استحکام ِپاکستان میں” وفاق المدارس العربیہ“ کا کردار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">استحکام ِپاکستان میں” وفاق المدارس العربیہ“ کا کردار

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
پاکستان کی تاریخ میں مدارس اسلامیہ کا ہر دور میں بہت عمدہ کردار رہا ہے وطن عزیز کی سالمیت ، استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے تشخص کو پوری دنیا میں اجاگر کرنے کے لیے اہلیان مدارس کا نام سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ دور حاضر کے سب سے بڑے دو المیے ہیں۔ جہالت اور بدامنی۔
جہالت کی بنیاد پر ہمارا سارا معاشرتی نظام تباہی و بربادی کی نذر ہو چکا ہے معاشرے میں پنپنے والی ہر چھوٹی بڑی برائی اسی کی کوکھ سے جنم لے رہی ہے ہماری اخلاقی قدریں جہالت ہی کی وجہ سے پامال ہو رہی ہیں۔ باقی رہی بدامنی تو آپ ہی بتائیے کہ ”ملکِ پاک“ کا وہ کون سا حصہ سے جو اس سے” پاک“ ہو؟ تجارتی و کاروباری مراکز ، سرکاری و غیر سرکاری ادارے ، عصری و دینی درسگاہیں ،مکاتب و مساجد الغرض ہر گلی کوچہ میں بدامنی کا بد مست ہاتھی کھلے عام دندنا رہا ہے۔
ایسے حالات میں ملک کے معاملہ فہم ، مدبر ، شہہ دماغ ارباب حل و عقد طبقے کو باہمی مشاورت سے ان کے سد باب کے لیے کوئی بند باندھنا ہوگا۔
جہالت کے خاتمے کے لیے ملک میں مثالی تعلیمی اداروں کو فروغ دینا ہوگا۔ ان کا نظام تعلیم و تربیت مزید بہتر کرنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ سکولز ، کالجز اور یونی ورسٹیز کوتمام سہولیات کی دستیابی کے ساتھ مثبت نتائج کا حامل بنانے کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی۔ ان کے نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات کو ختم کرنے کی سازشوں کو ناکام کر کےبنیادی طور پر ہر بچے کو تعلیم کا حق دار بنانے کے لیے بھر پور کوشش کرنا ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہلیان مدارس کی علمی و عملی ، روحانی و اخلاقی کاوشوں کو سنجیدگی اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
چنانچہ اس حوالے سے احناف دیوبند مکتبہ فکر کے سب سے بڑے منظم اور مضبوط تعلیمی بورڈ ”وفاق المدارس العربیہ پاکستان “کی خدمات ، مسلک اور اغراض و مقاصدپر ایک نظر ڈالتے ہیں :”وفاق المدارس العربیہ پاکستان“خالص تعلیمی اور غیر سیاسی ادارہ ہے۔ جس کے تحت بیس ہزار پانچ سو ساٹھ(20560) مدارس وجامعات کام کر رہے ہیں۔ ان مدارس میں ایک لاکھ اکیس ہزار آٹھ سو اناسی(121879) اساتذہ کرام خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ پچیس لاکھ دس ہزار چار سو بیاسی (2510482) طلبہ / طالبات زیر تعلیم ہیں۔
وفاق المدارس سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعدادایک لاکھ ستائیس ہزار دو (127002)، عالمات کی تعدادایک لاکھ بہتر ہزار نو سو پچاس (172950) اور حفاظ کی تعداد نولاکھ نواسی ہزار چھ سو انسٹھ(989659) ہے۔
وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات 1436ھ 2015/ء کے لئے مدارس و جامعات سے دو لاکھ پینسٹھ ہزار سات سو پچانوے(265795) طلبہ / طالبات کے داخلے موصول ہو ئے، کامیابی کا تناسب 81.2 فیصد رہا۔ جن کے لئے ایک ہزارچھ سو اکیانوے(1691) مراکز امتحان قائم کئے گئے۔ امتحانی نظم کو ضلعی سطح پر مسؤلین کے ذریعے مرکزی دفترسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔“
ملحقہ مدارس و جامعات:
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قیام 1959ء سے جنوری 2015ء تک وفاق کے ساتھ ملحق مدارس کی تعداد17008ہے۔ ملحقہ مدارس کی شاخوں کی تعداد 3642ہے۔ اس طرح وفاق المدارس کے تحت کام کرنے والے اداروں کی کل تعداد20650ہے۔
نوٹ : مذکورہ بالااعداد و شمار 2015 ء کا ہے اور اب 2016 میں اس تعداد میں کماً و کیفاً خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔
وفاق کا مسلک:
” وفاق“ کا مسلک عقائد اہل السنۃ والجماعۃ مطابق تشریحات فقہ حنفی و سلف صالحین اکابر علماءدیوبند ہوگا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اغراض و مقاصد:
(۱) ملحقہ جامعات و مدارس عربیہ کے جملہ درجات بشمول تکمیل و تخصص و تدریب المعلمین و المعلمات کے لئے جامع نصاب تعلیم مرتب کرنااور امتحانات میں کامیاب طلبہ و طالبات کوشہادات (اسناد)جاری کرنا۔
