سورۃ یٰس

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ یٰس
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰسٓ ۚ﴿۱﴾ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾﴾
فضائل و اسمائے سورت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"اِنَّ لِکُلِّ شَیْئیٍ قَلْبًا وَقَلْبَ الْقُرْاٰن یٰسۗ"
سنن الترمذی، رقم: 2887
ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن پاک کا دل سورۃ یٰسین ہے۔
اس کی وجہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اصل مقصود آخرت ہے،قبر ہے، حشر ہے، اللہ کی رضاہے اور اس سورت مبارکہ میں قیامت اور آخرت کے مضامین کو بڑی اہمیت سے بیان کیا گیا ہے اور جب انسان کے دل میں آخرت بیٹھ جاتی ہے تو نیک اعمال کرنا اور گناہ چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ خوفِ آخرت گویا دل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح جسم میں دل ہے، وہ ٹھیک ہو تو بندہ ٹھیک ہے، وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوتا ہے۔ اسی طرح خوف ِآخرت شریعت میں دل کی حیثیت رکھتا ہے۔چونکہ اس سورت میں معاد اور قیامت کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے اس لیے اس سورت کو قرآن کریم کا دل کہا جاتا ہے۔
اس کا ایک نام سورت عظیمہ بھی ہے کہ یہ بہت عظمت والی ہے۔ اس کا ایک نام
مُدَافِعہ
بھی ہے کہ جو اس کو پڑھتا ہے اس سے عذاب کو روک دیتی ہے۔ اس کا ایک نام
مُعِمَّہ
بھی ہے
مُعِمَّہ
کا معنی کہ انسان کے دنیا اور آخرت کے احوال کو سنبھالتی ہے اور آسان کرتی ہے۔ اس کا ایک نام قاضیہ بھی ہے کہ بندے کی حاجات اور ضرورتیں پوری کرتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
"وَاقْرَؤُوْھَا عَلٰی مَوْتَاکُمْ."
المعجم الکبیر للطبرانی: ج 8ص 500رقم الحدیث 16905
کہ سورت یٰسین کو اپنے مردوں پر پڑھا کرو۔
جب موت کا وقت قریب ہو تو سورت یٰسین پڑھنے سے روح آسانی سے نکل جاتی ہے۔
﴿یٰسٓ ﴾کا معنی:
یہ مقطعات اور متَشابہات میں سے ہے جس کا معنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اگرچہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ”یٰسۗ“ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام ہے۔
یاسین نام رکھنے کا حکم:
یہاں ایک مسئلہ یاد رکھ لیں کہ کسی شخص کا نام یاسین رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض حضرات کہتے ہے کہ
”یٰسۗ“
اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے یہ نام نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ یہ نام اللہ کے ساتھ خاص ہے جیسے رازق، خالق، رحمٰن وغیرہ یا مخلوق کے لیے اس کی گنجائش ہے جس طرح آپ اسمائے باری تعالیٰ کی بحث القواعد فی العقائد کے سبق میں پڑھ چکے ہیں۔اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ یاسین نام رکھ سکتے ہیں او رصحیح بات بھی یہی ہے کہ یاسین نام رکھنا جائز ہے لیکن جب یاسین کسی شخص کا نام رکھیں تو یوں نہ لکھیں جس طرح قرآن میں لکھا ہے [یٰسۗ] بلکہ اس طرح لکھیں یا․․ الف․․ سین․․ یا․․ نون․․ کے ساتھ یعنی یاسین کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
﴿سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾﴾
الصّٰفّٰت 37: 130
یہ معروف قرأت ہے اور ایک قرأت میں ہے
”سَلَا مٌ عَلٰٓی اٰلِ یَاسِیْنَ“
تو ایک قرأت میں چونکہ مستقل یاسین مخلوق کے لیے استعمال ہوا ہے، اس لیے یاسین نام رکھناجائز ہے۔
جزیرۃ العرب میں حضور علیہ السلام سے پہلے کوئی نبی آیا یا نہیں؟
﴿وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ؕ﴿۴﴾ تَنۡزِیۡلَ الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۵﴾ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ﴿۶﴾﴾
قسم ہے قرآن کی جو حکمت والا ہے بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں، آپ سیدھے راستے پر ہیں، یہ قرآن اس ذات کی طرف سے نازل ہوا ہے جو غالب اور رحم کرنے والی ہے، آپ کو رسول اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو ڈرائیں جن کے آباء واجداد کو نہیں ڈرایا گیا اسی وجہ سے یہ لوگ غفلت میں ہیں۔
یہاں فرمایا:
﴿لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ﴾
کہ آپ ایسی قوم کو ڈرائیں کہ جن کے آباء و اجداد کو نہیں ڈرایا گیا․․․ حالانکہ سورۃ فاطر میں ہے :
﴿وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾﴾
فاطر35: 24
کہ اللہ ہر امت میں ایک بندہ ڈرانے والا بھیجتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام انہی کے آباء واجداد میں آئے تھے، پھر یہ کیسے کہا گیا کہ ان کے آباء و اجداد کو نہیں ڈرایا گیا؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بعد بہت لمبا وقت گزرا ہے کہ اس میں ان میں کوئی پیغمبر نذیر نہیں آیا، ہرجگہ پر ”نذیر“ کا معنی یہ نہیں کہ ہر جگہ نبی ہی جائے گا بلکہ کسی جگہ پر نبی جائے گا اور کسی جگہ پر نبی کا نائب جائے گا۔ خصوصاً آپ آخری امت دیکھ لیں۔ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نذیر بن کر آئے ہیں لیکن جزیرہ عرب سے باہر آپ کے اسفار نہیں ہیں۔ تو
﴿وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾﴾
کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت محمدیہ کے نبی ہیں، ایک جگہ پر تو خود نذیر بن کر آئے ہیں، ہرجگہ اور ہر شہر میں آپ نہیں گئے لیکن آپ کے نائب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امت کے علماء ہر جگہ پر موجود ہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ جو اثر براہِ راست نبی سے ہوتا ہے وہ نبی کے نائب سے نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا کہ ان میں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا یعنی بطورِ نبی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بعد۔
حضور علیہ السلام کے مخالفین کی حالت:
﴿اِنَّا جَعَلۡنَا فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ اَغۡلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذۡقَانِ فَہُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ﴿۸﴾ وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا وَّ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَیۡنٰہُمۡ فَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
یہاں دو مثالیں ان لوگوں کی دی ہیں جو پیغمبر کی بات کو نہیں مانتے۔ پہلی مثال جیسے کسی شخص کی گردن میں طوق ڈال دیں تو وہ نیچے دیکھنا بھی چاہے تو نہیں دیکھ سکتا، جب نیچے نہیں دیکھ سکتا تو چلے گا کیسے؟ نہیں چل سکتا نا۔
اور دوسری مثال کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف دیوار ہوتی ہے اور وہ دیوار سے نکلیں گے نہیں تو چلیں گے کیسے۔
اور ایسے آدمی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں؛ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جو نیچے نہیں دیکھ سکتے اور بعض ایسے ہیں کہ جو چاروں طرف نہیں دیکھ سکتے، ہر اعتبار سے اندھے ہیں، ان پر کلام اثر ہی نہیں کرتا۔ تو ان دوقسم کے لوگوں کے لیے دو قسم کی مثالیں بیان کی ہیں۔
اِنذار کا فائدہ حضور علیہ السلام کو تو ہو گا:
﴿وَ سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۰﴾﴾
ان کے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ان کو کچھ فائدہ نہیں ہو گا، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اس پر سوال یہ ہے کہ جب ڈرانے کا فائدہ نہیں ہے تو پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کیوں ڈراتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے
﴿وَ سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ء﴾
فرمایا ہے،
”سَوَاۗءٌ عَلَیْکَ“
نہیں فرمایا یعنی ان کو ڈرانے کا آپ کو ثواب تو ملے گا لیکن ان کو فائدہ پھر بھی نہیں ہو گا، یہ لوگ ڈھیٹ اور ضدی ہیں، لہذا ڈراتے رہنا چاہیے۔
اعمال اور ان کے اثرات:
﴿اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ﴾
بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے ہیں جو انہوں نے اعمال آگے بھیجے ہیں اور جو ان کے اعمال کے اثرات ہیں ان کو بھی لکھتے ہیں۔
آگے بھیجنے کا معنی یہ ہے کہ آدمی نیک یا برا عمل کرے تو وہ اللہ کے ہاں محفوظ ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ﴾
النحل 16: 96
جو تمہارے پاس ہے ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔
عمل کے نتائج بھی لکھے جاتے ہیں:
﴿وَ اٰثَارَہُمۡ﴾ ․․․
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تمہارے اعمال کے جو ثمرات اور نتائج نکلتے ہیں ہم ان کو بھی لکھ لیتے ہیں۔ ایک عمل ہوتا ہے اور ایک اس عمل کا متعدی نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک بندے نے کوئی علمی کام کیا مثلاً وعظ کیا، کوئی کتاب لکھی تو یہ اس کا عمل ہے اور اس کے بعد لوگوں نے اس سے نفع حاصل کیا، لوگ راہِ راست پر آ گئے تو یہ اس کا اثر ہے۔ ایک انسان قرآن کریم پڑھاتا ہے آگے اس کے شاگرد ہوتے ہیں، یہ قرآن کریم پڑھانا اس کا عمل ہے، آگے شاگر دیہ اس کا نتیجہ ہے۔ایک بندے نے کوئی برا کام کیا سینما بنا دیا تو جو لوگ اس سینما میں فلمیں دیکھیں گے تو یہ اس بندے کے عمل کا اثر ہے۔ جیسے حدیث پاک میں آیا ہے:
" مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْتَقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا."
