مہر کی اہمیت

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
مہر کی اہمیت
مولانا محمد ساجد مظاہری
مہر محض ایک نمائشی، فرضی اور رسمی چیز نہیں کہ بوقت عقد قلیل یا کثیر مقدار میں طے کرلیا جائے اور بس؟ مہر عورت کا مالی حق ہے اور اس کا قرض ہے اور جس طرح دوسروں کے قرض کی ادائیگی لازمی اور ضروری سمجھی جاتی ہے، اسی طرح بعینہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی لازم اور ضروری ہے۔
اور جب کسی دوسرے سے قرض لے کر معافی کی درخواست نہیں کی جاتی، بلکہ حسب موقع و سہولت قرض ادا کیا جاتا ہے تو شب زفاف میں ہی دست بستہ بیوی سے مہر کی معافی کی درخواست چہ معنی دارد؟ یہ تو معاملات، قرض کے اصول، مرد کی مردانگی ،اس کی شرافت اور غیرت کے بھی خلاف ہے۔
ادائیگی بھی عملاً ہو کہ مہر کی رقم پیش کردی جائے، وہ چاہے تو لے لے اور چاہے واپس کردے، اگر مہر پیش نہ کیا گیا اور عورت کو معلوم ہے کہ مہر ملنے والا تو ہے نہیں ،اس لیے معاف ہی کردے تو اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں۔ نیز ادائیگی کی نیت بھی ہو، اگر نکاح کیا اور مہر نہ دینے کی نیت کررکھی ہے تو حدیث میں ایسے شخص کو زانی کہا گیا ہے
”من نکح امراة وہو یرید أن یذہب بمہرہا فہو زان یوم القیمة“۔
جو دنیا دار ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا ، خواص اور وہ جو خود کو دین دار سمجھتے ہیں، ذرا غور فرمالیں کہ نکاح کے برسہا برس بعد بھی اپنی بیوی کا کل یا بعض مہر ادا کیا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَآتُوْا النِّسَآءَ صَدقٰتِہِنَّ نِحْلَة فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عن شیء منہ نفسا فکلوہ ہنیئا مریئا
(آیت: 4، النساء(
ترجمہ: اورتم بیویوں کو مہر خوشی سے دے دیا کرو، لیکن اگر وہ خوش دلی سے تمہارے لیے اس میں سے کوئی حصہ چھوڑ دیں تو تم اسے ہنسی خوشی کھاؤ۔
تشریح و توضیح:
طاقت ور آدمی تو اپنے زور بازو کے بل پر حقوق حاصل کرلیتا ہے اور مد مقابل کو بھی اس کے تن و توش وزور آوری کی بنا پر اس کے حقوق کی ادائیگی کی فکر لگی رہتی ہے مگر جن افراد و اشخاص کو خاندان وسماج کا کمزور حصہ سمجھا جاتا ہے ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و کوتاہی ہوتی ہے۔
شریعت مطہرہ ایسے لوگوں کے حقوق کی تاکید کرتی رہتی ہے، چناں چہ قرآن شریف کی مذکورہ آیت میں بھی اسی طرح کے عورتوں کے ایک حق اور مہر کا تذکرہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں مہر سے متعلق کئی طرح کی زیادتیاں کی جاتی تھیں۔
جس لڑکی سے نکاح کیا ہے اگر وہ یتیم ہے، رشتہ دار ہے اور اپنی پرورش میں ہے تو اس کو مہر بالکل دیتے ہی نہ تھے … اس کی اصلاح کی گئی ہے کہ مہر ضرور دے دیا کرو۔اگر مطالبے یا کسی اور وجہ سے دینا بھی پڑتا تو بادِل ناخواستہ اور تاوان سمجھ کر دیتے، اس کی اصلاح کی گئی کہ دیگر معاملات کی طرح مہر بھی بطیبِ خاطر، رغبت و خوش دلی کے ساتھ ادا کردیا کرو، ان کا حامی اور تقاضہ کرنے والا کوئی موجود ہو یا نہ ہو۔
لڑکی کے کچھ سرپرست واولیا شوہر سے مہر کی رقم از خود وصول کرتے اور لڑکی کو کچھ نہ دیتے … اس بارے میں فرمایا کہ مہر لڑکی کا حق ہے اگر تم نے وصول کرلیا ہے تو لڑکی کو ہی دے دو، اس کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں لانا ناجائز ہے۔
