حضرت جگر مراد آبادی﷫

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حضرت جگر مراد آبادی﷫
نعیم خان ، لاہور
خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی جگر کے گہرے دوست تھے۔ مشاعروں میں بھی جگر کے ساتھ شریک ہوتے۔ بڑے باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ عشقِ حقیقی کے قائل تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت بیان کرتے۔ خواجہ صاحب کا تخلص ’’مجذوب‘‘ تھا۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’کشکولِ مجذوب‘‘ کے نام سے طبع ہو چکا۔
یہ خواجہ صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔ ان سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ مولانا تھانوی کو اپنا یہ شعر سنایا۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
 
اب تو آجا اب تو

خلوت ہوگئی

 

مولانا نے اس پر خوب داد دی اور انعام سے نوازا۔ انہی خواجہ صاحب نے جگر کو بھی مولانا تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ جگرصاحب خود تو مولاناکی خانقاہ (تھانہ بھون) حاضر نہ ہوئے۔ ایک سفید کاغذ پر اپنا یہ فارسی شعر لکھ بھیجا۔
بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ

بے طلبی خوشم

اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ

لبی خوشم

(اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں)
چنانچہ یہ خط مولانا کی خدمت میں پہنچایا گیا۔ مولانااشرف علی تھانوی کے لیے فارسی اجنبی نہیں تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا نے بچپن میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد ذاتی شوق سے فارسی پڑھی۔ اس دوران عربی تعلیم شروع ہونے سے پہلے کچھ عرصہ فارغ گزارا۔ فرصت کے اِن دنوں میں مولانا نے ایک فارسی مثنوی ’’زیروبم‘‘ کے عنوان سے تخلیق کی۔ یہ مولانا کا بچپن تھا۔ اُس زمانہ میں فارسی کا معیار بھی بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔ (یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے جبکہ مولانا کا انتقال ۱۹۴۳ء میں ہوا۔) مولانا تھانوی خود بھی اشعار کا نہایت عمدہ اور نفیس ذوق رکھتے تھے۔ مثالیں اُن کے ملفوظات میں بکثرت بکھری پڑی ہیں۔ مولانا کے خلفاء و مریدین میں سے بھی اکثر صاحبِ دیوان ہوئے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو ان کی مراد سمجھ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔
نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر

خوش غزل

بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبیؐ

خوشم

(اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں)
قدرت کو جب کسی ہدایت کا انتظام کرنا منظور ہو تو اس کے لیے وہ اسباب بھی خود مہیا کرتی ہے۔ یہ خط جب جگرصاحب کے پاس پہنچا تو اُن کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ دیر تک روتے رہے۔
اگلے ہفتے وہ خواجہ صاحب کی معیت میں مولانا کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ مولانا صاحب شاید پہلے ہی سے منتظر تھے۔ توبہ ہوئی اور بیعت بھی۔ اس کے بعد جگر نے مولانا سے چار دعائوں کی درخواست کی۔ ایک یہ کہ وہ شراب چھوڑ دیں۔ دوسرے ڈاڑھی رکھ لیں، تیسرے حج نصیب ہوجائے اور چوتھے یہ کہ ان کی مغفرت ہوجائے۔ مولانا نے جگر کے لیے یہ 4دعائیں کیں اور حاضرینِ محفل نے آمین کہی۔ بعدازاں مولانا تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔
کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں

جاتی

بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی

نہیں جاتی

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے

لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں

جاتی چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مِٹے جاتے ہیں گر گر کر

حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں

جاتی وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی

وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں

جاتی محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی

نہیں جاتی جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں

مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں

جاتی

مولانا اشرف تھانوی جیسے عالمِ دین اور شیخ وقت کی مانگی ہوئی پہلی تین دعاؤں کی قبولیت تو خدائے پاک نے جگر کو ان کی زندگی میں ہی دکھا دی۔ انہوں نے بیعت کے بعد شراب بالکل چھوڑ دی۔ چونکہ کثرتِ مے نوشی کی عادت تھی لہٰذا اسے بالکل ترک کرنے سے وہ بیمار ہوگئے اور قلب میں درد رہنے لگا۔ جگر و معدہ میں سوزش ہوگئی جس کی وجہ چہرے اور گردن کی جلد پھٹنے لگی۔
اس موقع پر ماہر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا۔ اُس نے مشورہ دیا کہ تھوڑی مقدار میں اگر شراب جسم کو ملتی رہے تو جسمانی اعضا اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں گے ورنہ زندگی کا چراغ گُل ہونے کا اندیشہ ہے۔ جگر نے اُن سے پوچھا کہ اگر شراب پیتا رہوں تو کتنا عرصہ جی سکوں گا؟
ڈاکٹر بولے ’’چند سال مزید اور بس۔‘‘
جگر نے کہا ’’میں چند سال خدا کے غضب کے ساتھ زندہ رہوں… اس سے بہتر ہے کہ ابھی تھوڑی سی تکلیف اُٹھا کر خدا کی رحمت کے سائے میں مرجائوں۔‘‘ لیکن بھلا ہوا اخلاص کا کہ خدائے پاک نے جگر کے الفاظ کی لاج رکھ لی اور دیسی علاج سے صحت عطا فرما دی۔ اس دوران لاہور کے مشہور معالج حکیم حافظ جلیل احمد مرحوم سے بھی علاج ہوتا رہا۔
دوسری دعا یہ تھی کہ ڈاڑھی رکھ لیں۔ یہ بھی پوری ہوئی۔ انھوں نے بیعت کے بعد حلیہ سنت کے مطابق کرلیا اور لباس بھی۔ اس دوران نماز کی بھی عادت ڈال لی۔ تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھے رہنے کو بھی اپنا شعار بنا لیا۔ غالباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا
 
سنا ہے وہ کافر مسلماں

ہوگیا

تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔
تیسری دعا حج کے متعلق تھی، یہ بھی قبول ہوئی۔ ۱۹۵۳ء میں جگر کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوگئی۔ حج کے ایام میں ایک اتفاقی حادثے کے سبب جگر کو مدینہ منورہ میں زیادہ دنوں تک قیام کا موقع بھی مل گیا۔ حج کے بعد جگر صاحب اکثر بے تکلف احباب میں فرمایا کرتے تھے۔ ’’میں نے 4 دعائیں کروائی تھیں۔ تین تو میری زندگی میں ہی پوری ہوگئیں اور چوتھی دعا (کہ خدا میری مغفرت کرد ے) بھی اِن شاء اﷲ قبول ہوگی۔‘‘ جگرصاحب کا اصل میدان غزل تھا۔ اسی میدان کے شاہ سوار تھے لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جگر نے کچھ نعتیں بھی کہیں۔ شراب نوشی کے بعد جگر نے جو پہلی نعت کہی اس کی روداد بھی بہت عجیب ہے ،چنانچہ جناب ساجد حمید لکھتے ہیں :
اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر ؔصاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔
در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔
تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘۔
اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔
سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں۔
لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔
ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔
مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے۔
کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی
 
جگرؔ کی جگر تک ہی

مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان

مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ
جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔
وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔
’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:
دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ

عبادت دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
 
کافی ہے بس اک

نسبت ِسلطان مدینہ