صحیح مسلم، رقم: 1017
کہ جوشخص اسلام میں کوئی نیک کام ایسا شروع کرتاہے کہ جس پر لوگ عمل کرتے ہیں تو اس نیک عمل کا اجر اس کو ملے گا اور جو لوگ نیک عمل کریں گے ان سب کا اجر بھی اس بندے کو ملے گا اور اگر کوئی شخص گنا ہ کا ایسا کام کرتاہے کہ جس کی وجہ سے لوگ گنا ہ کرتے ہیں تو اس کے گناہ کا وبال اس پرہو گا اور لوگ جو گناہ کرتے ہیں ان سب کے گناہوں کا وبال بھی اس پر ہوگا۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم بندوں کے اعمال بھی لکھتے ہیں اور ان کے اثرات اور نتائج کو بھی لکھتے ہیں۔
آثار کا ایک معنی نشان بھی آتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث پاک میں آیا ہے کہ انسان جب نماز کے لیے جاتا ہے تو ایک قدم پر اسے ایک نیکی ملتی ہے۔ یہ آثار ہیں۔ جس طرح نماز پڑھنے کا ثواب ہے ان آثار قدموں کے نشانات کا بھی ثواب ہے۔ اللہ اس کو بھی لکھ لیتے ہیں۔
بستی والوں کا قصہ:
﴿وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ ۘ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾ اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ﴿۱۴﴾ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَکۡذِبُوۡنَ ﴿۱۵﴾﴾
اوپر جن منکرینِ نبوت و رسالت کفار کا ذکر آیا ہے ان کو متنبہ کرنے کے لیے قرآن کریم بطورِ مثال کے پہلے زمانے کا ایک قصہ بیان کرتا ہے جو ایک بستی میں پیش آیا تھا۔ فرمایا: ان کے سامنے ایک بستی والوں کی مثال بیان کرو۔ جب ان کے پاس ہمارے رسول آئے۔ جب ہم نے -شروع میں- ان کے پاس دو پیغمبر بھیجے تو اس بستی والوں نے ان کو جھٹلا دیا۔ ہم نے ایک اور پیغمبر ان کی تصدیق اور تائیدکے لیے بھیجا۔ اب ان تینوں نے کہا کہ یقیناً ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئےہیں۔ انہوں نے پھر ان کو بھی جھٹلایا، کہا کہ تم تو ہم جیسے آدمی ہی ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی، تم جھوٹ بول رہے ہو- معاذ اللہ-
ان رسولوں نے کہا کہ ہمارے رب کو خوب معلوم ہے کہ ہمیں تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، ہمارا کام صرف یہی تھا کہ ہم واضح طور پر تمہارے پاس رب کا پیغام پہنچا دیں -بعض روایات میں ہے کہ ان پیغمبروں کی دعوت نہ ماننے کی وجہ سے ان بستی والوں پر قحط کا عذاب آیا تو - ان بستی والوں نے کہا کہ ہمیں تو تمہارے اندر نحوست محسوس ہو رہی ہے، اگر تم اس کام سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔ پیغمبروں نے جواب دیا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ تم یہ باتیں اس لیے کر رہے ہو کہ تمہیں ایک واضح پیغام پہنچایا گیا ہے؟ تم لوگ تو حد سے تجاوز کرنے والے ہو!
بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے ان پیغمبروں کو شہید کر دیا۔
اب یہاں ایک بات سمجھیں۔
﴿قَالُوۡۤا اِنَّا تَطَیَّرۡنَا بِکُمۡ﴾
وہ لوگ کہتے تھے کہ ہمیں تو تمہارے اندر نحوست محسوس ہو رہی ہے، کیا مطلب کہ تمہاری وجہ سے ہم پر عذاب آیا ہے۔ جب تم نہیں تھے تو ہمارے اوپر کبھی عذاب نہیں آیا اور جب تم آئے ہو تو ہمارے اوپر دو عذاب آئے ہیں؛ ایک تو ہماری قوم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہے، آپس کے اختلافات کا شکار ہوگئی ہے جس سے ہماری طاقت ختم ہو گئی ہے۔ قوم کا ٹوٹ جانا یہ بہت بڑا عذاب ہوتا ہے اور دوسرا ہم پر قحط کا عذاب آیا ہے، اورجن کو تم گناہ کہہ رہے ہو کفر․․․شرک․․․ بڑے بڑے جرم․․․ یہ سارے گناہ ہم پہلے بھی کرتے تھے مگر ہمارے اوپر کبھی عذاب نہیں آیا۔ اب عذاب کا آنا یہ تمہاری وجہ سے ہے۔
اب دیکھیں! بظاہر ان کی بات وزنی معلوم ہوتی ہے۔
اس کا جواب سمجھیں کہ جب پہلے کفر اور زنا کرتے تھے تو عذاب اس لیے نہیں آیا کہ ان کے پاس کوئی سمجھانے والا داعی نہیں پہنچا تھا، ان پر حجت تام نہیں ہوئی تھی اور جب انہیں سمجھایا گیا کہ کفر سے باز آجاؤ، شرک سے باز آجاؤ، جرم کو چھوڑ دو! جب یہ باز نہ آئے تو حجت تام ہو گئی اس لیے اب عذاب آیا۔ تو عذاب کا آنا یہ تمہارے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے ہے۔
اور دوسرا جو تم آپس میں ٹکڑے ہوئے ہو تو یہ تمہاری وجہ سے ہے، پہلے تم ایک دین؛ کفر پر تھے، ہم نےسمجھایا کہ یہ کفر ہے اس کو چھوڑ دو، کچھ نے چھوڑا اور کچھ نے نہیں چھوڑا تو ٹکڑے ہو گئے۔ اگر سارے کفر چھوڑتے اور ایمان قبول کرتے تو ٹکڑے نہ ہوتے۔ اس لیے انبیاء علیہم السلام نے کہا:
﴿طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ﴾
یہ تمہاری نحوست تمہارے ہی ساتھ ہے۔
جبیب ابن اسماعیل نجار کا ذکر:
﴿وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾ اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا یَسۡـَٔلُکُمۡ اَجۡرًا وَّ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿۲۱﴾﴾
شہر کے دوسرے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی بات مان لو، ان کی بات مان لو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور صحیح راستے پر ہیں۔
یہ ”رجل“ کون تھا؟کہتے ہیں حبیب ابن اسماعیل نجار تھا۔ اس کے بارے میں ایک روایت میں ہے کہ یہ جذام کا مریض تھا۔ یہ اپنے بنائے ہوئے معبودوں سے دعا کرتا تھا کہ میری بیماری ٹھیک کر دیں لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ ستر سال سے یہ بیماری اس پر تھی اور اس کا مکان شہر کے کنارے پر سب سے آخری دروازے پر تھا، یہ وہاں پڑا رہتا تھا۔ رسول جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اسی دروازے سے داخل ہوئے جہاں اس کا مکان تھا۔ تو ان کی پہلی ملاقات اسی شخص سے ہوئی۔ رسولوں نے اس کو دین کی دعوت دی، اللہ کی توحید کی بات کی تو اس نے کہا کہ تمہارے پاس اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل یا علامت ہے؟ انہوں نے کہا بالکل ہے۔ اس نے کہا: میں بیمار ہوں کیا میری بیماری ٹھیک ہو سکتی ہے؟ رسولوں نے کہا کہ ہم اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تمہیں ٹھیک کر دیں گے۔ اس نے کہا کہ میں اپنے معبودوں سے ستر سال سے صحت مانگ رہا ہو ں یہ ٹھیک نہیں کر سکے تو تمہارا خدا فوراً کیسے ٹھیک کر دے گا؟ انبیاء علیہم السلام نے دعا مانگی تو یہ ٹھیک ہو گیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
جب اس نے شہر والوں کا یہ حال سنا کہ وہ رسولوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں تو وہ دوڑ کر شہر میں آیا اور آ کر قو م کو بڑے احسن انداز میں سمجھایا۔ اس نے کہا:
﴿یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾﴾
کہ ان رسولوں کی بات مان لو۔
جبیب نجار کو من جانب اللہ تسلی:
یہ نبی کون ہیں؟
﴿مَنۡ لَّا یَسۡـَٔلُکُمۡ اَجۡرًا﴾
جو تم سے کچھ مانگتے نہیں،
﴿وَّ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴾
خود بھی ہدایت پر ہیں اور خیر کی باتیں کرتے ہیں لہذا تمہیں خیال کرنا چاہیے اور اسلوب کیسا پیارا اختیار کیا، کہا:
﴿وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۲﴾﴾
کہ جس اللہ نے مجھے پیدا کیا میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں! اب یہ ان کو نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے آپ کو خطاب کر رہے ہیں کہ مجھے اس رب کی عبادت کرنی چاہیے، میں اللہ کو چھوڑ کر اور خدا کیسے بنا لوں؟مجھے خود خیال کرنا چاہیے لیکن قوم نے بجائے بات ماننے کے اس کو شہید کر دیا۔
اللہ رب العزت نے بذریعہ فرشتہ ان کو بتا دیا کہ تم گھبراؤ مت! اب تمہارا ٹھکانا ان شاء اللہ جنت ہو گا۔ یہ جو فرمایا:
﴿قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ﴾
کہ اسے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہو جا اہلِ باطل اس سے استدلال کرتے ہیں کہ موت کے بعد عذاب اور ثواب کا جسم سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اللہ فرما رہے ہیں:
﴿ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ﴾
