فقہ کی اہمیت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

">فقہ کی اہمیت

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
” اسلام“ اللہ تعا لیٰ کا وہ پسندیدہ دین ہے جسے تا قیا مت با قی رہنا ہے۔اس کے سرچشمہ ہدایت اوردستور یعنی قرآن مجید کی حفا ظت کا وعدہ اللہ تعا لیٰ نے خودفر ما یا ہے۔ ارشاد با ری ہے :
’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون ‘‘
(حجر:9)
ہم ہی نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبا ن ہیں۔
اللہ تعا لیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی حیا ۃ طیبہ کے ہر ہر گو شے کی حفا ظت فر ما ئی اور اسے بہتر ین نمو نہ قرار دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاۃ طیبہ در اصل قر آ ن کریم کی تشریح وتو ضیح ہے جو آج بھی احا دیث کی کتا بو ں میں موجود ہے۔ دین اسلام جو در حقیقت دستور حیات اور طرز زند گی کا نا م ہے، کا مدار کتا ب وسنت پر ہے۔ قر آ ن کر یم جو منبع رشد وہدایت اور اسلامی فقہ کا ماخذ اول ہے، نے انسانی زند گی کے لیے بنیادی زریں اصو لوں کی نشا ندہی کر دی ہے اور اس کے اجما لی احکام کی تشریح سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے میسر آجاتی ہے اور ان دونوں (قرآن وسنت ) کی رو شنی میں مشابہ اور ہم مثل مسائل پر قیا س کر تے ہو ئے یا علت وحکمت کو پیش نظر رکھتے فقہاءکرا م رحمہم اللہ نے نئے ابھرنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے۔
مسائل کے استباط میں فقہی اختلاف کا ہو نا ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ مختلف فقہی مکا تب فکر وجود میں آئے۔ ان میں سے صرف چا ر کو عا لمگیر شہرت ومقبولیت حا صل ہو ئی اور اہل حق کے نزدیک چاروں فقہا ء کرا م (امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شا فعی ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) اہل السنت والجماعت میں داخل ہیں اور انہیں ادب واحترا م کی نگاہ سے دیکھنا ازحدضروری ہے۔ پھر ان چارو ں میں سے سید الفقہاء، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شخصیت اور ان کی مرتب کردہ فقہ کو جو بے پناہ مقبو لیت حاصل ہو ئی وہ اہل نظر پر مخفی نہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے فقہ حنفی کا مدار قر آ نی دلا ئل ، احا دیث نبویہ اور صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ جا ت پر ہے۔ دوسری وجہ اس میں موجود کشش، جاذبیت اور معقولیت ہے۔ چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جب کسی مسئلہ کا حل قر آ ن وسنت میں صرا حتاً نہ ملتا تو آپ ان اقوال صحا بہ رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع فر ما تے جو اقرب الی القر آ ن والسنۃ ہو تے۔ اگر اقوال صحا بہ رضی اللہ عنہم میں بھی مسئلہ کا حل نہ ملتا تو خداداد صلا حیت کے بل بو تے پر اجتہاد فر ما تے تھے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک شوریٰ قائم فر مائی تھی جو چا لیس صاحب علم وفضل شخصیات پر مشتمل تھی۔ جب کو ئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کا حل قرآن وحدیث اور اقوال صحا بہ میں نہ ملتا تو اجتہاد فر ما کر مجلس شوریٰ کے سامنے بیا ن کرتے اور باوجود فقہی بصیرت ،مہارت تا مہ اور وسیع النظر ہو نے کے صا ف لفظو ں میں یہ اعلان فر ما تے ۔
’’ھذارای نعمان بن ثابت۔ یعنی نفسہ۔ وھو احسن ماقدرنا علیہ فمن جا ء باحسن منہ اولیٰ بالصوا ب ‘‘۔
(حجۃ اللہ البا لغہ1/384)
یہ نعمان بن ثا بت (یعنی میری را ئے ہے )کی را ئے ہے اور ہمیں جہا ں تک قدرت حاصل ہو ئی اس میں یہ بہترین قول ہے اور جو کوئی اس سے بہتر قول پیش کر سکے تو وہ زیا دہ صحیح ہے۔
