حضرت عیسیٰ کے معجزات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حضرت عیسیٰ کے معجزات
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں ہمارا دینِ اسلام تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت و توقیر کا درس دیتا ہے۔ گزشتہ قسط میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے اہل اسلام کےعقائد و نظریات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ مزید عقائد و نظریات آئندہ ہفتے پیش کروں گا ۔ ایفائے عہد کے پیش نظر پیش خدمت ہیں۔
حضرت عیسیٰ کے 10 معجزات:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جن معجزات کو بیان فرمایا گیاہے مجموعی طور پر ان کی تعداد دس بنتی ہے ۔ جن کو نمبر وار ذکر کیا جا رہا ہے ۔
پہلا معجزہ …بغیر باپ کے پیدا ہونا:
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام جیسا قرار دیا گیا ہے جس طرح حضرت آدم علیہ السلام بغیر باپ اور ماں کے پیدا ہوئے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بغیر باپ کے حضرت مریم علیہاالسلام سے پیدا ہوئے۔
اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 59
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں )حضرت (عیسیٰ) علیہ السلام(کی مثال حضرت آدم جیسی ہے ۔
مشابہت آدم کی مزید دو حیثیتیں :
1: حضرت آدم علیہ السلام بھی فرشتوں کے ساتھ کافی عرصہ رہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اُس وقت سے فرشتوں کے ساتھ رہ رہے ہیں جب سے انہیں اس زمین سے آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا ہے اور قُرب قیامت تک انہی فرشتوں کے ساتھ رہیں گے۔
2: حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین کی طرف نازل ہوئے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آسمان سے زمین پر اتریں گے ۔
دوسرا معجزہ… نومولودگی کی حالت میں کلام کرنا:
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی گفتگو اس حالت میں ہوئی کہ آپ نومولود تھے یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچہ کچھ بولنے پر قادر نہیں ہوتا آپ نے اسی عمر میں فصیح و بلیغ کلام فرمایا ہے ۔ اس کا پس منظر یہ ہے :
فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہَا تَحۡمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾ یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَاکَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّمَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۖۚ۲۸﴾ فَاَشَارَتۡ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:27تا 29
ترجمہ: پھر مریم اپنے بیٹے عیسیٰ کو گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں قوم کے لوگوں نے کہا اے مریم!تم نے بہت بڑی غلط حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن نہ تیرے والد برے آدمی تھے اور نہ ہی تیری والدہ کوئی بدکار عورت تھی۔ مریم نے )چپکے سے (بچے کی طرف اشارہ کیا )کہ مجھ سے نہیں بلکہ اس نومولود بچے سے پوچھوجس پر (وہ لوگ کہنے لگے: بھلا ہم ایسے بچے سے کیسے پوچھ تاچھ کر سکتے ہیں جو ابھی گود میں ہے۔
اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ماں کی گود میں یہ گفتگو فرمائی۔
قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَجَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾ وَّجَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ۪ وَاَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَلَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا ﴿۳۲﴾ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَیَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾ ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ ﴿۳۴﴾ مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنۡ یَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿ؕ۳۵﴾ وَاِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۳۶﴾
سورۃ مریم، رقم الآیات:30 تا 36
ترجمہ: وہ بچہ خود ہی بول اٹھا کہ میں اللہ کا خاص بندہ ہوں اس نے مجھ کو کتاب )انجیل)دی ہے اور اس نے مجھ نبی بنایا ۔ اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت انسان بنادیا ہے )یعنی مخلوق خدا کو مجھ سے دین کا نفع پہنچے گا (اور جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہےاور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا جس دن مجھے موت آئے گی اور جس روز میں( قیامت کے دن زندہ ہونے کی حالت میں)دوبارہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہی ہیں عیسیٰ بن مریم جس میں لوگ جھگڑا کر رہے ہیں میں اس سے متعلق بالکل سچی بات کہہ رہا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی شان کےقطعاً یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے بلکہ وہ اس سے بالکل ہر طرح سے پاک ہے ۔ وہ جب کوئی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا!تو وہ کام اسی وقت ہو جاتا ہے۔ یقیناً میرا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہے اس لیے اسی ہی کی عبادت کرو یہی )دین پر چل کر جنت جانے کا (سیدھا راستہ ہے ۔
فائدہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی درج بالا گفتگو گزشتہ صفحات میں ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں اب موضوع کی مناسبت سے دوبارہ بھی ذکر کر دی ہے۔
تیسرا معجزہ…مٹی سے پرندہ بنا کر اللہ کے حکم سے زندہ کرنا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ مٹی سے ایک پرندے کی شکل بناتے پھر اس میں پھونک مارتے اور وہ پرندہ اللہ کے حکم سے جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا۔
وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللہِ ۚ
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 49
ترجمہ: اور )حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے (بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لے کر آیا ہوں) اور وہ یہ کہ (میں تمہارے سے سامنے گارے )چکنی مٹی(سے پرندے کی ایک شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ )بے جان مٹی کا پتلا(اللہ کے حکم سے )جیتا جاگتا صحیح سالم (پرندہ بن جاتا ہے ۔
چوتھا معجزہ…پیدائشی اندھے کی بینائی لوٹانا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ )مادرزاد(پیدائشی لاعلاج اندھے پر ہاتھ پھیرتے تو اللہ کے حکم سے اس کی بینائی آجاتی۔ وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 49
ترجمہ: اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے کو تندرست کر دیتا ہوں ۔
پانچواں معجزہ…برص والے مریض کو صحت یاب کرنا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ برص والے لاعلاج مریض پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے تندرست ہوجاتا۔ وَ الۡاَبۡرَصَ
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 49
ترجمہ: اور میں برص والے) لاعلاج (مریض شخص کو تندرست کر دیتا ہوں ۔
فائدہ: برص یہ ایک جِلدی بیماری ہےجس کی وجہ سے جسم کے اکثر حصے خاص طور پر چہرے،کمر،ہاتھوں اور پاؤں پر سفید سفید داغ نمودار ہوتے ہیں۔
چھٹا معجزہ…مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرنا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ مردوں کو مخاطب کر کے فرماتے کہ اللہ کے حکم سے کھڑے ہوجاؤ تو وہ زندہ ہوجاتے تھے۔
وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللہِ ۚ
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 49
ترجمہ: اور میں مُردوں )جس میں بظاہر زندگی کے آثار دکھائی نہ دیں (کو زندہ کر دیتا ہوں ۔
ساتواں معجزہ…بغیر دیکھے کھائی اور ذخیرہ کی ہوئی چیزوں کی خبر دینا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ لوگوں کو یہ بتلا دیتے تھے کہ تم کون سی چیز کھا کر آئے ہو اور کون سی چیز گھر میں ذخیرہ کر کے آئے ہو
وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ
سورۃ اٰل عمران، رقم الآیۃ: 49
ترجمہ: اور تم لوگ اپنے گھروں سے جو چیز کھا کر آتے ہو یا ذخیرہ کر کے آتے ہو میں وہ )بغیر دیکھےہی ( تم کو سب )ٹھیک ٹھیک(بتا دیتا ہوں۔
آٹھواں معجزہ… پکے پکائے کھانوں کا دسترخوان اترنا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ نے دعا فرمائی کہ آسمانوں سے پکے پکائے کھانوں کا دسترخوان نازل فرما۔ حدیث مبارک میں ہے کہ وہ دسترخوان نازل بھی ہوا۔
قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَ ارۡزُقۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۱۱۴﴾ قَالَ اللہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾٪
سورۃ المائدۃ: رقم الآیات: 115،114
ترجمہ: حضرت عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ !ہم پر آسمان سے (پکے پکائے کھانوں کا (دسترخوان نازل فرما جو ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا سامان بن جائے اور آپ کی طرف سےایک بڑی نشانی )میری نبوت و رسالت کے حق ہونے پر ایک معجزہ ( ہو ۔ اور ہمیں یہ عظیم نعمت عطا فرما ہی دیں کیونکہ آپ سب سے بہتر )نعمتیں( عطا فرمانے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تم پر وہ دسترخوان )جس کی تم نے مجھ سے دعا مانگی ہے( ضرور اتاروں گا لیکن اس کے بعد تیری قوم میں سے جو شخص بھی کفر کرے گا اس کو میں ایسی سزا دوں گا کہ جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی ہو گی۔
عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُنْزِلَتِ المَائِدَةُ مِنَ السَّمَاءِ خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأُمِرُوا أَنْ لَا يَخُونُوا وَلَا يَدَّخِرُوا لِغَدٍ فَخَانُوا وَادَّخَرُوا وَرَفَعُوا لِغَدٍ فَمُسِخُوا قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:3061
ترجمہ: حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم پر آسمان سے روٹی اور گوشت کا دستر خوان اتارا گیا اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ اس میں کسی طرح کی کوئی خیانت نہ کریں اور نہ ہی اسے کل کے لیے ذخیرہ بنائیں ۔ مگر ان کی قوم نے اس میں خیانت کی اور ذخیرہ کیا جس کی وجہ سے ان کے چہرے مسخ کر کے بندر اور خنزیروں جیسے بنا دیے گئے۔
آمدِ مصطفیٰﷺ کی عیسوی بشارت:
وَاِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۶﴾
سورۃ الصف، رقم الآیۃ: 6
ترجمہ: اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہےکہ) جب )حضرت( عیسیٰ بن مریم نے ) اپنی قوم سے( کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا (رسول) ہوں، کہ مجھ سے پہلے جو )آسمانی کتاب( تورات آ چکی ہے میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں،اور میں ایک عظیم المرتبت رسول کی بشارت دینے والا ہوں ، جو میرے بعدتشریف لائیں گے، جن کا نام احمد ہوگا۔پھر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلم کھلا جادو ہے۔
اس آیت مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس رسول کی آمد کی خوشخبری دی ہے اس سےمراد حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ (وَأَنَا أَحْمَدُ) وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث:3532
ترجمہ: حضرت محمد بن جُبیر بن مُطعم اپنے والد حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: )دیگر ناموں کی طرح )میرے )یہ (پانچ نام بھی ہیں: محمد ، احمد ، ماحی جس کا معنی ہے کفر کو مٹانے والا ، حاشر جس کا معنی ہے وہ ذات جس کے قدموں پر لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور عاقب۔
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ الْفَزَارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِنِّي عِنْدَ اللهِ مَكْتُوبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ وَسَأُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ ذَلِكَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسٰى وَرُؤْيَا أُمِّيَ الَّتِي رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْنِي أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ۔
صحیح ابن حبان ، رقم الحدیث: 6404
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ الفزاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ رب العزت کے ہاں میں اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ سیدنا آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے ۔ مزید فرمایا کہ میں تمہیں اپنے بارے مزید باخبر کیے دیتا ہوں کہ میں اپنے باپ )جد امجد (حضرت ابراہیم کی دعا )کا ثمرہ(ہوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں اور اپنی والدہ کے اس خواب کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک عظیم الشان روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے ۔
اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اسی خوشخبری کا نتیجہ قرار دیا ہے جس کا تذکرہ سورۃ الصف میں ہے۔
انجیل یوحنا کی گواہی:
” احمد “ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسی نام سے آپ کی بشارت دی تھی۔ اس قسم کی ایک بشارت آج بھی انجیل یوحنا میں تحریف شدہ حالت میں موجود ہے۔ انجیل یوحنا کی عبارت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا : ” اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔(یوحنا : 16) یہاں جس لفظ کا ترجمہ مددگار کیا گیا ہے وہ اصل یونانی میں ”فار قلیط“ (Periclytos) تھا جس کے معنی ہیں ” قابل تعریف شخص “ اور یہ ” احمد “ کا لفظی ترجمہ ہے لیکن اس لفظ کو ” Paracletus “ سے بدل دیا گیا ہے، جس کا ترجمہ ”مددگار“ اور بعض تراجم میں ” وکیل “ یا ” شفیع “ کیا گیا ہے۔ اگر ” فارقلیط “ کا لفظ مد نظر رکھا جائے تو صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ ” وہ تمہارے پاس اس قابل تعریف شخص (احمد) کو بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا“ اس میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی خاص علاقے یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہوں گے، بلکہ آپ کی نبوت قیامت تک آنے والے ہر زمانے کے لیے ہوگی۔ نیز برنا باس کی انجیل میں کئی مقامات پر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارتیں موجود ہیں۔ اگرچہ عیسائی مذہب والے اس انجیل کو معتبر نہیں مانتے، لیکن ہمارے نزدیک وہ ان چاروں انجیلوں سے زیادہ مستند ہے جنہیں عیسائی مذہب میں معتبر مانا گیا ہے۔
