حضرت عیسیٰ اور اہل اسلام

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
حضرت عیسیٰ اور اہل اسلام
اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ان میں ایک مبارک نام حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا بھی ہے۔ اہل اسلام کے ہاں آپ علیہ السلام قابل احترام نبی و رسول ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 دسمبر کو عیسائی لوگ آپ کی پیدائش سے منسوب کرتے ہیں اور Merry Christmas کے نام سے عید مناتے ہیں۔ اس موقع پر اہل اسلام بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں بنیادی حقائق و نظریات جاننا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے مختصر مگر جامع مضمون پیش کیا جا رہا ہے ۔
حضرت عیسیٰ کے نانا :
آپ علیہ السلام کے نانا کا نام عمران ہے اسی سے سورۃ اٰلِ عمران ہے ۔
حضرت عیسیٰ کی نانی :
سابقہ انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں لوگ اپنی اولاد میں سےکسی ایک بیٹے کو دین کےلیے وقف کردیا کرتے تھے۔ان کی شریعت میں یہ جائز تھا باقی بیٹے دنیا کے کام کاج کرتے جبکہ ایک بیٹے کوخالص دین کےلیے وقف کر دیتے۔ حضرت عمران کی بیوی نےبھی اللہ تعالیٰ سے ایسی ہی سے منت مانی ۔
اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۵﴾
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 35
ترجمہ: وہ واقعہ بھی یاد کریں جب )حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی یعنی ( عمران کی بیوی نے کہا: اے اللہ! جومیرے پیٹ میں حمل ہے )اگر یہ بیٹا پیدا ہوا تو( میں منت مانتی ہوں کہ تیری راہ میں وقف کر دوں گی۔ میری نذر کو قبول فرمائیے! آپ ہی دعا کو سننے)قبول کرنے ( والے ہیں اور ہر چیز کا بخوبی علم رکھنے والے ہیں ۔
حضرت عیسیٰ کی والدہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی امید سےتھیں کہ حضرت عمران فوت ہو گئےاس کے بعد حضرت مریم کی پیدائش ہوئی ۔
فَلَمَّا وَضَعَتۡہَا قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ وَضَعۡتُہَاۤ اُنۡثٰی ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا وَضَعَتۡ ؕ وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی ۚ وَ اِنِّیۡ سَمَّیۡتُہَا مَرۡیَمَ وَ اِنِّیۡۤ اُعِیۡذُہَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ﴿۳۶﴾
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 36
ترجمہ: پھر جب )لڑکے کے بجائے(لڑکی پیدا ہوئی تو کہنے لگیں: اے میرے رب !مجھ سے لڑکی پیدا ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ہاں کس کی پیدائش ہوئی اور) وہ( لڑکا )جس کی نیت انہوں نے منت مانتے وقت کی تھی ) اس) پیدا ہونے والی ) لڑکی کے برابر نہیں ۔ اور میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا اور میں اس کو اور)جب یہ اولاد والی ہوگی ( اس کی اولاد کو )بھی(شیطان مردود سے حفاظت کےلیے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں۔
حضرت مریم کی پرورش:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ان کو دودھ پلانے کے لیے دائی کا انتظام کیا گیا یا ان کو دودھ پلانے کی نوبت ہی نہیں آئی یہ بغیر دودھ پیے بچپن میں بڑھتی چلی گئیں۔ اس لیے قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بڑے اچھے طریقے سے پرورش کی یعنی بہت جلدجسم میں طاقت عطا فرمائی کہ اگر عام بچی کی ایک مہینے میں ایسی پرورش ہوتی ہے تو وہ ایک دن میں ایسی تھیں۔
حضرت مریم کی کفالت:
حضرت مریم کی والدہ اپنی بیٹی کو لیے بیت المقدس تشریف لے گئیں۔ وہاں علماء بنی اسرائیل موجود تھے اور حضرت زکریا علیہ السلام بھی موجود تھے۔ اگر مریم کے والد زندہ ہوتے،بیت المقدس کےامام تھے وہ خود اپنی بیٹی کی تربیت کرتے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی خواہش یہ تھی کہ حضرت مریم کی کفالت میں کروں کیونکہ آپ کی بیوی حضرت مریم کی خالہ تھیں جبکہ باقی علماء کی بھی یہی خواہش تھی کہ مریم کی کفالت کی سعادت انہیں مل جائے ۔
حق کفالت میں جھگڑا:
وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ اَیُّہُمۡ یَکۡفُلُ مَرۡیَمَ ۪ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۴۴﴾
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 44
ترجمہ: اور آپ ان لوگوں کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جب وہ مریم کی حق کفالت کے لیےاپنی قلموں کو) دریا میں( ڈال رہے تھے )یعنی(جس وقت وہ لوگ اس معاملے میں جھگڑ رہے تھے آپ وہاں موجود نہیں تھے۔
حضرت زکریا کے نام قرعہ:
”جب حضرت مریم نذر میں قبول کرلی گئیں تو مسجد کے مجاورین میں جھگڑا ہوا کہ انہیں کس کی پرورش میں رکھا جائے، آخر قرعہ اندازی کی نوبت آئی سب نے اپنے اپنے قلم جن سے تورات لکھتے تھے چلتے پانی میں چھوڑ دیئے کہ جس کا قلم پانی کے بہاؤ پر نہ بہے بلکہ الٹا پھرجائے اسی کو حقدار سمجھیں۔ اس میں بھی قرعہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکلا اور حق حقدار کو پہنچ گیا۔“ (تفسیر عثمانی)
مریم سے فرشتوں کی گفتگو:
حضرت مریم نہایت پاکباز ، نیک ، زاہدہ و عابدہ خاتون تھیں ۔ آپ بچپن میں بھی خدا کا انتخاب تھیں اور جوانی میں بھی خدا کا انتخاب تھیں۔
وَاِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللہَ اصۡطَفٰکِ وَطَہَّرَکِ وَاصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۲﴾ یٰمَرۡیَمُ اقۡنُتِیۡ لِرَبِّکِ وَاسۡجُدِیۡ وَارۡکَعِیۡ مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیات:43،42
ترجمہ: اور وہ وقت بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت بخشی ہے ، پاکیزگی عطا کی ہے اور )اس زمانے کی (دنیا بھر کی خواتین میں منتخب فرما کر فضیلت بخشی ہے۔ )اس لیے( اے مریم!آپ اپنے رب کی اطاعت کرتی رہیں،اپنے رب کے حضور سجدہ کرتی رہیں اور رکوع کرتی رہیں ان لوگوں کے ساتھ جو رکوع کرنے والے ہیں ۔
فائدہ: فرشتے کا کسی سے کلام کر لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ضرور نبی ہو گا ۔
حضرت مریم کی کرامت:
حضرت مریم اپنے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کی زیرِ تربیت آگئیں ۔ حضرت مریم بہت چھوٹی عمر میں بلوغ تک پہنچی ہیں۔ ایک کمرہ تھا وہاں حضرت مریم کی رہائش رکھی گئی آپ دعوت وتبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے واپس آ کر کھانا وغیرہ دیتے لیکن ایک بار حضرت مریم جس کمرے میں تھیں ا س کمرے کا جب دروازہ کھولا تو سامنے تازہ پھل نظر آئے، جن پھلوں کا وہ موسم نہیں تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے تعجب سے پوچھا: ﴿یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ﴾ اےمریم تالا بندہے دروازے پہ تالا لگا ہے یہ پھل کہاں سے آئے؟ حضرت مریم نے جواب میں فرمایا: ﴿ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ﴾ یہ اللہ کی طرف سے آتے ہیں ۔
مریم کے سامنے فرشتے کا انسانی شکل میں ظہور:
وَاذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا﴿ۙ۱۶﴾ فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴿۱۷﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:17،16
ترجمہ: اور اس کتاب میں مریم کے اس واقعے کا تذکرہ بھی کریں جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک مشرقی جانب کے مکان میں تشریف لے گئیں اور )یکسوئی سے عبادت کے لیے (اپنے اور لوگوں کے درمیان پردہ حائل کر دیا۔ اس موقع پر ہم نے مریم کے پاس ایک فرشتہ)حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو( بھیجا۔ جو اُن کے سامنے کے ایک مکمل انسان کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا۔
حضرت مریم کی پاکدامنی :
قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا ﴿۱۸﴾
سورۃ مریم، رقم الآیۃ:18
ترجمہ: مریم نے کہا میں تجھ سے خدائے رحمٰن کی پناہ چاہتی ہوں اگر تجھ میں کچھ بھی خدا خوفی ہے )تو مجھ سے دور ہو جا۔(
فرشتوں کی عادت یہی ہے کہ وہ جب بھی انسانی صورت میں رونما ہوتے ہیں تو نہایت حسین و جمیل اور خوب صورت شکل میں آتے ہیں جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے واقعے میں بھی یہ بات موجود ہے۔ اور یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم کی عفت و پاکدامنی کا امتحان مقصود ہو کہ وہ نہایت خوبصورت جوان کو دیکھ کر اپنی عفت و پاکدامنی کو کیسے بچاتی ہیں؟قرآن کریم نے حضرت مریم کی پاکدامنی اور عفت کی منظر کشی جن خوبصورت الفاظ سے کی ہے وہ ہر عفت مآب خاتون کےلیے عملی زندگی کا ایک سنہرا سبق ہے۔
حضرت مریم کو بچے کی خوشخبری اور اظہارِ تعجب:
قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا ﴿۱۹﴾ قَالَتۡ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّلَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّلَمۡ اَکُ بَغِیًّا ﴿۲۰﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:20،19
ترجمہ: فرشتے نے جواب دیا: میں تو آپ کے رب کا بھیجا ہوا ایک فرشتہ ہوں اور اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کو)نسب ، عادات و اخلاق کے اعتبار سے ( پاکیزہ لڑکا دوں۔ مریم نے ازراہِ تعجب کہا کہ مجھے لڑکا کیسے پیدا ہوگا حالانکہ )میں نے اس کے جائز اسباب اختیار نہیں کیے یعنی (مجھے )جائز طریقے سےاس مقصد کے پیش نظر (کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اور میں نے )اس کے ناجائز اسباب بھی اختیار نہیں کیے یعنی( میں بدکار عورت نہیں ہوں ۔
اظہارِ قدرت کی تیسری صورت:
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کی پیدائش کے لیے جو عام ضابطہ بنایا ہے وہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے باہمی جنسی ملاپ سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔ اس ضابطے کو دینی اور معاشرتی رنگ دینے کےلیے ادیانِ عالم میں اپنے اپنے مذہبی احکامات کی روشنی میں نکاح کا حکم اور طریقہ موجود ہے۔ اس فطری ضابطے کی پابندی مخلوق کے لیے لازمی ہے ،خالق کے لیے نہیں بلکہ وہ قادرِ مطلق ذات ہے اگر چاہے تو اسی نظام سے پیدا فرمائے اور چاہے تو والدین کے بغیر ہی پیدا فرما دے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ذات نے آدم علیہ السلام کومردا ور عورت دونوں کے بغیر تخلیق فرمایا۔ حضرت حوا کو بغیر عورت کے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔
قَالَ کَذٰلِکِۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَۃً مِّنَّاۚ وَکَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ﴿۲۱﴾