کہ جنت میں داخل ہو جا! جنت میں تو آدمی جائے گا حشر کے بعد اور اس کو حشر سے پہلے دخولِ جنت کی بات کہی جا رہی ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ جسم نہیں بلکہ روح کو دخولِ جنت کا حکم ہو رہا ہے، معلوم ہوا کہ سارے معاملات روح کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ اس کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے جو تم نے بیان کیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ روح تو علیین میں ہے، ابدی جنت جہاں رہنا ہے وہاں تو روح نہیں ہے، شہداء کے بارے میں تو نص ہے ہم اس بات کو تو مانتے ہیں۔ یہاں ان کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ تم نے قربانی دی ہے تو اس کا نتیجہ جنت ہو گا اور تم اس قربانی کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گے، اور قبرمیں دخولِ جنت نہیں ہوتا بلکہ اس میں عرضِ جنت ہوتی ہے جس کو کبھی دخولِ جنت سے تعبیرکر دیتے ہیں، قبر میں جنت دکھائی جاتی ہے، جنت کی خوشبو سونگھائی جاتی ہے، جنت کی فضا دکھاتے ہیں اور قبر میں جنت اور بندے کے درمیان جو دروازہ ہے اس کو کھول دیتے ہیں تو جنت کا منظر بن جاتا ہے۔ جب جنت کا یہ منظر ان کو ملا تو انہوں نے کہا:
﴿یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾﴾
اے کاش! میری قوم کو پتا چل جاتا کہ اللہ نے مجھے معاف کیا ہے اور خدا نے مجھے کتنی عزت دی ہے۔ کاش ان کو پتا چل جاتا۔
بستی والوں کی تباہی:
﴿وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا کُنَّا مُنۡزِلِیۡنَ ﴿۲۸﴾ اِنۡ کَانَتۡ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمۡ خٰمِدُوۡنَ ﴿۲۹﴾﴾
جب انہوں نے اس بندے کو قتل کیا،ایک روایت میں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی انہوں نے شہید کیا تھا تو اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس قوم کے لیے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارنے پڑے بلکہ ایک چیخ سے ان کو تباہ وبرباد کر دیا گیا۔
﴿یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚمَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۳۰﴾﴾
افسوس ان بندوں پر کہ ان کے پاس جب بھی رسول آتے ہیں تو یہ بات سننے کے بجائے الٹا ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کئی قوموں کو ہلاک کر دیا کہ وہ ان کے پاس لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
ایک روایت میں ہے کہ ان پر عذاب کے لیے حضرت جبرائیل امین آئے، شہر کے دروازے کو پکڑ کر جھٹکا دیا اور ایک سخت آواز لگائی، اسی آواز کی وجہ سے سارے مر گئے۔
وہ بستی تھی یا شہر: تحقیقی قول:
یہاں فرمایا:
﴿وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ﴾
قریۃ کی با ت کی ہے اور آگے فرمایا:
﴿وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ﴾
یہاں شہر کی بات کی ہے۔ تو بظاہر شبہ ہوتا ہے کہ پہلے قریہ یعنی بستی کا لفظ ہے، پھر مدینہ یعنی شہر کا لفظ ہے۔ یہ دو الگ الگ جگہوں کے واقعات تو نہیں ہیں؟
جواب یہ ہے کہ واقعہ ایک ہی جگہ کا ہے، دراصل عربی زبان میں مدینہ؛ شہر کو کہتے ہیں اور قریہ؛ چھوٹی بستی کو بھی کہتے ہیں اور شہر کو بھی کہتے ہیں، دیہات کو بھی کہتے ہیں اور شہر کو بھی کہتے ہیں دونوں کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ طائف والوں نے کہا تھا:
﴿لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ ﴿۳۱﴾﴾
الزخرف 43 :31
یہ قرآن ان دو قریوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں اترا؟
ان دو قریوں سے مراد مکہ اور طائف کے شہر ہیں۔ تو قریہ کا اطلاق شہر پر ہونا یہ قرآن کریم سے ثابت ہے، اس لیے ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
بستی اور رسولوں کے نام:
اس پر مفسرین نے کلام کیا ہے کہ بستی کون سی تھی؟ تاریخی روایات میں ہے کہ یہ بستی انطاکیہ تھی۔ انطاکیہ شام میں واقع ہے، اور ان رسولوں کے نام کیا تھے؟ بعض کہتے ہیں کہ ایک رسول کا نام صادق تھا، ایک کا صدوق تھا، ایک کا شلوم تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تیسرے کا نام شلوم نہیں بلکہ شمعون تھا۔
میں نے آپ سے پہلے عرض کیا تھا کہ ہر بندے کا اپنا ایک ذوق ہوتا ہے، میرا اس معاملے میں ذوق یہ ہے کہ جس معاملے کو قرآن کھولتا ہے اس کو کھولو اور جس کو قرآن چھوڑ دیتاہے اس کو چھوڑ دو! بستی کا تعین نہ بھی ہو تو اس سے واقعہ پر کیا فرق پڑتا ہے؟ نبی اس بستی میں آئے تھے، بستی والوں نے جھٹلا دیا تھا تو ان پر عذاب آیا۔اس سے بندے کو عبرت حاصل ہوتی ہے، نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ اگر ناموں کا پتا نہیں چلے گا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لیے ان مباحث میں اسرائیلی روایات اور ضعیف روایات کو لے کر قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے بجائے جو چیزیں مطلو ب ہیں بس ان پرغور کریں۔
توحید باری تعالیٰ کی نشانیاں:
﴿وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَیۡتَۃُ ۚ اَحۡیَیۡنٰہَا وَ اَخۡرَجۡنَا مِنۡہَا حَبًّا فَمِنۡہُ یَاۡکُلُوۡنَ ﴿۳۳﴾ وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ وَّ فَجَّرۡنَا فِیۡہَا مِنَ الۡعُیُوۡنِ ﴿ۙ۳۴﴾ لِیَاۡکُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖ ۙ وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ اَفَلَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۳۵﴾﴾
اللہ رب العزت نے اب اپنی توحید پر نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ پہلی نشانی کیا ہے؟ فرمایا کہ اس زمین کو دیکھو یہ بنجر ہوتی ہے، ہم اس کو سر سبز وشاداب کر دیتے ہیں اور ہم اس سے غلے نکالتے ہیں جن کو تم کھاتے ہو۔ ہم نے اس زمین میں کھجوروں کے اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور پانی کے چشمے جاری کیے تاکہ لوگ اس سے پیدا شدہ چیزیں کھائیں - پھل، سبزیاں، میوے کھائیں-
﴿وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ﴾
اور جو اپنے ہاتھوں سے یہ کماتے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ پھل کو پیدا تو اللہ فرماتے ہیں آگے انسان کے ہاتھ کا کام شروع ہوتا ہے مثلاًکیلا ہے تو اس کا چھلکا اتار کر کھا لیا، پھلوں سے فروٹ چاٹ بنا لی، جوس بنا لیا وغیرہ، یہ
﴿وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ﴾
ہے، پھل کی ابتدائی تخلیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور کھانے سے پہلے تغیرات یہ بندہ اپنی طرف سے کرتا ہے۔
پھر انسان کے علاوہ جتنے حیوانات ہیں ان کی خوراک مفرد ہے اور انسان کی خوراک مرکب ہے۔ جو جانور گھاس کھاتے ہیں وہ گھاس ہی کھاتےہیں، وہ گوشت نہیں کھاتے اور جو گوشت کھاتے ہیں وہ گوشت ہی کھاتے ہیں، وہ گھاس نہیں کھاتے، اور انسان گوشت بھی کھاتا ہے اور سبزیاں بھی کھاتا ہے، کبھی گوشت الگ کھاتا ہے اور سبزی الگ کھاتا ہے اور کبھی دونوں کو مکس کر کے کھاتا ہے۔ جو جانور گھاس اور سبزیاں کھاتے ہیں وہ ان میں تغیرات نہیں کرتے جیسے اگتی ہیں ویسے کھا لیتے ہیں اور انسان ایک ایک سبزی کو بیس بیس سٹائل سے کھاتا ہے، جو جانور گوشت کھاتا ہے تو جیسے گوشت ہے ویسے کھا لیتا ہے اور انسان گوشت کی مختلف ڈشیں بنا بنا کر کھاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو یہ خصوصیات عطا فرمائی ہیں۔
تو انسان جب دونوں قسم کی غذائیں کھاتا ہے، الگ الگ بھی اور اپنی کاریگری سے مکس کر کے بھی، تو اللہ نے دونوں کا ذکر فرمایا؛ کھجور اور انگور الگ الگ غذاؤں کا ذکر بھی کیا اور
﴿وَ مَا عَمِلَتۡہُ اَیۡدِیۡہِمۡ﴾
میں اس کی اپنی کاریگری کا ذکر بھی کیا۔ اللہ نے انسان کا ظاہر کتنا اچھا بنایا! خوراک کتنی اچھی بنائی! سب کچھ اللہ نے اس انسان کے لیے پیدا فرمایا ہے۔
مخلوقات کے جوڑے جوڑے:
﴿سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ مِمَّا لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۶﴾﴾
پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے بنائے ہیں، زمین سے اگنے والی چیزوں کے جوڑے، خود انسانوں کے جوڑے ؛ مرد اور عورت اور ان چیزوں کے بھی جوڑے جن کو یہ نہیں جانتے!
اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر جمادات میں جوڑے ہوں تو کیا بعید ہے؟ کیونکہ اللہ خود فرماتےہیں:
﴿وَ مِمَّا لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴾
کہ ان چیزوں میں بھی جوڑے ہیں جن کو انسان نہیں جانتے! تو ہو سکتا ہے کہ جمادات میں بھی جوڑے ہو ں؛ نراور مادہ لیکن ہمیں اس کا علم نہ ہو۔
اور ازواج کا ایک معنی ہوتا ہے جوڑا، مرد؛ عورت کے لیے زوج اور عورت مرد کے لیےزوج، دونوں پر زوج کا اطلاق ہوتا ہے،
﴿اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ﴾
یہ زوج کی جمع ہے۔ تو زوج دونوں جگہ پر بولا جاتا ہے اور کبھی زوج کامعنی نوع بھی ہوتا ہے۔ تو
﴿خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ﴾
کا معنی ہو گا کہ ہم نے ہر چیز کی کئی قسمیں پیدا کی ہیں جیسے انگور ایک ہے اور اس کی قسمیں کئی ہیں، کیلا ایک ہے قسمیں کئی ہیں، سبزی ایک ہے قسمیں کئی ہیں، گوشت ایک ہے اس کی کئی اقسام ہیں، تو ہم نے کتنی انواع پیدا کی ہیں تمہارے لیے۔
اسی طرح خود انسانوں میں کیسی انواع ہیں، مرد کو دیکھو تو رنگ الگ ہے، عورت کو دیکھو تو رنگ الگ ہے، نام الگ ہے، علاقے الگ ہیں۔ یہ اللہ رب العزت نے زمین کی نشانی بیان فرمائی ہے۔
رات؛ قدرتِ حق کی نشانی:
﴿وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚنَسۡلَخُ مِنۡہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَ ﴿ۙ۳۷﴾﴾
ان کے لیے ایک نشانی رات ہے، ہم اس سے دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
زمین میں اصل ظلمت ہے اور کواکب، نجوم، شمس اور قمر کی وجہ سے اس میں روشنی عارضی ہوتی ہے اور جب وہ غروب ہو جاتے ہیں تو پھر زمین میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔
”سلخ“
کا معنی ہوتا ہے کھال اتارنا۔ تو اللہ رب العزت رات سے دن نکال لیتے ہیں اور دن سے پھر رات نکال لیتے ہیں۔ جس طرح زمین میں اصل میت؛ بنجر پن ہے، پانی سے سرسبز ہو جاتی ہے، جب پانی نہیں ہوتا تو پھر بنجر ہو جاتی ہے۔ آگے پھر نشانی بیان فرمائی :
سورج کا مستقر کیا ہے؟
﴿وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۸﴾﴾
آپ تھوڑا سا اور اوپر جائیں اور دیکھیں سورج اپنے مستقر پر چلتا ہے، مستقر یہ ظرف زمان بھی ہو سکتا ہے اور ظرف مکان بھی۔ ظرف زمان کا معنی کہ سورج چلتا رہتا ہے اپنے استقرار کی جگہ تک کے لیے یعنی چلتے․․․ چلتے․․․ چلتے․․․ ایک وقت آئے گا کہ جہاں پر اس نے ٹھہرنا ہے، وہاں پہنچ کر ٹھہر جائے گا اور اس سے مراد قیامت ہے۔ تو مستقر سے مراد اس کے رکنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ مستقر سے مراد رکنے کا زمانہ ہے۔سورۃ الزمر میں ہے :
﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ۚ یُکَوِّرُ الَّیۡلَ عَلَی النَّہَارِ وَ یُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیۡلِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی﴾
الزمر39: 5
کہ ہر سیارہ یا سیارچہ ایک وقت مقرر کی حد تک اپنے مدار میں چلتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقر سے مراد استقرار زمانی ہے کہ سورج چلتا رہے گا اپنے رکنے کے زمانے تک۔
یا مستقر سے مراد مکان ہے کہ سو رج چلتا ہے اور رکنے کی جگہ پر ٹھہرتا ہے اور پھر چل پڑتا ہے۔ اب اس سے مراد کیا ہے؟ حدیث پاک میں ہے کہ سورج روزانہ تحت العرش سجدہ کرتا ہے، پھر اللہ سے اجازت مانگتا ہے، اجازت ملتی ہے تو پھر چلتا ہے اور قیامت تک یوں ہی ہو گا۔ جس دن قیامت قائم ہو گی سورج غروب کے بعد سجدہ کرے گا پھر اجازت مانگے گا تو اس کو آ گےچلنے کی اجازت نہیں ملے گی اور اس کو حکم ہو گا کہ مغرب کی طرف واپس چلے جاؤ اور پھر وہاں سے طلوع ہو! جب وہاں سے طلوع ہو جائے گا تو اب قیامت شروع ہو جائے گی، توبہ کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
یہاں اگر مستقر سےمراد زمان ہو تو اس پر کوئی اشکال نہیں اور اگر مستقر سے مراد مکان ہو تحت العرش تو اس پر اشکالات ہیں فن فلکیات کی وجہ سے بھی اور مشاہدات کی وجہ سے بھی۔ ایک اشکال تو یہ ہے کہ سورج ایک ملک میں غروب ہوتا ہے اور دوسرے ملک میں طلوع ہوتا ہے، اس کا طلوع او رغروب مسلسل چل رہا ہے اس میں ٹھہراؤ تو نہیں ہے اور جب مستقر کا معنی ہے کہ سورج غروب کے بعد عرش کے نیچے رکتا ہے پھرسجدہ کرتا ہے پھر اجازت لیتاہے تو اس سے معلوم ہوا کہ عرش کے نیچے ٹھہرتا ہے جبکہ فلکیا ت اور مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مسلسل حرکت ہے، اس میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔
سورج کے سجدہ کرنے کا معنی:
دوسرا سوال یہ ہے اللہ تعالیٰ کے عرش کی جو کیفیت قرآن وسنت سے سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمینوں اور آسمانوں کے اوپر محیط ہے، یہ زمین، تمام آسمان، نجوم وکواکب جو بھی ہیں عرش نے ان سب چیزوں کو اپنے اندر لیا ہوا ہے، اس لحاظ سے سورج تو ہمیشہ ہر حال اور ہر وقت عرش کے نیچے ہے تو پھر غروب کے بعد تحت العرش جانے کا کیا مطلب ہو گا؟
جوابات کئی لوگوں نے دیے ہیں۔ بہترین جواب وہ ہے جو حضرت علامہ شبیراحمدعثمانی نوّر اللہ مرقدہ نے دیا ہے۔
رسالہ سجود الشمس از علامہ عثمانی
حضرت کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سجدہ کا معنی وہ سمجھے ہیں جو سجدہ ہم کرتے ہیں کہ آدمی رک جائے، سکون اختیار کرے اور پیشانی زمین پر رکھ دے، یہاں جو حدیث پاک میں ہے کہ سورج عرش کے نیچے آ کر سجدہ کرتاہے تو اس سے مراد عرفی سجدہ نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج کا طلوع و غروب ہونا یہ اللہ کے حکم کا پابند ہے، اس کی حرکت اللہ کے فرمان اور حکم کی پابند ہے اسی کو سجدہ قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر چیز کا سجدہ اس کی شان کے موافق ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ﴾
النور24: 41
دنیا میں ہر چیز کو اللہ نے حکم دیا ہے نماز اور تسبیح کا اور ہر چیز کی تسبیح اور صلوٰۃ اس کی شان کے موافق ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو سمجھتا ہے۔
سورج کے سجدے کا معنی یہ ہے کہ سورج ہر وقت اللہ کے حکم کے تابع ہے، ہر غروب کے بعد طلوع اپنی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے حکم سے ہے اور جیسے اللہ کا حکم ہے ویسے وہ چل رہا ہے۔ تو سجدے کا معنی یہ ہے کہ جس طرح سجدہ کر کے بندہ اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے حوالے کرتا ہے بالکل اسی طرح سورج نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے تحت العرش کیا ہوا ہے اور خداکے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔
چاند؛ قدرتِ حق کی ایک عظیم نشانی:
﴿وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ ﴿۳۹﴾﴾
اور چاند کو دیکھو اللہ کی نشانی ہے، ہم نے چاند کی بھی منزلیں متعین کی ہیں، یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے ایک وقت آتا ہے کہ ایسا ہو جاتا ہے جس طرح کھجور کی پرانی ٹہنی ہوتی ہے۔ تو چاند ایسا باریک سا ہوتا ہے۔ چاند ایک مہینے میں اپنا چکر پورا کرتا ہے۔ یہ روزانہ غروب ہوتا ہے، جہاں غروب ہوتا ہے وہ اس کی منزلیں ہیں، تیس یا انتیس ہیں ایک مہینہ میں، پھر ایک رات ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں چاند نظر نہیں آتا، اس لیے بعض حضرات چاند کی اٹھائیس منزلیں کہہ دیتے ہیں۔
سورج اور چاند کا مرتب نظام:
﴿لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾﴾
سورج چاند سے آگے نہیں نکل سکتا اور رات دن سے آگے نہیں نکل سکتی۔ رات نے اپنے وقت پر آنا ہے، دن نے اپنے و قت پر آنا ہے، سورج نے اپنے وقت پر آنا ہے اور چاند نے اپنے وقت پر آنا ہے۔
اللہ رب العزت انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی طرف مبعوث فرماتے ہیں، انسانوں میں تھوڑی عقل والے بھی ہوتے ہیں اور زیادہ عقل والے بھی ہوتے ہیں اور پیغمبر کی مبارک عادت ہوتی ہے کہ وہ ایسی علمی موشگافیاں اور فنی باتیں نہیں کرتے جو عوام کی سمجھ سے بالا تر ہوں، پیغمبر ایسی باتیں کرتا ہے جو عوام کے لیے سمجھنا بہت آسان ہو۔ جیسے قرآن کریم میں ہے:
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ﴾
النور24: 41
کہ انہوں نے پوچھا کہ چاند کیا ہے؟ اللہ نے جوا ب دیا:
﴿قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ﴾
میرے پیغمبر! ان کو جواب دیجیےکہ اس سے حج کا پتا چلتا ہے، حج کے علاوہ اور احکامات کا پتا چلتا ہے۔ اب دیکھو اللہ نے ہمارے احکاماتِ حج، روزہ،عیدین، زکوٰۃ، عورتوں کی عدت کے مسائل ان سب کو چاند سے جوڑ دیا اور یہ کتنا آسان سا حساب ہے!
