حبرالامۃ سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

تذکرۃ الفقہاء(آخری قسط)

حبرالامۃ سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
4:اہل السنۃ والجماعۃ احناف کا موقف ہے کہ نمازی نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہ کرے،احناف کے اس موقف کی تائید قرآن کی آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
قد افلح المومنون الذین ہم فی صلوتہم خاشعون
(المومنون:1،2)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما خاشعون کی تفسیر میں فرماتے ہیں
مخبتون متواضعون لایلتفتون یمینا ولا شمالا ولا یرفعون ایدیہم فی الصلوۃ،
(تفسیر ابن عباس ص212)
ترجمہ: خاشعون سے مراد وہ لوگ ہیں جو عاجزی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں نہ دائیں بائیں متوجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں۔
قارئین کرام!یہ صرف چند مثالیں تھیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے آپ رضی اللہ عنہما کو بہت بڑا حصہ علم تفسیر کا عطاء فرمایا تھا۔
تنبیہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس تفسیری روایت پر بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ اس تفسیر کا مرکز ی راوی محمد بن مروان سدی صغیر ہے جو محدثین کے ہاں مجروح ہے۔ لہذا اس روایت سے دلیل پکڑنا درست نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتب اسماء الرجال دیکھنے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ کبھی ایک شخص ایک فن میں مجروح ہوتا ہے مگر دوسرے فن میں وہی شخص ثقہ، امام اور معتبر ہوتا ہے۔ مثلاً :
1: محمد بن اسحاق بن یسار: ان پر فنِ حدیث میں "کذاب "و غیرہ کی جرح ہے۔
[ الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج:3 ص:41]
مگر مغازی اور سیر میں اسی محمد بن اسحاق کو "امام "اور "مرجع کہا گیا "ہے۔
[ تذکرۃ الحفاظ ذھبی ج:1 ص: 130]
2:عاصم بن ابی النجود کوفی : حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "لہ اوھام " یہ شخص وھم کا شکار ہوتا تھا،مگر فنِ قراءت میں اسی عاصم ابن ابی النجود کو "حجت"قرار دیا۔
[ تقریب التھذیب ص:321 رقم الترجمہ 3054 ]
3: حفص بن سلیمان اسدی : حافظ ابن حجر عسقلانی ان کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ متروک الحدیث ہے،لیکن فن قراءت کا امام ہے۔
[ تقریب :209 رقم الترجمہ 1405]
اس تصریح سے ثابت ہوا کہ کسی شخص پر ایک فن پر میں جرح ہونے سے وہ تمام فنون میں مجروح نہیں ہو جاتا بلکہ جس فن کا وہ ماہر ہو اس میں اس کا قول معتبر ہوتا ہے۔ یہی حال محمد بن مروان کا ہے کہ ان پر جرح فنِ حدیث میں ہے نہ کہ فنِ تفسیر میں، بلکہ فنِ تفسیر میں اسے " صاحب التفسیر المفسر" کہا گیا ہے۔
[مغانی الاخیار ص:429 ، شذرات الذھب ج:1 ص:318]
اور ہم نے بھی تفسیری روایت پیش کی ہے جو اصول کے اعتبار سے قبول ہے۔
نوٹ : تفسیر ابن عباس کے متعلق اس اشکال کے مفصل جواب کے لئے "قافلہ حق ج:6 شمارہ 3 " میں برادر مکرم مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ کا تحقیقی مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
فقہی مسائل:
اللہ تعالیٰ نے فقہ میں بھی آپ رضی اللہ عنہما کو وافر حصہ عطاء فرمایا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہما نے مکہ میں فقہ کی بنیاد رکھی اور اپنے فقہی ذہن سے اتنے مسائل وفتاویٰ بیان فرمائے جن کو 20جلدوں میں لکھا گیا۔
(اعلام الموقعین ج1ص12)
آپ رضی اللہ عنہما کے چند فقہی مسائل درجہ ذیل ہیں۔
1: آپ رضی اللہ عنہما ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی کہتے تھے۔
عن مجاہد قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنہما فجاء رجل فقال انہ طلق امراءتہ ثلاثا فسکت حتیٰ ظننا انہ رادہا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یابن عباس یابن عباس وان اللہ عزو جل ثناءہ قال ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا وانک لم تتق اللہ فلا اجدلک مخرجا عصیت ربک وبانت منک امراتک،
(السنن الکبریٰ بیہقی ج7ص331)
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے پاس موجود تھا آپ رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص نے آکر بتایا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں آپ رضی اللہ عنہماخاموش رہے ہم نے سمجھا کہ آپ رضی اللہ عنہما اس کی بیوی کو اس کے پاس رہنے کی اجازت دے دیں گے۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تم خود حماقت کا ارتکاب کرتےہو پھر مجھے آوازیں دیتے ہو اللہ کا فرمان ہے کہ جو اس سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی نجات کا راستہ بنا دیتے ہیں تو نے بیوی کو تین طلاقیں دے کر خوف خدا نہیں کیا لہذا تیرے لیے اب کوئی صورت نہیں تیری بیوی اب تجھ سے جدا ہوگئی اور تونے اپنے رب کی نافرمانی کی۔
2: اما م کے پیچھے قراءت نہ کرنا:عن ابی جمرۃ قال قلت لابن عباس اقرا والامام بین یدی فقال لا
(سنن طحاوی ج1ص160)
ترجمہ: حضرت ابو جمرہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کیا میں امام کے پیچھے قرآن پڑھ سکتا ہوں؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا نہیں۔
3: وتر کی تین رکعات:
عن ابی منصور قال سالت عبداللہ بن عباس عن الوتر فقال ثلاث (سنن طحاوی ج1ص203)
ترجمہ: حضرت ابومنصور فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وتر کی رکعتوں کے متعلق سوال کیا آپ رضی اللہ عنہمانے فرمایا تین رکعتیں ہیں۔آپ رضی اللہ عنہما خود بھی تین رکعات وتر پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص199)
وفات حسرت آیات:
68ھ میں علم کایہ مجسمہ وادی طائف میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ نے آپ رضی اللہ عنہما کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا: مات واللہ الیوم حبر ہذہ الامۃ
(الاصابہ ج2ص1079)
کہ آج اس امت کا ایک بہت بڑا عالم دنیا سے رخصت ہو گیا۔
حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جنازے میں شریک تھا جب آپ رضی اللہ عنہما کو دفن کیا گیا تو قبر سے قرآن پاک کی ان آیات کی تلاوت سنی گئی :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ • ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً • فَادْخُلِي فِي عِبَادِي • وَادْخُلِي جَنَّتِي
(الاصابہ ج2ص1080)