سورۃ المؤمن

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ المؤمن
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾﴾
فضائل سورت:
سورۃ المؤمن، حٰم السجدۃ، الشوریٰ، الزخرف، الدخان، الجاثیۃ اور الاحقاف یہ سات سورتیں قرآن کریم کی وہ ہیں جو حٰم سے شروع ہو رہی ہیں، انہیں حوامیم اور آل حٰم بھی کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سات سورتیں قرآن کریم کی زینت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنا مکان بنانا چاہے اور پھر باہر جگہ تلاش کرے کہ میں مکان بناؤں، اس کو ایسا میدان ملے جو سرسبز ہو تو اس کا جی چاہتا ہے کہ میں یہاں مکان بنا لوں۔ پھر وہ تھوڑا سا مزید آگے جائے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس سے بھی بہترین جگہ موجود ہے جنہیں روضات کہا جائے۔ تو وہ سوچتا ہے کہ وہ جو میدان تھا میں تو اس کے سبزے اور ہریالی کو دیکھ کر تعجب کر رہا تھا اور یہ میدان تو اس سے بھی زیادہ حسین اور سرسبز ہے۔ تو وہ اس جگہ کا انتخاب کرتا ہے جو پہلی سے بھی بہتر تھی۔ تو فرمایا کہ پورا قرآن کریم ایسے ہے جیسے پہلے والا سرسبز میدان ہو اور حوامیم جو سات سورتیں ہیں یہ ایسے ہیں جیسے اس میدان سے آگے والا میدان ہو جنہیں روضات کہتے ہیں۔
اس سورت کی پہلی تین آیات مصیبت سے بچنے کے لیے پڑھنا ثابت ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص شروع دن میں آیۃ الکرسی اور سورۃ مؤمن کی پہلی تین آیات پڑھ لے- حٰم سے لے کر
﴿اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ﴾
تک- تو وہ دن بھر کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہے گا۔
مشکل وقت اور بطور ِخاص جب مخالف دشمن حملہ کرے، آپ پر چھاپہ مارے تو اس وقت
”حٰمۗ لَا یُنْصَرُوْنَ“
پڑھیں۔ اللہ رب العزت مدد فرماتے ہیں۔
اللہ کی صفات کا بیان:
اس آیت میں اللہ رب العزت کی صفات بیان فرمائی ہیں: ”الْعَزِيزِ“ عزیز ہیں، غالب ہیں،
”الْعَلِيْمِ“
صاحبِ علم ہیں،
”غَافِرِ الذَّنْۢبِ“
گناہوں کو معاف فرمانے والے ہیں،
”قَابِلِ التَّوْبِ“
توبہ قبول فرمانے والے ہیں،
”شَدِیْدِ الْعِقَابِ“
سخت سزا دینے والے ہیں،
”ذِی الطَّوْلِ“
طاقت والے ہیں۔
لفظ غافر یہ غُفْرَان سے ہے، غفران کا اصل معنی ہے ڈھانپ لینا چونکہ جب انسان کے گناہ معاف ہو جائیں تو اس کا گناہ چھپ جاتا ہے، اس لیے گناہ کی معافی کو غفران سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اصل لغوی معنی ذہن میں ہو تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات پر ایک اعتراض ہے وہ اس سے ختم ہو جائے گا۔ آگے ایک جگہ آئے گا تو میں وہاں پہنچ کر بات کروں گا ان شاء اللہ۔
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللہِ اَکۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَی الۡاِیۡمَانِ فَتَکۡفُرُوۡنَ ﴿۱۰﴾﴾
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ آج تم جس قدر اپنے آپ سے بیزار ہو رہے ہو اللہ اس سے بھی کہیں زیادہ بیزار ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم انکار کر دیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ بیزار ہونے کی صفت سے پاک ہے، اللہ میں صفتِ انفعال نہیں ہے لیکن یہ تعبیر صرف سمجھانے کے لیے ہے کہ جس طرح بندہ تکلیف محسوس کرتا ہے تو یوں سمجھو کہ اللہ کو بھی یوں تکلیف محسوس ہوتی ہے جب بندہ کفر اختیار کرتا ہے۔
دو موتیں اور دو زندگیاں:
﴿قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿۱۱﴾﴾
قیامت کے دن کفار کہیں گے: اے ہمارے رب! دو مرتبہ آپ نے ہمیں موت دی تھی اور دو مرتبہ آپ نے ہمیں زندگی دی تھی، ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، کیا اب واپس جانے کی کوئی صورت ہے؟ اللہ فرمائیں گے کہ واپسی کے دروازے بند ہیں، اب تم واپس نہیں جا سکتے۔
یہاں یہ بات سمجھیں کہ ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے انسان بے جان مادہ تھا اسے پہلی موت کہتے ہیں۔ روح پھونکی جاتی ہے تو بندے کو حیات مل جاتی ہے، پھر بندہ دنیا میں آتا ہے۔ پھر دنیا میں اس کو موت مل جاتی ہے۔ پھر یہ قبر کے پیٹ میں چلا جاتا ہے، پھر اسے حیات مل جاتی ہے اور پھر اس پر موت آتی ہے اور پھر حشر کے دن زندہ ہو جاتا ہے۔ اب یوں دیکھیں تو تین موتیں اور تین حیاتیں بن جاتی ہیں:
1 : ماں کے پیٹ والی موت، پھر ماں کے پیٹ والی حیات۔
2: پھر دنیا والی موت اور برزخ والی حیات۔
3: پھر حشروالی موت اور اس کے بعد پھر حشر کی حیات۔
اور قرآن کریم سے بظاہر معلوم ہو رہا ہے کہ موت بھی دو ہیں اور حیات بھی دو ہیں اور یہی آیت بطور استدلال کے ہمارے خلاف پیش کی جاتی ہے کہ قبر کی حیات، حیات نہیں ہے۔ اگر قبر کی حیات کو حیات مانو گے تو پھر حیاتیں تین ماننی پڑیں گی، کیوں؟ کہ اس کے بعد پھر حشر کی موت بھی ماننی پڑے گی تو تین ہوجائیں گی۔تو قرآن کہتا ہے کہ دو موتیں ہیں اور تم کہتے ہو کہ تین موتیں ہیں، قرآن کہتا ہے کہ دو حیاتیں ہیں اور تم کہتے ہو کہ تین حیاتیں ہیں۔
اس کا جواب سمجھ لیں! ایک ہے ظاہر ی موت اور ایک ہے ظاہری حیات، اور ایک وہ حیات ہے جو ظاہری نہیں ہے بلکہ چھپی ہوئی ہے، یہ جو موت کے بعد سے لے کر حشر تک کی حیات ہے یہ حیات برزخ کی حیات ہے جو نظر نہیں آتی،یہ مخفی حیات ہے، اس لیے اس حیات کو یہاں ذکر نہیں کیا۔ یہاں ظاہری حیات کا ذکر ہے، ظاہری حیاتیں دو ہیں؛ ایک دنیا میں اور ایک حشر میں، یہ جو درمیان میں برزخ کی حیات ہے یہ پردے میں ہے، اس لیے یہ ظاہری حیات نہیں ہے ورنہ حیات اب بھی موجود ہے۔ اس حیات کا انکار اس لیے نہیں کر سکتے کہ اس پر نصوص موجود ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ﴾
ابراہیم14: 27
یہاں
﴿وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ﴾
سے مراد قبر ہے کہ اللہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتے ہیں قبر میں۔