پھر چاند نکل آیا ہے تو اب اس کی علامت کیا ہے؟ فرمایا کہ دو گواہ ہوں یا تم خود دیکھ لو، یہ بہت آسان ہے۔ اس کے لیے کسی سائنس اور علم کی ضرورت نہیں ہے۔ تو احکامِ شریعت کو چاند سے جوڑ دیا اور چاند کے دیکھنے کو شہادت سے جوڑ دیا۔ اب اس کے لیے کون سا فن چاہیے؟! اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے کیسا سادہ سا نظام دیتے ہیں جو ہر بندے کی سمجھ میں آ جاتا ہے۔
کشتیاں؛ اللہ کی نشانیاں
﴿وَ اٰیَۃٌ لَّہُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَہُمۡ فِی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ ﴿ۙ۴۱﴾﴾
اللہ نے ایک اور نشانی کا ذکر فرمایا۔ فرمایا: ان کے لیے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو کشتیوں پر سوار کیا -یہاں
”اَنَّا حَمَلْنٰهُمْ“
نہیں فرمایا بلکہ
﴿اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَہُمۡ﴾
فرمایا حالانکہ یہ خود بھی تو سوار ہوتے ہیں تو اللہ نے صرف ان کی اولاد کی بات کیوں کی ہے؟یہ بات سمجھانے کے لیے کہ بسا اوقات اولاد تو ہوتی ہے لیکن بندہ ایک جگہ پر رہتا ہے اور دوسری جگہ سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو خود نہیں جانا چاہتا بلکہ اس کی اولاد جانا چاہتی ہے۔ تو فرمایا کہ ہم نے اس کی اولاد کے لیے کشتیاں بنا دی ہیں کہ کشتیوں پر بیٹھیں، اپنی ضرورت پوری کریں اور واپس آ جائیں۔ تو بندے کی جگہ بھی نہیں بدلتی اور ضرورتیں بھی پوری ہو جاتی ہیں۔
﴿وَ خَلَقۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ مَا یَرۡکَبُوۡنَ ﴿۴۲﴾﴾
اور صرف کشتیاں ہی نہیں بلکہ ہم نے کشتی کے مثل اور بھی بہت سی چیزیں بنائی ہیں جس پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ اس سے مراد اونٹ ہے۔ ایک ہے سفینۃ البر خشکی کا جہاز مراد اونٹ ہے اور ایک ہے سفینۃ البحر پانی کا جہاز مراد کشتی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ہم نے ان جیسی چیزیں ان کو اور بھی دی ہیں جس پر یہ سواریاں کرتے ہیں۔ اللہ سب کو ان سواریوں کی نعمت عطا فرمائے۔ آمین
سمندری نظام:
جب تک آپ کشتی یا بحری جہازوں پر سفرنہ کریں تو یقین کریں کہ اس وقت تک ان جیسی آیات کا مفہوم کھلتا نہیں ہے اور بندے کو سمجھ نہیں آتا کہ اللہ پاک کا یہ کیسا نظام ہے؟ اتنے بڑے بڑے جہاز کہ آپ کے تصور سے بھی ماوراء ہیں! ایک جہاز جاتا ہے اس پر بیس ہزار کنٹینر ہوتے ہیں اور ایک کنٹینر میں کئی ٹن وزن ہوتا ہے، یہ جو ہمارا گاؤں ہے یہ چھوٹا ہے، اس گاؤں سے بھی بڑے جہاز ہوتے ہیں اور پانی پر تیر رہے ہوتے ہیں۔ بحری بیڑوں پر جنگی ہوائی جہازوں کے اڈے بنائے ہوئے ہوتے ہیں، اسی سے اڑتے ہیں اور اسی پر اترتے ہیں۔ اندازہ کریں وہ بحری بیڑا کتنا بڑا ہو گا؟ ایک جہاز جاتا ہے جس پر پانچ پانچ ہزار بندے سوار ہوتے ہیں، دو دو مہینے کا سفر ہوتا ہے، اس میں ان کی خوراک کی جگہ بھی ہے۔ ان کے غسل کی جگہ بھی ہے، ان کے پانی پینے کا انتظام بھی ہے اور اس کے علاوہ فٹ بال کھیلنے کے لیے گراؤنڈ بھی بنایا ہوتا ہے، یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،نہانے کے لیے جہاز پر سوئمنگ پول ہوتے ہیں۔ کیسا عجیب خدا کا نظام ہے؟ مجھے تو ان کے نام نہیں آتے۔ سفر تو میں کرتا ہوں۔ میں کئی بار ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ تمہیں نام آتے ہیں لیکن تمہارے پاس یہ نعمتیں نہیں ہیں اور ہمیں نام نہیں آتے لیکن وہ نعمتیں مل جاتی ہیں۔
یہاں موٹر سائیکل پر چڑھتے ہیں اور سڑک پر دوڑاتے ہیں، اب سمندر پر چلنے کے لیے موٹر سائیکل بنے ہوئے ہیں، ایسے ترتیب سے بنے ہیں کہ بس بیٹھیں اور چلا دیں، بہت رفتار سے دوڑتے ہیں اور میں نے خود دوڑائے ہیں، ان کے سیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، بس چابی لگاؤ ریس دو اور چل پڑو! پھر اس کا نظام ایسا بنایا ہے کہ آپ جتنا بھی تیزی سے موڑیں وہ گرتا نہیں، پانی میں ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ لائف جیکٹ پہنا دیتے ہیں اور مزید پیچھے امداد والے پہنچ جاتے ہیں جو بندے کو ڈوبنے نہیں دیتے۔یہ اللہ کا عجیب نظام ہے۔
کفار کو انفاق کا حکم؟
﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ یَشَآءُ اللہُ اَطۡعَمَہٗ﴾
جب ان کفار سے کہا جاتا ہے کہ جو خدا نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں: اللہ چاہتے تو ان کو کھلا دیتے،ہمیں کیوں کہتے ہو کہ خرچ کرو۔ اس پر بظاہر اعتراض ہوتا ہے کہ کفارتو انفاق فی سبیل اللہ کے مکلف ہی نہیں ہیں تو انہیں مال خرچ کرنے کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے؟ انفاق کا حکم تو ان کو ہونا چاہیے جو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے پابند ہوں!
اس کا جواب یہ ہے کہ کفار کو جو انفاق کا حکم دیا جا رہا ہے یہ شریعت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ مروت اور انسانی غیرت کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی مر رہا ہو تو ہم اس کو بچائیں گے کیونکہ ہم پابندہیں، اگر نہیں بچائیں گے تو گناہ ہو گا۔ یہ ہم مسلمانوں کو اللہ کاحکم ہے اور کافر یہ تو نہیں سمجھتا کہ یہ اللہ کا حکم ہے لیکن مرنے والے کو بچانا انسانی ہمدردی ہے۔ تو انسانی ہمدری میں کہا جاتا ہے کہ تمہیں خدا نے مال دیا ہے تو خرچ کیا کرو!
کافریہ کہتے ہیں کہ اللہ چاہتا تو ان مساکین کو کھلاتا، ہم کیوں کھلائیں؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو تمہیں نہ دیتا، تمہیں بھی تو خدا نے دیا ہے تم نے کون سا اپنے پاس سے دیناہے؟ اللہ کے دیے ہوئے میں سے تو دیناہے، اور اللہ کا نظام جانور اور انسان کے لیے الگ ہے۔ جانور کو اللہ رزق بلاواسطہ دیتے ہیں اور انسان کو بالواسطہ دیتے ہیں۔ اگر انسان کو بلاواسطہ رزق ملتا تو انسانیت میں تمدن کا نظام ختم ہو جاتا۔ اس لیے بلا واسطہ نہیں بلکہ با لواسطہ ملتا ہے تو انسان میں تمدن کا نظام قائم رہتا ہے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں سمجھانے کے لیے۔ یہاں طلبہ پڑھ رہے ہیں، ہر طالب علم کو براہِ راست اللہ کھانا دیتا تو یہ مہتمم کو جوتے پر بھی نہ رکھتے، کہتے کہ ہم خود کھاتے ہیں، تمہارا ہمارے اوپر کیا احسان ہے؟ لیکن چونکہ اللہ رب العزت کھانا مدرسے والوں کے واسطے سے دیتے ہیں تو مدرسے والے قانون بناتے ہیں کہ تم ایک ہفتہ لیٹ آؤ گے تو ہم بطورِ سزا تمہارا کھانا بند کر دیں گے تو اب یہ طالب علم وقت پر آئے گا کیونکہ کھانا بند ہو گا اور اگر کھانا براہِ راست وقت پر ملتا تو یہ مدرسے کی انتظامیہ کی کیسے مانتا؟ کہتا کہ لیٹ جائیں گے پھر بھی کھانا ملنا ہے تو پابندی کی ضرورت کیا ہے؟! اس لیے بالواسطہ ملتا ہے تاکہ نظم اور تمدن قائم رہے۔
اگر اللہ تعالیٰ ہر بندے کو براہِ راست رزق دیتے تو غریب اور امیر ختم ہو جاتا اور دنیا کا نظام ہی باقی نہ رہتا۔ اب امیر کے پاس پیسہ ہے اور غریب کے پاس ہنر ہے۔ وہ ہنر لگاتا ہے یہ پیسہ لگاتا ہے تو بلڈنگ تیار ہو جاتی ہے،وہ ہنر لگاتے ہیں امیر پیسہ لگاتا ہے تو کھانے پک جاتے ہیں، کپڑے تیار ہو جاتے ہیں، اللہ نے نظام ایسے بنایا ہے۔
نفخ صور اور قبروں سے نکلنا:
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ ﴿۵۱﴾﴾
اور جب صور میں پھونک دیا جائے گا - ”الۡاَجۡدَاثِ“ یہ جَدْث کی جمع ہے جس کا معنی قبر ہے - تو یہ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف تیزی سے دوڑیں گے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ قبروں سے نکل کر تیزی سے دوڑیں گے۔ایک اور آیت میں بھی اسی طرح ہے:
﴿یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا﴾
المعارج70: 43
کہ یہ قبر سے نکل کر دوڑیں گے
جبکہ ایک آیت میں ہے:
﴿فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿۶۸﴾﴾
الزمر39: 68
یہ لوگ ہکے بکے کھڑے ہو کر دیکھتے رہیں گے۔
