عورت کا مقام اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عورت کا مقام
)اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد(
مولانا محمد اختر حنفی
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات

میں رنگ

اسی کے سوز سے ہے زندگی کا

سوزِ دروں

آئیے ایک طائرانہ نظر ماضی کے اوراق پرڈالتے ہیں۔ یہ قبل از اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور ہے۔ انسان جہالت اور درندگی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا تھا ،اشرف المخلوقات میں سے عورت کو حقیر ترین مخلوق سمجھا جاتا تھا، دنیا میں نہ اس کے کوئی حقوق تھے نہ معاشرہ میں اس کی کوئی عزت، بلکہ اس کے ساتھ جنگلی مخلوق جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔
اقوام عالم میں کوئی بھی اسے تقدس و احترام کی چادر اوڑھانے کو تیار نہیں ، عیسائیت میں عورت کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے، مرد کے لیے معصیت کی تحریک کا سر چشمہ ہے اور جہنم کا دروازہ ہے، تمام انسانی مصائب کا آغاز اسی سے ہوا ہے وہ شیطان کی سب سے بڑی آلہ کارہے دنیا والوں پر مصیبت لائی ہے اس کے شرمسار ہونے کے لیے اتنا کافی ہے وہ عورت ہے۔
فریڈرک ولہیلم نیٹشے کا کہنا ہے کہ عورت مرد سے زیادہ چالاک اور خبیث ہے۔کیا تم عورت کے پاس جا رہے ہو؟ اپنا چابک نہ بھول جانا۔جب کوئی شخص کسی عورت پر عاشق ہو جائے تو اسے شادی کی اجازت نہیں ملنا چاہیئے کیوں کہ دیونگی کے عالم میں انسان اپنے مستقبل کا درست فیصلہ نہیں کرسکتا۔
جو عورت علمی اور عقلی مسائل میں دلچسپی لیتی ہے اس کے جنسیاتی نظام میں لازماً خلل ہوتا ہے۔عورت ایک معمہ ہے اور حمل اس معمے کا حل۔
حقیقی مرد دو چیزوں کا خواہشمند ہوتا ہے خطرہ اور تفریح۔ اسی لیے وہ عورت کی خواہش کرتا ہے کیوں کہ عورت تفریح کا سب سے خطرناک سامان ہے۔ایشیائی دانشمند ہیں کہ عورت کو پردے میں بند رکھتے ہیں۔عصمت فروشی کے ادارے کو شادی کی رسم نے خراب کر دیا ہے۔انتقام اور محبت میں عورت مرد کی بہ نسبت زیادہ سفاک ہوتی ہے۔صرف احمق ہی عورتوں کے حقوق اور آزادی کی بات کرتے ہیں۔
ترتولیاں(Tertullian) کا کہنا ہے کہ عورت شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنو عہ کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر مرد کو غارت کرنے والی ہے۔
کرائی سوسٹم کے بقول : عورت اہک ناگزہر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک غارت گر دلربائی، ایک آراستہ مصیبت ہے۔
ان کے ہاں ایک قاعدہ یہ تھا جس روز چرچ کا تہوار ہو اس سے پہلے کی رات جس میاں بیوی نے اکٹھے یکجا گزاری ہو تو وہ تہوار میں شریک نہ ہوسکتے گویا کہ انہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مذہبی عبادت میں شریک نہ ہوسکتی تھی۔
کلورٹنکو بھی یہ بات تسلیم ہے کہ کرسچن چرچ کے ابتدائی دور میں ازدواجی زندگی غیر قانونی تصور کی جاتی تھی۔
الغرض اس صنف نازک کو مغرب نے کہیں پناہ نہ دی تھی الٹا اس کو طعن کا نشانہ بنایا۔
مختلف تہذیبوں نے عورت سے ناروا سلوک کیا اگرچہ مختلف مذاہب میں کثرت ازواج کی گنجائش موجود رہی بلکہ اسے عملاً بھی اپنایا گیا پھر عورت کی عزت و عصمت کو بیدردی سے تارتار کیا گیا۔ آپ کو تاریخ کے اوراق اس نتیجے تک ضرور لے آتے ہیں کہ یونان ،روم، ایران و مصر جیسی تہذیبوں نے ) جنہیں اپنےمہذب ہونے پر فخر تھا( تذلیل نسواں کے نکتے کو عروج تک پہنچایا۔
