سورۃ الصّٰفّٰت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الصّٰفّٰت
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ﴿۱﴾ فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ﴿۲﴾ فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۳﴾ اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ ﴿ؕ۴﴾ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ رَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ﴿۵﴾﴾
فرشتوں کی قَسمیں:
اللہ رب العزت نے ابتداءً تین قسمیں کھائی ہیں۔ قسم ہے ان فرشتوں کی جو صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں او ر قسم ہے ان فرشتوں کی جو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں -یعنی شیاطین جب عالمِ بالا کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ فرشتے ان کو روکتے ہیں- اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو تلاوت کرتےہیں ذکر کی۔
قسمیں کھا٫نےکی وجہ:
یہاں ایک سوال ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ملائکہ اور فرشتوں کی قسمیں کھائی ہیں کہ
”وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا“․․․
ملائکہ مخلوق ہیں، خالق نہیں ہیں، مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں ہے تو پھر اللہ رب العزت نے ان کی قسم کیوں اٹھائی ہے؟
اس کا آسان جواب یہ ہے:
﴿لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَ ہُمۡ یُسۡـَٔلُوۡنَ﴾
الانبیاء 21: 23
احکام کے مکلف بندے ہیں اللہ نہیں ہے، کس کی قسم کھانی ہے اور کس کی نہیں کھانی ان احکامات کے بندے پابند ہیں اللہ نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہیں انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ مخلوقات میں سے جس مخلوق کی قسم کھاتے ہیں اس کی خاص وجہ ہوتی ہے، بسا اوقات اس مخلوق کی عظمت بتانا مقصود ہوتا ہے جیسے فرمایا:
﴿لَعَمۡرُکَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴾
الحجر 15: 72
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کی قسم کھائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بتانے کے لیے۔ اسی طرح بسا اوقات کسی چیز کی قسم کھائی جاتی ہے اس کے فوائد بتانے کے لیے جیسے
﴿وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾ وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾﴾
التین 95: 1، 2
تو کسی بھی جگہ قسم کھانے کی خاص وجہ ہوتی ہے۔
یہاں ملائکہ کی قسم کیوں کھائی ہے؟ اس لیے کہ مشرکینِ مکہ میں سے ایک خاص طبقہ تھا جو ملائکہ کی عبادت کرتا تھا۔ تو اللہ نے ملائکہ کی قسم کھائی ہے کہ جس کی تم عبادت کرتے ہو یہ تو خود عابدین ہیں، عبادت کرتے ہیں تو عابد کو معبود بنانے کا کیا معنی ہے؟! اس لیے یہاں ملائکہ کی قسمیں کھائی ہیں۔
نظم و ضبط کی اہمیت:
آپ کو یاد ہو گا میں حضرت داؤد علیہ السلام کا واقعہ ذکر کر چکا ہوں
﴿ اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ﴾
سبا34: 11
کے تحت کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک خاص انداز سے خَود کی کڑیاں بناتے تھے، چھوٹی بڑی نہیں بلکہ ترتیب سے․․․ اس سے ثابت ہوا کہ شریعت میں نظم پسندیدہ ہے۔ اب یہاں فرمایا:
﴿وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا﴾
صف بندی کے ساتھ عبادت کرنا یہ نظم ہے۔ تو اللہ رب العزت کو نظم پسند ہے، اس لیے بے نظمی کبھی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ اور یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، یہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے بھی لکھی ہے۔ اگر ملائکہ عبادت اس طرح کریں کہ دو کہیں ہوں، چار کہیں ہوں، پانچ کہیں ہوں، دس کہیں ہوں عبادت ہو تو سکتی ہے لیکن نظم وضبط کے بغیر ہو گی، اس لیے ملائکہ سے بھی صف بندی کے اہتمام کے ساتھ عبادت مطلوب ہے۔
معارف القرآن: ج7 ص417
اور ایک حدیث مبارک میں بھی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ملائکہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں توصف باندھ کر کرتے ہیں، صف میں قریب قریب کھڑے ہوتے ہیں۔
صحیح مسلم، رقم: 430
تو ہمیں بھی حکم ہے کہ نماز میں صف سیدھی رکھیں، قریب قریب کھڑے ہوں، اس کا بہت زیادہ خیال کریں۔ جب عبادات میں نظم مطلوب ہے تو بتائیں باقی معاملات میں کیسے نہیں ہو گا؟ اس لیے نظم کا مزاج بنائیں۔
اللہ کی بادشاہت کا بیان:
﴿اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ ﴿ؕ۴﴾ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ رَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ﴿۵﴾﴾
قسمیں کھانے کے بعد فرمایا: تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جو آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا بھی رب ہے اور مشرقوں کا بھی رب ہے۔ سورج ہر روز ایک نئی جگہ سے نکلتا ہے، طلوع ہونے کی جگہ کو مشرق کہتے ہیں، چونکہ سورج سال بھر میں ہر دن ایک نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ
﴿رَبُّ الۡمَشَارِقِ﴾
اللہ مشارق کے رب ہیں۔ دوسرے مقام پر ہے کہ اللہ مشرقین اور مغربین کے بھی رب ہیں۔
ستارے؛ زینت اور حفاظت کا ذریعہ:
﴿اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ۙ﴿۶﴾ وَ حِفۡظًا مِّنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ مَّارِدٍ ۚ﴿۷﴾﴾
ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کے ساتھ مزین کیا اور ہر سرکش شیطان سے اس کی حفاظت کی۔
یہاں ملائکہ کے تذکرے کے بعد شیاطین کی بات کی ہے اور بطورِ خاص کواکب کی بات کی ہے کہ جنات کو جب یہ کواکب لگتے ہیں جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ پہلے شیاطین اوپر جا کر عالمِ بالا کی خبریں سنتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد ان کو آسمان پر جانے سے روک دیا گیا۔ اگر یہ کوشش بھی کرتے ہیں تو شہابِ ثاقب کے لگنے سے دوڑ جاتے ہیں اور اوپر تک نہیں جا سکتے، اگر وہ باتیں سننا بھی چاہیں تب بھی نہیں سن سکتے۔
جنتیوں کا رزق یقینی اور دائمی ہے:
﴿اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿ۙ۴۱﴾ فَوَاکِہُ ۚ وَ ہُمۡ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ ﴿۴۴﴾﴾
یہی وہ لوگ ہیں جن کا رزق مقرر کر دیا گیا ہے، میووں کے ذریعے ان کا اکرام کیا جائے گا، نعمتوں والے باغات میں، تخت لگا کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
جنتیوں کو رزقِ معلوم ملے گا جو یقینی اور دائمی ہے،
﴿رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌ﴾
اس لیے فرمایا کہ جنت کے رزق میں ہلکا سا بھی شبہ نہیں کہ شاید ملے یا نہ ملے بلکہ یقیناً اور دائماً ملے گا۔ دنیا کی طرح نہیں کہ کو ئی شخص یقین کے ساتھ نہیں بتا سکتا کہ کل مجھے کیا اور کتنا رزق ملنے والا ہے؟ اور فرمایا کہ اس میں
”فَوَاکِہُ“
