نبی کریم ﷺ سے دوری

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
نبی کریم ﷺ سے دوری
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اپنے محبوب کی محبت، عقیدت اور اطاعت نصیب فرمائے اور روزِمحشر ان کی قربت اور شفاعت عطا فرمائے۔
روز محشر نبی کریم ﷺ سے دوری:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارک میں قیامت کے دن دو طرح کے لوگوں کےاوصاف ذکر فرمائے ہیں ایک وہ جو اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب قریب رہیں گے اور آپ کے محبوب بنیں گے۔ دوسرے وہ جو اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور دور رہیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض ہوں گے۔ اس بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتیں ارشاد فرمائیں۔
اَلثَّرْثَارُوْنَ)بدزبان(:
قیامت والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا شکار ہونے والے بدنصیب لوگوں میں پہلے نمبر پر وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنی زبان پر کنٹرول نہیں کرتے۔
فضول اور بے مقصد باتیں کرتے ہوں گے اسی طرح اپنی زبان کو دیگر کبیرہ گناہوں سے نہیں بچاتے ہوں گے۔ مثلاً: جھوٹ، غیبت، چغلی،فحش گوئی، گالم گلوچ، طنز وتشنیع،تحقیر و تمسخر وغیرہ۔
دنیا وآخرت میں ان گناہوں کی نحوست:
یہ وہ کبیرہ گناہ ہیں جن کی نحوست انسان کی دنیاوی زندگی پر بھی پڑتی ہے کہ ان سے انسان کا اعتماد ،وقار ،شخصیت اور ذاتی حیثیت معاشرے سے ختم ہوجاتی ہے اسی طرح ان کی نحوست روزِ محشر بھی ظاہر ہوگی اور ایسا انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہے گا جس کا لازمی نتیجہ جہنم ہے۔
زیادہ تر لوگ جہنم کیوں جائیں گے؟
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ۔۔ ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ قُلْتُ: بَلٰى يَا نَبِيَّ اللهِ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ:كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا۔فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ۔
جامع الترمذی،رقم الحدیث: 2616
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمام نیکیوں کی بنیاد جاننا چاہتے ہو ؟ حضرت معاذ نے عرض کی : جی ضرور ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان کو پکڑ کر فرمایا: اپنی زبان قابو میں رکھو ۔ اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ازراہ تعجب عرض کی : اے اللہ کے نبی! ہماری گفتگو کی وجہ سے ہماری پکڑ ہو گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایا: معاذ !اللہ آپ کا بھلا کرے زیادہ تر لوگ اپنی بدگوئی کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ ڈالے جائیں گے ۔
آج ہم سب کو اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم اپنے آپ کو ان بدنصیبوں میں تو شامل نہیں کررہے جو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور اور آپ کی شفاعت سے محروم رہیں گے ؟
اَلْمُتَشَدِّقُوْنَ(بدتہذیب(:
قیامت والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا شکار ہونے والے بدنصیب لوگوں میں دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہوں گے جوبدتہذیب اور بداخلاق ہوں گے۔
بداخلاق لوگ :
لوگوں کو ذلیل کرنے والے، ان کی عزتوں کوتاراج کرنےوالے، شرفاء کو بے آبرو کرنے والے اور دوسروں کو رسوا کرنے والے لوگ بھی انہی بدنصیبوں میں شامل ہوں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور اور آپ کی شفاعت سے محروم ہوں گے۔ اس لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اکثر اوقات خاموشی اختیار کرے تاکہ فضول باتیں اور کسی کی دل آزاری جیسے گناہ نہ ہونے پائیں یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔
اچھی بات کریں یا خاموش رہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث : 6475
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی باتیں کہے یا پھر خاموش رہے۔
اعضائے انسانی کی زبان سے التجا:
عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالخُدْرِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ۔ رَفَعَهُ ۔ قَالَ:إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ: اِتَّقِ اللهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث : 2407
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ روزانہ جب انسان بیدار ہوتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء اس کی زبان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے زبان !ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرنا بے شک ہمارا تیرے ساتھ تعلق ہے اس لیے کہ اگر تو درست رہی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی درست رہیں گے اور اگر تو خراب ہو گئی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی گناہ بن جائیں گے ۔
