ادب کیا ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خزائن السنن:
ادب کیا ہے؟
مفتی شبیر احمد حنفی
ادب ایسی چیز ہے جس کے اختیار کرنے سے انسان بلندیاں حاصل کر سکتا ہے۔ مثل مشہور ہے: با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔ ادب کیا ہے؟ اسے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے ایک ملفوظ میں بیان فرمایا۔ افادہ عام کے لیے ہدیہ قارئین ہے۔
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا:
” اور ادب کیا چیز ہے، سن لیجئے! دین کی کتاب پر ٹوپی کو مت رکھو،اسی طرح قلم، چشمہ اور مسواک وغیرہ کو بھی کتاب پر نہ رکھو، قرآن شریف پر بخاری شریف کو مت رکھو کیونکہ قرآن شریف اللہ کا کلام ہے اور بخاری شریف پر فقہ کی کتاب مت رکھو کیونکہ بخاری شریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے اورفقہ پر تصوف کی کوئی کتاب نہ رکھو۔ہر چیز کا مرتبہ الگ ہے اور اپنے بڑوں کا ادب رکھو۔ جب اپنا کوئی بڑا خصوصاً اپنا شیخ تقریر کررہاہو تو خود مت بولو۔ اس وقت اگر گوئی علمی نکتہ ذہن میں آجائے تو یہ نہ کہو کہ حضرت! مجھے ایک بات یاد آگئی، میں نے فلاں کتاب میں یہ پڑھا تھا،یہ سخت بےادبی ہے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ،مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ،مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ ،مولانا سید سلیمان ندوی جیسے بڑے بڑے علماء سب خاموش رہتے تھے۔میرمجلس کے متعلق یہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم کی بارش ہورہی ہے، تم بولو گے تو اس بارش میں دخل انداز ہوگے، لہذا اللہ تعالیٰ کے فضل میں دخل انداز مت ہو۔خاموشی سے سنو۔ اسی لیے اللہ نے کان دو دئیے ہیں اور زبان ایک دی ہے۔ لہذا ایک بولو اور دو سنو یعنی بولو کم اور سنو زیادہ۔حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں کہ چھوٹا بچہ پیدا ہونے کے بعد پہلے بولتا نہیں، ماں باپ کی سنتا ہے پھر اس کے بعد صحیح بولتاہے اور جو بچہ بہرا ہو ماں باپ کی گفتگو نہ سنتا ہو، وہ بول نہیں سکتا۔ہر بہرا گونگا ہوتا ہے، دنیا میں جتنے گونگے ہیں سب بہرے ہیں،ان کے کان نہیں ہوتے اور جو کان بنتا ہے اس کو زبان ملتی ہے۔ لہذا شیخ کی بات کے لیے سراپا کان بن جاؤ۔ پھر ان شاء اللہ ایسی زبان عطاء ہو گی کہ دنیا حیران ہو گی۔
قونیہ میں مولانا کے اشعار کی یہ شرح بیان ہوئی جس کا اس بس میں دوبارہ مذاکرہ ہوگیا۔مثنوی الہامی کتاب ہے، ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کہنا آسان کام نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہو۔ مولانا پر جب مثنوی وارد ہوتی تھی تو مولانا کے سب سے پیارے مرید اور خلیفہ مولانا حسام الدین اس کو جلدی جلدی لکھتے جاتے تھے۔مولانا رومی کو مولانا حسام الدین سے بےانتہاء محبت تھی۔پوری مثنوی میں جگہ جگہ مولانا نے انہی کا نام لیا ہے۔ مولانا ان سے اتنی محبت اور اتنا اکرام کرتے تھے کہ لوگوں کو یہ شبہ ہوتاتھا کہ یہ مولانا کے شیخ ہیں،دیکھئے فرماتے ہیں۔؏
اے حسام الدیں ضیائے ذوالجلال
اے حسام الدین! تم اللہ کی روشنی ہو۔ یہ پیر کہہ رہا ہے اپنے خلیفہ کے لیے:
میل می جوشد مرا سوئے مقال
جلدی سے قلم کاغذ لاؤ، پھر مجھے مثنوی الہام ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے دریائے علم سے پھر مجھے کچھ دے رہا ہے جس کی وجہ سے مجھے مثنوی کہنے کا جوش ہورہاہے۔مولانا پر تو کیفیت طارہ ہوتی تھی جب مثنوی وارد ہوتی تھی تو مولانا حسام الدین ہی اس کو لکھتے تھے، ان ہی کی محنت سے مثنوی محفوظ ہوئی۔فرماتے ہیں ؏
اے حسام الدیں ضیاءالدیں بسے
میل می جوشد بہ قسم سادے
دفترِ ششم مثنوی کا آخری دفتر ہے اور جس جنگل میں یہ لکھا گیا ہے ہمارے رہبر سفر مسٹر صائم ہم لوگوں کو وہاں لے گئے تھے اور بتایا تھا کہ یہ وہ جنگل ہے جہاں مثنوی کا آخری دفتر لکھا گیا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اے حسام الدین مثنوی کا چھٹا دفتر کہنے کا مجھے جوش اٹھ رہا ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ کچھ دن کے لیے جو میں نے مثنوی لکھنا بند کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی۔؏
مدتے در مثنوی تاخیر شد
مہلتے بائیست تاخوں شیرشد
کچھ دن جو مثنوی بند ہوگئی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ماں مسلسل دودھ پلائے گی تو دودھ کی بجائے خون آنے لگے گا، لہذا کچھ وقفہ چاہیے کہ اس کا خون پھر دودھ میں تبدیل ہو جائے۔ لہذا جب یہ وقفہ مل گیا تو اب علم کا دودھ پھر سینہ میں جوش کررہاہے، پس اس کو لکھ لو اور محفوظ کرلو کہ تم ہی اس کے اہل ہو۔ پھر جوش ِمحبت میں مولانا حسام الدین کے لیے فرماتے ہیں کہ اے حسام الدین! میں جو تمہاری تعریف کرتاہوں تو تمہارے بعض پیر بھائی جو نسبت مع اللہ سے محروم مثل مٹی کے ہیں، چہ میگوئیاں کررہے ہیں۔
[مواہب ربانیہ175،الطاف باری تعالیٰ ص75]