اب آئیے روم اور یونان کی طرف۔ یہ اقوام قدیمہ میں سے ہے جس کی تہذیب کو سب سے زیادہ شاندار تصور کیا جاتا ہے وہ اہل یونان ہیں۔ لیکن اس قوم کے ابتدائی دور میں اخلاقی نطریہ، قانونی حقوق اور معاشرتی برتاؤ ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی نظر آتی ہے۔ عورت معاشرہ کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کی جنسی خواہشات کا مرکز بنی ہوئی تھی، فلاسفر ، شعراء اور ادباء تمام کے تمام اس کے نقطہ شہوانیت کے گرد گھومتے تھے۔ یونانیوں کے حسن و جمال اور حسن پرستی نےجسم کی آگ کو خوب بھڑکایا یہاں تک ان کے ذہن سے یہ بھی جارتا رہا کہ یہ بھی کوئی عیب ہے۔
اکثر مؤرخین کا خیال ہے کہ یونان میں عورت نہایت گھٹیا اور کم درجہ کی مخلوق تصور کی جاتی تھی۔
ڈاکٹر گنتاولی کہتے ہیں کہ یونانی لوگ عموماً عورت کوا یک کم درجہ کی مخلوق سمجھتے تھے اگر کسی عورت کا بچہ خلافِ فطرت پیدا ہوتا تو اس کو مار ڈالتے تھے۔
یونانیوں کے بعد جس قوم کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ اہل روم ہیں لیکن عورت کی حیثیت یہاں بھی کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ مرد کو بیوی پر پورے حقوق حاصل ہیں اور بعض حالات میں وہ عورت قتل کرنےکا بھی مُجاز ہے۔ اخلاقی حدود جب اتنی پست ہو گئیں تو روم میں شہوانیت او رخواہشات کا سیلاب بلا پھوٹ پڑا۔ بے حیائی اور عریانی کے مظاہرے ہونے لگے فلور نامی کھیل روم اتنا مقبول ہوا کہ اس میں برہنہ عورتیں دوڑتیں۔
انسائیکلو پیڈیاآف برٹانیکا کے گیارہویں ایڈیشن کا مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ رومی تہذیب میں عورت اپنی آزادی اور خود مختاری کی شکوہ کناں نظر آتی ہے۔ اس مملکت میں عورت کو ہمیشہ تنگ دست ،محتاج رکھا گیا ہے شادی کے بعد اس کی تمام جائیداد ، تمام حقوق قانونی طور پر اس کے شوہر کے سپرد کر دیتے تھے اس کو ایک غلام کی حیثیت دی جاتی تھی ،وہ معاشرہ میں تباہ تھی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
نبوت سے کوئی ڈیڑھ سال قبل عرب کے ہمسایہ ملک فارس )موجودہ ایران( کی حالت یہ تھی کہ باپ ،بیٹی اور بھائی کا بہن کو حق زوجیت میں لینا کوئی معیوب نہ تھا۔
یزد گرد ثانی نے جو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں فارس کا بادشاہ تھا اپنی حقیقی بیٹی سے نکاح کیا اور پھر اسے قتل کر ڈالا۔
مزدک کی تعلیمات)نبوت سے چند سال پہلے(نے ایران میں بڑی تباہی مچائی اس کی تعلیمات یہ تھیں کہ دولت وعورت کسی کی میراث نہیں بلکہ ساری قوم کا مشترکہ ورثہ ہے جس طرح دولت سب کی سانجھی ہے اس طرح بیوی بھی سب کی سانجھی ہے۔ فارس اخلاقی قیود سے آزادی اور بدکاری کا طوفان ایران کوبہا کر لے گیا حکمران طبقہ خواہش پرستی میں لت پت تھا۔ فارسی قانون نے گھر کی ملکہ کو ایک غلام اور بیوی کو ایک درجہ پر رکھا تھا۔
مصر کی حالت بھی زیادہ کچھ اس سے جدانہ تھی قحبہ گری عام تھی۔ مصری فراند کی حرم میں بے انتہا عورتیں ہوتی تھیں اکثر وہ اپنی سگی بہن کو حق زوجیت میں لے لیتے تھے کبھی اپنی بیٹیوں سے بھی وظیفہ زوجیت سے نہ چوکتے ہاں محرمات میں صرف سگی ماں شامل تھی۔
