خواجہ فریدالدین گنج شکر رحمہ اللہ
مولانامحمدطارق نعمان
اللہ والے وہ ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کہ اللہ یاد آجاتاہے ان کے کام اورمقام کواللہ پاک بلند کردیتاہے وہ دنیامیں ہوتے ہیں توان کے چاہنے والے انہیں بلندیوں میں دیکھتے ہیں اورجب دنیاسے جاتے ہیں تووہ چاہنے والوں کے دلوں میں رَس بس جایاکرتے ہیں ان ہی اللہ والوں میںایک عظیم ولی ،صوفی باصفا،عظیم شاعر وعظیم روحانی شخصیت جناب حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں ان کی زندگی پہ ہی صرف اگر لکھاجائے توایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے آئیے گلشن گنج شکر کی سیر کرتے ہیں۔ جناب فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔ فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بنیاد مانے جاتے ہیں۔ فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ کا شمار برصغیر کے مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی دنیا کو پہچان کروائی۔ انہوں نے زندگی بھر قرآن وسنت کے پرچم کوبلند رکھا،اوصاف حمیدہ اوراخلاق کریمہ کاایک سنہری باب آپ کی زندگی کے ساتھ منسلک ہے بابا فرید29شعبان المعظم 569ھ کو ملتان کے ایک قصبے کھوتوال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ سیرالعارفین کے مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔ کچھ روایات کے مطابق آپ کا سلسلہ خلیفہ دوم حضرت عمر کے ساتھ جا ملتا ہے ۔ آپ کے دو بھائی عزیز الدین اور نجیب الدین تھے۔ شجرہ نسب: حضرت بابافریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ بن حضرت شیخ جمال الدین سلیمان بن شیخ محمد شعیب بن شیخ محمداحمد بن شیخ محمدیوسف بن شیخ شہاب الدین فرخ شاہ کابلی بن شیخ نصیرالدین محمودبن شیخ سلیمانی ثانی بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ واعظ الاصغربن شیخ ابوالفتح واعظ الاکبربن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن ادھم بن شیخ سلیمان اول بن شیخ منصور بن شیخ ناصر بن حضرت شیخ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن امیرالمؤمنین خلیفہ ثانی ،مرادرسول وسسررسولﷺ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ۔۔ ازدواجی زندگی: حامد بن فضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ فرید الدین رحمہ اللہ نے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔آپ رحمہ اللہ کے 5صاحبزادے اور3صاحبزادیاں تھیں۔ صاحبزادے :
¥ شیخ شہاب الدین المعروف گنجِ عالم رحمۃ اللہ علیہ
¥ خواجہ بدرالدین سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ
¥ خواجہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ
¥ خواجہ محمدیعقوب رحمۃ اللہ علیہ
¥ خواجہ نصیرالدین نصراللہ رحمہ اللہ
صاحبزادیاں:
¥ بی بی مستورہ رحمۃ اللہ علیھا
¥ بی بی شریفہ رحمۃ اللہ علیھا
¥ بی بی فاطمہ رحمۃ اللہ علیھا
چشتیہ سنگت: بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔اپنے پیرومرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔ پیرومرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور قطب الدین بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔ اور حضرت محبوبِ الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے مرشد تھے۔ پاکپتن فرید الدین کامسکن: کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشیں ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھیاور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے گئے ۔شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