ہوں گے۔ فواکہ یہ فاکہہ کی جمع ہے، یہ پھل لذت کے لیے ہوں گے خوراک کے لیے نہیں، جنت میں جتنی غذائیں دی جائیں گی وہ سب لذت کےلیے ہوں گی بھوک ختم کرنے کےلیے نہیں ہوں گی کیونکہ انسان کو جنت میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ کھانا نہیں کھائیں گے تو بھوک لگے گی، کھانا نہیں کھائیں گے تو کمزور ہو جائیں گے، کھانا کھائیں گے تو طاقت آ جائے گی، نہیں بلکہ وہاں صرف لذت اور مزے کے لیے کھائیں گے، اپنے شوق کے لیے جو چیز کھانا چاہیں گے وہ کھائیں گے۔
﴿عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ﴾ ․․․
جنتی تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے اور گپ شپ لگائیں گے۔ اس کا ایک معنی تو بعضوں نے یہ کیا ہے کہ جن تختوں پر جنتی ہوں گے وہ تخت گھومیں گے، جس سے بات کرنی ہو گی اسی کی طرف گھوم کراس کے سامنے آتے رہیں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے سامنے اس طرح ہوں گے جس طرح مجلس والے حلقہ بنا کے بیٹھتے ہیں کسی کو دوسرے کی طرف پشت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کوئی دور بھی بیٹھا ہو گا تو نگاہ اتنی تیز ہو گی کہ دور بیٹھنے والا بھی بہت قریب محسوس ہو گا، ایسا نہیں ہو گا کہ ایک شخص بہت دور بیٹھا ہو تو نظر نہ آئے۔
حورانِ بہشت کا تذکرہ:
﴿وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ ﴿ۙ۴۸﴾ کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ ﴿۴۹﴾﴾
اللہ جنت میں جو حوریں دیں گے ان کی ایک صفت یہ بیان کی کہ ان کی نگاہ نیچی ہو گی، اپنے شوہر کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھیں گی اور ان کو اپنا شوہر اتنا خوب صورت لگے گا کہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھانے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ
﴿قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ﴾
کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نگاہوں کو جھکا دیں گی یعنی ان کے شوہر ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھیں گے، اتنا پاک ماحول ہو گا۔
جنتی اور اس کے کافر ساتھی کا مکالمہ:
﴿فَاَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَسَآءَلُوۡنَ ﴿۵۰﴾ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ اِنِّیۡ کَانَ لِیۡ قَرِیۡنٌ ﴿ۙ۵۱﴾ یَّقُوۡلُ اَئِنَّکَ لَمِنَ الۡمُصَدِّقِیۡنَ ﴿۵۲﴾﴾
یہاں ایک جنتی کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کا دنیا میں ایک ساتھی تھا جو کافر تھا اور آخرت کا منکر تھا۔ جب یہ جنتی جنت کی محفل میں بیٹھا ہو گا تو اپنے کافر ساتھی کو یاد کرے گا کہ فلاں بندہ کدھر ہے جو مجھے طعنے دیتا تھا کہ واقعی تم آخرت کی زندگی کو سچ مانتے ہو؟ وہ مجھے کہا کرتا تھا کہ ہم جب مٹی ہو جائیں گے ہڈیوں میں تبدیل ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہمیں اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا؟! اللہ تعالیٰ اس جنتی بندے سے فرمائیں گے کہ تم دیکھنا چاہو تو دیکھ لو! یہ پھر جنت سے جہنم کی طرف دیکھے گا تو وہاں اسے وہ شخص نظر آ جائے گا، یہ جنتی اس کافر سے کہے گا خدا کی قسم! تو مجھے بھی گمراہ کر دیتا لیکن اللہ کا کرم تھا کہ اللہ نے مجھے محفوظ رکھا اور میں بچ گیا۔ تو وہاں پر ایسے سلسلے چلیں گے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
قرآن کریم میں صرف ان دو بندوں کا ذکر ہے لیکن یہ تعیین نہیں کہ یہ کون تھے اور ان کے نام کیا تھے؟ بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ دو بندے تھے، ان میں سے مؤمن کا نام یہودا تھا اور کافر کا نام مطروس تھا۔
اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ دو بندے اورتھے جو دوست تھے، مل کر کاروبار کیا، آٹھ ہزار دینار کا منافع ہوا، چار ہزار ایک نے لیے اور چار دوسرے نے، ان میں سے ایک آدمی نے ایک ہزار دینار سے زمین خریدی اور دوسرے نے ایک ہزار صدقہ کیا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ! اس ایک ہزار دینار کے بدلے میں میں جنت میں زمین خریدتا ہوں۔ ایک نے ایک ہزار دینار سے اس زمین پر مکان بنایا اور دوسرے نے ایک ہزار پھر صدقہ کیا اور دعا کی کہ یا اللہ! اس ہزار دینار کے بدلے میں جنت میں ایک گھر خریدتا ہوں، ایک نے پھر ایک ہزار دینار سے شادی کی اور دوسرے نے ایک ہزار پھر صدقہ کر دیا اور دعا کی کہ یا اللہ! میں ایک ہزار کے بدلے میں جنت کی کسی عورت کو پیغام دیتا ہوں۔ پہلے نے ایک ہزار دینار پھر لگایا اور اس سے اپنا سامان خریدا اور ایک غلام خریدا اور دوسرے نے پھر ایک ہزا ر دینار اور صدقہ کر دیا، دعا کی کہ یا اللہ! اس کے بدلے میں جنت میں ایک غلام اور جنت کا سامان خریدتا ہوں۔
اتفاقاً ایسا ہو گیا کہ جس نے چار ہزار دینار صدقہ کیا تھا اس کو ضرورت پڑ گئی تو وہ اپنے اس دوست کے پاس کچھ پیسے مانگنے کے لیے گیا۔ اس نے کہا کہ تیرے پیسے کدھر ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو خرچ کر دیے اللہ قیامت کو صلہ دیں گے۔ اس نے کہا کہ کیا تم اس بات کو سچا سمجھتے ہو کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمیں ایک اور زندگی ملے گی اور اس میں اعمال کا بدلہ بھی ملے گا؟ کہا کہ بالکل۔ اس نے کہا: اچھا! پھر جا میں تجھے پیسے نہیں دیتا۔ جب ان دونوں پر موت آئی۔ تو جس نے پیسے اللہ کی راہ میں خرچ کیے اس کو تو جنت ملے گی اور دوسرا جہنم میں ہو گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
زقوم؛ جہنمیوں کی خوراک
﴿اَذٰلِکَ خَیۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَۃُ الزَّقُّوۡمِ ﴿۶۲﴾ اِنَّا جَعَلۡنٰہَا فِتۡنَۃً لِّلظّٰلِمِیۡنَ ﴿۶۳﴾ اِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخۡرُجُ فِیۡۤ اَصۡلِ الۡجَحِیۡمِ ﴿ۙ۶۴﴾ طَلۡعُہَا کَاَنَّہٗ رُءُوۡسُ الشَّیٰطِیۡنِ ﴿۶۵﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمیشہ رہنے والے جنت کے انعامات بہتر ہیں یا زقوم کا درخت؟ زقوم کا درخت نہایت بدبو دار، کڑوا اور کریہہ المنظر ہے۔ تعیین میں بہت سارے علماء نے اختلاف کیا ہے کہ زقوم کسے کہتےہیں؟ کسی نے کہا کہ”تھوہر“ کے درخت کو کہتے ہیں، کسی نے کہا کہ ”ناگن پھل“ ایک درخت ہے اس کو کہتے ہیں۔ اس سے غرض نہیں کہ کون سا درخت ہے، بس اتنا کافی ہے کہ جہنم میں زقوم کا درخت ہو گا۔ ابو جہل اس کا مذاق اڑاتا تھا کیونکہ اس وقت عربوں میں تو نہیں البتہ اور علاقوں میں زقوم کا اطلاق کھجور اور مکھن پر ہوتا تھا، ابو جہل کہتا کہ یہ ہے زقوم؛ کھجور اور مکھن، آؤ اس کو کھا لو!- اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کو آزمائش بنایا ہے ظالمین کے لیے- آزمائش اس طرح کہ کون ہے جو اس کا ذکر سن کر ڈر جائے اور کون ہے جو اس کا ذکر سنے اور پھر سرکشی میں مزید جرات کرے! مکہ والے کافر کہتے تھے کہ زقوم درخت ہو گا اور آگ میں ہو گا۔ بھلا آگ میں کوئی درخت رہ سکتاہے؟! فرمایا کہ یہ درخت جہنم کے بالکل نچلے حصے سے پیدا ہو گا۔ یہ اشکال اس درخت پر ہوتا ہے جو باہر پیدا ہو کہ یہ آگ میں کیسے رہے گا؟ جس درخت کی پیدائش ہی آگ میں ہو اس پر یہ اشکال نہیں ہوتا۔ اس کے لیے آگ میں رہنا کیا مشکل ہے؟!