صحیح مسلم، رقم: 2871
اگر قبر میں حیات ہے ہی نہیں تو ثابت قدم رکھنے کا کیامعنی؟ تو اس آیت کریمہ اور بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ قبر میں حیات ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک حیات ظاہری ہے اور ایک حیات مخفی ہے۔ اس آیت میں حیات سے مراد وہ حیات ہے جو بالکل ظاہری ہے، جو ہر کسی کو نظر بھی آتی ہے۔ اب دنیا میں کافر کی بھی حیات ہے، مؤمن کی بھی حیات ہے اور دونوں کی حیات نظر بھی آ رہی ہے، جب انسان مرتا ہے تو اس کی موت بھی نظر آ رہی ہے۔ سورۃ الزمر کی اس آیت :
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ﴾
الزمر40: 68
کی تشریح میں یہ بات کی جا چکی ہے کہ قیامت کے دن جو لو گ زندہ ہوں گے ان پر موت طاری ہو گی اور باقی پر غشی طاری ہو گی۔ اب ایک بندہ قبر کی حیات کے ساتھ زندہ تھا، اب وہ دوبارہ کیسے زندہ ہو گا اس کو تو پہلے سے حیات ملی ہوئی ہے! اصل میں قبر کی یہ حیا ت مخفی ہے، اب اس کو حیات ظاہری ملنی ہے تو قبر کی اس مخفی حیات پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی اور بعد میں اس کی بے ہوشی ختم ہو گا اور وہ کھڑا ہو جائے گا۔
یہ بالکل ایسا ہے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سے پہلا وہ بندہ جو بے ہوشی سے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔
صحیح البخاری، رقم: 4813
اب اس کا معنی یہ ہے کہ وہاں صرف بے ہوشی کی کیفیت ہو گی، یہ نہیں ہو گا کہ حیات کے بعد موت ہو گی۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے جملہ سے بعض الناس کے استدلال کا جواب:
بعض لوگ قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ جس میں حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾﴾
مریم19: 15
یہ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے موت ہے اور پھر حیات ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ یہاں پر ایک ہے ”حال“ اور ایک ہے ”ذو الحال“۔ ذو الحال اور حال کا زمانہ ایک ہوتا ہے، ان دونوں کے زمانوں میں فرق نہیں ہوتا، الجھن یہاں سے ہوتی ہے کہ جب ہم ان دونوں کے زمانوں میں فرق کر لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾﴾
حضرت یحییٰ علیہ السلام پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوئے، جس دن انہیں موت آئے گی اور جس دن زندہ ہوں گے۔
تو لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! یہاں پہلے موت ہے اور پھر جب بعثت ہو گی تو حیات ہو گی․․․ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا﴾
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اٹھیں گے اور پھر زندگی ملے گی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حال میں اٹھیں گے کہ زندہ ہوں گے۔
﴿یُبۡعَثُ﴾
میں
”ہُوَ“
ضمیر ذو الحال ہے اور
﴿حَیًّا﴾
اس سے حال ہے، ذوالحال اور حال کا زمانہ ایک ہوتا ہے۔ مثلاً آپ کہتے ہیں
”جَاءَنِیْ زَیْدٌ رَاکِبًا“
کہ زید میرے پاس سوار ہو کر آیا۔ تو اس کا کیا مطلب کہ وہ سوار ہونے کی حالت میں مدرسہ میں داخل ہوا یا پہلے پیدل تھا اور جب مدرسے میں داخل ہوا تو سوار ہوا؟ پہلے سے سوار تھا۔ اسی طرح
﴿یُبۡعَثُ حَیًّا﴾
ہے کہ قیامت کے دن انہیں زندہ حالت میں اٹھایا جائے گا۔یعنی پہلے سے زندہ ہیں اور اسی حالت میں اٹھیں گے۔ اس لیے یہاں تو صاف ان کی حیات سمجھ آ رہی ہے اورحیات بھی کون سی ہے؟ قبر والی ہے۔
﴿وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ﴾ ․․․
جب پیدا ہوئے -یہ ماضی ہے- تب بھی سلامتی
﴿وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ﴾ ․․․
جب موت آئے گی تب بھی سلامتی
﴿وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا﴾ ․․․
جب انہیں زندہ حالت میں اٹھایا جائے گا تب بھی سلامتی یہاں
”وَ یَوْمَ یُحْیٰی“
نہیں ہے بلکہ
﴿وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا﴾۔
اگر یہ فرمایا جاتا کہ
”وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُحْیٰی“
تو اب اس کامعنی ہوتا کہ ان پر سلامتی ہے جب یہ پیدا ہوئے، ان پر سلامتی ہے جب ان کو موت آئے گی اور ان پر سلامتی ہے جب یہ زندہ ہوں گے لیکن یہاں
وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا
ہے اور
”يُبْعَثُ“
کی قید
”حَيًّا“
بنا دی، اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعثت اور حیات اکٹھی ہوں گی۔
تو قرآن کریم کی آیت سے صاف صاف معلوم ہو رہا ہے کہ قبر کی حیات ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ حیات ایسی ہے جو عام بندے کو نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہاں ظاہری دو موتیں اور ظاہری دو حیاتیں ہیں۔
فرعون کے مظالم:
﴿فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡحَقِّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوا اقۡتُلُوۡۤا اَبۡنَآءَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ وَ اسۡتَحۡیُوۡا نِسَآءَہُمۡ ؕ وَ مَا کَیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۲۵﴾﴾
جب فرعون کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو میری حکومت ختم کرے گا تو اس نے اپنے اراکین سے مشورہ کیا، اس کے اصحابِ شوریٰ نے کہا کہ جو بچہ بنی اسرائیل میں پیدا ہو آپ اس کو قتل کر دیں۔ بچے قتل ہوتے رہے۔ جب کچھ عرصہ ایسے گزرا تو پھر انہوں نے مشورہ کیا کہ اگر سارے بنی اسرائیلی مرد قتل ہو گئے تو مشکل ہو جائے گی، ہماری خدمت کون کرے گا؟ مشورہ یہ ہوا کہ بچوں کو ایک سال قتل کریں اور ایک سال زندہ رکھیں۔ تو جس سال بچوں کو زندہ رکھنا تھا اس سال حضرت ہارون علیہ السلام پید اہوئے اور جس سال بچوں کو قتل کرنا تھا اس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام پید اہوئے۔ اللہ نے ان دونوں کو نبوت عطا فرمائی۔
جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بچے قتل کرو تو ساتھ یہ بھی تھا کہ بچیاں زندہ رکھو۔ اب یہاں جو فرمایا:
﴿اقۡتُلُوۡۤا اَبۡنَآءَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ وَ اسۡتَحۡیُوۡا نِسَآءَہُمۡ﴾
تو اس میں نساء یہ ابناء کے مقابلے میں ہے۔ اگر ابناء سے مراد بڑے لوگ ہیں جو بالغ ہیں تو نساء سے مراد بالغ عورتیں ہوں گی اور اگر ابناء سے مراد چھوٹے بچے ہیں تو نساء سے مراد بچیاں ہوں گی۔ اب فرعونی جو قتل کر رہے تھے تو وہ پیدا ہوتے ہی قتل کر رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نساء سے مراد وہی بچیاں ہیں جو نابالغ ہوتی تھیں، ان کو چھوڑ دیا جاتا اور ابناء کو قتل کر دیا جاتا۔ تو قرآن کریم کی اس آیت سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح نساء بالغ عورت کو کہتے ہیں اسی طرح نساء نابالغ بچی کو بھی کہتے ہیں۔
احمد سعید ملتانی کے اعتراض کا جواب:
یہ بات میں نے کیوں کہی ہے؟ آپ کے علم میں ہے کہ احمد سعید چتروڑی نے کتاب لکھی ہے ”قرآن مقدس اور بخاری محدث“ اس کتاب میں اس نے صحیح بخاری کی 53 احادیث پیش کی ہیں اور کہا ہے کہ یہ احادیث العیاذ باللہ قرآن کریم کے خلاف ہیں۔ ان میں ایک حدیث یہ ہے کہ ام المؤمنین امی عائشہ صدیقہ کا جب نکاح ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ یا سات سال تھی، جب رخصتی ہوئی تو عمر نو سال تھی۔ تو اس نے کہا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن کریم میں ہے :
﴿فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ﴾
النساء35: 3
کہ شادی نساء سے کرو اور نساء کہتے ہیں بالغہ کو اور حضرت عائشہ نکاح اور رخصتی کے وقت نابالغ ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ بخاری کی روایت ٹھیک نہیں ہے، قرآن کے خلاف ہے۔
میں نے کہا: بخاری کی روایت قرآن کے خلاف تب ثابت ہو گی جب نساء کا معنی بالغ عورت ہو اور اگر قرآن بالغ کو بھی نساء کہہ دے اور نا بالغ کو بھی نساء کہہ دے تو پھر بخاری کی یہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن کریم میں نساء بالغ کو بھی کہا گیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ﴾
الاحزاب 33: 59
اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور ایمان والی عورتوں سے فرمائیں کہ پردہ کریں۔
تو قرآن بالغ عورت کو بھی نساء کہتا ہے اور یہاں اس سورت میں ہے:
﴿قَالُوا اقۡتُلُوۡۤا اَبۡنَآءَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ وَ اسۡتَحۡیُوۡا نِسَآءَہُمۡ﴾
تو قرآن نا بالغ کو بھی نساء کہتا ہے۔ جب قرآن کریم نا بالغ کو نساء کہہ رہا ہے تو پھر بخاری شریف قرآن کے خلاف کیسے ہوئی؟ میں اس لیے کہتا ہوں کہ پورے قرآن پر نظر نہیں ہوتی تو لوگ بعض احادیث کو قرآن کے خلاف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رجل مؤمن کی تقریر:
﴿وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ﴾
فرعون؛ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو العیاذ باللہ قتل کرنا چاہتا تھا تو فرعون ہی کے خاندان کا ایک بندہ مؤمن اٹھا جس نے اپنا ایمان چھپایا ہوا تھا، اس نے فرعون اور آل فرعون کو سمجھایا۔ یہ شخص کون تھا؟ بہت سارے مفسرین فرماتے ہیں کہ ان کا نام شمعان تھا اوربعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ ان کا نام حزقیل تھا اور یہ فرعون کے چچا کا بیٹا تھا۔
اس رجل مؤمن نے کہا: کیا تم ایسے بندے کو قتل کرنا چاہتے ہو جو فرما رہے ہیں کہ میرا رب اللہ ہے! اور وہ اپنے رب کی طرف سے واضح دلائل لے کر بھی آئے ہیں۔ اگر یہ جھوٹ بولتے ہیں تو جھوٹ کا وبال خود انہی کو پہنچے گا اور اگر یہ سچ بولتے ہیں تو جس چیز سے یہ تمہیں ڈرا رہے ہیں اس کا وبال تمہیں ضرور پہنچے گا۔ اس لیے بہترہے کہ تم موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہ کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدیقین دنیا میں بہت کم ہوئے ہیں، ایک ان میں یہ تھا
﴿رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ﴾
اور ایک
﴿وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی﴾
یٰسین 36: 20
حبیب نجار تھا اور ایک حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدیق اکبر ان سب سے افضل ہیں۔
اس سے آپ کو شبہ ہو گا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیق بہت کم ہیں جبکہ قرآن کریم میں ہے:
﴿اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ﴾
النساء 4: 69
کہ صدیق تو بہت ہیں، اور خود امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ ستر صدیقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پانی پینے سے نیند بہت آتی ہے۔ تو امام غزالی رحمہ اللہ تو ستر صدیقین کہہ رہے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ صدیق کا وہ مقام جہاں تک کوئی کوئی پہنچتا ہے یہ صدیق بہت کم ہوتے ہیں جو عکسِ نبوت کی طرح ہوتے ہیں، اور ایسے صدیق کہ جن کا قول؛ فعل کے مطابق ہو تو یہ امت میں بہت ہوتے ہیں۔
منکرین رسالت کی شرارت:
﴿وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَکُمۡ بِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا﴾
اس سے پہلے یوسف علیہ السلام تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آئے لیکن تم ان کی لائی ہوئی تعلیمات میں شک کرتے رہے، جب یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے تو تم نے کہا کہ ان کے بعد اللہ کسی نبی کو نہیں بھیجے گا!
یہ ان لوگوں نے بطورِ شرارت کہا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یوسف اللہ کے نبی نہیں تھے اور اگر بالفرض وہ نبی بھی تھے تو اللہ کو ان کے بعد نبی بھیجنے کی ضرورت کیا ہے؟! کیونکہ جب ان کی نہیں مانی تو کسی اور کی بھی نہیں مانیں گے اس لیے اللہ ان کے بعد کوئی اور نبی کیوں بھیجیں گے!
