بانی دارالعلوم دیوبند کی حدیثی خدمات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بانی دارالعلوم دیوبند کی حدیثی خدمات
……مولانا محمد اسجد قاسمی
حجۃ الاسلام والمسلمین، آیت من آیات رب العالمین حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت گرامی تحریکی، جہادی اور انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ہی اعلیٰ درجے کی استعداد اور علمی وفنی رسوخ اور فضل وکمال کی جامع شخصیت تھی، ان کی خرق عادت ذہانت وفطانت اور کسبی سے زیادہ وہبی اور لدنی علوم کی کرشمہ سازیاں ان کی خدمات میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ہجری تقویم کے اعتبار سے 49 سال اور عیسوی تقسیم کے لحاظ سے 48 سال کی مختصر زندگی میں حضرت الامام نے جولافانی علمی کارنامے انجام دیے اس مختصر مقالے میں اس کا احاطہ تو کجا، اس کی پوری جھلک پیش کرنا بھی مشکل ہے۔ سید الطائفہ، حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی یہ شہادت سب سے بڑی اور وقیع سند ہے کہ مولوی محمد قاسم جیسے لوگ کبھی پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے، اب تو مدتوں سے نہیں ہوتے، مولوی صاحب کی تحریر وتقریر کو محفوظ رکھا کرو اور غنیمت جانو۔“
)قاسم العلوم احوال وآثار (
تحصیل علوم حدیث :
حضرت الامام نے علم حدیث پر بطور خاص توجہ دی اور حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلویؒ کے حلقہ درس میں شریک ہوکر ان سے صحیح بخاری کا کچھ حصہ، صحیح مسلم، جامع ترمذی، موطا امام مالک، تفسیر جلالین وغیرہ کتابیں پڑھیں، ان کتابوں کی صراحت حضرت شاہ عبدالغنیؒ کی سند میں موجود ہے۔
(سوانح قاسمی از مولا ناگیلانیؒ (
بعض اہل علم نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ حضرت الامام نے حضرت شاہ عبدالغنی دہلویؒ سے ابن ماجہ اور سنن نسائی کا درس بھی لیا۔
(مولانا محمد قاسم نانوتوی حیات وکارنامے از اسیر ادروی (
البتہ بعض کتابوں کا ذکر اس سند میں نہیں ہے جوحضرت شاہ عبدالغنیؒ نے حضرت الامام کو مرحمت فرمائیں اور جس کا عکس مولانا گیلانیؒ کی سوانح قاسمی میں ہے۔
(سوانح قاسمی (
تاہم یہ طے ہے کہ سنن ابی داود کا درس کسی سبب سے حضرت الامام حضرت شاہ عبدالغنیؒ سے نہ لے سکے۔
(مذہب منصور۔ بحوالہ حیات وکارنامے (
بعد میں تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ محدث کے مطبع احمدی میں تصحیح کتب کے مشغلے کے دوران حضرت الامام نے سنن ابی داؤد کا درس لیا۔
(حیات وکارنامے (
حضرت الامام نے تحصیل حدیث میں انہی دو جلیل القدر محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور کسب فیض فرمایااور انہیں کا رنگ نمایاں طور پر حضرت الامام کی حدیثی خدمات ومآثر میں جلوہ گررہا۔
حضرت الامام اور خدمت حدیث :
حضرت الامام کی علمی اور بالخصوص حدیثی خدمات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ان اہل علم کی صف اول میں ہیں جن کے ہاں وسعت سے کہیں زیادہ عمق اور گہرائی وگیرائی ہے، کمیت سے کہیں زیادہ کیفیت ہے، ان کی باضابطہ تصانیف تعدادمیں کم ہیں مگر ان کے وہبی علوم ومعارف کا جو عمق اور فیضان ہے وہ کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں ہے۔حضرت الامام کی خدمت حدیث کے متنوع پہلو اور گوشے ہیں، ذیل میں ان کا مختصر تذکرہ کیا جاتاہے۔
تدریس حدیث اور افراد سازی:
حضرت الامام نے دسمبر 1816ءمیں سفر حج سے واپسی پر نانوتہ میں کچھ عرصہ مستقل قیام کیا اور اس دوران متعدد علماءکی پر خلوص درخواست پر نانوتہ میں صحیح بخاری کا درس دینا شروع کیا، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ نے اسی موقع پر حضرت الامام سے صحیح بخاری پڑھی۔ پھر اس کے بعد اپنے ایک مخلص ممتاز علی کی درخوست پر ان کے مطبع میں میرٹھ میں تصحیح کتب کا مشغلہ اختیار کیا، میرٹھ کے اس قیام میں خالی اوقات میںحضرت الامام نے سلسلہ درس جاری فرمایا، علماءکاطبقہ صحاح ستہ کے درس میں شریک ہوتا تھا، حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ نے اس دور میں حضرت الامام سے صحیح مسلم کا درس لیا۔ اور اسی دور میں ایک درس میں حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ نے بھی شرکت کی تھی۔ نانوتہ کے درس بخاری میں مولانا رحیم اللہ بجنوریؒ بھی شریک رہے تھے، ان کا بیان ہے کہ ایک بار میں بلا وضو درس میں شریک ہوگیا، حضرت نے ہاتھ کے اشارے سے منع فرمایا پھر بلاکر تنبیہہ کی ”میاں ! صحیح بخاری میں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آدمی بلاوضو بھی بیٹھ جائے۔“
حضرت الامام کے ممتاز ترین شاگرد رشید اور علوم قاسمیہ کے سچے حامل و امین حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تھے جنہوں نے حدیث کی مختلف کتب حضرت الامام سے میرٹھ میں پڑھی تھیں اور حدیث کی جو خدمت بعد میں حضرت شیخ الہند ؒ نے کی وہ بے نظیر ثابت ہوئی، حضرت الامام نے دیوبند میں درس حدیث کا جوسلسلہ قائم فرمایا اس دور کے شاگردوں میں مولانا فخرالحسن گنگوہی ؒ کا نام نامی سب سے روشن ہے انہوں نے حدیث کی عظیم خدمت کی۔ قیام میرٹھ کے دور کے تلامذہ میں حضرت مولانا احمد حسن محدث امروہی بھی شامل تھے، جن کا شمار جلیل القدر محدثین میں ہوتا ہے۔ دیگر نمایاں تلامذہ میں مولانا عبدالعلی میرٹھی سابق استاذ دارالعلوم دیوبند، مولانا منصور علی خاں سابق استاذ مدرسہ شاہی، مولانا حافظ عبدالعدل مرحوم ہیں۔ آخری دور میں حضرت الامام نے متعدد امراض وعوارض کے باوجود دیوبند میں دورہ حدیث کی جماعت کو ترمذی شروع کرائی، اس جماعت کے نمایاں طلبہ میں مولانا عبدالرحمن محدث امروہیؒ تھے۔ حضرت الامام رحمہ اللہ کے فیض یافتگان کی طویل فہرست میں مذکورہ بالا نام ان شخصیات کے ہیں جنہوں نے حضرت الامام رحمہ اللہ سے بطور خاص حدیث کا علم حاصل کیا اور پھر انہوں نے اپنی خدمت حدیث اور فیض رسانی سے بے شمار تشنگان علم کوسیراب کیا۔
درس حدیث کا اسلوب:
اس تعلق سے حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کی شہادت نقل کی جاتی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:”طالب علمی کے زمانے میں مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے درس حدیث میں شریک ہونے کی سعادت مجھے بمقام میرٹھ میسر آئی تھی، غالباً یہ وہی زمانہ تھا جب صحیح مسلم کا درس جاری تھا، حدیث پڑھی گئی، حنفیوں اور شافعیوں کے کسی اختلافی مسئلہ سے حدیث کا تعلق تھا، میں نے دیکھا کہ مولانانے ایک ایسی جامع اور مدلل تقریر کی جس سے کلیۃً شافعی نقطہ نظر کی تائید ہوتی تھی، طلبہ حیران ہوئے، کہنے لگے کہ آپ کی تقریر سے تو معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ ہی کا مسلک صحیح ہے اور حنفیوں کا مذہب حدیث کے مطابق نہیں ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ مولانا نانوتویؒ کا رنگ بدلا اور فرمانے لگے کہ شوافع کی طرف سے اس مسئلہ کی تائید میں زیادہ سے زیادہ کہنے والے اگر کچھ کہہ سکتے ہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں جو تم سن چکے ہو، اب سنو! امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کی بنیاد یہ ہے ، اس کے بعد مولانا نانوتویؒ نے پھر اس طرح تقریر کی کہ لوگ مبہوت سنتے رہے، ابھی جس مسلک کے متعلق ان کا یقین تھا کہ اس سے زیادہ حدیثوں کے مطابق کوئی دوسرا مسلک نہیں ہوسکتا، اچانک معلوم ہوا کہ درحقیقت صحیح حدیثوں کا مفاد وہی ہے جسے امام ابوحنیفہؒ نے منقح فرمایاہے۔
تحقیقی ، تجزیاتی اور استدلالی درس حدیث :
حضرت الامام کا درس حدیث طائرانہ نہیں بلکہ محققانہ ہوا کرتا تھا، اس میں تحقیقی نکات، تجزیاتی معلومات اور استدلالی لطائف کا وافر ذخیرہ ہوتاتھا، شاہ عبدالغنی مجددی دہلویؒ کی پوری جھلک ہوتی تھی، علوم ولی اللہی کا ظہور ہوتا تھا، حضرت الامام کے تلمیذ رشید حضرت شیخ الہند ؒ کا بیان ہے کہ ”میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تصنیفات دیکھ کر حضرت نانوتویؒ کے درس میں شریک ہوتا تھااور وہ باتیں پوچھتا تھا جو شاہ صاحب کی تصنیفات میں غایت مشکل ہیں۔ شاہ صاحب کے یہاں جو آخری جواب ہوتا تھا وہ حضرت نانوتویؒ اول ہی مرتبہ فرمادیتے تھے، میں نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے۔ “
مسلک احناف کی ترجیح و اثبات :
مسلک احناف کی ترجیح واثبات اور اس کے وجوہ ترجیح کے مدلل تذکرہ کا جو نہج اور درس حدیث میں توضیح وتنقیح کا جو اسلوب دارالعلوم دیوبند کا نشان امتیاز اور برصغیر کے95 فیصد مدارس میں مقبول ومتداول ہے اس کے فروغ میں حضرت الامام کا کردار سب سے نمایاں اور اولین ہے، اس سے پہلے درس حدیث میں صرف ترجمہ حدیث اور مذاہب اربعہ پر انحصار ہوتا تھا، یہ سلسلہ تیرہویں صدی ہجری کے وسط تک رہا، پھر جب جماعت اہل حدیث کے غلو پرستوں نے مذہب احناف کو ہدف طعن وملامت بنایا اور اسے مخالف حدیث ثابت کرنے کی مہم چھیڑ دی تو شاہ محمد اسحاق ؒ اور ان کے تلامذہ نے درس حدیث میں مذہب حنفی کے اثبات بالحدیث اور ترجیح پر توجہ دی اور پھر اس سلسلہ کو فروغ دینے کا دائرہ وسیع کرنے میں حضرت الامام نے نمایاں کردار اداکیا۔ حضرت نانوتویؒ کے درس کے تذکرہ میں ممتاز شاگرد مولانا حکیم منصورعلی خانؒ نے لکھاہے:
” حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتویؒ جب کسی اہم اور مشکل مسئلہ کو جمہور کے تصورات کے خلاف ثابت فرماتے تو بڑے بڑے ارباب علم وفضل حیران اور انگشت بدنداں رہ جاتے تھے، جو حکم ظاہر میں قطعاً بے دلیل وبرہان معلوم ہوتا وہ تقریر کے بعد عقل کے عین مطابق معلوم ہونے لگتا تھا، آپ کے پیش کردہ دلائل کے خلاف بڑے بڑے ارباب علم وفضل کو جرات نہ ہوتی تھی۔“
حضرت الامام کے درس میں مذاہب اربعہ کی توضیح، ہر مذہب کے دلائل کا مفصل ذکر، مذہب حنفی کی ترجیح، رجال حدیث اور حدیث کے مقام کا ذکر، الفاظ کے فرق اور اس کے نتیجے میں احکام کے استنباط پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ، متکلمانہ اسلوب میں بحث اور فکری اعتدال جیسی خصوصیات ہوتی تھیں۔
درس حدیث کے امتیازات:
حضرت الامام کے درس حدیث کے امتیازات میں نمایاں طور پر یہ چیزیں شامل ہیں۔