﴿طَلۡعُہَا کَاَنَّہٗ رُءُوۡسُ الشَّیٰطِیۡنِ﴾ ․․․
اس کے خوشے ایسے ہوں گے جیسے شیطان کا سر ہے۔ شیطان؛ سانپ کو بھی کہتے ہیں تو سانپ کےپھن کی طرح اس کے خوشے ہوں گے کریہہ المنظر۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تشبیہ تخییلی ہے، تخییلی کامعنی کہ بعض چیزیں دیکھی نہیں ہوتیں لیکن عرف میں مشہور ہوتی ہیں اور اس سے مشابہت ہوتی ہے۔ اب دیکھو! کسی بندے نے دیو نہیں دیکھا لیکن کہتے ہیں کہ فلاں شخص دیو کی طرح بدصورت ہے۔ کسی نے پری نہیں دیکھی لیکن کہتے ہیں کہ فلاں پری کی طرح خوب صورت ہے۔ تو یہ تشبیہ تخییلی ہوتی ہے، بعض چیزیں عرف میں چل رہی ہوتی ہیں لیکن فی الواقع نہیں ہوتیں، اسی تخیل سے اس کو تشبیہ دیتے ہیں، اسی طرح اسے اس تخیل سے تشبیہ دی ہے کہ وہ پھل ایسا ہو گا جیسے شیطان کا سر ہوتا ہے، کوئی آدمی بھی شیطان کو خوب صورت نہیں کہتا، ہمیشہ شیطان کو بد صورت ہی سمجھا جاتا ہے۔
تذکرہ ہائے انبیاء علیہم السلام:
﴿وَ لَقَدۡ نَادٰىنَا نُوۡحٌ فَلَنِعۡمَ الۡمُجِیۡبُوۡنَ ﴿۫۷۵﴾﴾
اللہ رب العزت نے یہاں سے چھ انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ کیاہے۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ،حضرت ہارون، حضرت لوط اور حضرت یونس علیہم السلام۔
حضرت نوح علیہ السلام:
یہاں نوح علیہ السلام کا تذکرہ کیاہے۔ فرمایا کہ نوح علیہ السلام نے ہم سے دعا مانگی اور ہم سے کوئی دعا مانگے تو ہم اس کی دعا کو قبول کرنے والے ہیں۔ ہم نے نوح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو درد ناک عذاب سے بچا لیا تھا، ان کی اولاد باقی رہ گئی باقی سب ختم ہوگئے اور نوح علیہ السلام کے جانے کے بعد ہم نے بعد والے عام لوگوں کی زبان پر یہ کلمات جاری کیے
﴿سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۷۹﴾﴾
جب بھی نام لیں گے تو کہیں گے نوح علیہ السلام․․․ نوح علیہ السلام․․․ نوح علیہ السلام کا اچھا تذکرہ جاری کر دیا۔ نوح علیہ السلام کی قوم جو رہ گئی تھی وہ بھی فوت ہو گئی۔طوفان کے بعد زمین پر جو نسل چلی ہے وہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سے چلی ہے؛ ایک کا نام سام تھا، ایک کانام حام تھا، ایک کا نام یافث تھا۔
اور ترمذی کی حدیث ہے کہ سام کی اولاد اہلِ عرب ہیں اور حام کی اولاد اہلِ حبشہ ہیں اور یافث کی اولاد اہلِ روم ہیں۔
سنن الترمذی، رقم: 3231
تو ان کے تین بیٹوں سے دنیا میں اولاد چلی، اور اقوال بھی ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میرا تفسیر میں ذوق یہ ہے کہ میں بہت اقوال ذکر نہیں کرتا، بس ایک بات کرو جو زیادہ مناسب ہو، جو دل کو لگتی ہو اور اس کو پھر آگے عوام کو سمجھانا شروع کر دو اور آپ بھی جب عوام میں درس دیں تو اقوال زیادہ نہ بیان کریں کہ جی بعض یہ کہتے ہیں․․․ بعض یہ کہتے ہیں․․․ اس سے سامعین الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے سیدھی سیدھی ایک بات کہہ دیں جو بندوں کے دماغ میں اتر جائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام:
﴿وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام ؛حضرت نوح علیہ السلام کے گروہ کے آدمی تھے، یعنی عقائد ایک تھے۔
﴿اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَاذَا تَعۡبُدُوۡنَ﴾
یہ واقعہ کئی جگہ پر آیا ہے، میں نے صرف موٹی موٹی باتیں کہنی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سالانہ میلے میں جانے لگی۔ ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ بھی چلیں! ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کو دیکھا اور فرمایا:
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ﴿۸۹﴾﴾
میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں نہیں جاسکتا۔ نہیں گئے۔ ان کے جانے کے بعد ابراہیم علیہ السلام بت خانے میں گئے اور آپ نے بتوں سے کہا کہ تم بولتے کیوں نہیں ہو؟یہ کھانا پڑاہے تم کھاتے کیوں نہیں ہو؟پھر ابراہیم علیہ السلام نے دایاں ہاتھ چلایا اور آپ نے ان بتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ جوبڑا بت تھا اس کو چھوڑ دیا۔ واپسی پر قوم نے بتوں کا یہ حال دیکھا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے؟
﴿قَالُوۡا سَمِعۡنَا فَتًی یَّذۡکُرُہُمۡ یُقَالُ لَہٗۤ اِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۰﴾﴾
الانبیاء21: 60
کہا کہ ایک نوجوان ہمارے بتوں کا تذکرہ کرتا تھا، اسے ابراہیم کہتے ہیں، اسی نے کیا ہو گا۔ اس کو پکڑ کرلاؤ۔ ابراہیم علیہ السلام کو لایا گیا، پو چھا: یہ تونے کیا ہے؟ فرمایا:
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۳﴾﴾
الانبیاء21: 63
نہیں، یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے، انہی بتوں سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں تو! بڑے سے پوچھو جو کندھے پر کلہاڑا لے کر کھڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ تمہیں پتا نہیں ہے کہ یہ بات نہیں کر سکتے۔ فرمایا:
﴿ اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمۡ ﴿ؕ۶۶﴾ اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
الانبیاء21: 67، 68
کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان۔ تف ہے تم پر بھی اور تمہارے ان خداؤں پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام حجت تام کرنا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے ایسا طریقہ اختیار فرمایا تھا۔
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴾ کا پہلا معنی:
﴿فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۸۸﴾ فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ﴿۸۹﴾﴾
ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کی طرف دیکھ کر فرمایاکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو قوم تھی وہ ستاروں کی پوجا کرتی تھی اور ستاروں کو مؤثر بھی سمجھتی تھی کہ ستارے یہ کام کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ایسے اوپر دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ ابراہیم علیہ السلام بھی ہمارا ہم عقیدہ ہے، ستاروں کو دیکھ کر کہتا ہے کہ میں بیمار ہو ں۔ کیونکہ یہ لوگ بھی پیشین گوئیاں کرتے تھے، ستارہ دیکھ کر کہتے تھے کہ بارش ہوگی، ستارہ دیکھ کر کہتے کہ فلاں بیمار ہوگا، فلاں کو اولاد ہوگی جبکہ ابراہیم علیہ السلام کا مقصد قطعاً یہ نہیں تھا، مطلب یہ تھا
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴾
کہ میں بیزار ہوں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ بسا اوقات طبیعت ٹھیک نہ ہونے کا مطلب مریض اور بیمار ہونا نہیں ہوتا بلکہ بعض حوادث سے بندے کو تکلیف ہوتی ہے تو کہتا ہے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
کوئی آدمی اپنے مخاطب کی حالت دیکھتا ہے تو اسے دکھ اتنا ہوتا ہے کہ بندے کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، کہہ اٹھتا ہے کہ اوئے یار! دفع ہوجا تو میرے سامنے نہ آ، تجھے دیکھ کر میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔
ایک شکال کا جواب:
ابراہیم علیہ السلام نے جو ستاروں کو دیکھا تو اس پر کسی کو اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ ابراہیم علیہ السلام کا عقیدہ تو یہ نہیں تھا لیکن ابراہیم علیہ السلام نے ان کے دیکھنے کی طرح دیکھا اور وہ یہ سمجھے کہ ابراہیم علیہ السلام بھی ہماری طرح ستاروں کو مؤثر سمجھتے ہیں اس سے تو ان کے عقیدے کی تائید ہوتی ہے اور غلط عقیدے والے کی تائید کرنا تو ٹھیک نہیں ہے۔
یہ بات یاد رکھنا کہ تائید تب ہوتی جب ابراہیم علیہ السلام اس کے بعد خاموش رہتے اور ان کے نظریے کی تردید نہ کرتے، آپ نے تو کھل کر تردید کی ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ﴿۷۶﴾﴾
الانعام 6: 76
جب ابراہیم علیہ السلام پر رات چھا گئی اور انہوں نے ایک ستارا دیکھا تو فرمایا: یہ میر رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا کہ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا! توتائید کیسے ہو سکتی ہے؟! یہ تردید ہے․․․ تائید ہرگز نہیں ہے۔
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴾ کا دوسرا معنی:
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴾ ․․․
اس کا ایک معنی تو وہ ہے جو میں نے عرض کیا کہ ”میں تم سے بیزار ہوں، تمہاری حرکتوں سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے“ سقیم کا ایک معنی اور بھی ہے جیسے قرآن کریم میں ہے:
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ﴾ ،
الزمر 39: 30
یہاں
”اِنَّکَ مَیِّتٌ“
کا معنی ہے کہ آپ پر موت آنی ہے، اسی طرح
﴿اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴾
کا معنی یہ نہیں کہ میں بیمار ہوں بلکہ اس کا معنی ہے کہ میں نے بیمار ہونا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ ہر بندے نے موت سے پہلے بیمار ہونا ہے۔ اگر کسی کو ظاہری بیماری نہ ہو تب بھی موت سے پہلے انسان کے مزاج میں خلل کا آنا لازمی بات ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ بندے کو خلافِ مزاج کبھی کوئی چیز پیش نہ آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت:
﴿وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں۔ پہلے تو آپ علیہ السلام عراق کے کچھ مقامات اور شہروں میں گئے، پھر وہاں سے ہوتے ہو ئے شام کے علاقے میں گئے۔ وہاں سے مصر پھر مکہ مکرمہ پہنچے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کا نام سارہ تھا اور آپ کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ ابراہیم علیہ السلام جب مصر سے گزرے تو اس دوران ایک واقعہ ہوا۔
فرعونِ مصر -فرعون کوئی خاص بندہ نہیں ہے، مصر کے ہربادشاہ کو فرعون کہتے ہیں جس طرح ہمارے سربراہِ مملکت کو صدر کہتے ہیں تو وہاں ہر بادشاہ کو فرعون کہتے تھے- اس ظالم کی عادت تھی کہ کسی بھی خوبصورت خاتون کو دیکھ کر اس کی عزت پر حملہ کرتا تھا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا شوہر ہوتا تو اسے قتل کردیتا تھا اور شوہر کے علاوہ کوئی اور عزیز ہمراہ ہوتا تو اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام مصر سے گزرے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا: تم کہنا کہ میں ان کی بہن ہوں۔ حقیقت میں تو بہن نہیں تھی بلکہ بیوی تھی، ابراہیم علیہ السلام نے ظاہر ی طور پر کہا ہے کیونکہ دنیا بھر کے سارے مسلمان اسلامی بہن بھائی ہیں۔ خیر اس ظالم نے جب ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اس کا ہاتھ شل ہو گیا۔ پھر اس نے حضرت سارہ سے کہاکہ اپنے خدا سے دعا کرو کہ میرا ہاتھ ٹھیک ہوجائے اب میں کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ نے دعا کی تو وہ ٹھیک ہوگیا لیکن اس نے پھر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو پھر ہاتھ شل ہو گیا۔ اس نے کہاکہ دعا کرو کہ میں ٹھیک ہو جاؤں اب میں ایسا نہیں کروں گا۔ دعا سے ٹھیک ہوا تو پھر تیسری بار اس نے یہ حرکت کی تو اب بھی ہاتھ شل ہو گیا۔ اب بھی کہا کہ تم دعا کرو تو میں کچھ نہیں کہوں گا۔ دعا مانگی تو وہ ٹھیک ہو گیا۔ اب اس نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جن ہے یہ انسان نہیں ہے، اس کو مجھ سے دور لے جاؤ! اس نے حضرت سارہ کی خدمت کے لیے ایک لڑکی بھی ساتھ دے دی جس کا نام ہاجرہ تھا اور یہ فرعون کی اپنی بیٹی تھی۔ حضرت سارہ نے یہ سمجھ کر کہ میرے ہاں تو اولاد نہیں ہے حضرت ابرہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ اس سے بھی نکاح کریں، شاید اللہ اس سے اولاد دیں۔ حضرت ہاجرہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت اسماعیل علیہ السلام تھا۔
حضرت سارہ کو دیکھو! اپنا بچہ نہیں تھا، فرمایا آپ ہاجرہ سے نکاح کر لیں اللہ اس سے اولاد دے گا، اللہ نے پھر ان سے اسماعیل بیٹا پیدا فرمایا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں نے یہ خواب دیکھاہے۔ بیٹے نے کہا:
خواب میں بیٹے کو ذبح کرنا:
﴿قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾﴾
اے ابو جان! جو آپ کو حکم ہوا ہے آپ اس پر عمل کیجیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
” اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ صَابِراً “
نہیں کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، بلکہ
﴿اِنۡ شَآءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ﴾
کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ یہ بتانے کے لیے کہ تنہا میں ہی نہیں ہوں صبر کرنے والا اور بھی ہیں۔ کتنی تواضع ہے کہ اللہ کرم فرمائیں گے آپ بسم اللہ پڑھیں۔ پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خود فرمایا: ابو جی! مجھے باندھ دیں، ہو سکتا ہے کہ میں درد برداشت نہ کر سکوں! روایت میں ہے کہ جب چھری چلائی تو اللہ نے چھری اور گردن کے درمیان پیتل حائل کر دیا جس کی وجہ سے گلا نہیں کٹا تو کچھ دیر بعد اسماعیل علیہ السلام نے خود فرمایا: ابا جی! مجھے الٹا لِٹا دیں۔ ایک تو چھری دیکھنے سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے اور دوسرا چھری چل نہیں رہی، شاید آپ محبتِ پدری کی وجہ سے صحیح چلا نہیں رہے لہذاالٹا لِٹا دیں۔ پھر چھری چلائی لیکن پھر بھی نہیں چلی تو اللہ نے مقدر میں ذبح لکھا ہی نہیں تھا وہ تو صرف امتحان تھا جو خدا نے ابراہیم علیہ السلام سے لینا تھا۔
یہ بات یاد رکھنا! جب اللہ امتحان لیتے ہیں تو اس کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ اللہ کو معلوم نہیں ہوتا بلکہ امتحان اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ بلا وجہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل اللہ بنا لیا۔تو خلیل بنانے کی یہ وجوہات ہیں۔ دیکھو! ہر امتحان میں کیسے کامیاب ہوئے؟
﴿فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚ﴾ ․․․․
دونوں نے خود کو خدا کے حوالے کر دیا۔ اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لِٹا دیا،اس کا ایک مطلب تو میں نے بیان کر دیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے سامنے والا حصہ اس کو کہتے ہیں
”وَجْہَۃٌ “
اور ایک ہے پیشانی کے دونو ں کونے، اس کو
”جبین“
کہتے ہیں۔ تو ان کو کروٹ کے بل لٹایا، پیشانی کا ایک کونہ نیچے زمین سے لگ گیا پھر یوں گردن کو ذبح کیا۔ اب کوئی اشکال ہی باقی نہیں رہتا۔
﴿وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ﴾ ․․․
اللہ فرماتے ہیں: ہم نے کہا ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا،
﴿اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴾
یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ یہ تو امتحا ن تھا۔ اس کے بدلے میں ابراہیم علیہ السلام کو جنت کا دنبہ دیا۔ اسماعیل علیہ السلام بچ گئے۔ دنبہ ذبح ہو گیا۔ ابراہیم علیہ السلام کامیا ب ہو گئے۔
ایک لفظ کا اضافہ پورے معنی کی تبدیلی:
﴿وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۷﴾﴾
ہم نے ایک عظیم قربانی فدیے میں دی اور اس بچے کو بچا لیا۔
میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے یہاں صرف
”بِذِبْحٍ“
نہیں فرمایا بلکہ
”بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ“
فرمایا۔ اگر دنیا والا دنبہ ہوتا تو
”بِذِبْحٍ“
کافی تھا، چونکہ دنبہ جنت سے آیا تھا تو اس وجہ سے
”بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ“
فرمایا۔ اب ایک لفظ کا اضافہ ہوتا ہے تو اس سے پورا معنی بدل جاتا ہے۔
انبیاء کو بشر نہ ماننے والوں کے شبہ کا جواب:
میں اس کو سمجھانے کے لیے کئی مثالیں دیا کرتا ہوں۔ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہونے والی زلیخا کو دیگر عورتوں نے طعن وتشنیع کی کہ تو غلام پر عاشق ہو گئی ہے۔ تو زلیخا نے کہا: تم نے غلام دیکھا نہیں ہے، چلو تمہیں دکھا دیتی ہوں۔ یوسف علیہ السلام سے کہا کہ باہر آئیں۔ دستر خوان پر پھل اور چھریاں رکھ دیں۔ عورتوں نے جب اچانک یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو انہوں نے کہا:
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ ﴿۳۱﴾﴾
یوسف 12: 31
یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو فرشتہ ہے۔
زلیخا نے کہا کہ یہی ہے وہ غلام جس پر تم مجھے طعنے دیتیں تھیں۔
اب دیکھو! ہم نبی کو بشر سمجھتے ہیں، جو بشریت نبی کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عورتوں نے کہا:
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
کہ یہ بشر نہیں، اور قرآن نے تردید بھی نہیں کی۔ جب قرآن تردید نہ کرے تو مسئلہ وہی ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی بشر نہیں ہے۔
میں نے کہا: اللہ نے سورۃ الشمس میں سات قسمیں کھا کر ارشاد فرمایا ہے:
﴿فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾﴾
الشمس91: 8
کہ ہم نے انسان کے مزاج میں بہیمیت اور ملکیت رکھی ہے۔ ملکیت کا معنی ؛مان کے چلنا اور بہیمیت کا معنی؛ من مانی کرنا․․․ ملکیت کا معنی؛فرشتہ پن اور بہیمیت کا معنی؛ ڈنگر پن۔ جب آدمی من مانی کرتا ہے تو اللہ فرماتے ہیں
﴿اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ﴾
کہ یہ جانور کی طرح ہے، وہ بھی من مانی کرتا ہے اور یہ بھی من مانی کرتا ہے لیکن جانور کے مزاج میں مان کر چلنے کی صلاحیت نہیں ہے جبکہ انسان کے مزاج میں ماننے کی صلاحیت ہے پھر بھی من مانی کرتا ہے تو فرمایا
﴿بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ﴾
الاعراف 7: 179
بلکہ جانور سے بھی بدتر ہے۔
توضیح بالمثال:
اس کی مثال سمجھیں! آپ نے یہاں سے اسلام آباد جانا ہے۔ ایک گاڑی اے سی ہے، ایک نان اے سی ہے، آپ اے سی والی کا ٹکٹ نان اے سی سے زیادہ ادا کر کے لیتے ہیں، راستے میں اے سی خراب ہو جائے تو یہ نہیں کہتے کہ ”یہ گاڑی نان اے سی کی طرح ہے“ بلکہ کہتے ہیں کہ ”یہ تو نا ن اے سی سے بھی بدتر ہے “ کیونکہ اُس میں تو اے سی تھا ہی نہیں، اس میں اے سی تو تھا مگر کام نہیں کرتا۔ تو جانور کے مزاج میں من مانی کرنا ہے، انسان کے مزاج میں مان کر چلنا ہے پھر بھی من مانی کرتاہے تو ”بَلْ هُمْ اَضَلُّ“ ہے۔
تو
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
اس میں بشریت کی نفی نہیں بلکہ بشریت کے ضمن میں من مانی کرنے کی نفی ہے، انہوں نے کہا تھا کہ یہ وہ بشر نہیں ہے جو من مانی کرے،
﴿اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
یہ تو وہ بشر ہے جو مان کر چلتا ہے اور جو مان کر چلے وہ فرشتہ ہوتا ہے۔ چونکہ فرشتہ مان کر چلتا ہے تو اس کو
”مَلَکٌ“
کہتے ہیں، فرشتے کے مزاج میں مان کر چلنا ہے اور انسان کے مزاج میں من مانی بھی ہے پھر بھی مان کر چلے تو اس کو صرف
”مَلَکٌ“
نہیں کہتے بلکہ
﴿مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
کہتے ہیں۔
اہلِ بدعت سے سوالات:
اب ہم نے تو آیت کا معنی کھول دیا لیکن آپ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہے! دلیل کہ ان عورتوں نے کہا تھا:
﴿اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
ہم آپ سے پوچھتے ہیں: اگر نبی بشر نہیں ہوتا تو کیا نبی فرشتہ ہوتا ہے؟ کہتے ہیں: نہیں! تو ہم نے کہا کہ وہ عورتیں تو دو باتیں کہتی تھیں:
1:
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾
یہ بشر نہیں ہے۔
2:
﴿اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴾
یہ فرشتہ ہے۔
یہ تمہاری دلیل تب بنے گی جب تم نبی کو بشر نہ مانو بلکہ فرشتہ مانو۔ ہم نے تمہارے اعتراض کا جواب دے دیا ہے اب تم ہما رے سوال کا جواب دو۔
ذبیح کون؟ حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق؟
﴿سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿۱۰۹﴾ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۱۰﴾ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾﴾
ذبیح ؛ اسماعیل علیہ السلام تھے یا اسحاق علیہ السلام تھے؟ بعض کی رائے یہ ہے کہ اسحاق علیہ السلام تھے، بعض کی رائے یہ ہے کہ اسماعیل علیہ السلام تھے اور ترجیح اس کو ہے کہ ذبیح اللہ؛ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ اس کی چند دلیلیں ہیں:
نمبر 1: اللہ نے پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
﴿وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴾
ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق علیہ السلام اس کے بعد پیدا ہوئے۔
نمبر2 :
﴿وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا﴾
خوشخبری دی کہ اسحاق علیہ السلام پیدا ہوں گے جو نبی ہوں گے۔
اگر یہ بتا دیا جائے کہ بعد میں نبی ہوں گے تو پھر امتحان کیسے ہوا؟ کیونکہ نبی تو تب ہوں گے جب زندہ بھی رہیں گے۔
نمبر 3: اسی طرح قرآن میں ہے:
﴿فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ ﴿۷۱﴾﴾
ھود11: 71
ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو خوشخبری دی کہ تمہیں اسحاق دیں گے اور اسحاق کا بیٹا یعقوب بھی دیں گے!
