کسبِ حلال

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
کسبِ حلال
اللہ تعالیٰ ہمارے”رازق“ ہیں یعنی تمام مخلوقات کوساری ضروریاتِ زندگی عطا فرمانے والے ہیں۔ اپنے محض فضل و احسان کی وجہ سےاس رزّاق ذات نے تمام مخلوقات کی روزی کا ذمہ خود لے لیا ہے اور ہمیں رزقِ حلال کمانے کا حکم دیا ہے ۔
اُس مسبب الاسباب ذات نے رزقِ حلال کو اِس دنیا )دارالاسباب( میں تحت الاسباب رکھا ہے لیکن ان اسباب کو اختیار کرنے میں محض عقل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ شریعت کی تعلیمات کا مکلف بنا دیا ہے کیونکہ محض عقل حلال و حرام میں فرق اور تمیز نہیں کر سکتی جب تک کہ شریعت کی تعلیمات کو اس کے ساتھ دل و جان سے تسلیم نہ کر لیا جائے۔
حصولِ رزق کا معتدل اسلامی نظریہ:
اسلام وہ اعتدال والا دین ہے جس میں نہ افراط کی گنجائش ہے اور نہ ہی تفریط کی بلکہ اس کے تمام ارکان میں اعتدال ہی اعتدال ہے۔ نہ تو اسلام رہبانیت کا درس دیتا کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہو اور نہ ہی نکمے پن اور بھکاری پن کو کسی صورت تسلیم کرتا ہے بلکہ کسبِ حلال کی نہ صرف ترغیب بلکہ حکم دیتا ہے۔ اسلام میں واضح طور پر اس کے تمام جائز ذرائع کی حوصلہ افزائی اور اس سے متعلق تفصیلی احکامات موجود ہیں۔
زبانِ فطرت کی صدا:
جس جہان میں ہم آباد ہیں اس جہان میں انسان کے علاوہ دیگر کئی جاندار وغیر جاندار مخلوقات ہیں: زمین ، آسمان، سورج ، چاند ، ستارے ،حجر و شجر ، آگ ،پانی، مٹی۔ بری /بحری اور فضائی جانور اور چرند و پرندوغیرہ سب کے سب خدا تعالیٰ کے حکم کے پابند ہو کراپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں تو اشرف المخلوقات انسان کیوں عضو معطل کی طرح نکما اور بے کار بیٹھا رہے؟
احسانِ خداوندی:
انسان کےسمجھنے کےلیے ارض و سما کا فطری نظام بھی کافی تھا لیکن خدائے بزرگ و برتر کا احسان دیکھیے کہ ان سب کے باوجود حصولِ رزق کے لیے جائز ذرائع اپنانے کا واضح طور پر انسان کو حکم دیا:
وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللہِ
سورۃ الجمعۃ ، رقم الآیۃ:10
ترجمہ: اور اللہ کے فضل ) روزی( کو کمانےکےلیے شرعاً جائز ذرائع استعمال کرو ۔
حصولِ رزق کے جائز ذرائع:
جیساکہ پہلے عرض کیا ہے کہ اسلام نے حصول رزق کے معاملے میں انسان کو عقل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کو شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنے کا پابند کیا ہے اور شریعت میں حصول رزق کے ذرائع میں ایسی وسعت رکھی ہے کہ ہر طبقے کا انسان اس میں شامل نظر آتا ہے ۔اجمالی طور پر ہم اسےچار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:1:تجارت 2:صنعت 3:زراعت 4:مزدوری
تجارت اور تاجر :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الأَمِيْنُ مَعَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:1209
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر )روز محشر( نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔
ذخیرہ اندوز تاجر ملعون ہے:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اَلْجَالِبُ مَرْزُوْقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُوْنٌ۔
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : 2153
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جائز طریقے سے نفع کمانے والے تاجر کو)برکت والا ( رزق ملتا ہے جبکہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا اللہ کی رحمت سےخود کو دور کر نے والا )لعنتی( ہے۔
صنعت اور صنعت کار:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْتَرِفَ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:13200
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اللہ تعالیٰ صنعت والے)مومن(کو پسند فرماتے ہیں ۔
خلیفہ راشد کا طرزِ عمل:
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا اسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ قَالَ لَقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَتِي لَمْ تَكُنْ تَعْجِزُ عَنْ مَؤُنَةِ أَهْلِي وَشُغِلْتُ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَسَيَأْكُلُ آلُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَيَحْتَرِفُ (وَأَحْتَرِفُ) لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث2070
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اور خلیفہ منتخب کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میری قوم یہ بات جانتی ہے کہ میرا تجارتی کاروبار ہے جو میرے اہل وعیال کے گزران کے لیے کافی ہے ۔ لیکن اب میں مسلمانوں کے انتظامی معاملات میں مشغول ہو رہا ہوں (اور اس وجہ سے خود کما نہیں سکتا )اس لیے میرے گھر والے بیت المال سے کھائیں گے اور میں مسلمانوں کا مالِ تجارت بڑھاتا رہوں گا ۔
زراعت اور کاشت کار:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2320
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان شجر کاری یا کھیتی باڑی کرتا ہے۔اس سے پرندے، انسان اور جانور اپنی غذا حاصل کرتے ہیں تو یہ اس کےلیے صدقہ بن جاتا ہے۔
