اھلِ کبائر
عقیدہ 68:
متن:
وَأَهْلُ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلّى اللهُ عَليْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّارِ لَا يَخْلُدُوْنَ إِذَاَ مَاتُوْا وَهُمْ مُوَحِّدُوْنَ وَإِنْ لَمْ يَكُوْنُوْا تَائِبِيْنَ بَعْدَ أَنْ لَقُوا اللهَ عَارِفِيْنَ (مُؤْمِنِيْنَ) وَهُمْ فِيْ مَشِيْئَتِهٖ وَحُكْمِهٖ إِنْ شَآءَ غَفَرَ لَهُمْ وَعَفَا عَنْهُمْ بِفَضْلِهٖ كَمَا قَالَ تَعَالٰی فِيْ كِتَابِهِ الْعَزِیْزِ: ﴿اِنَّ اللّهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ﴾ وَإِنْ شَآءَ عَذَّبَهُمْ فِي النَّارِ بِعَدْلِهٖ ثُمَّ يُخْرِجُهُمْ مِنْهَا بِرَحْمَتِهٖ وَشَفَاعَةِ الشَّافِعِيْنَ مِنْ أَهْلِ طَاعَتِهٖ ثُمَّ يَبْعَثُهُمْ إِلٰى جَنَّتِهٖ وَذٰلِكَ بِأَنَّ اللهَ تَعَالٰى تَوَلّٰى أَهْلَ مَعْرِفَتِهٖ وَلَمْ يَجْعَلْهُمْ فِي الدَّارَيْنِ كَاَهْلِ نُكْرَتِهِ الَّذِيْنَ خَابُوْا مِنْ هِدَايَتِهٖ وَلَمْ يَنَالُوْا مِنْ وِلَايَتِهٖ. أَللّٰهُمَّ يَا وَلِيَّ الْإِسْلَامِ وَأَهْلِهٖ ثَبِّتْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ حَتّٰى نَلْقَاكَ بِهٖ.
ترجمہ: امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ لوگ جنہوں نے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہو وہ جہنم میں تو جائیں گے لیکن توحید کے قائل ہونے اور ایمان پر موت آنے کی صورت میں وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے اگرچہ وہ توبہ کیے بغیر مرے ہوں۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکم کے تابع ہوں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے فضل و کرم سے ان کی مغفرت فرما دے اور ان کو بخش دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اِنَّ اللّهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ﴾ کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو کبھی معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور شرک کے علاوہ ہر گناہ جس کے لیے چاہتا ہےمعاف کر دیتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو قانونِ عدل کے ذریعے ان (مرتکبین کبیرہ) کو جہنم کا عذاب دے اور سزا دینے کے بعد اپنے رحم وکرم سے یا نیکوکار لوگوں کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکال کر جنت میں بھیج دے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا دوست ہے، وہ اہلِ ایمان کے ساتھ دنیا و آخرت میں ایسا معاملہ نہیں کرے گا جیسا وہ اپنے منکرین کے ساتھ کرتا ہے جو اس کی ہدایت اور دوستی کو نہ پا سکے۔ اے اللہ ! اے اسلام اور مسلمانوں کے ولی ! ہمیں اسلام پر ثابت قدم فرما یہاں تک کہ ہم اسلام کی حالت میں تجھ سے ملاقات کریں۔
شرح:
مرتکبین کبیرہ اگر حالت ایمان میں فوت ہو جائیں اور بغیر توبہ کے فوت ہوں تو ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، چاہے تو اپنے فضل وکرم سے معاف فرما دے اور چاہے تو قانونِ عدل سے سزا دے دے۔ مرتکبین کبیرہ کفار کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم نہیں جائیں گے۔
فائدہ:
”وَأَهْلُ الكَبَائِرِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلّى اللهُ عَليهِ وَسَلَّمَ“
کی قید اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔ یعنی گناہ کبیرہ کے مرتکب کا یہ حکم صرف امت محمدیہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام امتوں کے مرتکبین کبیرہ کا یہی حکم ہے۔ امت محمدیہ کا ذکر محض اس لیے کیا کہ عقائد امت محمدیہ کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