تو پہلے خوشخبری مل جائے کہ ان کی اولاد بھی ہو گی تو پھر ذبح کرنا کیسے امتحان بنے گا؟
نمبر 4: پھر اہم بات یہ ہے کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ایسے بیٹے کو ذبح کیا جو پہلا تھا اور پہلے اسماعیل علیہ السلام تھے۔ جب اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی سال تھی اور جب اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے تو عمر سو سال تھی۔
نمبر 5: ذبح کا یہ واقعہ منیٰ کے قریب عرب میں پیش آیا ہے اور عرب میں حضرت اسحاق نہیں تھے عرب میں حضرت اسماعیل تھے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہیں، حضرت اسحاق نہیں۔
﴿وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلٰی مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۱۱۴﴾ۚ﴾
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا واقعہ تفصیل سے پہلے گزر چکا ہے۔
حضرت الیاس علیہ السلام:
﴿وَ اِنَّ اِلۡیَاسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾﴾
حضرت الیاس علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔ الیاس اور اِلْ یاسین بھی انہی کا نام ہے۔ حضرت حزقیل علیہ السلام کے بعد اور حضرت الیسع علیہ السلام سے پہلے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہو ئے۔ اسرائیل کے بادشاہ کی بیوی ایک بت کی پوجا کرتی تھی جس کا نام
”بعل“
تھا اور ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارے اس بت کے آگے ساڑھے چار سو نبی ہیں۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ کا نبی ہوں اورجن کو تم نے نبی مانا ہوا ہے تم ان کو بلاؤ، ادھر میں بھی آتا ہوں، وہ اپنے خدا ”بعل“ کے نام پر قربانی کریں اور میں اپنے اللہ کے نام پر قربانی کرتا ہوں، ان کی قربانی کو آسمانی آگ نے کھا لیا تو ان کا دین سچا اور میری قربانی کو آگ کھا لے تو میرا دین سچا۔ بعل بت کے ان جھوٹے چارسو نبیوں نے قربانیاں کیں لیکن کسی ایک کے لیے بھی آگ نہیں آئی کیونکہ وہ جھوٹے تھے، حضرت الیاس علیہ السلام نے جب جانور ذبح کیا تو آسمان سے آگ آئی اور کھا کر چلی گئی لیکن پھر بھی ان لوگوں نے نہ مانا، ضدی تھے بالآخر اس قوم کو خدا نے تباہ وبرباد کر دیا۔
پہلے قربانی کی قبولیت کا یہ ضابطہ تھا کہ آسمان سے آگ آتی اور قربانی کو کھا لیتی تھی تو یہ علامت تھی کہ قربانی قبول ہو گئی ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام:
﴿وَ اِنَّ لُوۡطًا لَّمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾ؕ﴾
حضرت لوط علیہ السلام؛ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھانجے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں سے سوائے لوط علیہ السلام کے کوئی ایمان نہیں لایا۔ یہ ان کے کلمہ گو تھے۔ پھر اللہ نے ان کو بستی سدوم میں نبی بنا کر بھیجا۔ ان کی قوم نے گندے افعال کیے تو اللہ نے ان کو سخت عذاب دیا اور تباہ وبرباد کر دیا۔
حضرت یونس علیہ السلام:
﴿وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ؕ﴾
یونس علیہ السلام اللہ کےنبی تھے۔ ایک قوم کی طرف بھیجے گئے۔آپ کی قوم نا فرمان تھی۔ آپ کے بار بار سمجھانے کے باوجود راہِ راست پر نہیں آئی تو آپ نے انہیں کہا کہ تم پر خدا کا عذاب تین دن میں آ جائے گا۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی عذاب کے آثار آئے تو قوم کو حضرت یونس علیہ السلام کی پیشنگوئی کی سچائی معلوم ہوئی تو وہ گڑ گڑاکر اللہ کے حضور روئی تو خدا نے ان سے عذاب کو ٹال دیا۔ ابھی عذاب کی کیفیت وہ نہیں تھی کہ جس میں توبہ قبول نہ ہو۔ حضرت یونس سمجھے کہ وہ کیفیت آگئی ہے۔ اجتہادی غلطی ہوگئی۔ آپ بستی سے چلے گئے۔ جب آگے کشتی میں جاکر بیٹھے تو کشتی تھوڑا سا آگے چلی تو ڈوبنے لگی۔ کشتی کے ملاح نے کہا کہ ہماری کشتی میں کوئی دوڑا ہوا غلام ہے، جب تک وہ باہر نہیں پھینکو گے کشتی نہیں چلے گی، اس کو پانی میں پھینکنا پڑے گا۔ جب قرعہ نکالا تو حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں ہی ہوں۔
آپ نے وہاں چھلانگ لگا دی۔ اس کو خود کشی نہ سمجھنا! کیوں کہ وہ بظاہر ابھی کنارے کے اتنےقریب تھے کہ ان کے ذہن میں تھا کہ میں تیر کر وہاں پر پہنچ جاؤں گا، اس لیے یہ خود کشی نہیں ہے۔ جونہی پانی میں گرے تو آگے مچھلی منہ کھولے بیٹھی ہوئی تھی، اس نے نگل لیا۔ حضرت یونس علیہ السلام پھر دعا فرمانے لگے:
﴿لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
الانبیاء 21: 87
اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دعا نہ مانگتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے یعنی مچھلی کھاجاتی مچھلی کا پیٹ ان کی قبر بن جاتا۔
اللہ نے چالیس دن کے بعد مچھلی کو حکم دیا۔ اس نے باہر نکالا۔ چالیس دن چونکہ مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے تو مسلسل مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے ان کےبدن کےسارے بال ختم ہوگئے۔ اللہ نے فوراً کدو کی بیل وہاں پر لگادی:
﴿وَ اَنۡۢبَتۡنَا عَلَیۡہِ شَجَرَۃً مِّنۡ یَّقۡطِیۡنٍ ﴿۱۴۶﴾ۚ ﴾
”یقطین “عربی زبان میں اس درخت کوکہتےہیں کہ جس کاتنا نہ ہو جسے ہم اردو میں بیل کہتے ہیں۔ اصل میں ”شجرۃ“ کہتے ہیں تنا دار درخت کو اور یہ بیل تھی جس کا تنا نہیں ہوتا لیکن پھر قرآن نے اسے شجرۃ کہا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ معجزہ تھا کہ اللہ نے اس بیل کو تنا بنا دیا تاکہ حضرت یونس علیہ السلام اس کے نیچے آرام کریں یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں درخت تھا تو ساتھ اس کے بیل لگ گئی جو درخت پر چڑھ گئی تاکہ اس کے نیچے آرام فرما سکیں۔
اور ایک ہرنی کو حکم دیا گیا کہ جا کر ان کو دودھ پلایا کرے۔ آپ وہ دودھ پیتے رہے۔ جب تروتازہ ہو گئے تو اللہ نے حکم فرمایا کہ اپنی قوم کی طرف پھر واپس جاؤ! پھر یہ اپنی قوم کی طر ف گئے۔
فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنے والوں سے سوال:
﴿فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَلِرَبِّکَ الۡبَنَاتُ وَ لَہُمُ الۡبَنُوۡنَ ﴿۱۴۹﴾ۙ﴾
مشرکینِ مکہ میں سے بعض وہ تھے کہ جن کا دعویٰ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور بعض ان کی پوجا بھی کرتے تھے۔ اب ان کو سمجھایا جا رہا ہے۔ فرمایا: اے پیغمبر! آپ ان سے پوچھیں کہ کیا تمہارے رب کے حصے میں بیٹیاں آئی ہیں اور خود تمہارے حصے میں بیٹے آئے ہیں؟! یعنی تم اپنے ماحول میں بیٹیوں کو اپنے لیے باعث عار سمجھتے ہو تو خدا کے لیے کیسے ثابت کرتے ہو؟ یہ تو تمہارے ماحول کے اعتبار سے بھی غلط ہے۔
دلیل کی تین اقسام:
کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے تین قسموں میں سے کسی ایک قسم کی دلیل دی جا سکتی ہے؛ ایک ہوتی ہے دلیلِ مشاہدہ جسے عرف کہتے ہیں،ایک ہوتی ہے دلیل عقلی اور ایک ہوتی ہے دلیلِ نقلی۔اب تمہارے دعوے پر ان تین دلیلوں میں سے کون سی دلیل ہے؟ یہ جو تم نے کہاکہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تو کیا تمہارا مشاہدہ ہے؟
﴿اَمۡ خَلَقۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّ ہُمۡ شٰہِدُوۡنَ ﴿۱۵۰﴾﴾
کیا خدا نے جب فرشتوں کو بیٹیاں بنایا تھا تو تم موجود تھے؟ نہیں تم موجود نہیں تھے تو پھر یہ تمہارا جھوٹ ہوا۔
پھر ہوتی ہے دلیل نقلی کہ کسی ایسے بندے کی بات نقل کریں جو بندہ سچا ہو اور جو بندہ جھوٹا ہو ا س کی بات دلیل نقلی کیسی بنے گی؟ تم لوگ جو اس عقیدے کے قائل ہو تم جھوٹے ہو تو تمہاری بات دلیل کیسے بنے گی؟ فرمایا:
﴿اَلَاۤ اِنَّہُمۡ مِّنۡ اِفۡکِہِمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ۙ وَلَدَ اللہُ ۙ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۵۲﴾﴾
یہ لوگ بہتان تراشی کی بنا پر کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس لیےیہ بھی دلیل نہیں بن سکتی۔
یا پھر تمہارے پاس دلیل عقلی ہونی چاہیے دلیل عقلی بھی نہیں ہے کیونکہ تم خود لڑکیوں کو کم تر سمجھتے ہو اور لڑکوں کو افضل سمجھتے ہو، بیٹیو ں کو تم عار سمجھتے ہو اور ان کو قتل کر دیتے ہو تو جو خود تمہاری عقل میں بھی کم تر ہے تو کیا اللہ اس کم تر کو اپنے لیے منتخب کرے گا اور اعلیٰ تمہیں دے گا؟ فرمایا:
﴿اَصۡطَفَی الۡبَنَاتِ عَلَی الۡبَنِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾ؕ مَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾﴾
کیا اللہ نے بیٹوں کے بجائے بیٹیوں کو ترجیح دی ہے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کس طرح کے فیصلے کرتے ہو؟ تو عقلی دلیل بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی۔
تو تمہاری بات بھی نہ مانیں، مشاہدہ بھی نہیں ہے، عقل کے بھی خلاف ہے، ایک صورت بچتی ہے کہ چلو کسی آسمانی کتاب میں ہو تو وہ لے آؤ
﴿فَاۡتُوۡا بِکِتٰبِکُمۡ﴾
کوئی کتاب ہے تو وہ لے آؤ! تمہارے پاس تو اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ہےکہ یہ فرشتے عورتیں اور اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔
دلیل الزامی کا ثبوت:
یہاں ایک بات یاد رکھنا! جب ہم مناظرہ میں گفتگو کرتے ہیں تو ایک ہے جوابِ تحقیقی اور ایک ہے جوابِ الزامی۔ یہ الزامی جواب دینا خود قرآن کا طرز اور قرآن کریم سے ثابت ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَصۡطَفَی الۡبَنَاتِ عَلَی الۡبَنِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾ؕ مَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ﴿۱۵۴﴾ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۚ اَمۡ لَکُمۡ سُلۡطٰنٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۵۶﴾ۙ فَاۡتُوۡا بِکِتٰبِکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۵۷﴾﴾
بیٹی تمہارے ہاں کمتر ہے تو کیا اللہ کمتر کو اپنی بیٹی بنائے گا؟ اگر بنانا ہوتا تو افضل کو اپنے پاس رکھتے اور غیر افضل تمہیں دیتے! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو کمتر ہو اللہ اس کو اپنے لیے منتخب فرما لیں؟ یہ الزامی جواب ہے کہ جس کو تم عار سمجھتے ہو، جس کو تم ذلت سمجھتے ہو تو خدا اس کو بیٹی بنائے گا؟ اگر تمہارے ہاں بیٹی افضلیت کی علامت ہوتی تو تم کہتے کہ خدا کی بیٹیاں ہیں! جس کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے ہو اللہ کے لیے کیسے ثابت کرتے ہو؟ یہ دلیلِ الزامی ہے۔
اور یہ بات یاد رکھنا! الزامی جواب کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ مخالف کی بات کو ہم صحیح سمجھتے ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ مخالف جس بات کو صحیح سمجھتا ہے اس کی بات کو اس پر پھینکا جائے۔
میں ایک مثال دیتاہوں تاکہ آپ سمجھ جائیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ابھی المہند علی المفند کے سبق میں میں نے ایک مسئلہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی وہ مٹی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر سے لگی ہوئی ہے کعبہ سے بھی اعلیٰ ہے۔ غیر مقلدین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارے ہاں جب قبر کے ذرے جو وجودِ اطہر سے ملے ہیں کعبہ سے اعلیٰ ہیں تو جب نماز پڑھتے ہو تو منہ کعبہ کی طرف کیوں کرتے ہو؟ اُس طرف کیوں نہیں کرتے؟
اب ہم نے الزامی جواب دیا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جو افضل ہو منہ ادھر کرنا چاہیے تو تم منہ کعبہ کی طرف کرتے ہو عرش کی طرف کیوں نہیں کرتے؟ اب ہم نے اس اصول کو مانا نہیں ہے کہ نماز میں منہ افضل کی طرف ہو، ہم نے کہا کہ تمہارے اس اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ نماز میں منہ افضل کی طرف ہونا چاہیے یہ جو تمہاری بنیاد ہے کہ افضل کی طرف ہونا چاہیے تو تم منہ کعبہ کے بجائے عرش کی طرف کرو۔ ہم نے بنیاد کو تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ جس کو بنیاد بناتے ہیں ہم اس کو بنیاد بنا کر ان پر الزام لگاتے ہیں، اسے الزامی جواب کہتے ہیں اور یہ قرآن سے ثابت ہے۔
میں اس لیے کہتا ہوں کہ مخالف کو الزامی جواب سے خاموش کرنا یہ قرآنی طرز ہے اور یہ بات مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھی ہے۔ میں اکثر احباب سے کہتا ہوں کہ پہلے ہم سے سمجھیں پھر معارف القرآن پڑھیں، آپ کو معارف القرآن پڑھنے کا مزا آئے گا۔ ہم سے پوچھے بغیر معارف القرآن پڑھیں گے تو آپ پڑھتے بھی رہیں گے اور الزامی جواب اور مناظرہ کا رد بھی کرتے رہیں گے۔ ہم سے سمجھ لیں پھرپڑھیں۔ آپ اعتراض نہیں کریں گے بلکہ آپ کو بات کرنے کا لطف آئے گا۔
متکلمِ اسلام اور مقصد میں انہماک:
کل ہم رائیونڈ میں تھے، مولانا طارق جمیل صاحب سے ملا تو ہماری بات شروع ہو گئی، یہ جو اعتراضات ہیں اکابرین علمائے دیوبند کی عبارات پر اس پر بات ہوئی، میرا خیال یہ ہے کہ پانچ منٹ نہیں گزرے ہوں گے کہ میں نے ایک عبارت پڑھی، دوسری پڑھی، تیسری پڑھی، چوتھی پڑھی۔ اتنے میں عرب کے کچھ مہمان آ گئے تو میں مصافحہ کر کے واپس آ گیا۔ اسلام آباد کے ایک ڈاکٹرہیں ڈاکٹر خالد رانجھا صاحب یہ میڈیکل کے کسی شعبہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ میں واپس گھر سرگودھا آ رہا تھا تو مجھے ان کا رات کو میسیج آیا کہ آپ مولانا طارق جمیل صاحب کے پاس بیٹھے تھے تو مناظرانہ گفتگو اور عبارات کی تنقیح پر مزا آ رہا تھا، بس اچانک عرب مہمان آ گئے گفتگو رک گئی، آپ نے ہمیں نہیں دیکھا، فوراً چلے گئے، میں مصافحہ سے محروم رہ گیا۔ اگلا جملہ سنو! کہا: اپنے موضوع میں اتنا انہماک اور دائیں بائیں نہ دیکھنا آپ کا یہ طرز مجھے بہت اچھا لگا۔ کیونکہ میں سیدھا گیا مولانا کے کمرے میں، کرسی پر بیٹھ گیا بات شروع ہو گئی، جب مہمان آ گئے تو میں فوراً نکل گیا، میں نے نہیں دیکھا کہ کمرے میں اور کون ہے۔ میں واپس آیا، گاڑی میں بیٹھا اور نکل گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے مقصد میں یہ انہماک مجھے بہت اچھا لگا۔ دوبارہ پھر میسج کیا کہ ” نہ دائیں دیکھنا نہ بائیں نظر کا اٹھنا سبحان اللہ!“ یہ کو ن ہیں؟ پرانے تبلیغ کے ساتھی ہیں اور بہت بڑے منصب پر بیٹھے ہیں۔
جہدِ مسلسل کا نتیجہ:
آپ یقین فرمائیں! میں جب مرکز رائیونڈ گیا تو ساتھی دوڑ دوڑ کر ملتے تھے، میں امریکہ سے آیا ہوں آپ کے بیانات سے بہت فائدہ ہوا، میں کینیڈا سے ہوں بہت فائدہ ہو رہا ہے، میں افریقہ کا ساتھی ہوں ما شاء اللہ بہت فائدہ ہو رہا ہے، ہم انگلینڈ میں رہتے ہیں بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ وہاں مرکز کے ایک بزرگ ہیں، مجھے فرمانے لگے: مولانا! آپ کے کلپ سنتے ہیں ما شاء اللہ آپ نے نوجوانوں کو سنبھالا ہے اورجو آپ جواب دیتے ہیں مزا آ جاتا ہے۔ یہ مسلسل محنت کا نتیجہ ہے کہ اب ایک ایک بندہ آ رہا ہے۔