لغات کی تبدیلی سے معانی کی تبدیلی:
یہاں اس لفظ
﴿حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ﴾
کو سمجھیں۔ یوسف علیہ السلام فوت ہوئے، آپ کی وفات ہوئی لیکن قرآن کہتا ہے
”هَلَكَ“
کہ ہلاک ہوئے۔ یہاں بات صرف یہ سمجھنی ہے کہ ہرزبان کے اپنے الفاظ اور اپنے معانی ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک لفظ کا جو معنی ہمارے ہاں ہے وہی لفظ عربی میں ہو تو اس کا وہی معنی ہوگا بلکہ وہی لفظ اگر اہلِ عرب استعمال کریں گے تو اس کا معنی الگ ہو گا اور وہی لفظ ہم استعمال کریں گے تو اس کا معنی الگ ہو گا۔ ہمارے ہاں ”ہلاک“ کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ ”فلاں شخص ہلاک ہو گیا“ کہیں تو یہ اچھا لفظ شمار نہیں ہوتا اور عربی میں ہلاک دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں ہلاک کا معنی ہے ختم ہونا خواہ صحیح طریقے سے ہو خواہ غلط طریقے سے ہو، عزت کے ساتھ ہو یا ذلت کے ساتھ ہو، اور اردو میں ہلاک کا معنی عزت کے ساتھ نہیں بلکہ ذلت کے ساتھ ہوتا ہے، کہتے ہیں نا کہ فلاں ہلاک ہو گیا۔ تو اب یوسف علیہ السلام کے لیے قرآن کریم
﴿حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ﴾
لفظ استعمال کر رہا ہے لیکن ان کا دنیا سے جانا عزت کے ساتھ تھا۔ معلوم ہوا کہ ہلاک عربی میں ہو تو معنی اور ہوتا ہے اردو میں ہو تو معنی اور ہوتا ہے۔ اب دیکھیں! قرآن مجید میں ہے:
﴿وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾﴾
الضحیٰ 93: 7
اردو میں ضال کا معنی ٹھیک نہیں ہوتا، گمراہ کو اردو میں ضال کہتے ہیں اور عربی میں ضال کا معنی ہمیشہ گمراہ نہیں ہوتا۔ ایک چیز کسی کے سامنے نہ ہو اسے کہتے ہیں ضال اور اس کو چیز مل جائے تو اسے کہتے ہیں مہدی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعلانِ نبوت سے قبل غارِ حراء میں جاتے اور متفکر ہوتے کہ میں اس امت کو شرک سے کیسے بچاؤں؟ اس امت کو زنا سے کیسے بچاؤں؟ اس امت کو ناحق قتل سے کیسے بچاؤں؟ میں انسان کو انسانیت پر کیسے لاؤں؟ اس پر آپ بہت پریشان ہوتے لیکن راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ میں کیسے کام کروں کہ یہ راہِ راست پر آ جائیں۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا﴾
کہ آپ کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا
﴿فَہَدٰی﴾
تو ہم نے آپ کو راہ دکھا دی۔
میں اس لیے بار بار زور دیتا ہوں قرآن فہمی پر کہ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ اللہ یہاں کیا فرمانا چاہتے ہیں تو پھر آگے بات سمجھانی آسان ہو جاتی ہے۔
جب یہ مفہوم ذہن میں ہو گا توضالاً کا ترجمہ کرنا بہت آسان ہے اور جب یہ مفہوم ذہن میں نہیں ہو گا تو پھر ضالاً کا ترجمہ کرنا بہت مشکل ہے۔ لفظوں کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ عربی میں اس لفظ کا مطلب کیا ہے اور ہمارے ہاں اس لفظ کا مطلب کیاہے؟
”اَصْغَرُ عُضْوًا“ کا معنی:
شاید آپ کے سامنے عبارات پر بات آ چکی ہے، میں کئی بار عبارات سمجھاتا رہتا ہوں اور اس میں فقہ کی عبارتیں بھی پیش کیا کرتا ہوں کہ کس طرح غیر مقلد ان عبارات کا غلط مطلب بیان کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ فقہ حنفی میں لکھا ہوا ہے کہ امام اس کو بناؤ
”اَصْغَرُ عُضُوًا “
کہ جس کا عضو چھوٹا ہو۔ غیر مقلدین کہتے ہیں کہ امام بنائیں گے یا اس کو چیک کریں گے؟ پتا کیسے چلے گا کہ اس کا عضو چھوٹا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ان کو یہ غلط فہمی کہاں سے ہوئی؟ اصل میں
”اَصْغَرُ عُضُوًا “
یہ عربی محاورہ ہے جس کا اپنا ایک معنی ہے، اس کا معنی ہوتا ہے پاک دامن۔ تو ہم پاک دامن کہہ دیتے ہیں اور وہ
”اَصْغَرُ عُضُوًا “
کہہ دیتے ہیں۔ اب جو معنی عرب لیتے ہیں وہی معنی ہم بھی لیں گے تو مطلب ٹھیک نکلے گا۔ اب غیر مقلدین نے لفظ تو عربی کا لیا لیکن معنی اردو کے محاورے کا فٹ کیا تو مطلب غلط ہو گیا۔ اس لیے اگر جملہ عربی زبان کا ہو اور ترجمہ بھی عربی زبان کے محاورے کے مطابق ہو تو کبھی بھی الجھن پیدا نہیں ہوتی۔
عذابِ قبر کا ثبوت:
﴿فَوَقٰىہُ اللہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوۡا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ﴿ۚ۴۵﴾ اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ ﴿۴۶﴾﴾
اللہ نے اس مرد مؤمن کو ان فرعونیوں کی بری چالوں سے بچا لیا اور فرعونیوں کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ آگ ہے جس کے سامنے فرعونیوں کو صبح وشام پیش کیا جاتا ہے اور جب قیامت قائم ہوگی تو اس دن حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کر دو۔
یہاں فرعونیوں کے لیے اللہ نے تین قسم کے عذاب کا ذکر کیا؛ ایک عذاب دنیا کا، ایک عذاب قبر کا اور ایک عذاب آخرت کا، اور لفظ تینوں کے لیے الگ الگ لائے ہیں۔
[ 1]: ﴿وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ﴾
آلِ فرعون کو درد ناک عذاب نے گھیر لیا۔
[2]: ﴿اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا﴾
صبح وشام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے، برزخ اور قبر میں۔
[3]: ﴿وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ﴾
قیامت کا دن ہو گا تو حکم ہو گا کہ فرعونیوں کو سخت عذاب یعنی جہنم میں داخل کر دو۔
تین عذاب تھے تو لفظ تینوں کے لیے الگ الگ لائے۔ دنیا کے لیے الگ، برزخ کے لیے الگ اور آخرت کے لیے الگ۔ چونکہ تینوں عذابوں کی نوعیت الگ الگ ہے اس لیے لفظ الگ الگ لائے ہیں۔
دنیا کا عذاب کیا تھا؟
﴿وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ﴾
کہ کبھی عذاب جوں کا ہے، کبھی عذاب مینڈکوں کا ہے، کبھی عذاب خون کا ہے، کبھی عذاب ٹڈیوں کا ہے اور آخری عذاب یہ تھا کہ جب فرعونی سمندر کے قریب گئے، بنی اسرائیل تو گزر گئے لیکن یہ راستے میں پھنس گئے اور پانی نے ان کو ختم کر دیا۔ یہ دنیا کا عذاب تھا، سب کو عذاب نے اپنے اندر لے لیا، کوئی اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکا۔
اور جب برزخ کے عذاب کی باری آئی فرمایا:
﴿اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا﴾
آلِ فرعون کی روحیں کہاں ہیں؟
یہاں آپ دو روایتیں سمجھیں! ایک روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہے جو تفسیر عبد الرزاق میں بھی ہے اور تفسیر مظہری میں بھی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
آلِ فرعون کی جو روحیں ہیں یہ کالے رنگ کے پرندوں کے پیٹوں میں لا کر صبح وشام جہنم پر پیش کی جاتی ہیں، ان کو جہنم پر لے آتے ہیں پھر ان کو دکھاتے ہیں یہ تمہارا ٹھکانا ہے۔
تفسیر عبد الرزاق: ج3 ص147، التفسیر المظہری: ج 8ص261
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کے بعد انسان کو صبح و شام وہ مقام دکھایا جاتا ہے جہاں اس نے قیامت کے حساب کتاب کے بعد پہنچنا ہے۔ جو شخص مؤمن ہے تو اس کواس کا ٹھکانا جنت دکھایا جاتا ہے کہ حساب کے بعد تم نے یہاں جانا ہے اور اگر وہ شخص کافر ہو تو اسے اس کا ٹھکانا جہنم دکھایا جاتا ہے کہ حساب کے بعد تمہیں یہاں بھیجنا ہے۔
صحیح البخاری، رقم: 3240
اب بعض لوگ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت لیتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت کو چھوڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں عذاب روح کو ہوتا ہے کیونکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عالم برزخ میں فرعونیوں کی روحیں جو کالے رنگ کے پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں ان کو جہنم دکھائی جاتی ہے۔
میں نے کہا کہ صرف ایک روایت کو نہ دیکھو بلکہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت بھی دیکھو کہ مؤمنین کو ان کا ٹھکانا جنت اور کفار کو ان کا ٹھکانا جہنم دکھایا جاتا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں روح کو عذاب دکھایا جاتا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جسم کو دکھایا جاتا ہے کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے۔
ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا موقف یہ ہے کہ موت کے بعد اصلاً ثواب اور عذاب روح کو ہوتا ہے اور روح کے واسطہ سے جسم کو ہوتا ہے۔ اب یہ دونوں روایتیں جمع ہو جائیں گی کہ نہ ثواب وعذاب صرف روح کو ہے اور نہ صرف جسم کو ہے بلکہ روح اور جسم دونوں کو ہے۔ مؤمنین کی ارواح علیین میں چلی جاتی ہیں تو روح کا تعلق جسم کے ساتھ رہتا ہے، کفار کی ارواح سجین میں چلی جاتی ہیں تو بھی روح کا تعلق جسم کے ساتھ رہتا ہے۔ جسم قبر میں رہ کر جو اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے یہ روح کے تعلق سے دیکھتا ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ثواب وعذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے۔ اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ حدیث پاک میں ہے کہ اگر قبر میں مؤمن ہو تو ایک فرشتہ آسمان سے اعلان کرتاہے کہ اللہ فرما رہے ہیں
”أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِىْ “
کہ میرے بندے نے سوالوں کا صحیح جواب دیا ہے،
”فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ“
اس کو جنت کا بچھونا دو!
”وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ“
اس کو جنت کا لباس دے دو!،
”وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ“
جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو!،
”فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا“
جنت اپنی جگہ پر رہتی ہے اور میت اپنی جگہ پر۔ جنت سے خوشبو اور ہوا آتی ہے۔
مؤمن جنت میں داخل نہیں ہو رہا بلکہ اپنی قبر میں ہے، اس پر جنت کھلتی ہے۔ اسے کہتے ہیں؛ عرضِ جنت۔
قبر میں اگر کافر ہے تو اعلان ہوتا ہے
”أَنْ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ“
کہ اس بندے نے جھوٹ بولا ہے، اس کو جہنم کا بچھونا دو، جہنم کا لباس دو،
”وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ“
جہنم کی طرف والا دروازہ کھول دو،
”فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا“
پھر جہنم کی گرمی اور لو اس کی قبر میں آتی ہے۔
سنن ابی داؤد، رقم: 4755
تو کافر جہنم میں داخل نہیں ہو رہا بلکہ اپنی قبر میں ہے اور اس پر جہنم کھلتی ہے۔ اسے کہتے ہیں؛ عرضِ نار، اور ﴿
اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا﴾
میں یہی عرضِ نار مراد ہے۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ثواب وعذابِ قبر بھی ہے اور اس کی نوعیت عرضِ جنت اور عرضِ نار کی ہے اور ثوابِ جنت اور عذابِ جہنم بھی ہے اور اس کی نوعیت دخولِ جنت اور دخولِ جہنم کی ہے۔ بس یہ ہے اصل معاملہ، اس کو سمجھنا ضروری ہے۔
انبیاء و مؤمنین کی مدد:
﴿اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙ۵۱﴾﴾
ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی اور قیامت کے دن بھی۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فاتحِ مکہ بنے، موسیٰ علیہ السلام بچ گئے اور فرعون ہلاک ہو گیا لیکن کتنے انبیاء ایسے ہیں کہ جو شہید ہو گئے تو سوال یہ ہے کہ ان کی مدد کیسے ہے؟ کتنے مؤمن ایسے ہیں جو زندگی جیل میں گزارتے ہیں اور ان کا جنازہ وہیں سے اٹھتا ہے۔ ان کی مدد پھر کیسے ہوئی؟
اس کا ایک جواب علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ یہاں ”نصر“ کا معنی انتصار اور انتقام ہے یعنی اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایمان والوں کا اور نبیوں کا بدلہ لیتے ہیں۔ جب کوئی ظالم؛ کسی مؤمن یا کسی نبی پہ ظلم کرتا ہے تو اللہ اس ظلم کا بدلہ ان ظالموں کو دنیا میں دیتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی قبیلہ کے حلیف ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جب مشکل وقت آن پڑا تو ہم آپ کی مدد کریں گے اور وہ قبیلہ بھی کہتا ہے کہ ہم بھی مشکل وقت میں آپ کی مدد کریں گے۔ دونوں کا معاہدہ ہو گیا۔ دشمن نے اچانک آپ کے حلیف قبیلے پر حملہ کر دیا اور ان کے کچھ بندے قتل کر دیے اور کچھ بندے قید کر لیے۔ اب آپ کے مدد کرنے کا مطلب کیا ہے کہ جو مر چکے تھے ان کو زندہ کریں گے؟ اب مدد کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارا بدلہ لیں گے۔
اسی طرح اگر کوئی بندہ قتل ہو جائے اور اس کا بیٹا رو رہا ہو کہ میرا باپ قتل ہوگیا ہے، بیٹی رو رہی ہے کہ میرا باپ قتل ہو گیا، بیوی رو رہی ہے کہ میرا شوہر قتل ہو گیا، ماں رو رہی ہے کہ میرا بیٹا قتل ہو گیا۔ اس مقتول کے ورثاء کی مدد یہ ہے کہ قاتل کو سزا دو۔ اب یہ ورثاء کہیں گے کہ اس نے بدلہ دلوا کر ہماری مدد کی ہے۔
مدد کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب آپ کے بیٹے پر کوئی بندہ حملہ کرے تو کوئی آپ کے بیٹے کو بچا لے، یہ بھی مدد ہے اور بیٹا قتل ہو جائے اور بیٹے کا بدلہ لے دیں تو یہ بھی مدد ہے۔ اللہ رب العزت کبھی ایمان والوں اور نبیوں کی مدد یوں کرتے ہیں کہ ان کے دشمن کو ختم کر دیتے ہیں اور نبی اور ایمان والے کو بچا لیتے ہیں اور کبھی مدد یوں کرتے ہیں کہ نبی اور ایمان والا شہید ہوجاتا ہے اور اللہ ان کا بدلہ خود لیتے ہیں۔ جب یہ بات ذہن میں ہو گی تو پھر الجھنیں نہیں رہتیں۔
اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں
﴿لَنَنۡصُرُ ﴾
سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں دلیل کےساتھ یعنی مؤمن اور نبی کا جو مخالف ہے وہ طاقت میں غالب آ بھی جائے تو دنیا دار الامتحان ہے، دارا لابتلاء ہے لیکن دلیل کے درجے میں نبی اور مؤمن پر کوئی غالب نہیں ہو سکتا۔ تو ہم قوتِ دلیل سے ان کی مدد فرماتے ہیں، یہ تھوڑے ہو کر بھی زیادہ نظر آتے ہیں، یہ کم ہو کر بھی غالب نظر آتے ہیں لیکن غالب بالدلیل ہوتے ہیں۔
نبی کی طرف ”ذنب“ کی نسبت کا معنی:
﴿فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللہِ حَقٌّ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ ﴿۵۵﴾﴾
آپ صبر کریں، بے شک اللہ کا وعدہ حق اور سچ ہے اور آپ اللہ سےمعافی مانگیں اپنے ان معاملا ت کی جو آپ کی شان کے لائق نہیں تھے اور صبح وشام اللہ کی تسبیح اور تحمید کریں۔
اب اس آیت سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس میں ذنب کی نسبت نبی کی طرف ہے۔ اور ذنب عام طور پر گناہ کو کہتے ہیں۔
اس کے کئی جوابات ہیں:
ذنب ایک لفظ ہے، اگر اس کی نسبت نبی کی طرف ہو جائے تو اس کا معنی اور ہوتا ہے اور جب اس کی اضافت امتی کی طرف ہو جائے تو اس کا معنی اور ہوتا ہے، معنی کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ جس طرح محبت ایک لفظ ہے، اس کی نسبت ماں کی طر ف ہو جائے تو معنی اور ہے، بیوی کی طرف ہو جائے تو معنی اور ہے، بیٹی کی طرف ہو جائے تو معنی اور ہے، بہن کی طرف ہو جائے تو معنی اور ہے۔ اب لفظ ایک ہے نسبت کے بدلنے سے معنی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ذنب ایک لفظ ہے، اس کی نسبت امت کی طرف ہو تو معنی اور ہوتا ہے اور نبی کی طرف ہو تو معنی اور ہوتا ہے۔ یہاں