بظاہر ان آیتوں میں تعارض ہے لیکن حقیقت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ جب قبروں سے اٹھیں گے تو مٹی جھاڑتے ہوئے ہکے بکے ہو کر کھڑے ہو جائیں گے کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ ہم کدھر جائیں؟ اور جب چیخ آئے گی اور ملائکہ دھکیلیں گے تو یہ محشرکی طرف دوڑیں گے۔ تو
﴿فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ﴾
پہلی حالت ہے اور
﴿یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا﴾
یہ آخری حالت ہے۔
﴿قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ۘ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿۵۲﴾﴾
کہیں گے کہ ہمیں اس سونے کی جگہ سے کس نے اٹھادیاہے؟ ان سے کہا جائے گا کہ یہ اللہ وہ کا وعدہ ہے جو تمہارے ساتھ تھا اور جو پیغمبروں نے سچی بات کی تھی یہ وہ ہے۔
نیند اور موت میں مناسبت:
قبرکو یہاں پر ”مرقد“ فرمایا سونے کی جگہ۔ اگر یہ آیت سمجھ میں آ جائے تو پھر بندے کو موت بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ حدیث پاک میں جس طرح نیند پر موت کا اطلاق ہوا ہے اس طرح موت پر نیند کا اطلاق بھی ہوا ہے۔ جب آدمی سونے لگتا ہے تو دعا پڑھتا ہے
”اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَأَحْيیٰ“
صحیح البخاری، رقم: 6314
کہ اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ میں مرتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ زندہ ہوتا ہوں حالانکہ یہ سو رہا ہے تو اس کو تو یہ دعا پڑھنی چاہیے
”اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ أَنَامُ وَأَسْتَیْقِظُ“
کہ اللہ! تیرے نام کے ساتھ میں سوتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ اٹھتا ہوں ․․․ صبح جب اٹھتا ہے تو
”اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْرُ
صحیح البخاری، رقم: 6314
پڑھتا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی دی ہے حالانکہ اسے کہنا چاہیے
”اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ أَیْقَظَنَا بَعْدَ مَا أَنَامَنَا“
کہ رات کو سلایا تھا اور اب اٹھا دیا۔ تو ان احادیث میں نیند پر موت کا لفظ آیاہے۔
اور حدیث پاک میں ہے کہ جب انسان کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔وہ اس میت سے سوال کرتے ہیں۔ ایک سوال یہ کرتے ہیں:
”مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ؟“
تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟ تو بندہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔ یہ ٹھیک جواب دے دیتا ہے تو قبر اس کے لیے وسیع کر دی جاتی ہے اور نور سے بھر دی جاتی ہے۔ پھر فرشتے اسے کہتے ہیں:
”نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ“
سو جا جس طرح پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔
سنن الترمذی، رقم: 1071
اب دیکھیں! موت ہے لیکن لفظ سونے کا لائے ہیں۔ تو جس طرح نیند پر موت کا لفظ آیا ہے اسی طرح حدیث میں موت پر نیند کا لفظ بھی آیا ہے۔اس کا معنی یہ ہوا کہ موت سمجھ آتی ہے جب آدمی نیند سمجھ لے اور جب نیند سمجھ لے تو موت کا سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
دیکھیں! آدمی سوتا ہے اور صبح اٹھ کر غسل خانے میں کھڑا ہوتاہے۔ بھائی کیا ہو ا؟ کہتا ہے کہ مجھ پر غسل واجب ہو گیا ہے، کیوں ہوا؟ اب یہ کہتا ہے کہ یار! مجھے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے․․․ فلاں لڑکی خواب میں آ گئی تھی تو غسل واجب ہو گیا۔ اب کوئی بھی اس خواب دیکھنے والے کو جھوٹا نہیں کہتا کیونکہ یہ جو خواب میں عمل ہوا ہے یہ جسم کا نہیں بلکہ روح کا عمل ہے اور اس کے جو آثار ہیں وہ روح پر نہیں، روحانی عمل کے آثار جسم پر ہو رہے ہیں، کپڑے جسم نے پہنے ہیں روح نے نہیں، اب کپڑے نا پاک ہو گئے، بدن نا پاک ہو گیا، پھر یہ اپنے بدن اور کپڑوں کو دھو رہا ہے روح کو نہیں دھو رہا۔ اس کا معنی کہ نیند میں احوال براہِ راست روح پر آتے ہیں اور اس کا اثر جسم پر ہوتا ہے۔ تو جب موت کو نیند فرمایا تو اس کامعنی یہ ہے کہ موت میں احوال براہِ راست روح پر آتے ہیں اور اس کا اثر جسم پر ہوتا ہے۔
چونکہ ہم اس دنیا میں ہیں اور سونے والا اس دنیا میں ہے تو روح کے احوال کی وجہ سے جو جسم پر آثار آئے ہم اس کو دیکھ رہے ہیں اور مان بھی رہے ہیں لیکن موت کے بعد احوال روح پر ہیں اور اس کے آثار جسم پر ہیں وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے لیکن مان پھر بھی رہے ہیں۔ وہ نظر کیوں نہیں آ رہے؟ کیونکہ ان کے احوال اور آثار برزخ یعنی پردے میں ہیں، تو پردے کے نیچے والی چیز نظر نہیں آتی لیکن مانتے پھر بھی ہیں۔
آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں اور امی ساتھ ہوں اور امی نے پورا برقعہ پہنا ہو تو آپ ڈاکٹر صاحب سے کہتے ہیں: ڈاکٹر صاحب! یہ میری امی ہے، اسے چیک کریں۔ اب ڈاکٹر صاحب کو برقع تو نظر آ رہا ہے لیکن اس میں امی نظر نہیں آ رہی لیکن مان پھر بھی رہا ہے کہ آپ کی امی ہے یعنی جو پردے میں ہے وہ نظر نہیں آتا لیکن ہوتا ضرور ہے، اسی طرح برزخ کا معاملہ ہے، اس میں جو احوال ہوتے ہیں وہ نظر نہیں آتے لیکن ہوتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر کیوں مانتا ہے کہ پردے میں امی ہے اس لیے کہ وہ جب نبض چیک کرتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ امی ہے، جب وہ بخار چیک کرنے کے لیے منہ میں تھرمامیٹر رکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ امی ہے، دھڑکن چیک کرنے کے لیے آلہ لگاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ امی ہے اور برزخ میں جو احوال ہیں ہم دیکھنا چاہیں تب بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن مانتے پھر بھی ہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
نیند سمجھ آئے تو پھر موت سمجھ آتی ہے۔ آپ سوئے ہوئے ہیں آپ کے ساتھ ایک بندہ سویا ہے، وہ ڈر کے اٹھ جاتا ہے، آپ نے پوچھا کیا ہوا؟ کہتا ہے کہ مجھے سانپ نے ڈسا ہے یا مجھے کتے نے کاٹا ہے، اب اسے کوئی بھی نہیں کہتا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں! حالانکہ وہاں اس کے پاس کوئی سانپ نہیں ہوتا کوئی کتا نہیں ہوتا، آپ اس کو جھوٹا کیوں نہیں کہہ رہے کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جو سانپ اور کتا ہے یہ جسم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ روح کےساتھ ہے اور اس کے آثار جسم پر ظاہر ہو رہے ہیں، جسم گھبرا جاتا ہے،جسم ڈر جاتا ہے، بندے کا پسینہ چھوٹ جاتا ہے، پیاس لگ جاتی ہے۔ اب بالکل اسی طرح قبر والے بندے کو سانپ ڈس رہا ہوتا ہے، فرشتے گرز مار رہے ہوتے ہیں اورہمیں پتا نہیں چلتا، کیوں پتا نہیں چلتا؟ اس لیے کہ وہ برزخ میں ہے۔
سونے والا دنیا میں ہے اس کی روح کے احوال کا بھی پتا نہیں چلتا اور مرنے والا برزخ میں ہے اس کے احوال کا بھی پتا نہیں چلتا لیکن یہ سونے والے کے احوال آپ کیوں مان رہے ہیں اس لیے کہ آپ ان احوال سے خود گزر رہے ہوتے ہیں اور برزخ والے کے احوال ہیں لیکن ہم ان سے گزرے نہیں ہیں مگر مانتے پھر بھی ہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اب احوال کے جو آثار اور نتائج ہیں دنیا میں وہ نظر آتے ہیں جسم پر اور موت کے بعد روح کے احوال اور اس کے جو آثار ہیں وہ نظر نہیں آتے، مانتے پھر بھی ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
اب دیکھو!
﴿یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا﴾
ہمیں اس سونے کی جگہ سے کس نے اٹھایا؟اور سورۃ الکہف میں ہے
﴿وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ﴾
الکہف 18: 18
اصحاب کہف کو تم سمجھ رہے ہو کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں۔رَقَدَ، یَرْقُدُ، رُقُوْدًا کا معنی سونا ہوتا ہے۔ آپ کوئی قبر دیکھ لو، منکرینِ حیات کے جو بانی ہیں ان کی قبر پر جا کر دیکھ لیں وہاں بھی مرقد لکھا ہوا ہے۔ سب مرقد مبارک لکھتے ہیں۔ ہر بندہ سمجھتا ہے کہ یہ مرقد یعنی سونے کی جگہ ہے۔ تو بتاؤ! سونے والا زندہ ہوتا ہے یا مردہ؟ زندہ، تو پھر وہ زندہ ہوئے یا مردہ؟ زندہ!