میں گاڑی پر تھا تو سندھ کے ایک مہمان آ رہے تھے، میں نے تھوڑا سا شیشہ نیچے کیا کہ چلو ان سے بھی مصافحہ کر لیں۔ ڈاڑھی منڈا آدمی تھا پتا نہیں ملازم تھا یا مزدور تھا، مجھے انہوں نے جو جملہ فرمایا سن کر بہت مزا آیا، مجھے کہتاہے: او گھمن صاحب! ڈٹ جاؤ، گھمن صاحب! ڈٹ کے رہنا․․․ مجھے لطف آ رہا تھا ان کی بات سے کہ ایک عام بندہ بھی اتنا متاثر ہےاور اتنا خوش ہو رہا ہے۔
اور میں آپ سے کہتا ہو ں کہ بس کام سے کام رکھیں، اللہ نے آپ سے کام لینا ہے، ایک وقت آئے گا اللہ آپ کے کام کو دنیا میں منوا دے گا، اگرمنوانے کی فکر سے کام کرو گے تو تباہ ہو جاؤ گے۔ اللہ ہم سب سے کام لیں۔ میں اس لیے کہتا ہوں اس مرکز اھل السنۃ والجماعۃ کا فیض دنیامیں کتنا ہے آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے، کس قدر لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور الحمد للہ مناسب، مہذب، اعتدال اور دلیل کے ساتھ بات ہو رہی ہے۔
وہاں رائیونڈ ہم بیٹھے تھے، مولانا شاہد صاحب حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ کے نواسے ہیں وہ تشریف لائے، پھر مولانا عزیر صاحب آئے، مجھے نہیں یاد کہ کسی کو میرے آنے کا پتا چلا ہو اور وہ نہ آیا ہو۔ ہاں اگر کسی کو پتا نہ چلا ہوتو وہ الگ بات ہے، ہر کسی کا جی چاہتا تھا ملنے کو، کہ ہمارے دستر خوان پر کھائے، ہمارے ساتھ ناشتہ کرے، ہمارے پاس چائے پی لے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں تو کھانا اپنے گھر سے پکوا کر ساتھ لے جاتا ہوں جب رائیونڈ جاتا ہوں۔ میں یہ بات کیوں سمجھا رہا ہوں اس لیے کہ جب ہمارے پاس آئیں تو ہمارے مرکز کی بھی رعایت کریں، جب ہم آپ کے پاس جاتے ہیں تو ہم آپ کی رعایت کرتےہیں، آپ کے اصولوں کا خیال کرتےہیں، اپنا کھانا میں ساتھ لے کر جاتا ہوں، روٹیاں ساتھ پکوا کر لے جاتا ہوں تاکہ وہاں کسی قسم کی الجھن نہ ہو۔
”حق غالب رہے گا“ کا معنی:
﴿وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚۖ اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾۪ وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۱۷۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہمارا فیصلہ ہے ہمارے بندوں کے بارے میں کہ ہمیشہ ان کی مدد ہو گی، ہمارا لشکر غالب ہو کر رہے گا۔
یہاں بظاہر اشکال ہوتا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر غالب ہوں گے لیکن کتنے پیغمبر ہیں جو بظاہر غالب نہیں ہوئے،قتل کر دیے گئے، قید کر دیے گئے، شہید کر دیے گئے، جِلا وطن کر دیے گئے تو پھر اس آیت کا معنی کیا ہو ا؟
اس کا سب سے جو آسان مفہوم ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
اِنْ لَّمْ یُنْصَرُوْا فِی الدُّنْیَا نُصِرُوْا فِی الْآخِرَۃِ․
تفسیر روح المعانی: ج23 ص156
کہ اگر دنیا میں بظاہر نا کام ہوئے بھی تو آخرت میں پھر کامیاب ہوں گے۔ دنیا میں مغلوب ہوئے بھی نا تو آخرت میں غالب ہی ہوں گے۔
اور حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: اس کی مثال ایسی ہے جیسے حاکم جا رہا ہو اور راستے میں گاڑی رکے اور ڈاکو اس کو لوٹیں تو بظاہر حاکم مغلوب ہے اور ڈاکو غالب ہیں لیکن حاکم نے دیکھ لیا کہ ڈاکو کون ہیں؟ تو جب کچھ دن بعد اسی حاکم کی عدالت میں آئیں گے۔ اب یہ ڈاکو غالب ہو کر بھی مغلوب ہیں اور حاکم مغلوب ہو کر بھی غالب ہے۔
اسی طرح اللہ کے نمائندے پکڑے جاتے ہیں، ماریں کھاتے ہیں، جیل میں جاتے ہیں، بظاہر بہت مغلوب ہوتے ہیں لیکن مغلوب ہوکر بھی وہ غالب ہیں کیوں؟ فرمایا:
﴿وَّ اَبۡصِرۡہُمۡ فَسَوۡفَ یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۱۷۵﴾﴾
کچھ دیر ٹھہرو، ان کو حسرت ہو گی کہ اے کاش! ہم ان کو نہ پکڑتے۔ظلم کرنے والے کو حسرت ہو گی کہ کاش! ہم ظلم نہ کرتے لیکن ہمیں حسرت نہیں ہو گی کہ اے کاش یہ ہمیں نہ پکڑتے۔
میں بڑے دردسے یہ بات سمجھاتا ہوں کہ ان بک بک کرنے والوں کو، الزامات لگانے والوں کو،رکاوٹیں ڈالنے والوں کو حسرت ہو گی کہ اے کاش! ہم الزامات نہ لگاتے۔ اس لیے عزم کرو کہ ہم نے الزام لگانا نہیں ہے الزام سہناہے، گالی دینی نہیں ہے گالی سہنی ہے، ظلم کرنانہیں ہے ظلم سہناہے، کسی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنی نہیں ہیں ر کاوٹیں برداشت کرنی ہیں، جب یہ عزم کر لیں گے تو پھر اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو گی۔ ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں، بندوں کے لیے تھوڑا ہی کرتے ہیں!
﴿فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۷﴾﴾
یہ جو فرمایا کہ جب ان کے صحن میں عذاب اترتا ہے تو پھر دیکھو کس قدر برا انجام ہوتا ہے ڈرائے جانے والے کفار کی صبح کا۔
یہ عرب کا ایک محاورہ ہے۔ محاوراتِ عرب میں ایسے لفظ استعمال کیے جاتے تھے اور عرب کا معمول تھا کہ جب بھی حملہ کرنا ہوتا تو رات کو انتظار کرتے اور اچانک صبح حملہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی معمول تھا کہ اگر کسی دشمن کے خطے میں رات کے وقت پہنچتے تو حملہ کےلیے صبح تک کا انتظار فرماتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر پر حملہ کیا تو فرمایا:
اَللّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ﴿فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ﴾
صحیح البخاری، رقم: 371
یہ جملے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم اپنی مبارک زبان سے خود پڑھ رہے تھے۔
تنزیہ باری تعالیٰ:
﴿سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۱۸۰﴾ۚ وَ سَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۸۱﴾ۚ وَ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۸۲﴾٪﴾
تمہارا رب جو عزت والا ہے ان باتوں سے پاک ہے جو مشرکین بیان کرتے تھے، اور سلامتی ہو تمام رسولوں پر اور تمام تعریفیں رب العالمین کے لیے ہیں۔
مشرکین نے الزامات لگائے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تو فرمایا :
﴿سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴾
اللہ پاک ہے، اور انبیاء علیہم السلام کا ذکر کیا کہ لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو نہیں مانا تو فرمایا:
﴿وَ سَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴾
سلامتی ہے انبیاء علیہم السلام پر۔ مشرک لوگ شرک کا ارتکاب کرتے تھے، فرمایا:
﴿وَ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴾
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اللہ شرک کو پسند نہیں فرماتا اللہ توحید کو پسند فرماتا ہے۔
اور علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر قرطبی میں صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی بار سنا کہ آپ نماز ختم ہونے کے بعد یہ آیات تلاوت فرماتے تھے:
﴿سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۱۸۰﴾ۚ وَ سَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۸۱﴾ۚ وَ الۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۸۲﴾٪﴾
حضور صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ فرماتے یا اونچی آواز سے؟! سننا تب ہی ہو گا جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آیاتِ مذکورہ کی تلاوت جہراً فرمائی ہو گی۔ اس لیے جہر کا رد نہ کرو، آپ کا ذوق نہیں تو آپ جہراً دعائیں نہ کریں لیکن دوسروں کا رد نہ کریں اور میں یہ بات اکثر عر ض کیا کرتا ہوں کہ اپنے ذوق کو شریعت بنا کر مسلط نہ کریں! اپنے مزاج کو شریعت بنا کر دوسروں کی تردید نہ کریں، تھوڑی سی ہمت اور حوصلے سےکام لے لیا کریں۔ اللہ ہم سب کو قبول فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․