ذو الحجہ کے احکام و مسائل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ذو الحجہ کے احکام و مسائل
……مولانا محمد اشفاق ندیم
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی دن ایسا نہیں جس میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذو الحجہ کے) دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہاد بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان میں کوئی بھی واپس نہ آئے جان و مال قربان کردے۔
)جامع الترمذی ج1ص158 (
عظمت والی راتیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان دس راتوں میں ایک رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔
)جامع الترمذی کتاب الصوم ج1ص158 (
قرآن و سنت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اس مہینے میں دس خصوصی احکامات ہیں:
1: حج بیت اللہ:
حج اسلام کے محکم اور قطعی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے جس کی فرضیت کا اعلان قرآن کریم ان الفاظ میں فرماتا ہے:
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین.
)سورۃ آل عمران 97 (
ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہیں کرے گا تو اللہ تعالی بھی لوگوں سے بے نیاز ہے۔
حج بیت اللہ کے بے شمار فضائل ومناقب ہیں جب کہ فرض ہونے کے باوجود ادا کرنے میں سستی کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور وبال ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من ملک زاد او راحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیا او نصرانیا۔
)الترغیب والترہیب ص137(
ترجمہ: جس کے پاس سفر کا سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہوکرکوئی فرق نہیں پڑتا۔
قارئین کرام!کتنی سخت وعید ہے کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والا (نعوذ باللہ) یہودیت اور نصرانیت پر مرتا ہے حج بیت اللہ اسلام کے خاص شعائر میں سے ہے جو صرف اسی مہینے (ذو الحجہ) کی آٹھ سے تیرہ تاریخ تک ادا کیا جاتا ہے اور اس کی ادائیگی مکہ مکرمہ منی عرفات اور مزدلفہ کے مقامات پر ہوتی ہے۔
2: قربانی:
قربانی اسلام کا ایک عظیم عاشقانہ والہانہ اور بے حد فضیلت والا حکم ہے ہر زمانے میں مسلمانوں نے نہایت محبت عشق اور اہتمام سے اس حکم کو پورا کیا اور پورا پورا سال اس کی تیاری اور انتظار میں گزارااور آج کے اس پر فتن دور میں ملحدین اور روشن خیالی کے علمبرداروں نے مختلف قسم کے بے جا اور لچر قسم کے اعتراضات اٹھا کر لوگوں کو قربانی جیسے فریضے سے دور کرنے کی ناکام کوشش کی ہے مثلاً اتنے سارے جانوروں کو ایک دن میں ذبح کردینا کہاں کا دین ہے؟ اس سے جانوروں کو تکلیف ہوتی ہے اور ہم رحمۃ اللعالمین پیغمبر کے امتی ہیں جو کسی جانور کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتے تھے اگر ان پیسوں سے مریضوں کی دوائیاں لی جائیں تو کتنے مریض شفایاب ہوسکتے ہیں اگر مفلس اور نادار لوگوں پر خرچ کیے جائیں تو کتنے گھروں میں بہار آسکتی ہے وغیرہ۔ اس لیے اس بات کی ضرورت بڑھ گئی ہے کہ مسلمانوں کو عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی اہمیت اور فضیلت بیان کی جائے۔
قربانی یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے:
قالوا ماھذہ الاضاحی قال سنۃ ابیکم ابراہیم .