1)

سند حدیث اور متن حدیث سے متعلق تما م معلومات کا احاطہ

2)

رجال سند پر متوازن اور وقیع تبصرہ

3)

حدیث کے فنی مقام کی نشان دہی

4)

متعلقہ مسئلہ میں مذاہب اربعہ کا بیان

5)

ہر مذہب کے مفصل دلائل کی ایسی توضیح جو بالکل غیر جانبدارانہ ہو

6)

مذہب حنفی کے اثبات اور عقل ونقل سے اسے مزین کرکے اس کی وجوہ ترجیح کا بیان

7)

احکامی پہلو کے ساتھ حدیث کے اخلاقی وتربیتی پہلو کی سیر حاصل وضاحت

8)

تحقیقی، تجزیاتی، استدلالی، متکلمانہ اور اصولی انداز بحث

9)

تشریح احادیث کے ضمن میں نکتہ رسی

10)

متعارض احادیث میں تطبیق اور متکلمانہ اسلوب میں اس طرح انطباق دینا کہ کوئی اشکال باقی نہ رہے

11)

سلف صالح اور تمام ائمہ کا احترام ،کتاب وسنت سے فقہ اسلامی کا رابطہ واضح کرنا

12)

مختلف فیہ مسائل میں اعتدال وتوازن کی روش اور ڈگر پر پوری طرح قائم رہنا
ان امتیازات سے حضرت الامام کے محدثانہ ذوق اور رسوخ فی العلوم کی کیفیت کا علم ہوسکتا ہے، حضرت الامام کے ذوق محدثانہ کی جھلکیاں ان کی گراں قدر تصانیف میں جابجا موجود ہیں۔
سب سے ممتاز حدیثی کارنامہ! تحشیہ بخاری:
خدمت حدیث کے ضمن میں حضرت الامام کا سب سے نمایاں، وقیع قابل قدر اور علمی کارنامہ حاشیہ بخاری کی تکمیل ہے اور باعث تعجب یہ ہے کہ اتنا عظیم اور لائق صد آفریں کارنامہ حضرت نے 18 سال کی عمر میں انجام دیا۔ حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ نے تحشیہ بخاری کا بے مثال کارنامہ انجام دیا، مگر مصروفیات کے پیش نظر بخاری کے آخری اجزاءکے تحشیہ کا کام حضرت الامام کے سپرد کیا جوان کے شاگرد رشید تھے اور جن کے جواہر کا ادراک حضرت سہانپوری کو پہلے سے تھا۔
قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری
حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ لکھتے ہیں:
”جناب مولوی احمد علی سہارنپوریؒ نے تحشیہ اور تصحیح بخاری شریف کے پانچ چھ سپارے جو آخر کے باقی تھے مولوی صاحب کے سپرد کیا۔ مولانا صاحب نے اس کو ایسالکھا ہے کہ اب دیکھنے والے دیکھیں کہ اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس زمانہ میں بعض لوگوں نے کہ مولوی صاحب کے کمال سے آگاہ نہ تھے، جناب مولوی احمد علی صاحب سے بطور اعتراض کہا تھا کہ آپ نے یہ کیا کا م کیا کہ آخر کتاب کو ایک نئے آدمی کے سپرد کیا؟ اس پر مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا نادان نہیں ہوں کہ بدون سمجھے ایسا کروں اور پھر مولوی صاحب کا تحشیہ ان لوگوں کو دکھلادیا جب لوگوں نے جانا۔“تحشیہ بخاری جیسا عظیم علمی کام حضرت الامام کے سپرد کئے جانے پر بعض علماءنے محدث سہارنپوری پر اعتراض کیا تھا جس کے جواب میں محدث سہارنپوریؒ نے فرمایا ”تم لوگ بخاری کے جتنے مشکل مقامات ہوں ان پر نشانات لگالو پھر ان سے (حضرت الامام سے) دریافت کرلو، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر ان مقامات کا حاشیہ منگواکر دکھایا تو مولانا نانوتویؒ نے جو جو احتمالات پیدا کرکے ان کے جوابات دیے تھے وہ احتمالات اور شبہات ان حضرات کے احتمالات سے بھی زیادہ تھے یہ دیکھ کر وہ لوگ مولانا کے تبحر علمی کو مان گئے۔
حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ کی تحریر کی پیش نظر یہ مشہور ہے کہ حضرت الامام نے آخر کے پانچ اجزاءکے حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ ایک رائے ساڑھے چار اجزاءکے حواشی کی بھی ہے مگر تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت الامام نے بخاری کے آخری تین اجزاءکے لکھے ہیں۔ کیونکہ ان حواشی کا رنگ اور انداز ونہج اور اسلوب باقی اجزاءکے حواشی سے بہت مختلف نظر آتا ہے، ایک فرق تو تفصیل واختصار کا ہے، آخری اجزاءکے حواشی میں تفصیلی مباحث ہیں، شروح بخاری کے تفصیلی اقتباسات ہیں۔ اسلوب کا یہ فرق ثابت کرتاہے کہ آخری تین اجزاءکا تحشیہ حضرت الامام کا کارنامہ ہے۔ حضرت الامام کے تحشیہ کو شرح بخاری قرار دینا زیادہ مناسب ہے اور

