دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کردے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کردے
مولانا محمد مبشربدر
انسانیت پر قدرت کا اس سے بڑا احسان اور کیا ہوگا کہ ان کو حضرت محمد ﷺ جیسی بابرکت و پاکیزہ ہستی عطا کی ، جو رحمت و شفقت، محبت و الفت ، جود و سخا اور امن ووفا کی پیکر ہے۔ جن کے دم سے کائنات کو ثبات ہے۔ جو غریبوں اور بے کسوں کے ماویٰ و ملجأ اور بے سہاروں کے لیے سہارا ہیں۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے والے، غم زدوں کی دلجوئی کرنے والے، مہمان نوازی میں درِّ یتیم اور یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھنے والےہیں۔ جب بارِ رسالت آپ کے سپرد کیے جانے کا وقت آیا اور علامات وحی کا ظہور ہونا شروع ہوا تو آپ علیہ السلام غارِ حراء سے گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
«إِنِّي قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي»
’’ اے خدیجہ! مجھے اپنی جان جانے کا خطرہ ہے۔‘‘
یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بولیں:
«كَلَّا - وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتُقِرِّي الضَّيْفَ، وَتُكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ».
’’ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بخدا اللہ آپ کو کبھی خالی ہاتھ نہیں کرے گا، بلاشبہ آپ رشتہ داری کا بھرم رکھتے ہیں ، گفتگو میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں، مہمان نواز ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں اور مشکل حالات میں حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ‘‘
یہ وہ پیغمبرِ برحق ہیں جن کے کمالات و محاسن کی دنیا قائل ہے ، روئے زمین پر ان جیسا اعلیٰ اخلاق کا حامل ، بردبار، شیریں سخن، نازک دہن، گل بدن ، اپنی ذات میں ایک انجمن، صاحب العفت و الحیاء، صاحبِ جود و سخا، صاحب الرداء السوداءمحمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کسی ماں نے جنا ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔
شاعرِ رسول ﷺ سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کی مدحت میں فرماتے ہیں:
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنی
 
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ

النِّسَآءُ

خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
 
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا

تَشَآء

’’ آپ سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے، اور آپ سے زیادہ خوبصورت عورتوں نے کبھی جنا ہی نہیں ہے۔ آپ کو ہر عیب سے پاک کرکے پیدا کیا گیا، گویا آپ کو ایسے پیدا کیا گیا جیسا آپ نے چاہا۔‘‘
وہ دانائے سُبُل ، ختم الرسُل ،

مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
 
نگاہِ عشق و مستی میں
 
وہی اول وہی آخر

وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسن، وہی طہٰٰ

آپ کی حیاتِ طیبہ کا کون سا گوشہ ہے جو انسانیت کے لیے مشعل راہ نہیں ہے؟ خلّاقِ عالم نے آپ کی ایک ایک ادا کو امت کے لیے قابلِ تقلید بنادیا اور آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کا درجہ دیا،آپ کے فیضانِ نظر سے رومی ، فارسی، حبشی ،غفاری سے لے کر بادیہ نشینان و شاہانِ عرب و عجم تک حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ایسی مقدس اور پاکیزہ ہستی کے اوصاف اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور آپ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے۔
یہ امت جب تک رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع نہیں کرلیتی، آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا نہیں لیتی تب تک کامیابی کی منازل طے نہیں کرسکتی۔ آپ کا دائرۂ نبوت قیامت تک آنے والے جن و انس کے علاوہ تمام مخلوقات تک پھیلا ہوا ہے۔
آپ علیہ السلام نے امت کو ایک منہج اور راستہ دیا، زندگی گزارنے کے لیے ایک نصاب دیا جس پر آپ کے اصحاب علیہم الرضوان نے عمل پیرا ہوکر اتباعِ رسول ﷺ کا حق ادا کردیا اور آپ کے بعد اسلام کی روشنی چہار دانگِ عالم میں پھیلانے کے لیے گھربار چھوڑ دیا اور اپنے بعد والوں کے لیے ایک بہترین مثالی طرزِ زندگی چھوڑ گئے۔
وہ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی پامردی اور استقلال ہی تھا، جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر ننگی پیٹھ اور سینے پر پتھر رکھے ہوئے زبانِ مجسم سے اشہد ان محمدا رسول اللہ کی گردان جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا شبابِ وفا ہی تھا ، جو جلتے ہوئے انگاروں پر محمد رسول اللہ کا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔
یہ سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کا عشقِ صادق ہی تھا کہ جسم کے دو ٹکڑے کروادیے۔
یہ سیدہ زنیرہ رضی اللہ عنہا کی وفاداری تھی کہ غلامیٔ رسول ﷺ کی سزا میں آنکھیں قربان کر بیٹھیں۔
ذرا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشقِ رسول دیکھیے ، گھر کا سارا مال رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لا کر ڈھیر کردیا۔ یہ عشق مصطفیٰ ﷺ ہی تو تھا جس کی بنا پر جلتے ہوئے انگاروں اور تپتے ہوئے صحراؤں پر لیٹنا سہل ہوگیا تھا۔ آج اسی جذبے اور عشق کی ضرورت ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا

کردے

دہر میں اسمِ محمد سے اجالا

کردے

امت کی فکر میں اپنا آرام تیاگ کر راتوں کو سجدوں میں رونے والے نبی جوقدم قدم پر اپنی امت کی کامیابی اور سرخروئی کی دعائیں کرتے چلے گئے ،آج ان کی وہی امت سنت نبوی کو چھوڑ کر رسوم و رواج کے پیچھے ایسے چل پڑی ہے جیسے انہیں اپنے رسول ﷺ کی سنت، عزت و حرمت کا پاس نہیں، ان کے ارشادات اور طریقوں کی اہمیت نہیں۔ دین و ایمان کی حرارت سینوں میں ٹھنڈی ہوتی جارہی ہے۔
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل

خوگر ہیں

اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبر ہیں
گمراہی کے سینکڑوں راستے ہیں لیکن ہدایت کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اس سے ہٹ کر گزاری گئی زندگی ناکام اور خسارے والی ہے۔
آج ضرورت اسی امر کی ہے کہ امت کے بکھرے شیرازے کو ایک مرکز کی طرف مجتمع کیا جائے، سینوں میں عشق مصطفیٰﷺ کی شمع فروزاں کی جائے۔رسومات و بدعات کو ترک کرکے سنتوں اور احکاماتِ اسلامیہ کو اپنائیں۔
ایک مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کوئی محبوب ومحترم ہستی نہیں ہوسکتی، چنانچہ آقا علیہ السلام کا فرمان ہے:
’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
)صحیح مسلم (
ہم سے رسول برحق ﷺ سے عہد پیمائی اور وفاداری کے بارے سوال کیا جائے گا،اگر ہم ان کی شفاعت کے امیدوار ہیں تو ہمیں ان کے منہج اور طریق پر ضرور چلنا ہوگا، بغیر اتباع کے محض نعرہ بازی سے بات بننے والی نہیں۔
چنانچہ علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو
 
ہم تیرے ہیں
 
یہ جہاں چیز
 
ہے کیا، لوح و

قلم تیرے ہیں