آسان ترجمہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ، سورۃ الصف ، رقم الآیۃ:6
نواں معجزہ…آپ کا زندہ حالت میں آسمان پر اٹھایا جانا:
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں ایک بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے دین حق کی تبلیغ شروع فرمائی تو یہودی لوگوں نے اسے اچھا نہ سمجھا کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پہلے لوگوں کا رجحان یہودیوں کی طرف تھا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے اس رجحان میں کمی آئی تو وہ لوگ حسد کا شکار ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بن گئے ۔ قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔
وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَقَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا ﴿۱۵۶﴾ۙ وَّقَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ﴿۱۵۷﴾ۙ بَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۵۸﴾
سورۃ النساء، رقم الآیات: 158،157
ترجمہ: اور یہودیوں نے کفر اختیار کیا اور حضرت مریم پر (العیاذ باللہ۔ ناجائز جنسی تعلقات کا بہت (بڑا بہتان لگایا ۔اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا تھا ۔ )اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ غلط کہتے ہیں ( حالانکہ نہ تو انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا تھا اور نہ ہی سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس میں شک کا شکار ہوئے ہیں ۔ انہیں محض گمان کی اتباع کے حقائق پر مبنی باتوں کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ یقیناًوہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کر پائے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ اپنے پاس )آسمانوں کی طرف(اٹھالیا اور اللہ تعالیٰ بڑا صاحب اقتدار اور حکمت والا ہے ۔
”رفع “ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جانے کا مطلب:
امام فخرالدین محمد بن عمر بن الحسين الرازی رحمہ اللہ (م: 606ھ) اس آیت کے تحت ایک گمراہ فرقہ) فرقہ مُشَبِّہَ(کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اَلْمُرَادُ الرَّفْعُ اِلٰی مَوْضِعٍ لَایَجْرِیْ فِیْہِ حُکْمُ غَیْرِ اللہِ۔
تفسیر الرازی ،تحت قولہ تعالیٰ بل رفعہ اللہ الیہ
ترجمہ: اس آیت مبارکہ میں رفع سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کا )ظاہری طور پر بھی( حکم نہیں چلتا۔
فائدہ: فرقہ مُشَبِّہَ کے دیگر گمراہ کن نظریات میں سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کےلیے جہت کے قائل ہیں اور اپنا )غلط (استدلال سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت سے کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اھل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات تمام جہات کو محیط ہے محض کسی خاص جہت میں نہیں کہ اس کے علاوہ دیگر جہات میں نہ ہو۔
غامدی صاحب کا باطل عقیدہ:
دور حاضر کے نام نہاد مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے اپنا غلط نظریہ یہ پیش کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت آئی ہے، پھر اللہ نے اُن کو آسمان پہ اٹھایا ہے۔ جبکہ اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت نہیں آئی ہے بلکہ اللہ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے۔
غامدی صاحب کا قرآنی آیت سے غلط استدلال:
غامدی صاحب اپنے باطل نظریے کا قرآن کریم سے استدلال کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے ۔ ان کا غلط استدلال اور اس کا صحیح جواب پیش خدمت ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں:﴿اِذۡ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ﴾اس میں اللہ نے فرمایا: ﴿یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ﴾ عیسیٰ! میں آپ کو وفات دوں گا، ﴿وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾ اور تجھے آسمان پر اٹھا لوں گا۔ دیکھو! خدا نے پہلے وفات کی بات کی ہے پھر اٹھانے کی بات کی ہے۔ کافر تیری لاش کی بے حرمتی نہیں کرسکیں گے۔ اس سے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ نےحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے وفات دی ہے پھر اوپر اٹھایا ہے ۔
غامدی صاحب کے غلط نظریے کی تردید:
جب عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرکے قتل کرنے کے لیےیہودی آپ کے پیچھے دوڑے تو عیسیٰ علیہ السلام ایک کمرے میں چھپ گئے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی ہےکہ آپ گھبرائیں نہیں ﴿اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ﴾ موت تو میرے اختیار میں ہے یہ تجھے نہیں مار سکتے۔ اب عیسیٰ علیہ السلام عرض کرتے ہیں یا اللہ موت تو آپ کے اختیار میں ہے آپ ہی دیں گے میرا اس پر پورا یقین کامل ہےلیکن یہ لوگ تو میرے کمرے کے باہر پہنچ چکے ہیں۔ تو اس موقع پراللہ رب العزت نے ﴿اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ﴾ کہہ کرتسلی دی ہےاور ﴿وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾ کہہ کے اٹھا لیا ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے امام ضحاک رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ موجود تھے اور ابلیس نے یہودیوں کو جا کر بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام فلاں کمرے میں چھپے ہیں، جا کر انہیں گرفتار کرو اورقتل کردو۔یہودی باہر جمع ہو کے آگئے اب باہر یہودی ہیں اندر عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ موجود ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: یہودی آگئے ہیں، تم میں سے کوئی ایسا بندہ ہے جو اپنی جان قربان کردے؟ تو وہ کل قیامت کے بعد جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ ایک حواری نے کہا: جی! میں تیار ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو اپنی مبارک پگڑی دی اور اپنی مبارک قمیص دی۔ انہوں نے پگڑی بھی سر پہ رکھ لی اور قمیص بھی پہن لی۔ اللہ نے شکل بھی عیسیٰ علیہ السلام جیسی بنادی ۔تو جب یہ باہر نکلے تو یہودیوں نے سمجھا کہ یہی عیسیٰ ہیں۔ اسی کو قرآن نے بیان کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی پہ نہیں چڑھے بلکہ ان کا جو شبیہ)ملتی جلتی شکل و شباہت والا( تھا اس کو انہوں نے سولی پہ چڑھا یا۔ وہ قتل ہوگیا اور عیسیٰ علیہ السلام بچ گئے۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ طیطلانوس نامی ایک یہودی شخص تھا ، اس کو یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیےکمرے کے اندر بھیجا تو اس کی شکل کو اللہ نے تبدیل کر دیا۔ جب باہر نکلا تو یہود نےاسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا ۔ بہر حال! قرآن کا فیصلہ ہے: ﴿وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ بنادی تھی یہود ان کو نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب پر چڑھا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوآسمان پہ اٹھا لیا۔
مُتَوَفِّیْکَ کا معنیٰ:
مُتَوَفِّیْکَعربی زبان کا لفظ ہےاور یہ لفظ " تَوَفِّیْ"بروزن" تَفَعُّل"سے بنا ہے جس کا معنی ہوتا ہے "اَخْذُ الشَّیْئِ وَافِیًا. یعنی ”کسی چیز کو پورے طور پر لے لینا“اس کا لغوی معنیٰ موت نہیں ہے۔ باقی جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کے بارے میں بھی یہی لفظ بول لیتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر چکا ہوتا ہے۔ بالخصوص جب توفی کے ساتھ موت یا نیند کا قرینہ نہ ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے پورا پورا لے لینا اور یہاں بھی موت یا نیند کا قرینہ موجود نہیں تو اس کا معنیٰ ہوگا : "اِنّیْ قَابِضُکَ تَمَاماً"یعنی میں تجھے پورا کا پورا اپنی طرف لے لوں گا ۔
دسواں معجزہ…قرب قیامت دوبارہ نازل ہونا:
قرب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمان سے نازل ہوں گے ۔ دجال کا خروج ہو چکا ہوگا اور امام مہدی دمشق کی جامع مسجد میں نمازِ فجر کے لیے تیاری میں ہوں گے۔ اسی دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے جامع مسجد کے مشرقی مینار پر دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے اورنماز سے فراغت کے بعد امام مہدی کی معیت میں دجال پر چڑھائی کریں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ کافر اس کی تاب نہ لا سکے گا،جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نظر جائے گی وہاں تک آپ کا سانس پہنچے گا اس سانس کے پہنچتے ہی کافر مر تے جائیں گے۔ دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور ’’باب لُد ‘‘پر جا کر اس کواپنے نیز ہ سے قتل کریں گے اور اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔ اس کے بعد لشکر اسلام دجال کے لشکر کا مقابلہ کرے گا۔ اس لشکر میں جو یہودی ہوں گے مسلمانوں کا لشکر ان کو خوب قتل کرے گا۔ اس طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے گی۔
عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِ اَبِی الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لَیَنْزِلَنَّ عِیْسَی بْنُ مَرْيَمَ اِمَامًا مُقْسِطًاوَحَكَمًا عَدْلًا فَليُكَسِّرَنَ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَ الْخِنْزِيرَوَلَیُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَیْنِ وَلَیُذْھِبَنَّ الشَّحْنَاءَ وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلَا يَقْبَلْهُ ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلٰى قَبْرِيْ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ!لَأُجِيْبَنَّهُ۔
مسند ابی یعلیٰ،رقم الحدیث: 6577
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس ذات کی قسم !جس کے قبضہ قدرت میں مجھ ابوالقاسم )آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ہے(کی جان ہے ۔ )قرب قیامت (حضرت عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اس وقت آپ کی حیثیت یہ ہوگی کہ آپ اہل ایمان کے امام ہوں گے ان کے درمیان انصاف کرنے والے ہوں گے آپ ہی ان کے فیصلے فرمائیں گے اور عدل کو قائم کرنے والے ہوں گے ۔ صلیب )عیسائیوں کادینی شعار( کو توڑ دیں گے )عیسائیت کو ختم کریں گے(خنزیر کو قتل کر دیں گے )یہودیت کو ختم کر یں گے(اہل ایمان کی آپس کی دشمنیاں ختم کرائیں گے اور حسد / بغض کو ختم کرائیں گے۔ آپ کو مال کی پیش کش کی جائے گی لیکن آپ اسے قبول نہیں فرمائیں گے پھر وہ )مدینہ طیبہ میں (میری قبر پر تشریف لائیں گے اور آکر مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں گے اے محمد!تو میں ان کو جواب دوں گا۔
مدینہ طیبہ …روضہ مطہرہ میں عیسیٰ کی تدفین:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فَأَقُومُ أَنَا وَعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ۔
مشکوٰۃ المصابیح،رقم الحدیث:5508
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام قرب قیامت آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، نکاح کریں گے ان کی اولاد ہوگی دنیا میں ان کی مدت قیام پنتالیس 45 سال ہوگی پھر )قرب قیامت کے اسی زمانے میں (آپ کی وفات ہوگی میرے روضہ میں میرے ساتھ دفن کیے جائیں گے اور قیامت والے دن میں اور عیسیٰ بن مریم دونوں ایک ہی مقبرے سے ابو بکراور عمر رضی اللہ عنہما کےساتھ باہر آئیں گے ۔
روضہ اقدس میں عیسیٰ کی قبر کی جگہ موجود ہے:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ۔ قَالَ: فَقَالَ أَبُو مَوْدُودٍ وَقَدْ بَقِيَ فِي البَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:3617
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس میں آپ کے قریب ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفن کیا جائے گا ۔ ابو مودود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روضہ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دفن ہونے کی جگہ اب بھی موجود ہے ۔
قیامت والے دن عیسیٰ کی بارگاہِ خداوندی میں گفتگو:
وَ اِذۡ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۱۶﴾ مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ وَکُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۱۱۷﴾ اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾
سورۃ المائدۃ، رقم الآیات:118،117،116
ترجمہ: اور جب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے عیسیٰ بن مریم!کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھے اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ وہ عرض کریں گے کہ میں تو آپ کی ذات والا صفات کو شرک سے پاک سمجھتا ہوں ۔ بھلا میری کیا مجال کہ میں ایسی بات کہوں؟جس کے کہنے کا مجھے کسی طرح حق نہیں ۔ اگر واقعی میں نے ایسی بات کی ہوتی تو یقیناً آپ کے علم میں ضرور ہوتی کیونکہ آپ تو وہ باتیں بھی جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہوتی ہیں جبکہ میں آپ کی مخفی باتوں کو نہیں جانتا۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے۔میں نے ان لوگوں سے اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی جس بات کہنے کا آپ نے مجھے حکم فرمایا تھا ۔ اور وہ بات یہ تھی کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ۔ ہاں جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا میں ان کے حالات سے واقف رہا اور جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگران تھے اور آپ کی ذات تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔ اگر آپ ان کو سزا دیں تو آپ کو حق ہے کیونکہ وہ آپ بندے ہیں اور اگر آپ انہیں معاف فرما دیں تو آپ کا اقتدار بھی کامل درجےکا ہے، حکمت بھی کامل درجے کی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام انبیاء کرام کے باہمی فرق مراتب کو ملحوظ رکھ کر ان پر بلاتفریق ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ان کی مشترکہ دعوت کو صحیح معنوں میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ، 28دسمبر ، 2020ء