دانا شخص کی علامت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَيْتَ الْعَبْدَ يُعْطَى زُهْدًا فِي الدُّنْيَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ۔
المعجم الاوسط للطبرانی ، رقم الحدیث : 1885
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی عطا کی گئی ہے اور کم سے کم بولنے کی نعمت عطا کی گئی ہے تو تم اس کے قریب رہو اس لیے کہ وہ دانائی اور حکمت کی باتیں دل میں ڈالے گا۔
اکثر گناہوں کی جڑ:
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ…سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَكْثَرَ خَطَايَا ابْنِ آدَمَ فِي لِسَانِهِ۔
شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث : 4584
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: انسان کے زیادہ تر گناہ زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اَلْمُتَفَیْہِقُوْنَ(متکبر(:
قیامت والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا شکار ہونے والےلوگوں میں تیسرےنمبر پر متکبر لوگ ہوں گے۔ حدیث مبارک میں ہےمتکبر شخص قیامت والے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہ کر غیض و غضب کا شکار ہوگا اور شفاعت سے محروم کر دیا جائے گا۔
تکبر ہے کیا؟
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ : إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ : إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ۔ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
صحیح مسلم، رقم الحدیث : 178
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا ۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ بندہ اچھے کپڑے اور اچھے جوتے کو پسند کرتا ہے )کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ تکبر نہیں۔ اللہ جمیل ہیں اور حسن وجمال کو پسند فرماتے ہیں۔تکبر یہ ہے کہ بندہ حق بات کو قبول نہ کرے اور )خود کو بڑا سمجھتے ہوئے ( لوگوں کو ذلیل سمجھے۔
متکبر جنت نہیں جائے گا:
عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:1998
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبرہوا وہ جنت نہیں جائےگا ۔
کتے اور خنزیر سے زیادہ بے حیثیت انسان:
عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَيُّهَا النَّاسُ تَوَاضَعُوا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ تَوَاضَعَ لِلهِ رَفَعَهُ اللهُ فَهُوَ فِي نَفْسِهِ صَغِيرٌ وَفِي أَعْيُنِ النَّاسِ عَظِيمٌ وَمَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَهُ اللهُ فَهُوَ فِي أَعْيُنِ النَّاسِ صَغِيرٌ وَفِي نَفْسِهِ كَبِيرٌ حَتَّى لَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِمْ مِنْ كَلْبٍ أَوْ خِنْزِيرٍ۔
شعب الایمان للبیہقی،رقم الحدیث :7790
ترجمہ: حضرت عابس بن ربیعہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ بات ارشاد فرمائی : لوگو!تواضع و انکساری اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص اللہ کو راضی کرنے کےلیے تواضع و انکساری اختیار کرے گا اللہ رب العزت اس شخص کو بلندیاں عطا فرمائیں گے وہ خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو گا جبکہ لوگوں کی نظروں میں اس کی بڑی عظمت اور حیثیت ہوگی اور جو شخص تکبر اختیار کرے گا اللہ رب العزت ایسے شخص کو لوگوں کی نظروں میں حقیر و بے حیثیت بنادیں گے جبکہ وہ خود کو بہت بڑا سمجھتا رہے گا ایسا شخص لوگوں کی نظروں میں کتے اور خنزیر سے زیادہ بے حیثیت ہو کر رہ جائے گا ۔
تکبر سے بری شخص جنتی:
عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ الكِبْرِ وَالغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث :1572
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص تکبر، خیانت اور قرض سے بری ہونے کی حالت میں دنیا سے رخصت ہووہ جنت میں داخل ہو گا ۔
تکبر کا علاج:
عام طور پر تکبر علم ، حسب و نسب ، مال و دولت ، حسن و جمال پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ ساری چیزیں اللہ رب العزت کی محض عطا ہیں اس پر انسان کو اترانا اور تکبر کرنا زیب ہی نہیں دیتا ۔ایک حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کا علاج یہ بتلایا ہے کہ بندہ سلام کرنے میں پہل کرے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں وہ اوصاف اپنانے کی توفیق دے جن کی وجہ سے روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو اور ان تمام برے افعال سے ہماری حفاظت فرمائے جن کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری اور آپ کی ناراضگی اٹھانی پڑے۔ یعنی حسن اخلاق عطا فرمائے اور بدزبانی، بداخلاقی اور تکبر سے نجات عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
 
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ، 30نومبر ، 2020ء