)مسند احمد(19179
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے اکلوتے بیتے کی گردن پر چھری رکھ دی اور عشق کے امتحان میں کامیاب ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ عید الاضحیٰ والے دن اولاد آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔
)جامع ترمذی ج1ص275 (
3: عید الاضحیٰ :
اسلام میں صرف دو تہوار ہیں: عید الفطراورعیدالاضحیٰ۔
عید الاضحیٰ کے دن نماز عید ادا کرنا واجب ہے یہ نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
عید کے دن کے مسنون کام:
اپنی وسعت کے مطابق آرائش کرنا، غسل کرنا ،مسواک کرنا، خوشبو لگانا، حسب طاقت صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، صبح کو جلدی اٹھنا، عید گاہ جلدی جانا، نماز عید الاضحیٰ سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کےبعد اپنی قربانی کے گوشت میں سے کھانا۔ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا (اگر کوئی عذر شرعی ہو تو مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے) ایک راستہ سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں تکبیرات تشریق یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ، عید الفطر میں آہستہ اور عید الاضحیٰ میں بلند آواز سے کہنا، سواری کے بغیر پیدل عید گاہ جانا،عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنا۔
4: تکبیرات تشریق:
اس مہینے کا ایک اہم حکم جس کی عام مسلمانوں میں عموماً اور خواتین میں خصوصا تبلیغ کی بہت ضرورت ہے نو ذو الحجہ کی صبح سے لے کر تیرہ ذو الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے البتہ عورتیں آہستہ آواز میں کہیں گی۔
تکبیر تشریق:
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد،
(الاوسط لابن المنذر کتاب العیدین رقم الحدیث 2207)
مسئلہ: بہت سے لوگ اس میں غفلت سے کام لیتے ہیں یا تو پڑھتے ہی نہیں یا آہستہ آواز سے پڑھ لیتے ہیں حالانکہ اس کوقدرے بلند آوازمیں پڑھنا واجب ہے اس کی اصلاح ضروری ہے۔
مسئلہ: تکبیر تشریق سب پر واجب ہے خواہ وہ امام ہو ، مقتدی ہو ، اکیلا بغیر جماعت کے نماز ادا کرنے والا ہو ، عورت ہو ،مرد ہو ، مسافر ہو ، مقیم ہو ،شہر ی ہو ،یا دیہاتی ہو۔ اور یہ صرف اسی مہینے میں ہوتی ہے۔
5: عشرہ ذو الحجہ کے روزے:
اس مہینے کے پہلے نو دنوں میں نفل روزے رکھنے کی بہت فضیلت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دنوں میں سےکسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب نہیں جتنا کہ عشرہ ذی الحجہ میں محبوب ہے۔
عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔
) جامع الترمذی ج1ص158 (
نوٹ: یہ فضیلت یکم سے نو تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
6: یوم عرفہ کا روزہ:
اس مہینے کی نو تاریخ ”یوم عرفہ“ کہلاتی ہے کیونکہ حجاج کرام اس دن عرفات کا وقوف کرتے ہیں جو حج کا رکن اعظم ہے۔ یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی خاص فضیلت ہے حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس کے بعد والے سال اور پہلے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائےگا۔
)صحیح مسلم ج1ص367 (
نوٹ: عرفہ کے دن روزے کی یہ عظیم الشان فضیلت ان لوگوں کے لیے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں ، حجاج کرام کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں تاکہ وقوف میں سستی نہ ہو۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔
7: چار دنوں میں روزہ کی حرمت:
پورے سال میں پانچ دن ایسے ہیں جن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے ان میں سے ایک دن تو یکم شوال (عید الفطر) کا ہے جب کہ باقی چار ایام اس مہینہ (ذو الحجہ) میں یعنی 10، 11، 12، اور 13، ذو الحجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔
) صحیح مسلم ج1ص360 (
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ تعالی کے ذکر کرنے کے ایام ہیں۔
) صحیح مسلم ج1ص360 (
ان ایام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی پاک صاف اور حلال گوشت سے مہمان نوازی کی جاتی ہے توا س مہمان نوازی کو دل و جان سے قبول کرنا چاہیے۔
8: دس راتوں کی فضیلت:
اللہ پاک نے قرآن پاک میں ذوالجحہ کی پہلی دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ھو عشر ذی الحجۃ وقالہ ابن عباس رضی اللہ عنہما.
) تفسیر قرطبی تحت آیت والفجر ولیال عشر (
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ان دس راتوں سے ذی الحجۃ کی دس راتیں مراد ہیں۔ تفسیر بیان القرآن میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے چنانچہ ان راتوں میں عبادت کا اور گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
9: بال اور ناخن نہ کٹوانا:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے) اور تم میں سے کس کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔
) صحیح مسلم ج2ص160 کتاب الاضاحی (
10: معاصی سے بچنے کا خاص اہتمام:
ذوالحجہ اسلامی مہینوں میں آخری مہینہ ہے اس کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں ظلم، زیادتی، اور گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
ان عدۃ الشہور عنداللہ اثنا عشر شہرا فی کتب اللہ۔۔ الخ
) سورۃ التوبہ 36 (
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں جس دن سے اس نے آسمان و زمین کو بنایا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں یہی دین کا سیدھا راستہ ہے تو ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو:
فلاتظلموا فیھن ای الاشہر الحرم انفسکم بالمعاصی فانہا فیہا اعظم وزر ا وقیل فی الاشہر کلہا۔
) تفسیر جلالین ص202 (
ترجمہ: ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر گناہ کرکے ظلم نہ کریں کیونکہ ان چار مہینوں میں گناہ کا وبال بڑھ جاتا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تمام مہینوں میں گناہ کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