﴿وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ﴾
کا معنی یہ نہیں کہ جیسے امتی گناہ کرتا ہے ایسے ہی نبی کا گناہ ہوتاہے! یہ معنی بدلتا کیسے ہے ذرا اس کو سمجھیں۔
پہلے میں مثال دیتا ہوں پھر میں بات سمجھاتا ہوں۔ آپ کے ہاں ایک مہمان آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے دودھ پینا ہے اور شیشے کے گلاس میں چاہیے۔ آپ بچے کو گھر بھیجتے ہیں دودھ لینے کے لیے، اسے ٹھوکر لگی، گلاس گرتا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے اور دودھ گر جاتا ہے۔ بچہ کہتا ہے: استاد جی! مجھے معاف کر دیں، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ آپ کہتے ہیں: تم نے جان بوجھ کر توڑا ہے؟ کہتا ہے: نہیں۔ آپ کہتے ہیں پھر غلطی کس بات کی؟ جاؤ جا کر بیٹھو اور سبق پڑھو۔ استاد جی! معاف کر دیں۔ بیٹا! چلے جاؤ کلاس میں بیٹھو۔ وہ پھر کہتا ہے: استاد جی! مجھے معاف کر دیں، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ اب مہمان آپ سے کہتا ہے کہ استاذ جی! اس کی غلطی تو نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ بڑا حساس قسم کا لڑکا ہے، آپ اسے کہہ دیں کہ میں نے معاف کیا۔ آپ کہتے ہیں کہ بیٹا! تیری غلطی تو نہیں ہے لیکن جسے تو غلطی کہتا ہے چلو میں نے معاف کیا۔ اب وہ لڑکا خوش ہوتا ہے کہ استاد جی نے معاف کر دیا۔
اسی طرح ایک کام پیغمبر کرتا ہے اور وہ گناہ نہیں ہوتا موسی علیہ السلام نے قبطی کو مکا مارا وہ مرگیا گناہ تو نہیں تھا جان بوجھ کر تھوڑا مارا لیکن موسی علیہ السلام اللہ سے کہہ رہے ہیں کہ یا اللہ میں نے مکا مارا، جان سے مارنے کی نیت نہیں تھی لیکن پھر بھی میرےمکے سے مراہے آپ مجھے معاف کردیں۔
اب اللہ نبی کے اس لفظ کو نقل کرتےہیں
﴿وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ﴾
یہ گناہ نہیں ہے لیکن جس کوآپ گناہ کہہ رہے ہیں ہم نے وہ بھی معاف کیا۔ تو ذنب ایک ہی لفظ ہے، اس کی نسبت نبی کی طرف ہو تو معنی یہ ہے کہ وہ گناہ ہوتا نہیں ہے لیکن نبی اس کو گناہ فرما رہے ہوتے ہیں اور جس ذنب کی نسبت امت کی طرف ہو تو وہ گناہ ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں میں فرق ہے۔
مغفرت سے فتح کا تعلق؟
جیسے سورۃ الفتح میں ہے :
﴿لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ﴾۔
اب یہاں ذنب کا معنی ”گناہ“کریں تو آیت میں جوڑ ہی نہیں ہو گا۔ اگر معنی یہ کریں کہ ”ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ آپ کے گناہ معاف کر دیں“ تو سوال یہ ہے کہ فتح سے گناہ کی معافی کا کیا تعلق ہے؟ ہاں یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ آپ بدلہ لیں! ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ آپ ریاست قائم کریں! ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ آپ کو عزت ملے! ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ اسلام غالب آ جائے․․․ یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن آپ کو فتح دی تاکہ گناہ معاف ہوں تو فتح اور گناہوں کی معافی کا کیا جوڑ ہے؟!
مثلاً آپ کے علاقے میں الیکشن ہوتا ہے، ایک کافر امیدوار ہے اور ایک مسلمان ہے، دونوں مقابلہ کرتے ہیں، مسلمان امیدوار ایم این اے بن جاتا ہے۔ آپ اس کے پاس پانچ کلو مٹھائی لے کر جائیں اور کہیں: مبارک ہو! آپ کے گناہ معاف ہوگئے! کیونکہ آپ جیت گئے ہیں۔تو سارے کہیں گے کہ یار تو عجیب آدمی ہے، وہ ایم این اے بن گئے اور تو کہتا ہے کہ گناہ معاف ہو گئے۔
ا س لیے ہم کہتے ہیں کہ یہاں ذنب کا معنی گناہ ہے ہی نہیں۔ یہاں ہے
﴿لِّیَغۡفِرَ ﴾
اور یہ غفران سے ہے جس کا معنی ہے ڈھانپ لینا۔ یہاں ذنب سے مراد ہے الزام اور الزام آدمی کسی کے سامنے نہیں لگاتا، ہمیشہ پشت کے پیچھے لگاتا ہے۔ ذنب عربی میں دم کو بھی کہتے ہیں اور دم جانور کے پیچھے ہوتی ہے، اور الزام بھی چونکہ کسی کی پیٹھ پیچھے لگایا جاتا ہے اس لیے اس کو ذنب کہتے ہیں۔اب اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے پیغمبر! یہ جو الزامات آپ پر لگتے تھے تو ہم نے سارے الزامات آپ کو فتح دے کر ڈھانپ دیے۔
﴿اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾﴾
یہ لوگ آپ کے مخالف تھے اس لیے الزام لگاتے تھے لیکن اب آپ کے غلام بن جائیں گے، اب الزام نہیں لگائیں گے، ہم نے فتح کے بعد سارے الزام ڈھانپ دیے۔
جیسے آپ سال کے لیے جماعت میں جائیں تو لوگ باتیں کریں گے کہ بیوی کا حق نہیں ہے؟ بچوں کا حق نہیں ہے؟ کتنا ظالم ہے، اسے دنیا کی فکر ہے لیکن اپنی اولاد کی نہیں اور جب آپ سال کے بعد گاؤں واپس آئے اور ساتھ یہ بھی پتا چل جائے کہ یہ گیا تو سال کے لیے تھا لیکن ساتھ انگلینڈ میں ملازمت بھی مل گئی ہے، یہ گیا تو سال کے لیے تھا لیکن اس کو وہاں سے اچھے خاصے ہدیے مل گئے ہیں، گیا تو سال کے لیے تھا لیکن وہاں ایک بندہ مل گیا تھا جس نے کہا کہ میں آپ کا سارا مدرسہ بنا دوں گا اور اس کے آنے سے پہلے مدرسہ بننا شروع بھی ہو جائے۔ تو اب کوئی بھی الزام نہیں لگائے گا کہ اسے بیوی بچوں کی فکر نہیں بلکہ ہر کوئی کہے گا کہ ما شاء اللہ آپ کا سال تو زبردست ہوا یار، مزا آ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے لوگ آپ کے مخالف تھے لیکن اب وہ سمجھیں گے کہ آپ کے قریب آنے سے ان کا فائدہ ہے، ان کی عزت ہے۔ جب خاندان میں آپ کا قد بڑھتا جائے گا تو خاندان آپ کے قریب آتا جائے گا۔ لیکن اگر آپ کا قد کم ہوتا جائے تو لوگ دین کے نام پر آپ کو بدنام کرتے جائیں گے۔