فہم کتاب کی تسہیل

رفع اشکالات

مشکلات و مبہمات

تفصیل اجمالات

اغلاط وخطاءکی تنبیہ

رواة ورجال کی تحقیق وتنقید

تعارض کی صورت میں تطبیق وترجیح

مسلک راجح کی ترجیح اور تذکرہ وجوہ ترجیح اور اس جیسی تمام خصوصیات حضرت کے حواشی میں موجود ہیں۔
صحیح بخاری کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے اس میں امام بخاریؒ نے حضرت امام اعظم ؒ کے فقہی افکار وآراءپر تبصرے شدت کے ساتھ کئے ہیں جن میں بسااوقات جارحیت محسوس ہوتی ہے۔ اس حصہ پر حضرت الامام نے حاشیہ لکھا اور امام بخاریؒ کے اشکالات اور تنقیدی تبصروں کا اس طرح جواب دیا اور تجزیہ کیا کہ حق ادا ہوگیا۔
مولانا اسیر ادروی لکھتے ہیں ”امام بخاریؒ نے اخیر کے ان پاروں میں امام ابوحنیفہؒ پر اہم اعتراضات کی نشان دہی کی ہے اور اس کی جانب اشارات کیے ہیں اور امام بخاریؒ کی ان روایات کا جو وزن ہے اس سے سارا عالم اسلام واقف ہے، اس لئے ان اعتراضات کے جوابات پورے ذخیرہ حدیث پر مبصرانہ نظر ڈالے بغیر ممکن نہ تھے اور روایتوں کی ایسی معقول اور مدلل توجیہ پیش کرنی ضروری تھی کہ مسلک احناف کا منشاءشریعت کے مطابق ہوناثابت ہوجائے۔
حضرت نانوتویؒ نے یہی کیا ، کوئی بات بغیر سنداور حوالہ کتب نہیں کہی ہے، نہ روایتوں کی بے جا تاویل کی ہے اور نہ ان سے انکار ، بلکہ دوسری مستند روایتوں کی روشنی میں امام بخاریؒ کی اس روایت کا ایسا مفہوم پیش کیا ہے ہے جو مسلک احناف کے مطابق ہے۔
خصوصیات و امتیازات:
حضرت الامام کے حواشی بخاری میں اسناد اور متون دونوں پر نفیس بحث ملتی ہے اورحضرت کے عمیق علم پر شاہد ہیں، اس تحشیے کے نمایاں امتیازات یہ ہیں۔

