محدثین فقہ کے سائے میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع:
محدثین فقہ کے سائے میں
علامہ خالد محمود ۔لندن
1: حضرت امام مالک ؒم179ھ اپنے موطا میں جہاں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی پیروی امت میں جاری ہوئی تو وہاں آپ ان اہل علم کے لیے یہ الفاظ اختیار کرتے ہیں۔
انہ لم یراحدا من اہل العلم والفقہ یصومہا۔
)موطا مالک ص290(
ترجمہ:آپ نے اہل علم فقہاء سے کسی کو یہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
2: حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ م241ھ کے پاس 198ھ میں کچھ محدثین مسجد خیف میں آئے آپ نے انہیں فقہ کی تعلیم پر آمادہ کیا۔وہاں آپ حج کے مسائل پر فتوے دیتے رہے تھے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین کے ہاں فقہ اونچے درجے کا علم شمار ہوتا تھا بلکہ اس سے حدیث کی بھی صحیح معرفت ملتی تھی۔شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی لکھتے ہیں.
جاءہ اصحاب الحدیث فجعل یعلمہم الفقہ والحدیث ویفتی الناس فی المناسک۔
) تالیفات شیخ محمد بن عبدالوہاب ص256(
ترجمہ: آپ کے پاس اصحاب الحدیث آتے اور آپ انہیں فقہ اور عفت حدیث کی تعلیم دیتے اور آپ مسائل حج میں فتوے صادر فرماتے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ فقہاء حضرات نے ہمیشہ محدثین کی سرپرستی کی ہے۔
3: حضرت امام بخاری رحمہ اللہ م256ھ صحابہ کرام میں اونچے درجے کے لوگ انہی کو کہتے ہیں جو فقہاء تھے.
فَلَمَّا اجْتَمَعُوا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ فَقَالَ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ أَمَّا رُؤَسَاؤُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا۔
)بخاری ج1ص445
قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ مَا أَدْرَكْتُ فُقَهَاءَ أَرْضِنَا إِلَّا يُسَلِّمُونَ فِي كُلِّ اثْنَتَيْنِ مِنْ النَّهَارِ.
)بخاری ج1ص155(
ہم نے اپنے بلاد کے فقہاء کو اسی پر پایا ہے کہ وہ ہر دو رکعت کے مابین تشہد کرتے تھے۔
4: حضرت امام مسلم رحمہ اللہ م261ھ ابوعبید سے حدیث روایت کرتے اس کے فقہیہ ہونے سے اپنی روایت میں قوت لاتےہیں.
قال حدثنی ابوعبید وکان من القراء واہل الفقہ۔
) صحیح مسلم ج2ص352(
5: امام ابوداود رحمہ اللہ م275ھ اپنی سنن میں نقل کرتے ہیں.
فکلمنی فقہاء اہل مکۃ۔
) سنن ابی داود ج2ص278(
6: امام ترمذی رحمہ اللہ م279ھ کو لیجیے
باب [ ما جاء ] في الرخصة في الإقعاء،میں لکھتے ہیں: وقد ذهب بعض أهل العلم إلى هذا الحديث من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لا يرون بالإقعاء بأسا وہو قول بعض اہل مکۃ من اہل الفقہ والعلم۔
) ترمذی ج1ص38(
ایک مقام پر لکھتے ہیں: قال عمر بن الخطاب لا يبع في سوقنا إلامن [قد] تفقه في الدين)ترمذی ج1ص449(فی فضل الصلوۃ علی النبی)ترمذی ج1ص64(
اور ایک جگہ پر ہے.
وکذلک قال الفقہاء وہم اعلم معانی الحدیث.
)ترمذی ج1ص118باب غسل میت(
ترجمہ: اور اسی طرح فقہاء کہتے ہیں اور وہ حدیث کو بہترین جاننے والے ہیں۔
وقال بعض أهل العلم من فقهاء التابعين منهم الحسن البصري و إبراهيم النخعي و عطاء بن أبي رباح
) ترمذی ج1ص176(
عن سفیان الثوری قال فقہاءنا
)ترمذی ج1ص205(
7: امام نسائی رحمہ اللہ م303ھ کتاب الغنائم میں ایک یہ فقرہ بھی لکھ گئے ہیں.