ہندوستان پر اسلام کی شمع روشن ہونے سے پہلے یعنی محمد بن قاسم کے گھوڑوں کے قدموں کی چاپ سنائی دینے سےقبل بر صغیر میں عورتوں سے کیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کی بابت ہندؤوں کا رویہ نفرت انگیز رہا ہے۔
ڈاکٹرگستاولی بان نے تمدن عرب میں لکھا ہے کہ ہندوں کا قانون کہتا ہے کہ تقد یر ،طوفان، موت، جہنم، زہر، زہریلے سانپ ان میں کوئی اس قدر خراب نہیں جس قدر عورت۔
ایک طرف غلامی ہے تو دوسری اتنا ظلم ستم عورت کے ساتھ کہ میلے پر بد مست مردوں کے درمیان میں ماں اور بیٹی کا فرق اٹھ جاتا تھا، اور جانوروں کی طرح کھلے عام فروخت ہوتی تھی۔ شوہر کے فوت ہونے کے بعد شوہر کے ساتھ اسی عورت کو بھی جلا دیا تھا، بے چار ی مظلومیت کی منہ بولتی تصویر تھی، ان کے ہاں شادیوں کی ایک قسم یہ بھی تھی کہ باپ بیٹی کو فروخت کردیتا۔
کچھ مؤرخین تو یہ کہتے ہیں کہ ہندؤوں میں ایک مذہبی فرقہ ایسا بھی تھا کہ جس میں ننگی عورتوں کی پوچا کی جاتی تھی۔ برہمن کے دور میں بیوی عورت ہونے کی صورت میں خاوند کے بھائیوں کی لونڈی بن جاتی تھی۔
لڑکی باپ کی وارث نہیں بن سکتی ،نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیٹی وارث نہیں بلکہ متبنیٰ)منہ بولا( بیٹا جو غیر کا ہوتا تھا وہ وارث ہوتا تھا، الغرض یہ تہذیب و تمدن کے سارے ادوار جن کا تعلق قبل از اسلام سے ہے۔
قبل از اسلام عورت کی محکومیت کے دو نام تھے۔ مال غنیمت میں حاصل ہونے والی عورتوں سے نفع مند ہونے کے علاوہ دوسرا طریقہ عورتوں کو فروخت کرنے کا تھا۔ فروخت کر کے اس کی یوں تذلیل کی جاتی تھی اس کی فروخت مکہ اور ایران کے درمیان باز نطینہ کے مقام پر ہوتی تھی۔ اتنا ظلم عورت کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ اس کو فروخت کرنے کے لیے بعض اوقات الف ننگا کرکے دکھایا جاتا تھا، یعنی ایک ہی شخص کی ملکیت میں سے فروخت کر کے ماں اور بیٹی کو اپنے حرم میں اکٹھے رکھا جا سکتا تھا ، دوسرا یہ ظلم تھا کہ اگر کوئی آدمی فوت ہوتا اس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں بہن کو نشانہ بناتا تھا اور کسی سے کوئی چیز ضرورت ہوتی تو لینے کے لیے عورتوں کو رہن بھی رکھا جاتا تھا۔ کعب بن اشرف یہودی غلہ کے بدلہ عورتوں کو رہن میں رکھتا تھا اور عورتوں کے باہمی تبدیلی کا رواج بھی عام تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیوی دوسرے کو اور دوسری کی اپنے پاس رکھ لیتے تھے، بڑے بڑے رئیس لونڈیوں کو بدکاری کا حکم دیتے کہ کچھ کمائی کرلائیں، عبداللہ بن ابی کے بارے میں تاریخ میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ملتی ہے کہ وہ اپنی دو لونڈیوں )جن میں ایک نام سکینہ جبکہ دوسری کا نام ا میمہ تھا ( کو زناء پر مجبور کرتا تھا۔ عورتیں کعبہ کا ننگا طواف کرتی تھیں لات و منات کی خوشنودی کے لیےبعض شہوت انگیز اشعار پڑھتی تھیں۔
دختر کشی کی رسم عام تھی:
ان کے ہاں کوئی لڑکی پیدا ہوتی تو اسے ساتھ لے کر جنگل میں گڑھا کھود کر اس میں پیوند خاک کردیتا۔ حالی کہتے ہیں :
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر

تو خوف شجاعت سے بے رحم مادر

پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور

کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
 
جنے سانپ جیسے جننے والی
وہ معاشرہ جس میں بھائی بہن سے شادی کرتا ہو باپ بیٹی کو اپنی زوجیت میں لیتا ہو بیٹا اپنے باپ کی منکوحہ کے ساتھ رشتہ ازدواج منسلک کرتا ہو اس معاشرے کو انسانی معاشرہ کہنا عقلاًممکن نہیں ہے۔
تو آج کے مستشرقین بھلا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم کر کے قید کرنے کوشش کی ہے۔ حالانکہ اسلام نے تو عورت کو حقیقی آزادی ، خودمختاری سے جینے کا حق ، اور معاشرے میں بلند مقام دیا ہے۔
تاریخ کے دریچوں سے یہ حقیقت اب آشکار ہونے کو تیار ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو اس کے اندھیرے کو نور اسلام سے تبدیل کرنے کے لیے خالق دو جہاں نے دعا ءِابراہیم و ذبیح، بشارت مسیح کو پورا کرتے ہوئے رحمت دو جہاں کو مبعوث فرمایا۔ محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر معاشرتی بگاڑ کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کیا اور اشرف المخلوقات میں ظلم تشدد کا نشانہ بننے والی صنف نازک کے مقام کو واضح الفاظ میں بیان کیا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک شخص نے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ماں کا تین بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا چوتھی مرتبہ فرمایا تمہارے باپ کا حق ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: مسلمانوں میں ان آدمیوں کا ایمان زیادہ کامل ہے جن کے اخلاق بہتر ہوں اور تم میں سے اچھے اور خیر کا حامل وہ شخص ہے جو گھر والوں سے اچھا ہو۔
)جامع ترمذی (
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح آئیں گے (آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا)۔
)بخاری و مسلم (
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے اس صنف نازک کی عزت و عصمت کو تار تار کیا گیا جاتا تھا کعبہ کا ننگا طواف کیا جاتا اور اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رات گذاری جاتی ، بہن بیٹی کا فرق نہ رکھا جاتا ، خاتون خانہ کو سب کے سامنے عیاں کیا جاتا اور اس کو فروخت کیا جاتا ،میلوں ٹھیلوں میں اس کو گناہ کا موجب اور معاشرہ کی بد ترین مخلوق سمجھا جاتا ، خاص دنوں میں اس کو گھر سے نکال کر جنگلوں میں بھیج دیا جاتا، یا گھر میں باندھ دیا جاتا، اور شوہر کے فوت ہوجانے کے ساتھ ان کو بھی ستی کردیا جاتا ، اس کو کوئی حق نہ ہوتا اور سنگ دلی کا یہاں تک مظاہرہ کیا جاتا کہ زندہ بچی کو زمین بوس کردیا جاتا۔ اس دنیا کی ابتر حالت کو درست کرنے کے لیے اور اس معاشرہ کی گری ہو مخلوق کوتقدس اور احترام کے بلند مقام پر پہنچانے کے لیے ،معاشرے میں اس کو حقیقی عزت اور آزادی دینے کے لیے اسلام نے اصول مقرر فرمائے۔ اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قوانین کی اپنے عمل سے وضاحت کی۔ لیکن آج مغربی تہذیب و تمدن کا راگ الاپنے والوں نے اس سے اس کی حقیقی آزادی بلکہ آزادی کی روح سلب کر لی ہے۔
اللہ ہم سب کو پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری تعلیمات کو اپنا کر زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
نہ سلیقہ مجھ میں کلام کا نہ قرینہ مجھ

میں سلام کا

میرے آنسوؤں کو سخن کہو میری

خاموشی کو نوا کہو