ایک ایک مسئلہ پر مہینہ بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت تک بحث ومباحثہ جاری رہتا مجلس شوریٰ میں سے ہر ایک زیر بحث مسئلہ پر را ئے قائم کرتا۔ جب کسی رائے پر دلائل کھل کر سامنے آ جا تے، ایک جانب راجح ہو جاتی تو امام صا حب کے حکم سے قاضی ابو یو سف رحمہ اللہ اس مسئلہ کو زیب قر طا س فر ما لیتے اس طریقہ سے فقہ حنفی کی تدوین ہو ئی۔
فقہ کی تدوی کی ضرورت کیو ں پیش آئی ؟اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ قر آ ن وسنت میں بہت سے مسائل واحکام کو وضاحت کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے جیسے تو حید، رسالت ، اثبات قیا مت، حرمت شراب، تجا رت کی اجاز ت ،حرمت سود، حرمت خنزیر ،احکام طلاق اور احکام نکا ح وغیرہ۔ مگر بہت سارے ایسے مسائل جو زند گی کے مختلف گو شو ں سے متعلق تھےان کے با رے میں صرف اصول وقواعد کے ذکر کرنے پر اکتفا ء کیا گیا جو گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے مشعل راہ بن سکیں۔مثال کے طور پر موجودہ زمانہ ہی کو دیکھ لیجئے کہ اس میں جدیدٹیکنالوجی مثلاًپرنٹ میڈیا،الیکٹرونک میڈیا کو بہت عروج حاصل ہو رہا ہے اور ہر آنے والادن گذشتہ دن کی بنسبت مزید ترقی کی جا نب گا مزن ہے۔ امت کو آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا ہے، جن کا حل قر آ ن وسنت اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم میں وا ضح طور پر موجود نہیں۔ مثلاً شیئرز کی خرید وفروخت کا حکم ، الکحل ملی ہو ئی دوائیوں کا حکم ، بینکا ری کا مسئلہ، تکا فل کی شرعی حیثیت ،ٹیلفون اور انٹر نیٹ پر نکاح کا شرعی حکم ،زند ہ جا نورو ں کی تو ل کر خرید وفروخت کا حکم ، کمپنیوں کے ملٹی لیول مارکیٹنگ اور ان کا شرعی حکم ، فاریکس کے کا روبا ر اور اے ٹی ایم کا رڈز کی شرعی حیثیت وغیرہ وغیرہ۔ تو فقہا ء کرا م جنہیں اللہ تعا لیٰ نے فقاہت اور فہم وفراست کا غیر معمولی حصہ عطا ء فر ما یا اور جو قر آ نی آیت۔
’’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم الآیۃ ‘‘
(نسا ء:83)
کا مصداق ہیں وہ ان نصوص اور اصول وقواعد کی رو شنی میں مسائل کا استنباط کر کے امت کے سامنے نمایاں فر ما دیتے ہیں، فقہ حنفی پر ہزاروں ،لا کھو ں نہیں بلکہ بلا مبا لغہ کروڑں انسان پھولوں پہ شہد کی مکھی کی طرح امنڈ پڑے اور ان مسائل کو اپنے لئے کا میا بی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کر لیا۔
ایک با ت کا یہا ں ذکر کر نا منا سب ہے کہ فقہ قر آن وحدیث کے مقابل کوئی تیسرا علم نہیں بلکہ ان کی تو ضیح وتشریح کا نا م ہے۔ بعض لو گ یہ با ور کرا نے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقہ پر عمل کر نے والے قر آ ن وسنت کے تا رک ہیں اور فقہ بدعت ہے۔ یہ لو گ در حقیقت مغا لطہ دیکر سادہ لوح مسلمانو ں کے دلو ں میں ائمہ مجتہدین اور فقہ کے خلاف نفر ت کا بیج بو تے ہیں اور یہ بات ارباب عقل و دا نش سے پوشیدہ نہیں کہ فقہ وفقہا ء سے نفرت گمرا ہی کا پہلا زینہ ہے ،ورنہ اجتہاد کا وجودتو خود عہد رسا لت میں بھی تھا جیساکہ حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس پر شاہد ہے۔
عصر حاضر میں پائے جانے والے اختلافاف اور فرقہ پرستی کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ناقص العلم و العمل لوگ جو شائد اجتہاد کی ابجد سے بھی واقف نہ ہوں، کی ”تحقیقات“ کی بجائےان فقہاء کی فقہ پر عمل کیا جائے جو صحیح معنوں میں قرآن و سنت کے صحیح عالم بھی تھے اور ان پر عامل بھی۔