بیوی اگر دیا ہوا مہر، شوہر کو کل یا بعض حصہ ہبہ کرتی یا معاف کرتی ہے، جس کوابراء کہا جاتا ہے تو وہ اس کا لینا گناہ سمجھتے … اس پر فرمایا کہ بلا جبروا کراہ اپنے اختیار و رضامندی وخوش دلی سے اگر وہ معاف کردے یا ہبہ کردے تو اس کے استعمال میں چنداں مضائقہ نہیں، یہ تو حلال و پاکیزہ مال ہے، جو بلا مشقت تم کو حاصل ہوا۔
لطیفہ:
سیدنا حضرت علی سے منقول ہے کہ اگر کوئی بیمار ہوجائے اور علاج کے باوجود فائدہ نہ ہو تو بیمار کو چاہیے کہ اس نے بیوی کو جو مہر دیا تھا اس میں سے کچھ رقم مانگ لے، اگر وہ خوش دلی سے دے دے تو اس رقم کا شہد خرید کر اس کو بارش کے پانی میں ملا کر نوش کرلے، اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ اس کو شفا حاصل ہوجائے گی۔ کیوں کہ یہاں ہنی، مریئ، شفاء اور ماء مبارک جمع ہوگئے ہیں
فاذا اجتمعت ہذہ الاشیاء یرجی لہ الشفاء۔
)بحر العلوم ص:333(
مہر کا حکم:
حضرات فقہاء اور ائمہ کرام کے نزدیک مہر واجب ہے، بوقت نکاح، مہر کا تذکرہ ہو یا نہ ہو۔قفّال مروزی جیسے حضرات مفسرین کے نزدیک مہر کے بنا نہ نکاح درست ہے اور نہ صحبت۔
ان الفروج لا تستباح الا بعوض یلزم۔
)محاسن التاویل ص:228(
مہر کے اقسام:
:1 جس مہر کا فوری طور پر دینا طے پائے اس کو مہر معجل (نقد) کہتے ہیں۔
:2 فی الحال جس مہر کی ادائیگی کا وعدہ نہ ہو اور آئندہ کسی مدت میں ادائیگی مفہوم ہوئی ہو تو وہ مہر موٴجل (اُدھار) ہے۔
جہاں معجل اور موٴجل کا کوئی تذکرہ ہی نہ ہو، وہاں عرف عام کا اعتبار ہے، اس ماحول اور معاشرے میں جتنا معجل لیا جاتا ہو تو معجل لیا جائے گا، اور جتنا موٴجل لیا جاتا ہو تو موٴجل لیا جائے گا۔
شرع محمدی یا مہر مسنون:
اس مہر کو کہتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً ثابت ہو، البتہ بعض علاقوں میں اس سے مہر فاطمی اور بعض علاقوں میں اقل مہر مراد ہوتا ہے۔ بایں صورت عرف کا اعتبار ہوگا۔
مہر کی مقدار:
مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہیں اور اس زمانے میں دس گرام کے تولہ کے حساب سے تین تولہ 618 ملی گرام چاندی۔ بازار میں چاندی کا جو بھی ریٹ ہو اس کے حساب سے رقم مقرر کی جائے گی۔
نکاح کرنے والے کے حالات، و سعت و استطاعت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے شریعت مطہرہ نے مہر کی کثیر مقدار متعین نہیں کی، مگر پسندیدہ نکاح وہی ہے جس میں کم از کم مہر متعین کیا گیا ہو اور قابل تقلید مہر فاطمی ہے۔
مہر کے مسائل:
جو مہر نام آوری اور شہرت کے لیے ہو اور اپنی حیثیت سے زیادہ ہو تو ایسا مہر شرعاً نا پسندیدہ ہے۔اگر وسعت کے باوجود کسی نے مہر ادا نہ کیا اور نہ عورت نے معاف کیا تو قیامت میں ماخوذ ہوگا۔
(فتاوی محمودیہ 418/7(
جب عورت مرنے لگتی ہے تو کہتے ہیں کہ مہر معاف کردے۔اس طرح معاف کرانا بڑی سنگ دلی کی بات ہے۔
اسی طرح شوہر کے انتقال پر عورت کو محبور کیا جاتا ہے کہ مہر معاف کردے۔ اگر لوگوں کے اصرار پر اور شرما شرمی میں وہ معاف بھی کردے تو اس معافی کاا عتبار نہیں جب تک خوش دلی سے نہ ہو۔
بوقت نکاح بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مہر شریعت کے اعتبار سے ایک اصول کو پورا کرنا ہے، لینا دینا تو ہے نہیں، یہ جہالت کی بات ہے ، مہر رسمی چیز نہیں، اس کی ادائیگی ضروری ہے۔