احادیث کے معانی اور مراد کی سیر حاصل اور عام فہم تشریح

اسناد کی تحقیق اور رواة کے مقام کی تعیین

اغلاط واوہام پر تنبیہ

متعارض روایات میں نفیس تطبیق

مذہب حنفی کی ترجیح اور اس کا اثبات بالحدیث

امام بخاری کی احناف پر لطیف چوٹوں کا حکیمانہ اور مدلل جواب

مستند روایات سے مسلک حنفی کی تائید کا ذکر

تاویلات فاسدہ ورکیکہ سے گریز

حوالے کا اہتمام

موضوع کا احاطہ

کوئی بات بے سند محض اپنے فہم سے نہ لکھنے کا اہتمام

اور فقہ کے حدیث سے ارتباط کی کوشش وغیرہ۔
یہ مختصر مقالہ اس کا متحمل نہیں کہ حضرت الامام کے تحشیے کے نمونے پیش کئے جائیں۔ البتہ بہت سی اہم بحثیں ان حواشی میں موجود ہیں۔
پڑوسی کیلئے حق شفعہ کے ثبوت وعدم ثبوت پر حضرت نے احناف کی تائید اور امام بخاریؒ کے نقد کے رو پر بڑی عمدہ بحث کی ہے، اسی طرح صوم وصال کی ممانعت، قضاءقاضی کا نفاذ ظاہر ا ہوگا یا باطناً، غلام مدبر کی بیع اور ان جیسے دسیوں موضوعات پر حضرت الامام نے بے حد نفیس بحث کی ہے، بیعت کے باب میں بھی حضرت نے مفصل حاشیہ لکھا جو حضرت کی گہری اور وسیع تاریخی نظر کا شاہکار ہے، ہدایا الحکام والعمال کے تعلق سے بھی حضرت نے بہت تحقیقی گفتگو فرمائی ہے۔ لغوی بحثیں بھی جابجا موجود ہیں، کلام اللہ اور قول اللہ کے موضوع پر بھی مسلک حق کی توضیح وتفصیل بھی حضرت نے خوب لکھی ہے۔ بخاری کی آخری حدیث پر بھی حضرت نے بہت گراں قدر حواشی تحریر کئے ہیں اور ان تمام حواشی اور بحث سے یہ حقیقت پوری طرح آ شکارا ہوجاتی ہے کہ یہ تحشیہ حضرت کے ذوق محدثانہ اور خدمت حدیث کا سب سے اہم شاہکاراور آئینہ دار ہے۔
دیگر حدیثی خدمات:
حضرت الامام کی حدیثی خدمات میں ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ آپ نے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار ونظریات کی روشنی میں کتب حدیث کے مراتب وطبقات اور اصول تنقید کی تحقیق فرمائی، حضرت امام دہلویؒ نے کتب احادیث کی خاص ترتیب قائم فرمائی ہے جو برصغیر کے علمی حلقوں میں رائج ، اس ترتیب وتقسیم کے تعلق سے حضرت الامام النانوتوی نے اپنی تصنیف ”ہدیة الشیعہ“ میں بے حد نفیس اور مدلل بحث ارقام فرمائی ہے۔ علم حدیث کے ماہرین کی متفقہ رائے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے کتب حدیث کے اصول تنقید کو حضرت نانوتویؒ سے بہتر کسی نے نہیں سمجھا۔
ممتاز محدث حضرت مولانا ظفر احمد تھانویؒ لکھتے ہیں:”مولانا (نانوتویؒ ) نے اپنی کتاب ہدیۃ الشیعہ میں کتب حدیث کے طبقات اور اصول تنقید کو جس خوبی سے بیان فرمایا ہے اس کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حجة اللہ البالغہ کے اصول تنقید وقواعد تطبیق کو آپ سے بہتر کسی نے نہیں سمجھا۔“
حضرت الامام کے مکتوبات کی فراہم شدہ تعداد سو سے زیادہ ہے اور ان میں بہتر مکتوبات علمی ہیں، یہ مکتوبات تفسیری وفقہی مباحث کے ساتھ بیش قیمت حدیثی مباحث بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور متعدد حدیثی نکات ولطائف ان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ حضرت الامام کا ایک مکتوب اور رسالہ مسئلہ تراویح سے متعلق ہے اور احادیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی تنقیح کی گئی ہے۔ یہ مکتوب ”المقام الصریح“کے نام سے موسوم ہے، اس میں خبر واحد سے اعتقادی احکام کے عدم ثبوت اور واجبات وسنن کے ثبوت کی بحث ہے، تراویح و تہجد کے دو الگ الگ نماز ہونے پر کلام ہے اور احادیث کے مراتب پر گفتگو بھی ہے اسی میں مرسل روایات کی حجیت کی بحث ملتی ہے۔