مزدوری اور مزدور:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ أَمَا فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ قَالَ بَلَى حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنْ الْمَاءِ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ وَقَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ وَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ فَأَتَاهُ بِهِ فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودًا بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ وَلَا أَرَيَنَّكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَاشْتَرَى بِبَعْضِهَا ثَوْبًا وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ الْمَسْأَلَةُ نُكْتَةً فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
سنن ابی داؤد ، رقم الحدیث:1398
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے مالی امداد کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مالی تعاون کرنے کے بجائے انہی سے سوال کیا کہ آپ کے گھر میں کچھ سامان وغیرہ ہے ؟ انصاری نے عرض کی : جی ہاں ۔ ایک ٹاٹ ہے جس کے آدھے حصے کو میں نیچے بچھاتا ہوں اور دوسرے آدھے حصے کو اوپر لیتا ہوں ۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ ہےجس میں پانی پیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ!وہ گھر گئے اور دونوں چیزیں لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ مبارک میں لیا اور حاضرینِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : یہ دونوں چیزیں خریدنے کے لیے کون تیار ہے؟ ایک شخص نے عرض کی: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں خریدنے کو تیار ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو تو بتائے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دو تین بار دہرائی۔ایک دوسرے شخص کہنے لگے: میں یہ چیزیں دو درہم میں خرید تا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو درہم پیش کیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں چیزیں دو درہم کے عوض اس کو بیچ دیں ۔ اور وہ دو درہم اس انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا: آپ ایک درہم سے اپنے اہل خانہ کے لیے کھانے پینے کا سامان خرید لو اور دوسرے درہم سے بازار سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ وہ انصاری صحابی گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں ایک درہم کا سودا سلف لے کر گھر دیا اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ ڈالا اور ان سے فرمایا: یہ کلہاڑی لو اور جنگل کی طرف چلے جاؤ ، وہاں سے لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچو!مجھے پندرہ دن تک یہاں نظر نہ آؤ۔ وہ انصاری صحابی چلے گئے اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچتے رہے جب ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے تو انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیےکپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ اپنے ہاتھوں سے محنت مزدوری کر کے کمانا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قیامت کے دن چہرے پر اس بھیک کا داغ ہونے سے بہتر ہے۔
ہاتھ کی کمائی بہترین روزی:
عَنِ الْمِقْدَامِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أَكَلَ أَحَدٌ (أَحَدٌ مِنْ بَنِي آدَمَ) طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث2072
ترجمہ: حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اولادِ آدم میں کوئی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھا سکتا جو اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہو۔ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کمایا کرتے تھے۔
مزدور کی فضیلت:
عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَنْ يَحْتَطِبَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةً عَلَى ظَهْرِهِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ أَحَدًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ
صحیح البخاری، رقم الحدیث2074
ترجمہ: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابوعُبید کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لکڑیوں کا گھٹا اپنی کمر پر لاد کر لائے (محنت والا کام کرے( یہ شخص اُس سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔ جس کے سامنے اس نے ہاتھ پھیلائے ہیں چاہے وہ اسے کچھ دے دے یا نہ دے۔
صحابہ کرام کا طرزِعمل:
قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَّالَ أَنْفُسِهِمْ وَكَانَ يَكُونُ لَهُمْ أَرْوَاحٌ فَقِيلَ لَهُمْ لَوِ اغْتَسَلْتُمْ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث2070
ترجمہ: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اپنے کام خود کیا کرتے تھے اور زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ان کے جسم سے پسینہ بہتا جس کی وجہ سےان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ، 14دسمبر ، 2020ء