مہر اگر موٴجل ہے تو حسب سہولت ادائیگی کی اجازت ہے، اس لیے پہلی رات میں مہر ادا کیے بغیر صحبت کو ناجائز سمجھنا غلط اور بے اصل ہے۔
افسوس! امت کا موجودہ طرز عمل تو آیت شریفہ کے خلاف ہی نظر آتا ہے۔امت میں موجود برائیوں میں سے ایک اجتماعی برائی مہر کا ادا نہ کرنا بھی ہے، ایک ایسی برائی جس کی طرف سے مسلسل غفلت ہے۔ایک ایسی برائی جس کے خلاف نہ زبان استعمال ہورہی ہے اور نہ قلم۔ نہ کسی شاعر نے اپنی نظم کا عنوان بنایا اور نہ مضمون نگار نے قابل التفات سمجھا۔
واعظین قوم، مصلحین امت، فقہا و خطبا، نکاح خواں ، ائمہٴ کرام، اصلاح معاشرہ کے لیے کام کرنے والے حضرات سے گذارش ہے کہ وہ اس بارے میں امت کی رہبری فرمائیں اورمہر کی ادائیگی کی اہمیت سے لوگوں کو واقف کراکر، اس کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔
مساوات اور عورت کو مرد کے برابر درجہ دلانے کے نام پر دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں، ادارے، افراد کام کررہے ہیں اور حقوق نسواں کے نام پر جابجا کانفرنسیں منعقد ہورہی ہیں۔ ریزولیشن، قرار دادیں، تجاویز اور بل پاس کیے جارہے ہیں، کتابیں اور لٹریچر، اخبارات میں مضامین اور آرٹیکل شائع کیے جارہے ہیں، ان تمام تر وسائل کے ساتھ اسلام سے نفرت پیدا کرنے کی خاطر یہ پروپیگنڈہ بھی جاری ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق محفوظ نہیں اور نہ اسلام نے عورت کی قدر کی۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ واقعتاً دنیا کی اس حسین ترین اور وقیع شی کو اسلام سے زیادہ رفعت کسی اور مذہب نے نہیں دی۔
سوچیے! صنف نازک کی اس سے زیادہ توہین و تذلیل اورکیا ہوگی کہ بابل سے تلک کے نام پر دی گئی کثیر رقم، جہیز کے نام پردیا گیا کثیر ساز و سامان اگر دلہن کو نہ دیا گیا ہو تو اپنے مجازی خدا کی دلبر نہ بن سکے، کتنا بے وقعت اوربے حیثیت کیا گیا اس وقیع شے کو۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ ہو:
مذہب اسلام نے اس قدر گراں بہا، نفیس اور قابل قدر گردانا کہ وہ عورت کو کچھ رقم یا اس کی قیمت کا کچھ ساز و سامان(گفٹ) بطور نذرانہ، تالیف قلب اور بغرض اکرام و اعزاز (ابانة لشرف المحل) براہ راست عورت کو پیش کرے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ مرد اس کا طالب اور خواست گار ہے اور عورت رانی اور ملکہ اوروہ اپنی حیثیت کے موافق اس کا اعزاز و اکرام کررہا ہے، اس انمول اور بیش قیمت شے کے حصول پر اظہار مسرت اورتشکر و امتنان کے لیے سنت قرار پایا کہ وہ دوست و احباب، اعزا و اقربا کو حسب استطاعت کھانا کھلائے، جس کو دعوت ولیمہ کہا جاتا ہے۔ آنے ولی دلہن کے استقبال اور اس کو نذرانہ پیش کرنے کی نظیر مذہب اسلام کے علاوہ کیا دنیا کے کسی اور مذہب میں ملے گی؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔عورت کو یہ عزت اسلام اور صر ف اسلام نے دی ہے، مگر افسوس کہ عورت کو دیے گئے اس اعزاز و امتیاز کو ہم دنیا کو سمجھانے سے قاصر رہے۔
حوالہ جات:
معارف القرآن 198/2، تفسیر ماجدی 693/1، القرطبی 26/5، 17/5،محاسن التاویل ص:228 ،رد المحتار ص:101، جواہر الفقہ150/4.