تراویح کے فضائل ومسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

تراویح کے فضائل ومسائل

رمضان شریف کا مہینہ عالمِ روحانیت کا موسم بہار ہے۔ دن کوفرض روزہ رکھنا اوررات کوسنت تروایح اداکرنااس مبارک مہینہ کی مخصوص عبادات ہیں۔ حدیث مبارک میں ارشاد ہے:

شَهْرٌکَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَہٗ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ۔ )سنن ابن ماجۃ: ص94، باب ما جاء فی قيام شهر رمضان(

ترجمہ:اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نےتم پر فرض فرمائے ہیں اور میں نے اس کے قیام(تراویح) کو تمہارے لیے سنت قرار دیا ہے۔

 اس ماہِ مبارک کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں ایک نفل کاثواب فرض کے برابر اورایک فرض کاثواب ستر فرائض کے برابرکردیاجاتاہے۔ )مشکوۃ المصابیح: ج ص173(

اس لیے ان مبارک گھڑیوں کوغنیمت سمجھا جائے اورایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہیےشائد آئندہ  ہمیں یہ مقدس گھڑیاں نصیب ہوں یانہ ہوں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ، ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّى يَنْسَلِخَ ۔ )شعب الایمان للبیہقی: ج3، ص310(

ترجمہ:جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کمر کَس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے ،یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔

لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہے کہ :كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِى الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِى غَيْرِهَا۔ )صحیح مسلم: ج1، ص372، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر الخ(

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔

نیز امت کوبھی اس مہینے میں عبادت کی ترغیب دیتے تھے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ )صحیح بخاری: ج1،ص10، باب تطوع قیام رمضان من الایمان(

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے تروایح پڑھی تواس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔

ان احادیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک میں خود بھی بکثرت عبادت فرماتے تھے اورامت کوبھی بکثرت عبادت کی ترغیب دیتے تھے۔اس لیے اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ جتنی عبادت ہوسکے پوری ہمت اورکوشش سے کرنی چاہیے۔

قیام رمضان:

قیام رمضان (تراویح)آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے بیس رکعت فرمایا۔ اسی پر حضرات خلفاءِ راشدین میں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ، دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ مجتہدین و  حضرات مشائخ رحمہم اللہ عمل پیرا رہے، بلاد اسلامیہ میں چودہ سو سال سے اسی پر عمل ہوتارہاہے اورامت کا اسی پر اجماع ہے ۔آنے والے سطور میں اس کی وضاحت آ رہی ہے ۔

لفظ تراویح:

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّۃُ الْوَاحِدَ ۃُ  مِنَ الرَّاحَۃِ کَتَسْلِیْمَۃِ مِنَ السَّلَامِ)فتح الباری شرح صحیح البخاری ج4ص317(

ترجمہ: تراویح”ترویحہ‘‘کی جمع ہے اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کوکہتے ہیں، جیسے ”تسلیمہ‘‘ ایک دفعہ سلام کرنے کو کہتے ہیں۔

تراویح کسے کہتے ہیں؟

”ترویحہ‘‘ وہ نشست ہے جس میں کچھ راحت لی جائے۔ چونکہ تراویح کی چاررکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر راحت لی جاتی ہے،اس لیے تراویح کی چار رکعت  کو ایک ”ترویحہ‘‘ کہاجانے لگا اورچونکہ پوری تراویح میں پانچ ترویحے ہیں، اس لیے پانچوں کامجموعہ ”تراویح‘‘کہلاتاہے ۔

علامہ حافظ ابن حجرعسقلانی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سُمِّیَتِ الصَّلٰوۃُ فِی الْجَمَاعَۃِ فِی لَیَالِی رَمَضَانَ التَّرَاوِیْحَ ؛ لِاَنَّھُمْ اَول مااجتمعواعلیھا کانوایستریھون بین کل تسلیمتین۔ )فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج4، ص317(

ترجمہ: جونماز رمضان کی راتوں میں  باجماعت اداکی جاتی ہے اس کانام ”تروایح“ رکھاگیاہے، اس لیے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پہلی بار اس نماز پرمجتمع ہوئے تووہ  ہر دوسلام (چاررکعتوں)کے بعدآرام کیاکرتے تھے۔

تروایح سنت مؤکدہ ہے :

حضورعلیہ السلام نے قیام رمضان کوسنت قرار دیا ہے جیساکہ ابھی باحوالہ گزرا ہے۔آپ علیہ السلام کے بعدحضرات خلفاء راشدین اوردیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر مواظبت فرمائی جیسا کہ ہم اس کابیان کریں گے، اور یہی مواظبت دلیل ہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے۔حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ حضورعلیہ السلام کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ۔ )سنن ابی داؤد: ج2،ص290، باب فی لزوم السنۃ(

ترجمہ: تم میری سنت کواورہدایت یافتہ خلفاء راشدین (رضی اللہ عنہم) کی سنت کو اپنے اوپرلازم پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔

اس حدیث مبارک  میں جہاں آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اپنی سنت پر لفظ ’’علیکم‘‘(تم پر لازم ہے) اور عضواعلیھابالنواجذ (مضبوطی سےتھام لو) سے عمل کرنے کی تاکید فرمائی اسی طرح حضرات خلفاء راشدین  رضی اللہ عنہم کی سنت پر بھی عمل کرنے کی تاکید فرمائی جوکہ تراویح کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل ہے۔

با جماعت نمازتراویح؛ تین راتیں:

آپ علیہ السلام سے تراویح کی جماعت صرف تین دن ثابت ہے، پورا مہینہ آپ علیہ السلام نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نماز نہ پڑھائی جیساکہ احادیث میں اس کی صراحت موجودہے۔ چنانچہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِىَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ. قَالَ فَقَالَ « إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ». قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاَحُ. . . . ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. )سنن ابی داؤد ج1ص204،  باب فى قيام شهر رمضان(

ترجمہ: فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے پورا مہینہ ہمیں رات میں نمازنہیں پڑھائی یہاں تک کہ سات دن باقی رہ گئے تو(تیئسویں رات میں) آپ نے ہمیں نمازپڑھائی یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی جب چھ دن رہ گئے تونمازنہیں پڑھائی پھر جب پانچ دن رہ گئے تونماز پڑھائی(یعنی پچیسویں رات میں)یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی میں نے عرض کی: یارسول اللہ!  اگر آپ اس رات کے باقی حصے میں بھی ہمیں نفل پڑھادیتے توکیاہی اچھا ہوتا!آپ نے فرمایا: جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز(عشاء)پڑھے پھر اپنے گھر واپس جائےتو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب چار دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، جب تین دن باقی رہ گئے توآپ نے اپنے گھروالوں، عورتوں اوردیگرلوگوں کوجمع کیا اور نماز پڑھائی (یعنی ستائیسویں رات)اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ہم سے سحری رہ جائے گی، پھرباقی ایام بھی آپ نے ہمیں نمازنہیں پڑھائی۔