قبر کے سوالات امتی سے ہوں گے، نبی سے نہیں:
میں اگلی بات کہنے لگا ہوں۔ روح نکل جاتی ہے پھر لوٹتی ہے پھر تین سوال ہوتے ہیں۔ ان سوالات کا تعلق امتی سے ہے ان کا نبی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نبی سے قبر میں سوالات نہیں ہوتے بلکہ یہ صرف امتی سے ہوتے ہیں۔ امتی جب جواب دیتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: ”نَم“ سو جا! نبی سے نہ سوال ہے نہ جواب اور نہ ہی سونے کا حکم ہے۔ تو امتی ایسے ہے جیسے سویا ہوا ہے اور نبی ایسے ہے جیسے جاگ رہا ہے۔ سو نے والے کے سماع میں اختلاف ہوتا ہے کہ سنتا ہے یا نہیں لیکن جاگنے والے کے سماع میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ اس لیے عام اموات کےسماع میں اختلاف ہے صحابہ کا کہ سنتے ہیں یا نہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کا اختلاف نہیں، پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ سنتے ہیں کیونکہ سونے اور جاگنے والے میں فرق ہوتا ہے۔
ہمارے یہ حضرات بہت زور لگاتے ہیں کہ ”سویا مویا ہِکو جیا“ [سونے اور مرنے والا ایک جیسا ہوتا ہے] میں نے کہا: اگر”ہِکو جیا“ ہے یعنی ایک جیسا ہے تو ہم پھر بھی ماننے کے لیے تیار ہیں کہ سونے والا اور مرنے والا ایک جیساہے لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ جب آدمی سوئے اور چار بجے کا الارم لگا دے، پھر الارم بجے اور بندہ اٹھ جائے تو سوال یہ ہے کہ اس نے سنا ہے پھر اٹھا ہے یا اٹھا ہے پھر سناہے؟ سناہے پھر اٹھا ہے نا، اس کا معنی یہ ہوا کہ سونے والا سنتا ہے۔
میں نے کہا: تمہارےمدارس میں جب طلبہ سوتے ہیں، تم ان کو نماز کے لیے اٹھاتے ہو تو وہ تمہاری آواز سن کر اٹھتے ہیں یا اٹھ کر آواز سنتے ہیں؟ کہا جی سن کر اٹھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر اس کا معنی ہے کہ تم بھی مانتے ہو کہ سونے والا سنتا ہے اور ہم بھی مانتے ہیں کہ سونے والا سنتا ہے۔
دو موتوں اور دو حیاتوں کا صحیح مفہوم:
کہتے ہیں: جی قرآن میں ہے:
﴿اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ﴾
المؤمن 40: 11
کہ دو موتیں اور دو حیاتیں ہیں، تو یہ قبر والی حیات کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ
﴿یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا﴾
یہ بھی تو نص ہے، یہ قرآن تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ قیامت کو اٹھ کر کہے گا کہ ہمیں سونے کی جگہ سے کس نے اٹھایا ہے! قبر کی جگہ کو قرآن سونے کی جگہ کہتاہے، یہ بھی تو آیت ہے نا! پھر آیات کے، معانی ایسے بیان کرو کہ آیات میں تعارض اور ٹکراؤ ختم ہو جائے۔
دو موتیں اور دو حیاتیں․․․ اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ جب یہ آیت آئے گی تو پھر اس پر بات کریں گے۔ مختصراً سمجھ لیں کہ ایک ہوتی ہے کھلی حیات اور ایک ہوتی ہے چھپی حیات، اسی طرح ایک ہوتی ہے کھلی موت اور ایک ہوتی ہے چھپی موت۔ ماں کے پیٹ میں موت ہے روح جو نہیں ہے، پھر روح آئی تو حیات آ گئی ہے اور آدمی زندہ ہو گیا۔ پھر دنیا میں آنے کے بعد بندے پر موت آئی، یہ بندے پر دوسری موت ہے، ایک موت آ چکی اور اب یہ دوسری موت ہے، اور ایک حیات قیامت کے دن ملے گی جو کھلی حیات ہو گی۔ اب قبرمیں پھر حیات ملی ہے، یہ حیات کھلی ہے یا چھپی ہے؟ یہ چھپی حیات ہے۔ تو یہ جو کہتے ہیں کہ دو موتیں اور دو زندگیاں تو یہ دو موتیں اور دو زندگیاں وہ ہیں جو کھلی ہیں جو ہر بندہ دیکھتا ہے اور قبر کی حیات ہے لیکن چھپی ہے، اس لیے یہ نظر نہیں آتی۔ اس لیے اس پر اشکال نہیں کرنا چاہیے۔
”دلہن کی طرح سو جا!“ پہ عجیب نکتہ:
﴿یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا﴾
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ کہتاہے
”نَمْ“
سو جا! اور آگے اضافہ فرمایا:
”کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ“
کہ پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا!الفاظِ نبوت پہ غور کرنا! صرف یہ نہیں فرمایا کہ سو جا بلکہ دلہن کی طرح سو جا،یہ دلہن کا لفظ کیوں لائے؟ یہ بات سمجھانے کے لیے کہ کوئی لڑکی کسی لڑکے کو چاہتی ہے لیکن میسج نہیں کر سکتی خاندان کا مسئلہ ہے، قبیلہ ہے، بغاوت نہیں کر سکتی، اللہ سے بھی ڈرتی ہے، یہ گناہ ہے خوف کھاتی ہے لیکن یہی لڑکی کلمۂ نکاح کے ساتھ دلہن بن کر کمرے میں آ جائے تو جس خاندان کا ڈر تھا وہ باہر کھڑے ہیں، اب اس کو ڈر نہیں ہے، پہلے میسج اور فون کا ڈر تھا، اب بغل میں بغل ڈال کر سوئی ہے کوئی ڈر نہیں ہے، کیونکہ کلمۂ نکاح کے ساتھ آئی ہے۔ بالکل اسی طرح قبر ظلمت کا گھر ہے، کیڑوں کا گھر ہے، وحشت کا گھر ہے، عذاب کا گھر ہے اور جب بندہ کلمۂ ایمان کے ساتھ آ جائے تو اب کوئی ڈر نہیں ہے اور یہ بات دلہن کے لفظ کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتی تھی۔
میں اس لیے طلبہ سے کہتا ہوں کہ اس کو پہلے خود سمجھو پھر آگے سمجھاؤ! جب تم سمجھو گے نہیں تو عوام میں بیان کیسے کرو گے؟ تم نے پھر جھجکنا ہے، ڈرنا ہے، گھبرانا ہے کہ میں ا س کا جواب کیا دوں گا! اس لیے اس کو خوب سمجھو!
پہلی رات دلہن سوتی بھی ہے؟
میں نے بتایا تھا کہ مجھے ایک جگہ سبق کے بعد طلبہ نے چٹ دی کہ استادجی! پہلی رات دلہن سوتی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ سوال تو آپ کا ٹھیک ہے۔ اس کا جواب ذہن میں رکھ لیں کہ جب اس قبر والے سے سوال ہوتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے، تیرا نبی کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ یہ جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، میرا نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میرا دین اسلام ہے، تو اس کے ذمے جو کام تھا وہ پورا ہو گیا تو فرمایا کہ اب سو جا! اور دلہن کے ذمہ جو کام ہوتا ہے جب وہ پورا ہو جائے تو وہ بھی سو جاتی ہے اور ایسے سکون سے سوتی ہے کہ بس وہ دلہا جانتا ہے یا دلہن جانتی ہے!
جنت کی نعمتوں کا حال:
﴿اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیۡ شُغُلٍ فٰکِہُوۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾ ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَ ﴿۵۶﴾ لَہُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ ﴿ۚ۵۷﴾﴾
جنت میں نہ نماز ہو گی، نہ روزہ ہو گا، نہ نیند ہوگی۔ پھر اللہ ان کی مشغولیت پھل بنا دیں گے،پھل شوق سےکھاؤ، بیوی کو دیکھیں گے اور بیوی کے ساتھ معانقہ کریں گے، ستر سال گزر جائیں گے سینہ سے سینہ لگا کر کھڑے ہیں، ہمبستری شروع کریں گے تو پانچ سو سال گزر جائیں گے۔ یہاں پانچ سو سال بڑی مدت ہے لیکن وہاں پانچ سو سال کوئی مدت نہیں ہو گی کیونکہ ابدی زندگی ہے۔ یہ خوشیاں تمہاری منتظر ہیں، اس دنیا کی غلاظت پر لعنت بھیج دو پھر دیکھو حلال خوشیوں میں مزا کتنا آتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان نعمتوں کا تذکرہ کیوں کیا ہے؟ اس لیے کیا ہے کہ لوگوں کو سمجھاؤ، رغبت دلاؤ۔ ہم اس کو بیان کرتے ہوئے شرماتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے! اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے کہ ان کو سمجھاؤ، ان گندگیوں سے ان کی جان چھڑاؤ، پاکدامن عورتوں کی بات کرو۔بیٹا! اِس لعنت سے بچو اُس حسن کو دیکھو، یہ سونا چھوڑو وہاں کے کنگن پہنو، یہ بات سمجھاؤ نوجوانوں کو، تم ایک سو کو سمجھاؤ گے تو دس تمہارے ساتھ چل پڑیں گے اور عفت اور پاکدامنی کی زندگی گزاریں گے! لیکن یہ ضروری ہے کہ سمجھانے والے پر حال طاری ہو صرف قال نہ ہو!
﴿اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیۡ شُغُلٍ فٰکِہُوۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾ ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ عَلَی الۡاَرَآئِکِ مُتَّکِـُٔوۡنَ ﴿۵۶﴾ ﴾
سبحان اللہ! شوہر ہے اور ساتھ بیویاں ہیں، تکیے لگے ہوئے ہیں، سایہ بنا ہوا ہے اور گپ شپ کر رہے ہیں، اس گپ شپ پر اللہ بھی کتنے خوش ہو رہے ہوں گے!
اللہ کی قسم! میں تمہیں جنس کی دعوت نہیں دیتا، میں کہتا ہوں کہ جنت کی نعمتوں کو سوچو!
﴿لَہُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ﴾
وہاں ان کے لیے میوے ہوں گے اور ہر وہ چیز ملے گی جو وہ منگوائیں گے۔ یہاں
” وَ لَهُمْ مَّا یَسْئَلُوْنَ“
نہیں فرمایا کہ جس چیز کا سوال کریں گے وہ انہیں ملے گی بلکہ
وَّ لَہُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ﴾
فرمایا، یدَّعون کا لفظ دعوت سے ہے، سوال سے جو چیز ملتی ہے اس کو دعوت نہیں کہتے بلکہ جو بغیر سوال کے ملے اس کو دعوت کہتے ہیں۔ اللہ لفظ
”یَسْئَلُوْنَ“
کے بجائے
”يَدَّعُوْنَ“
لائے ہیں۔ یہ جو پھل ہوں گے یہ جو بیویاں ہوں گی یہ جو تخت ہوں گے یہ خدا کی طرف سے تمہاری لیے دعوت ہو گی۔
﴿مَّا یَدَّعُوۡنَ﴾
کا معنی بعض نے کیا ہے کہ ”جووہ مانگیں گے“ لیکن ہم اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ ”جو وہ چاہیں گے“۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےتھے: اللہ! ہم جنت اس وجہ سے نہیں مانگتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں، اس وجہ سے مانگتے ہیں کہ ہم جہنم کو برداشت نہیں کر سکتے، بس اللہ! ہمیں جنت عطا فرما دے۔
اللہ کی طرف سے سلام:
﴿سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ ﴿۵۸﴾﴾
رب رحیم کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔
دنیا میں اگر ہمیں کوئی کہے کہ آپ کو فلاں بزرگ کی طرف سے سلام آیا ہے، آپ کو فلاں صاحب نے سلام کہا ہے تو بندے کو خوشی ہوتی ہے، لیکن جنت میں جب اللہ سلام کریں گے تو بندے پر کیا کیفیت طاری ہو گی کہ اللہ نے مجھے سلام کیا ہے، کتنا مزہ آئے گا؟ ہماری درس گاہ میں کوئی بزرگ آئیں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں، ہمیں سلام کریں تو دل خو ش ہو جاتا ہے اور جنت میں اللہ سلام کریں گے تو جنت کا کیسا پیارا منظر ہو گا؟
مجرمو! الگ ہو جاؤ!