اسی طرح ”توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام“ کے نام سے بھی حضرت کا ایک رسالہ ہے جو قرات خلف الامام کے مشہور مختلف فیہ مسئلے سے متعلق ہے، حضرت نے اس میں آیات اور احادیث کی روشنی میں بڑی متکلمانہ بحث کی ہے، آیات وروایات میں تطبیق کا کام بھی کیا ہے، اس مسئلہ میں حضرت کی اپنی ایک مستقل توجیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مقتدی کے سورہ فاتحہ پڑھنے اور نہ پڑھنے کا تعلق اصل میں اس اصل سے ہے کہ امام مقتدیوں کانائب ہوتا ہے اور اسی کی نماز اصل ہوتی ہے، امام کی یہ حقیقت نماز میں بتدریج پایہ تکمیل کو پہنچی ہے، ابتداءمیں سلام وکلام بھی جائز تھا ، اسے منسوخ کیا گیا، پھر مقتدی سورہ فاتحہ کے ساتھ ساتھ ضم سورت بھی کیا کرتے تھے تو ضم سورت کا حکم منسوخ ہوا، پھر مقتدی کیلئے سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم بھی منسوخ ہوگیا تاکہ امام کی نیابت اور نماز میں اس کے ضامن ہونے کی کیفیت آہستہ آہستہ درجہ کمال کو پہنچ جائے۔
اسی طرح راوی محمد بن اسحاق کے بارے میں علماءجرح وتعدیل کا اختلاف، بعض موقوف حدیثوں کا مرفوعات کے حکم میں ہونا اور ایسی دیگر علمی بحثیں اور نکتے اس میں موجود ہیں جو حضرت الامام کی قوت استخراج واستنتاج اور عمیق مطالعے کا مظہر ہیں،حضرت الامام کا رسالہ ”حدیث فی فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم“ اس کا ذکر حضرت حاجی امداداللہ صاحبؒ کے ایک مکتوب میں ”فدک“ سے متعلق مفصل گفتگو ہے، اس میں حدیث ”نحن معاشر الانبیاءلانورث ماترکناہ صدقة“پر محققانہ کلام اور شیعوں کا رد ہے، اسی طرح ایک مکتوب حدیث نبوی ”کنت نہیتکم عن زیارة القبور،الا فزوروہا“ سے مرتبط ہے جس میں زیارت قبور کے مسئلہ کو احکامی واخلاقی ہر دوپہلو سے مکمل واضح کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ حضرت الامام کی جملہ تصانیف ومکاتیب ورسائل میں جابجا حدیثیں بکھری ہوئی ہیں۔ اسرار شریعت کا موضوع بھی حدیث سے متعلق ہے، حضرت نے اس موضوع پر بہت کچھ تحریر فرمایا ہے حضرت کا حدیث پر کوئی مستقل اور مربوط کام نہیں ہے مگر یہ ضمنی اور غیر مستقل کام اتنے وقیع ہیں کہ ان سے حضرت کی محدثانہ شان بلند کا ظہور ہوتا ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر حضرت کی توجہ صرف حدیث پر ہوتی تو بے انتہا عظیم کام سامنے آتے۔
خلاصہ کلام:
حاصل یہ ہے کہ حضرت الامام النانوتویؒ محدثین کی فہرست میں ممتاز مقام کے حامل ہیں اور احادیث کی جو خدمت زبان وقلم سے آپ نے انجام دی اس کی عظمت، افادیت اور تاثیر ہر شک وشبہ سے بالا تر ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی خدمت حدیث کا جو فیض اس کے ابتدائے قیام سے جاری اور ان شاءاللہ تا صبح قیامت جاری رہے گا اور اس کے فیض یافتگان خدمت حدیث کرتے رہیں گے یہ ساری خدمت حضرت الامام کے حسنات میں بھی شامل ہوگی اور ان کیلئے ذخیرہ آخرت ثابت ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت الامام کی حدیثی خدمات کو مفصل اور مرتب انداز میں اجاگر اور نمایاں کیا جائے اور فکری اعتدال کے اسی امتیاز کو عام کیا جائے جو حضرت الامام کی خصوصیت تھی اور زمانے کی نزاکتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیثی وعلمی خدمات انجام دی جائیں، حضرت الامام کیلئے سچا خراج عقیدت یہی ہے کہ انہیں خطوط پر کام کیا جائے جن پر حضرت نے کام کیا۔