اخلاق کب دیکھے جاتے ہیں؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اخلاق مدینہ منورہ میں تھے وہی اخلاق مکہ میں تھے، یہ نہیں کہ آپ کے مکہ میں اخلاق کم تھے اور مدینہ میں زیادہ تھے۔ جب آپ مکہ میں تھے تو اس وقت کانٹے بچھائے جا رہے تھے، مکہ میں تھے تو اوجھڑیا ں اوپر پھینکی جا رہی تھیں، مکہ میں تھے تو قتل کے منصوبے بنائے جا رہے تھے اور جب آپ فاتح بن کر آئے تو اب لوگوں نے کہا کہ محمد بہت اخلاق والے ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
مجھے آپ بتائیں! جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے تو مکی زندگی میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرتے تھے تو حضور نے بدلہ لیا یا معاف کیا؟ (معاف کیا۔ سامعین) اور جب فاتح بن کر آئے تو مخالفین کو معاف کیا یا بدلہ لیا؟ (معاف کیا۔ سامعین) میرے علم میں کوئی ایک کتاب حدیث یا تاریخ کی نہیں ہے، میرے علم میں کسی بڑے سے بڑے کافر اسکالر کا جملہ بھی نہیں ہے جس نے لکھا ہو کہ حضور بہت اخلاق والے تھے کیونکہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ والے ظلم کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے معاف کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کب بتانے تھے؟ جب آپ فاتح بن کر گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں نے معاف کیا۔ اس کی وجہ کہ جب بدلہ لینے کا وقت ہو اور بدلہ لینے پر قادر ہوں اور پھر کہیں کہ میں نے معاف کیا تو اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ بڑے اخلاق والے ہیں اور جب طاقت نہ ہو اور بدلہ لینے پر قادر بھی نہ ہوں اور پھر کہیں کہ میں نے معاف کیا تو لوگ اس کو اخلا ق نہیں کہتے، لوگ اس بندے کا مذاق اڑاتے ہیں۔
میں اس لیے گزارش کیا کرتا ہوں کہ اخلاق حاکم کے دیکھے جاتے ہیں، اخلاق محکوم کے نہیں دیکھے جاتے۔ ہم محکوم بن کر خوش اخلاق بننا چاہتے ہیں! محکومیت کی حالت میں کوئی آپ کے اخلاق نہیں دیکھے گا۔
ہمارا کوئی تبلیغی ساتھی امریکہ جائے، انگلینڈ جائے یا دنیا کے کسی اور ملک میں جائے تو کھڑا کر کے تلاشی لیں گے حالانکہ اس کے چہرے پر ڈاڑھی ہے، سر پر پگڑی ہے، بہت نیک ہے پھر بھی تلاشی لیں گے اور آپ اسی ڈاڑھی اور پگڑی کے ساتھ وزیر اعظم بن کرجائیں تو اب تلاشی کوئی نہیں لے گا۔ پہلے بھی یہ ڈاڑھی او رپگڑی تو تھی لیکن وہ ایک عام بندہ تھا تو نوعیت الگ تھی۔ اب چونکہ حیثیت بدل گئی ہے تو تمام لوگوں کا مزاج آپ کے بارے میں بدل جائے گا۔
میں اس لیے گزارش کرتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اخلاق بہت بڑی چیز ہیں لیکن کب؟ جب آپ غالب ہوں، آپ طاقتور ہوں، آپ بڑے عہدے پر ہوں تو پھر آپ کے اخلاق سے لوگ متاثر ہوں گے۔ آپ محکوم ہوں گے تو آپ کے اخلاق سے لوگ متاثر نہیں ہوں گے، کوئی بندہ آپ کے اخلاق دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
رات اور سکون:
﴿اَللہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۶۱﴾﴾
اللہ نے تمہارے لیے رات کو بنایا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو بنایا تاکہ تم اس میں دیکھو، دن میں کام کیاکرو۔ یعنی اللہ نے دن اور رات کا نظام ایسا بنایا ہے کہ رات کو چونکہ نیند کے لیے بنایا تو اس میں روشنی ختم ہو جاتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے اور نظام ایسے بنتا ہے کہ آدمی سوئے تو مزا آتا ہے۔ اگر کام کرنا چاہے تو اس کو لائٹ جلانا پڑتی ہے اور دن کو جلی جلائی لائٹ ہے، بس یہاں کام کے لیے لائٹ نہیں جلانی پڑتی۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت اور فطرت یہی ہے کہ بندہ دن کو کام کرے اور رات کو آرام کرے۔ ہاں اگر کوئی تقاضا اور ضرورت ہو اور اس کی وجہ سے رات کو کام کرنا پڑے تو کام کرنا چاہیے، یہ نہیں کہ کام کرنا گناہ ہے۔
اِترانے اور اَکڑنے میں فرق:
﴿ذٰلِکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَمۡرَحُوۡنَ ﴿ۚ۷۵﴾﴾
کفار سے فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں عذاب اس لیے ہوا کہ تم ناحق زمین میں اِتراتے تھے اور اس لیے کہ تم اکڑ دکھاتے تھے۔
ان کفار کو جو عذاب دیا گیا تو اس کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں:
• ”تَفۡرَحُوۡنَ“ • ”تَمۡرَحُوۡنَ“
”تَفۡرَحُوۡنَ“
کے ساتھ
”بِغَیۡرِ الۡحَقِّ“
کی قید ہے اور
”تَمۡرَحُوۡنَ“
کے ساتھ کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہے فرح اور ایک ہے مرح۔ فرح کا معنی ہوتا ہے خوشی، یہ شریعت میں مطلوب ہے اور جب ناحق ہو تو یہ غلط ہے۔ اور مرح کا معنی ہوتاہے اکڑنا، یہ شریعت میں مطلوب نہیں ہے،اکڑنا؛ یہ حق ہوتا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ نا حق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کو اللہ پاک گاڑی اچھی دیتا ہے، پیسے دیتا ہے، کپڑے دیتا ہے، مکان دیتا ہے، منصب دیتا ہے۔ یہ بندہ کہتا ہے: یا اللہ! تیرا شکر ہے۔ یہ بندہ خوش ہو رہا ہے۔ ایک آدمی یوں خوش ہو رہا ہے کہ میرے پاس تو گاڑی ہے اور اُس کے پاس صرف سائیکل ہے۔ اب یہ خوشی ناحق ہے۔ اب گناہ ہو گا۔ اس لیے قرآن کریم میں فرمایا:
﴿فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا﴾
یونس 10: 58
کہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا چاہیے۔
یہاں فرمایا کہ ان کو عذاب دیا فرحت کی وجہ سے، اس لیے کہ
﴿تَفۡرَحُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ﴾
کہ خوشی ناحق تھی اور یہ عذاب کا سبب ہے او ر خوشی حق ہو تو یہ شریعت میں مطلوب ہے۔ اللہ فرماتے ہیں؛
﴿وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾﴾
الضحیٰ 93: 11
کہ آپ اپنے رب کی نعمتوں کا اظہار فرمائیں۔ تو یہ چیزیں اللہ پسند فرماتے ہیں لیکن ناحق پر اللہ گرفت بھی فرماتے ہیں۔
پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار پر عذاب کا انتظار:
﴿فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللہِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا یُرۡجَعُوۡنَ ﴿۷۷﴾﴾
اللہ اپنے نبی سے فرما رہے ہیں کہ اے میرے پیغمبر! آپ کچھ انتظار کریں، اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم نے ان کافروں کے ساتھ جس عذاب کا وعدہ کیا ہے یا تو آپ کی زندگی میں اس عذاب کا کچھ حصہ ان کو دے دیں گے یا آپ کی وفات کے بعد دیں گے لیکن دیں گے ضرور۔
اب دیکھو! کفار پر عذاب کا اللہ کے نبی انتظار فرما رہے ہیں نا، تبھی تو اللہ فرما رہے ہیں کہ
”فَاصۡبِرۡ“۔
میں با رہا کہتا ہوں کہ شریعت کو سمجھو! ہمیشہ ایک دماغ بنانا اور ہمیشہ ایک ہی بات کہنا کہ اللہ کے نبی نبی الرحمۃ تھے اس لیے حضور چاہتے تھے کہ کافروں پر عذاب نہ آئے․․․ یہ بات درست نہیں! اللہ تو فرما رہے ہیں
”فَاصۡبِرۡ“
کہ آپ انتظار کریں، اللہ کا وعدہ برحق ہے، ہم ان کو عذاب دیں گے، آپ کی زندگی میں دیں یا آپ کی و فات کے بعد دیں لیکن دیں گے ضرور! اور یہ
”فَاصۡبِرۡ“
کب کہتے ہیں کہ جب بندے کو انتظار ہو یا نہ ہو؟ (انتظار ہو۔ سامعین) تو ان کفار پر عذاب کا حضور بھی انتظار فرماتے تھے کہ ان پر عذاب کب آئے گا!
باقی یہ بات کہ عذاب کا انتظار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحمت کے خلاف ہے؟ تو ہرگزنہیں، شانِ رحمت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ کفار کو عذاب دینے کا مقصد یہ تھا کہ:
نمبر 1: جن مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے وہ اس سے خوش ہوں گے کہ ظالم کو سزا ملی ہے اور مسلمان کو خوش کرنا یہ رحمت کا تقاضا ہے۔
نمبر 2: اگر یہ کافر زندہ رہے تو مزید کفر کا سبب بنیں گے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی دعا مانگی تھی:
﴿اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ﴾
نوح71: 27
اے اللہ! اگر آپ ان کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی تھی:
﴿رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ وَ اشۡدُدۡ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿۸۸﴾﴾
یونس 10: 88
اے اللہ! ان کے مال کو تباہ وبرباد کر دیں اور ان کے دلوں کو اتنا سخت کر دیں کہ یہ اس وقت تک ایمان نہ لا سکیں جب تک اپنی آنکھوں سے عذاب نہ دیکھیں لیں۔
اس لیے پیغمبر کو بھی انتظار تھا کہ ان کو اب ختم ہونا چاہیے۔ آپ نے تئیس سال محنت کی ہے، دعوت دی ہے، ان کافروں نے مسلمانوں پر بار بار ظلم کیا ہے تو اب ظالم کو باقی نہیں رہنا چاہیے۔ فرمایا:
﴿فَاصۡبِرۡ﴾
میرے پیغمبر! آپ انتظار فرمائیں، ہم آپ کا بدلہ ان سے ضرور لیں گے۔
وحی کے مقابلے میں کفار کا اپنے فن پر اترانا:
﴿فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۸۳﴾﴾
جب کفار کے پاس انبیاء علیہم السلام دلائل لے کر آتے تو کفار اپنے علم پر بڑے خوش ہوتے اور اِتراتے تھے۔ اور جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا۔
وحی کے مقابلے میں جو فن ہوتا ہے اس کو علم نہیں کہتے، قرآن اسے علم کہہ رہا ہے، اس کی وجہ
﴿یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ وَ ہُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ﴿۷﴾﴾
الروم 31: 7
کہ وہ لوگ دنیا کی زندی کے صرف ظاہری پہلو کو ہی جانتے تھے، آخرت کے معاملے میں بالکل غافل تھے۔ جب پیغمبر ان کے پاس دلائل لے کر آتے اور آخرت کی بات کرتے تو یہ لوگ اپنے ظاہری علم کی بنا پر اِتراتے، چونکہ ان کو دنیا کا یہ فن معلوم تھا کہ بلڈنگ کیسے بنتی ہے، کشتی کیسے بنتی ہے، جنگ کیسے کی جاتی ہے، مال کیسے اکٹھا کیا جاتا ہے؟ تو یہ لوگ اِس پر اتراتے تھے، اس پر اکڑتے تھے۔ اس لیے یہاں فرمایا:
﴿ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا﴾
کہ ان کے پاس حقیقی علم نہیں تھا بلکہ بس ظاہری سا علم تھا۔ اب اس آیت کو ملائیں گے تو
﴿فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ﴾
کو سمجھنا آسان ہو گا کہ ان کے پاس علم نہیں تھا بلکہ دنیاوی زندگی کا ظاہری علم وفن اور ظاہر ہنر تھا۔ یہ لو گ اپنے ظاہری علم پر اکڑتے تھے کہ ہمارے پاس طاقت اور قوت ہے، ہم کیوں کلمہ قبول کریں!
نزع کی حالت میں ایمان لانا معتبر نہیں!
﴿فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللہِ وَحۡدَہٗ وَ کَفَرۡنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشۡرِکِیۡنَ ﴿۸۴﴾﴾
اور جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور ہم ان کا انکار کرتے ہیں جن کو ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے۔
﴿فَلَمۡ یَکُ یَنۡفَعُہُمۡ اِیۡمَانُہُمۡ لَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا ؕ سُنَّتَ اللہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ فِیۡ عِبَادِہٖ ۚ وَ خَسِرَ ہُنَالِکَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿٪۸۵﴾﴾
جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تب ایمان لانا ان کے لیے کچھ فائدہ مند نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی عادت اور معمول یہی ہے جو اس کے بندوں میں جاری رہی ہے -کہ عذاب کے بعد ایمان لانا نفع مند نہیں- اور اس موقع پر کافر لوگ نقصان میں پڑ گئے۔
حدیث پاک میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ.
سنن الترمذی، رقم: 3537
کہ جب غر غرہ کی حالت آ جائے، نزع کی حالت آ جائے تو اللہ توبہ قبول نہیں فرماتے۔
اللہ ہم سب کو بات ماننے والا بنائے، اللہ ہم سب کو ضدی لوگوں سے دور رکھے، اللہ ہم سب کو شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․