سورۃ مریم، رقم الآیۃ: 21
ترجمہ: فرشتے نے کہا کہ ایسے ہی ہوگا )یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہا بلکہ ( آپ کے رب نے فرمایا ہے کہ میرے لیے یہ بالکل معمولی سی بات ہے اور ہم یہ کام اس لیے کریں گے کہ تاکہ اس )پیدا ہونے والے (بچے کو لوگوں کے لیے) قدرت خداوندی کی( نشانی بنائیں۔ اور اپنی طرف سے رحمت کا ذریعہ بنائیں اور یہ کام طے شدہ ہے (یعنی ازل میں) فیصلہ خداوندی اسی طرح لکھا ہوا ہے ۔
حضرت مریم امید سے ہو گئیں:
فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا ﴿۲۲﴾ فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَکُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا ﴿۲۳﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:23،22
ترجمہ: حضرت مریم کو حمل ٹھہر گیا اور) جب بچے کی ولادت کا وقت قریب آیا تو ( وہ اس کو لیے ہوئے لوگوں سے دور الگ مقام پر چلی گئیں۔ پھر درد زہ )زچگی کے درد( کی وجہ سے کھجور کے درخت کی طرف آئیں اور کہا: اے کاش!میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور مجھے ایسا بھلا دیا جاتا کہ کسی کو کچھ یاد ہی نہ رہتا۔
حضرت مریم کو تسلی:
فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا ﴿۲۴﴾ وَہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫۲۵﴾ فَکُلِیۡ وَاشۡرَبِیۡ وَقَرِّیۡ عَیۡنًاۚ
سورۃ مریم، رقم الآیات:25،24
ترجمہ: حضرت جبرئیل نے نیچے ایک جگہ سے آواز دے کر کہا : غم نہ کرو آپ کے رب نے آپ کے نیچے کی جانب ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ اس سے تم پر پکی ہوئی تازہ کھجوریں جھڑیں گی۔اب اس درخت سے کھاؤاور )پانی (پیو اور آنکھیں ٹھنڈی رکھو۔
حضرت مریم کی منت:
فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾
سورۃ مریم، رقم الآیۃ: 26
ترجمہ: اور ہاں اگر کسی کو )اعتراض کرنے کےلیےاپنی طرف( آتا ہوا دیکھو تو )اشارے سے )کہہ دینا کہ میں نے اللہ کے لیے )چپ کے (روزے کی منت مانی ہے اس لیے میں کسی بھی انسان سے بات نہیں کروں گی۔
فائدہ: چپ کا روزہ رکھنا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں منسوخ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت عیسیٰ کی ولادت:
فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾ یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَاکَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّمَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۖۚ۲۸﴾ فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:27تا 29
ترجمہ: پھر مریم اپنے بیٹے( عیسیٰ) کو گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں قوم کے لوگوں نے کہا اے مریم!تم نے بہت بڑی غلط حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن نہ تیرے والد برے آدمی تھے اور نہ ہی تیری والدہ کوئی بدکار عورت تھی۔ مریم نےچپکے سے بچے کی طرف اشارہ کیا )کہ مجھ سے نہیں بلکہ اس نومولود بچے سے پوچھوجس پر (وہ لوگ کہنے لگے: بھلا ہم ایسے بچے سے کیسے پوچھ تاچھ کر سکتے ہیں جو ابھی گود میں ہے۔
حضرت عیسیٰ کی ابتدائی گفتگو:
قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَجَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾ وَّجَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ۪ وَاَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَلَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا ﴿۳۲﴾ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَیَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾ ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ ﴿۳۴﴾ مَا کَانَ لِلہِ اَنۡ یَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿ؕ۳۵﴾ وَاِنَّ اللہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۳۶﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:30 تا 36
ترجمہ: وہ بچہ خود ہی بول اٹھا کہ میں اللہ کا خاص بندہ ہوں اس نے مجھ کو کتاب )انجیل)دی ہے اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے ۔ اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت انسان بنادیا ہے )یعنی مخلوق خدا کو مجھ سے دین کا نفع پہنچے گا (اور جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہےاور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا جس دن مجھے موت آئے گی اور جس روز میں( قیامت کے دن زندہ ہونے کی حالت میں)دوبارہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہی ہیں عیسیٰ بن مریم جس میں لوگ جھگڑا کر رہے ہیں میں اس سے متعلق بالکل سچی بات کہہ رہا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی شان کےقطعاً یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے بلکہ وہ اس سے بالکل ہر طرح سے پاک ہے ۔ وہ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا!تو وہ کام اسی وقت ہو جاتا ہے۔ یقیناً میرا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہے اس لیے اسی ہی کی عبادت کرو یہی )دین پر چل کر جنت جانے کا (سیدھا راستہ ہے ۔
حضرت عیسیٰ کی تعلیمات:
مذکورہ بالا گفتگو سے جو باتیں سمجھ آتی ہیں ،وہ یہ ہیں:

1.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ۔ اللہ کے بیٹے نہیں۔ یعنی اس میں عقیدہ ابنیت اور عقیدہ اُلوہیتِ مسیح کے نظریے کی واضح تردید ہے۔

2.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحبِ کتاب نبی ہیں ۔

3.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادر زاد نبی ہیں ۔

4.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود مبارک بہت برکتوں والا ہے۔

5.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز/ روزہ )مراد تمام احکام خداوندی ہیں( کے پابند ہیں۔ آپ الہ نہیں ہیں کیونکہ الہ کسی اور کے حکم کا پابند نہیں ہوتا ۔

6.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے خدمت گزار رہے ہیں صرف والدہ کی بات فرمائی کیونکہ آپ بغیر والد کے تھے اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔

7.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرمان سے معلوم ہوا کہ والدہ کی خدمت نہ کرنے والا سرکش اور بدبخت ہوتا ہے۔

8.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدائش سے لے کر روز محشر تک سراپا سلامتی ہیں ۔ پیدائش کے وقت اپنی بے گناہ ماں کی صفائی بیان کر کے، لوگوں کے جھگڑے کا حل پیش کر کے، عقائد و نظریات کو بیان فرما کے ، اَخلاق و آداب سکھلا کے، انجیل کے ذریعے احکامات سکھلا کےپہلے بھی سراپا سلامتی رہے اور قُرب قیامت نازل ہو کر تمام فتنوں سے اس امت کو محفوظ فرما کے واقعی آپ سراپا سلامتی ہونے کا حق ادا کریں گے۔

9.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود کو عیسیٰ بن مریم فرما کر عصمت نبوت کی دلیل ذکر فرمائی ہے وہ اس طرح کہ نبوت اور زنا والا نسب دونوں ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہو سکتے نبی کا نسب اگر اخلاقی طور پر عیب والا ہو تو یہ بات عقیدۂِ عصمتِ نبوت کے خلاف ہے۔ اس لیے فرمایا کہ میرے نسب پر طعن نہ کرو میں واقعی” ابنِ مریم“ ہوں ۔باقی یہودیوں اور مرزائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب میں یوسف نجار کا نام ذکر کر کے العیاذ باللہ آپ علیہ السلام کے ناجائز اولاد ہونے کی بات کی ہے وہ سراسر کفر ہے ۔

10.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عقیدہ توحید کی نزاہت و پاکیزگی کوبیان فرما کر اپنے” ابن اللہ“ ہونے کی تردید کی ہے ۔

11.

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو خالص توحید کا سبق دے کر صرف اسی ذات کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی کو جنت جانے کا سیدھا اور واحد راستہ قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی مشترکہ دعوت کو صدقِ دل سے قبول کرنےاور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
 
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ، 21دسمبر ، 2020ء