زکوٰۃ کے فضائل و مسائل

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

زکوٰۃ کے فضائل و مسائل

دین اسلام میں زکوٰۃ ہر مالدار صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔زکوٰۃ کی معاشرتی حیثیت  ایک مکمل اور جامع نظام  کی ہے ۔ اگر ہر صاحبِ نصاب زکوٰۃ دینا شروع کر دے تو مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں اور اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی غیر سے قرض کی بھیک نہ مانگیں اورزکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی مسلمان سود کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔

 

زکوۃ کی فضیلت:

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً 32 مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کو ذکر فرمایا ہے ۔ جس سے اس کی اہمیت معلوم ہو سکتی ہے ۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بے شمار احادیث میں زکوٰۃ کی فضیلت ، ترغیب اور افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ معلوم یہ ہوا کہ زکوٰۃ کو دین میں بہت اہمیت دی گئی ہے ۔اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو سخت عذاب کی وعید بتلائی گئی ہے ۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو !

عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما من رجل لا یؤدی زکوۃ مالہ الا جعلہ اللہ یوم القیامۃ فی عنقہ شجاعا ۔۔۔ ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتاہم اللہ من فضلہ ۔جامع الترمذی (

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ  جو شخص اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ )راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی آیت کا مصداق ہمیں سمجھایا اور یہ آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے (اور ہرگز خیال  نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لیے اچھی ہوگی بلکہ یہ بات ان کی بہت بری ہے وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنادیے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔

صاحبِ نصاب کون ہے ؟:

جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عورت کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے ۔

وجوب کی شرائط:

1:     مسلمان ہونا

2:     نصاب کا پورا ہونا

3:     عاقل بالغ ہو

4:     اس پر سال گزر جائے۔

زکوۃ  کے چند اہم مسائل:

مسئلہ1: اگر کسی کی آمدنی کافی ہے لیکن وہ مقروض ہے اور خرچہ زیادہ ہونے کی وجہ سے قرض ادا کرنے پر قادر نہیں تو ایسے آدمی پر زکوٰۃ واجب نہیں۔

مسئلہ2: جس شخص کی ماہانہ آمدنی معقول ہے لیکن سال بھر تک اس کے پاس نصاب کی مقدار جمع نہیں رہتی اور اس پر زکوۃ واجب نہیں ۔

مسئلہ3: اگر ادھار کی رقم نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو وصول ہونے کے بعد زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا اگر ادھار کی رقم وصول ہونے میں چند سال کا عرصہ گزر گیا تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ دینا لازم ہوگا۔

مسئلہ4: اگر استاد غریب ہے نصاب کا مالک نہیں تو شاگرد کے لیے استاد کو زکوۃ دینا جائز بلکہ مستحق استاد کو زکوۃ دینے کا ثواب زیادہ ملے گا ۔

مسئلہ5: مردہ کے ایصال ثواب کے لیے زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں بلکہ دوسری حلال رقم صدقات زکوۃ کے علاوہ سے ایصال ثواب کرنا ہوگا ورنہ میت کو ثواب نہیں ہوگا۔

مسئلہ6: باپ اور بیٹا مل کر پیسہ کماتے ہیں اور پیسہ والد کے قبضہ میں ہے اور  باپ ہی اس میں سے تصرف کرتا ہے اور وہ رقم نصاب کے برابر ہے تو سال گزرنے کے بعد باپ کے لیے زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا بیتے کے لیے نہیں کیونکہ ان پیسوں کا مالک  باپ ہے ہاں اگر وہ اپنا اپنا پیسہ تقسیم  کردیں تو الگ الگ زکوۃ واجب ہوگی۔

مسئلہ7: اپنے باپ کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔

مسئلہ8: بچہ اگر صاحب نصاب ہے تو نابالغ ہونے کی وجہ سے اس کے مال وغیرہ پر زکوۃ واجب نہیں اور ولی کے لیے نابالغ کے مال سے زکوۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا دوسری عبادات کی طرح بچہ پر زکوۃ بھی واجب نہیں۔

مسئلہ9: زکوۃ کی رقم سے مکانات بناکر مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے سے زکوۃ ادا ہوگی البتہ مستحق لوگوں کو مکمل طور پر مالک بنا دینا ضروری ہے مکان کا قبضہ بھی دےدیں رجسٹرڈ کراکر کاغذات بھی ان کے حوالے کر دے  تاکہ وہ اپنے اختیار سے جس قسم کا جائز تصرف کرنا چاہے کرسکیں۔

مسئلہ 10: جو رقم زکوٰۃ کی نیت کے بغیر اد اکی جائے اور جس کو دی جائے وہ خرچ بھی کرلے اب اگر اس مال کو زکوۃ میں شمار کیا جائے تو وہ درست نہیں اور زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔

مسئلہ11: بھابھی،  بھائی، بھتیجا، بہن اگر وہ نصاب کے مالک نہیں اور مستحق بھی ہیں  اور ان کا کھانا  پینا الگ ہو تو ان سب کو زکوۃ دینا جائز ہے۔

مسئلہ12: اگر حکومت  یا بینک والے کھاتے داروں سے ان کی اجازت سے اصل رقم  سے زکوۃ کاٹ کر مستحقین زکوۃ کو مالکانہ طور پر دیتے ہیں تو زکوۃ ادا ہوگی اور اگر اصل رقم سے ادا تو کریں لیکن مالک کے اجازت کے بغیر تو پھر زکوۃ ادا نہیں ہوگی مالک کو زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے اور اگر وہ حکومت  یا بینک والے اصل رقم سے نہیں بلکہ نفع کے نام پر جمع ہونے والی سود کی رقم سے زکوۃ ادا کریں تو زکوۃ بالکل ادا نہیں ہوگی کیونکہ حرام رقم سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔

مسئلہ13: بیوی کو اگر شوہر زکوۃ دے تو یہ جائز نہیں۔

مسئلہ 14: اگر بیوی صاحب نصاب ہے تو خود بیوی کو زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے شوہر پر ضرور ی نہیں۔

مسئلہ15: پرائز بانڈ کی اصل قیمت یعنی جس رقم سے پرائز بانڈ خریدا ہے  وہ نصاب  کے برابر ہو تو اس اصلی رقم پر زکوۃ واجب ہے اور ہر قرعہ اندازی میں نام نکلنے کی صورت میں جو رقم زائد ملتی ہے وہ نہ تو لینا جائز ہے اور نہ ہی اس پر زکوٰۃ ہے جہاں سے لیتا ہے واپس کرے ورنہ بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردینا ضروری ہے۔

مسئلہ 16: اگر کوئی تجارت کی نیت سے پلاٹ خریدے یا زمین خریدے )یعنی فروخت کرنے کی نیت سے( تو اس صورت میں اس کی قیمت سے ہر سال زکوۃ ادا کرنا فرض ہے اور ہر سال مارکیٹ میں جو فروخت کی قیمت ہوگی اس کا اعتبار ہوگا ۔

مثلاً ایک پلاٹ ایک لاکھ میں خریدا تھا سال مکمل ہونے پر اس کی قیمت 5لاکھ ہوگی تو زکوۃ 5لاکھ سے دینی ہوگی اور اگر پلاٹ ذاتی ضروریات کے لیے خریدا تو اس پر زکوۃ واجب نہیں، اور اگر پلاٹ خریدا رقم کو محفوظ کرنے کے لیے تو اس صورت میں بھی زکوۃ ہر سال واجب ہوگی۔

مسئلہ 17: اگر پلاٹ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو جب تک اس کو فروخت نہیں کیا جائے اس پر زکوۃ واجب نہیں۔

مسئلہ 18: اگر کوئی شخص سال کے پورے ہونے سے پہلے یا سال مکمل ہونے کے بعد تھوڑی تھوڑی کر کے زکوۃ ادا کرے تب بھی جائز ہے۔

مسئلہ 19: اگر کسی آدمی نے کمیٹی کے طور پر پیسے جمع کروائے ہوں اور وہ نصاب کے برابر بھی ہوں اور پھر اس آدمی پر کسی قسم کاقرض وغیرہ بھی نہ ہو تو اس محفوظ شدہ پیسوں کی زکوۃ ادا کرنی ضروری ہوگی اور زکوۃ ادا کرتے وقت کمیٹی کی جمع شدہ رقم کو اصل مال اور نقدی کے ساتھ ملایا جائے گا۔

مسئلہ 20: اگر کوئی شخص یوں کرتا ہے کہ وہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے اور پھر یہ سمجھتا ہے کہ انکم ٹیکس کے ساتھ ساتھ زکوٰہ بھی ادا ہو گئی ۔ تو اس کی یہ سوچ غلط ہے کیونکہ انکم ٹیکس ملکی ضروریات کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے مقرّر ہے، جبکہ زکوٰة ایک مسلمان کے لئے فریضہٴ خداوندی اور عبادت ہے، انکم ٹیکس ادا کرنے سے زکوٰة ادا نہیں ہوتی، بلکہ زکوٰة کا الگ ادا کرنا فرض ہے۔

نوٹ : ہم نے چند مسائل لکھ دیے ہیں ۔ زکوٰۃ کے باقی مسائل دریافت کرنے کے لیے اپنے قریبی علماء / دارلافتاء سے رابطہ کریں۔