﴿وَ امۡتَازُوا الۡیَوۡمَ اَیُّہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿۵۹﴾﴾
ساتھ یہ بھی اعلان ہوگا کہ جو مجرم ہیں وہ الگ ہو جائیں۔ حشر میں مجرم الگ ہو جائیں، غیر مجرم الگ ہو جائیں۔ اللہ ہمیں ان مجرموں میں سے نہ بنائیں۔ آمین
قیامت کے دن زبان پر مہر لگنے کا مطلب:
﴿اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾﴾
آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے، ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کرتے تھے؟!- اللہ ہمیں ا س منظر سے بچائے، اللہ میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے-
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ پر مہر لگائی جائی گی اور ہاتھ پاؤں بولیں گے حالانکہ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ پرہے:
﴿یَّوۡمَ تَشۡہَدُ عَلَیۡہِمۡ اَلۡسِنَتُہُمۡ وَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۴﴾﴾
النور24: 24
ان کے خلاف قیامت کے دن ان کی زبان بھی بولے گی، ہاتھ بھی بولیں گے اور پاؤں بھی گواہی دیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے تھے۔
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان پر مہر لگے گی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان بولے گی۔ تو بظاہر دونوں آیات میں تعارض معلوم ہوتا ہے۔
جواب یہ ہے کہ مہر لگانے کا معنی یہ نہیں ہے کہ منہ کو بند کر دیا جائے گا اور زبان بول نہیں سکے گی بلکہ مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ منہ کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بولے گا بلکہ وہ بولے گا جو خدا چاہے گا۔ اب زبان بولے گی کہ میں نے گناہ کیاتھا۔ یہ معنی ہے مہر لگانے کا۔
حضور علیہ السلام کو شعر کی تعلیم نہیں دی گئی:
﴿وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ﴿ۙ۶۹﴾ لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۷۰﴾﴾
ہم نے پیغمبر کو شعر کا علم نہیں دیا اور نہ ہی شاعری پیغمبر کی شان کے لائق ہے، یہ تو نصیحت کی بات ہے اور نہایت واضح قرآن ہےتاکہ آپ ڈرائیں اس کو جو زندہ ہے،
-”حَيًّا“
سےمراد جس کا دل زندہ ہے ورنہ زندہ تو سارے ہی ہوتے ہیں- اور کافروں پر یہ بات ثابت ہو جائے کہ پیغمبر نے سنایا تھا!
میں پہلے بھی یہ بات سمجھا چکا ہوں کہ یہاں اشکال یہ ہے کہ کفار پیغمبر پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ شاعر ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کو شعر سکھایا ہی نہیں تو سوال یہ ہے کہ کفار نے کیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعرکہا اور کیسے اس قرآن کو شعر کہتے تھے کہ یہ شاعر کی باتیں ہیں؟! بلکہ حدیث پاک میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن طرفہ کا شعر پڑھا۔ شعر یہ ہے:
سَتُبْدِیْ
لَکَ الْاَیَّامُ مَاکُنْتَ جَاہِلًا
وَیَاْتِیْکَ
بِالْاَخْبَارِ مَنْ لَّمْ تُزَوِّدٖ
یعنی جن باتوں کا تم کو علم نہیں ہے وقت آنے پر تمہیں سمجھ آ جائے گی اور تمہارے پاس وہ بندہ خبر لائے گا جس کو تم نے خبر لانے کے لیے مقرر نہیں کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر پڑھا تو آپ نے یوں پڑھا:
سَتُبْدِیْ
لَکَ الْاَیَّامُ مَاکُنْتَ جَاہِلًا
وَیَاْتِیْکَ مَنْ
لَّمْ تُزَوِّدٖ بِالْاَخْبَارِ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: حضور! یہ شعر ایسے نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں شاعر نہیں ہوں اور شاعری میرے مناسب بھی نہیں ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ پھر کفار کیسے کہتے رہے کہ یہ شاعر ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں شبہ اس لیے ہوا کہ کفار جو کہتے تھے کہ یہ شاعر ہیں اور یہ قرآن شاعر کی باتیں ہیں ا س سے ہم یہ سمجھے کہ شاعر کہتے ہیں مسجَّع اور مقفّٰی کلام کہنے والے کو حالانکہ وہاں شاعر کا معنی صرف یہ نہیں ہے، لغتِ عرب میں شعر کا ایک معنی ہوتاہے ایسی بات جو فرضی ہو، خیالی ہو اور غیر تحقیقی ہو اور شاعر کہتے تھے جو خیالی اور فرضی باتیں کرے۔ تو عرب کے اس ماحول میں شاعر کا معنی یہ ہے کہ یہ خیالی باتیں کرتاہے، فرضی باتیں کرتاہے -العیاذ باللہ- من گھڑت باتیں کرتا ہےجن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ﴿وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ﴾ کا ترجمہ یہ کیا ہے ”ہم نے آپ کو شاعری یعنی خیالی مضامین مرتب کرنے کا علم نہیں دیا۔“
بیان القرآن: ج3 ص242
دیکھیں! بیان القران سے سب اشکال ختم ہوگئے اور میں پھر آپ سے کہتا ہوں یہ مسئلہ درسگاہ میں آپ نے سمجھا ہو گا تو بیان القرآن سمجھ میں آئے گا ورنہ آپ کو بیان القرآن پر بھی اشکال ہو جانا ہے کہ حضرت تھانوی نے ترجمہ ٹھیک نہیں کیا!
عاص بن وائل کی حماقت:
﴿اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۷﴾﴾
سورۃ یٰس کی یہ آخری پانچ آیات ایک واقعہ میں نازل ہوئیں۔ مکہ مکرمہ میں عاص بن وائل ایک مشرک تھا۔ اس نے ایک بوسیدہ ہڈی لی، اس کو ریزہ ریزہ کردیا۔ پھر اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : کیا قیامت کے دن اللہ اس کو زندہ کرے گا جس کا یہ حال ہو رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اللہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا اور پھر جہنم رسید کرے گا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں
﴿اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۷﴾﴾
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے ایک نطفے سے بنایا ہے، پھر وہ کھلم کھلا جھگڑا کرنے لگتا ہے،
﴿وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا﴾
اور یہ ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا - ہڈیاں اٹھا اٹھا کر مثالیں دیتا پھرتا ہے -
﴿وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ﴾
اور اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے،
﴿قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴾
اور پھر کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ جب یہ بوسیدہ ہوں گی، آپ فرمائیں
﴿یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ﴾
جس خدا نے پہلے پیدا کیا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا،
﴿وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلۡقٍ عَلِیۡمُۨ ﴿ۙ۷۹﴾﴾
اور اس کو پتا ہے کہ میں نے کس کو کیسے پیدا کرنا ہے!
﴿الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الشَّجَرِ الۡاَخۡضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنۡتُمۡ مِّنۡہُ تُوۡقِدُوۡنَ ﴿۸۰﴾﴾
وہی ہے جس نے سبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کر دی ہے جس سے تم آگ جلا لیتے ہو۔
عرب میں دو درخت تھے، ایک کا نام تھامرخ" اور ایک کانام تھا عفار، دونوں کی سبز ٹہنیاں ہوتیں، ٹہنی پر ٹہنی مارتے تو آگ جلتی۔ اللہ فرماتے ہیں تم دیکھتے ہوکہ سبز درخت ہے اور اس سے آگ جلتی ہے، تم اس کو سلگاتے ہو ماچس کی طرح اور تم بعثت کا انکار کرتے ہو،بتاؤ سبز درخت اور آگ میں کیا جوڑہے؟ وہ اللہ جو سبز درختوں سے آگ کو پیدا کرتا ہے اس کے لیے بوسیدہ ہڈی سے دوبارہ پیدا کام کرنا کیا مشکل ہے؟
﴿اَوَ لَیۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ؃ بَلٰی ٭ وَ ہُوَ الۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۸۱﴾﴾
کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسا دوبارہ پیدا کر دے؟ کیوں نہیں! وہ بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے و الا ہے،
﴿اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾﴾
اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ ہو جا، وہ چیز ہو جاتی ہے۔
جنت چھوٹی خدائی کا نام ہے:
مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت چھوٹی خدائی کا نام ہے کیونکہ
﴿وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾﴾
حٰم السجدۃ41: 31
جنت میں جو چاہو گے وہ ملے گا، جو بولو گے وہ ملے گا، اور خدائی کیاہے؟
﴿اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴾
جنت کو چھوٹی خدائی کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ اس میں یہ سارے اختیارات اللہ کی طرف سے ہیں، اللہ چاہیں تو دے دیں چاہیں تو چھین لیں، یہ بڑی خدائی تو نہیں ہے، تو فرمایا کہ چھوٹی خدائی اللہ دے گا۔
اور یہ حکمت سمجھنا! دنیا میں بندہ وہ کرے جو اللہ چاہتا ہے تو جنت میں وہ ہو گا جو بندہ چاہے گا!
”کُنْ فَیَکُوْنُ“ کا معنی:
﴿اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾﴾
اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ ہو جا، وہ چیز ہو جاتی ہے۔ اس پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ اگر اللہ کے
”کُنْ“
فرمانے سے چیز ہو جاتی ہے تو پھر بچہ نو ماہ بعد کیوں پیدا ہوتا ہے، فوراً کیوں نہیں پیدا ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ یہ جو فرماتے ہیں ”کُنْ“ کہ ہوجا، تو کتنے وقت میں ہوجا؟یہ مقدر ہوتاہے، یہ ہمارے علم میں نہیں بلکہ اللہ کے علم میں ہے، پھر
”فَیَكُوْنُ“
میں وہ وقت مخفی ہوتا ہے جو اللہ نے
”کُنْ“
کےاندر مقدر رکھا ہے۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ پانی لاؤ! اب اس کا کیا معنی ہے کہ ایک سیکنڈ میں لاؤ؟ مجھے پتا ہے کہ ”پانی لاؤ!“ کا معنی ہے کہ اتنی دیر میں لاؤ! تو پانی لاؤ میں وہ وقت مخفی ہوتا ہے کہ یہ اتنی ہی دیر میں لائے گا۔ ہم کہتے ہیں: بھائی دکان سے مٹھائی لاؤ! اب اس کا معنی یہ نہیں کہ فوراً حاضر کرو بلکہ اس کا معنی ہے کہ جاؤ اور لاؤ! اور کتنا وقت لگنا ہے؟ یہ لفظ ”لاؤ“ میں موجود ہے۔ تو اللہ جب بچے کی پیدائش کا حکم دیتے ہیں تو
”کن“
فرماتے ہیں کہ ہوجا تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ نوماہ میں ہوجا، یہ نوماہ میں ہوجا کا حکم مخفی ہے
فیکون
کہیں تو نو ماہ خود بخود آ جاتے ہیں۔
﴿فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿٪۸۳﴾﴾
پاک ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور تم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․