(۲) مدارس عربیہ و جامعات میں باہمی اتحاد و ربط پیدا کرنے کی کوشش اور ان کو منظم کرنا۔
(۳) مروجہ نصاب تعلیم میں جدید دینی تقاضوں کے مطابق مناسب و موزوں تصرف کرنا اور حسب ضرورت کتب طبع کرانا۔
(۴) وہ مدارس و جامعات جو اس وفاق سے الحاق کریں ان میں نصاب تعلیم ‘ نظام تعلیم اور امتحانات میں باقاعدگی ‘ یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنا۔
(۵) جدید عصری تقاضوں کے مطابق تعلیمات اسلامیہ کی ترویج اور نشر و اشاعت اور اہم موضوعات پر مستند اور تحقیقی کتابیں تالیف و تصنیف کرانا۔
(۶) مدارس دینیہ و جامعات کے تحفظ و ترقی اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لئے صحیح اور موثر ذرائع اختیار کرنا۔
(۷) تربیت المعلمین والمعلمات کا موثر و مناسب انتظام کرنا۔
جہاں تک بد امنی کی روک تھام کے لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مدبرانہ حکمت عملی اور بالخصوص صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان اور ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ قاری محمد حنیف جالندھری کا کردار ہے وہ کسی ذی عقل و فہم پر پوشیدہ نہیں۔ ان کی ہدایات پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحق تمام مدارس کے ذمہ داران بشمول اساتذہ ، عملہ اور طلباء ملکی حدود میں کسی بھی عسکری کارروائیوں میں قطعاً ملوث نہیں۔ ہر علاقے کی مقامی انتظامیہ سے لے کر قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں کے رہنماؤں بشمول وفاقی وزیر داخلہ اور آرمی چیف سمیت ارباب اقتدار اس بات کی تسلی بارہا کر چکے ہیں اور وفاق المدارس العربیہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہوں نے اسے ملک کے حق میں بہتر قرار دیا ہے۔
جبکہ دوسری طرف سے بھی وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحق تمام مدارس کے ذمہ داران اور فارغ التحصیل فضلاء کرام نے ہر کڑے وقت میں امن کے فروغ کے لیے حکومت وقت کا ہمیشہ ہاتھ بٹایا ہے۔
لیکن بدقسمتی کہیے یا کچھ اور !
پچھلی دہائی سے مدارس اسلامیہ بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نمایاں کارناموں کو بجائے سراہنے اور حوصلہ افزائی کے الٹا سنگین الزامات، ان کے تشخص کو مجروح کرنے کے لیے بے بنیاد پروپیگنڈے کی فضاء سے ایسی سرانڈ جم چکی ہے جس کی تہہ سے مدارس اسلامیہ ، علمائے کرام اور طلباء عزیز کے خلاف بدبو کے بھبکوں سے اہلیان پاکستان کا ہر فرد ابکائیاں لے رہا ہے۔ خدارا! پاکستان کے استحکام کی بدولت مدارس اسلامیہ کے استحکام اور مدارس اسلامیہ کے استحکام کی بدولت پاکستان کے استحکام کو کمزور نہ ہونے دیں۔ آئیے اس عزم کے اظہار کے لیے شوق در شوق لاہور کے اقبال پارک میں مورخہ 3 اپریل اتوار صبح 10 بجے جوق در جوق شرکت کریں اور قائدین وفاق المدارس کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
دفاع اسلام علماء کنونشن کے مشاورتی اجلاس میں چند تجاویز:
13 مارچ 2016ء لاہور میں جمعیت علماء اسلام کے قائدمولانا سمیع الحق دامت برکاتہم کی زیر صدارت دفاع اسلام علماء کنونشن کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جس میں ملک کی تمام بڑی مذہبی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس میں راقم الحروف کی پیش کردہ تجاویز یہ ہیں :
1 : وہ فیصلہ کریں جو آپ کل کو صحیح طور پر نبھا سکیں۔
2:پاکستان کے نام پر ہم سب متحد ہیں۔ اس لیے دفاع پاکستان کے جلسوں میں پاکستان کا پرچم ہونا چاہیے ، تنظیموں کے نہیں۔
3:جن جماعتوں کو اپنے اتحاد میں شامل کریں مشکل وقت میں ان کا خیال بھی رکھیں۔
4:مشاورتی اجلاس میں جماعتوں کے وفود کے بجائے مرکزی قائدین کا بلانا کافی ہے۔
5:ہماری مذہبی قوت بہت زیادہ ہےاسمبلی میں بھی اس قوت کو متحد رکھیں۔
6:وقت کی پابندی کو ضرور ملحوظ رکھا جائےتاکہ میزبان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے
7: مقررین ضروری تجاویز پیش کریں لمبی تقریریں نہ فرمائیں۔
8: اتحاد میں موجود سربراہان سے گزارش ہے کہ وہ قائد اتحاد مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم کی ہدایات کے مطابق چلیں۔