ويعطي منه من رأى ممن رأى فيه غناء ومنفعة لأهل الإسلام ومن أهل الحديث والعلم والفقه والقرآن۔
) نسائی ج2ص160(
پہلا درجہ اہل حدیث کا ہے اس سے مراد نقل حدیث کرنے والے ہیں۔پھر اہل علم کا اس سے مراد حدیث سمجھنے والے ہیں۔پھر اہل فقہ کا اس سے مراد حدیث کی فقاہت رکھنے والے اور پھر سب پر قرآن کا درجہ ہے۔
8: فقہاء مدینہ میں ابوالزناد م131ھ مشہور علمی شخصیت ہیں آپ جب کبھی فقہاء کی بات لیتے تو فرماتے کہ ان سب سے آگے جانے کی کوئی راہ نہیں ان پر بات ختم ہوتی ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ سنن کبریٰ میں ان سے متعلق نقل کرکے لکھتے ہیں.
عن الفقہاء الذِن ینتھیٰ الیٰ قولہم من اہل المدینۃ۔
)سنن کبریٰ ج8ص5(
9: امام ابن ماجہ کے ہاں بھی علم اور قرآن سیکھنا بغیر فقہ کے نہیں ہے۔آپ اپنی سنن میں باب ذہاب القرآن والعلم میں حضرت زیاد بن لبید سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کہا ان کنت لاراک من افقہ الرجل بالمدینۃیعنی قرآن کا باقی رہنا صرف اس کے پڑھنے پڑھانے سے نہیں یہ فقہ سے ہے۔جتنا کوئی فقیہ ہوگا اتنا ہی وہ علم قرآن کا محافظ ہوگا۔
حدیث اور کتابوں میں بھی فقہ کی ہی سربراہی ہے۔المصنف لعبدالرزاق المصنف لابن ابی شیبہ م245ھ،سنن دارمی م245ھ،مسند ابی یعلیٰ م307ھ اور المستدرک للحاکم م405ھ میں اس قسم کی متعدد جزئیات ملیں گی جن سے پتہ چلتا ہےکہ محدثین اور فقہاء انہیں اچھی طرح سمجھ پاتے ہیں اور پھر ان میں بھی کوئی عام فقیہ ہوتے ہیں اور کوئی افقہ۔زیادہ افقہ تک پہنچ جائے تو ایک بڑا کام ہوگیا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے سامنے مسائل آئے کہ کیا حمام میں قرآن پڑھ سکتا ہے اور بغیر وضو اس کی آیات لکھ سکتا ہے۔مردہ پرندے کے پر کے پاک ہیں یا نہ؟آپ کے پاس ان مسائل پر احادیث موجود نہ تھیں۔آپ نے ان میں حضرت امام نخعی رحمہ اللہ م94ھ اور امام حماد بن ابی سلیمان م120ھ کے اقوال پر فیصلے کیسے اور بلاطلب دلیل ان مجتہدین کی تقلید کی.
عَنْ إِبْرَاهِيمَ لَا بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ فِي الْحَمَّامِ وَبِكَتْبِ الرِّسَالَةِ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَقَالَ حَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ إِنْ كَانَ عَلَيْهِمْ إِزَارٌ فَسَلِّمْ
)بخاری ج1ص30(
آگے ص37پر لکھتے ہیں:قَالَ حَمَّادٌ لَا بَأْسَ بِرِيشِ الْمَيْتَةِ. پھر ایک مقام پر لکھتے ہیں.

div class="btext">قَالَ حَمَّادٌ الْأَخْرَسُ وَالْأَصَمُّ إِنْ قَالَ بِرَأْسِهِ جَازَ

.)بخاری ج2ص729(
یہ حماد بن ابی سلیمان کون ہیں؟امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ م150ھ اور سفیان الثوری رحمہ اللہ م161ھ کے استاد۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ دارالعلوم کوفہ میں انہی کے جانشین تھے جب امام بخاری جیسے محدث جلیل بھی ان فقہاء کے اقوال سے صحیح بخاری کی تکمیل کرتے ہیں تو ان نادانوں پر تعجب ہے جو ہر جگہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں قرآن اور حدیث کے بعد اور کسی چیز کی ضرورت نہیں وہ اس بات کو سمجھتے کہ فقہ کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا۔امام ابوداود رحمہ اللہ م275ھ حنبلی المذہب ہیں اور صحابہ کے اقوال کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔انہیں نظر انداز نہیں کرتے۔اختلاف حدیث میں صحابہ کے عمل کو فیصلہ کن ٹھہراتے ہیں.
إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَا عَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ۔ )
سنن ابی داود ج1ص376(
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع پر دو مختلف روایتیں ملیں تو دیکھا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا عمل کیا ہے۔