے کے بعد اپنے تمام کاموں کے اوقات کار متعین کرنے چاہییں تاکہ کام ٹھیک بھی ہوں اور بروقت بھی ہوں ۔ عملی تجربات سے ثابت ہے کہ جس کام میں نظام الاوقات مقرر ہو اس کے اچھے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوتے ہیں ۔
رمضان المبارک ہم سے کچھ لے کر نہیں جاتا بلکہ ہمیں بہت کچھ دے کر جاتا ہے ۔ رمضان ہمیں تقویٰ ، عبادات کا اہتمام ، ضبط نفس، صبر وتحمل ، جذبہ ایثار وہمدردی ، صدقہ و خیرات اور نظام الاوقات کی پابندی دے کر گیا ہے ۔ اگر ہم ان پر عمل پیرا رہیں گے تو رمضان کی برکات کے اثرات و ثمرات سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ملتے رہیں گے ۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں رمضان کے بعد رمضان جیسی زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات ،6 جون ، 2019ء