امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت﷬

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عالمِ اسلام کی عہد ساز شخصیت
امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت﷬
مولانا محمد الیاس گھمن
کوفہ جس کے دروازوں سے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ایسا سنگم ہے جہاں عرب و عجم کی سرحدیں گلے مل رہی ہیں ، یایوں کہیے کہ عربی و عجمی کی باہم برتری و کمتری کی تقسیم و تفریق دم توڑ رہی ہیں۔ اس کے چپے چپے پر سینکڑوں جلیل القدر اصحاب پیغمبر کے حسن خرام کے پھول کھِلے ہیں اس کی ہواؤں میں انفاسِ صحابیت کی خوشبوئیں بَسی ہوئی ہیں۔ اس کے انگ انگ سے فراست و بصیرت انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ خلافتِ فاروقی کے مبارک عہد میں اس کی علمی و سیاسی اساس رکھی گئی۔ ایک ہزار پچاس جلیل القدر صحابہ جن میں چوبیس ایسے شیردل مجاہد بھی تھے جو غزوہ بدر میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے تھے، کوفہ آئے اور اسے علم و تقویٰ ، عمل و اخلاص ، آداب و اخلاق ،فضل و کمال اور تدبر و سیاست کے موتیوں سے سجادیا۔
جائے ولادت :
ہجرت رسول کو 80 برس بیت چکےتھے، عبد الملک بن مروان کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔ اس کے دارالخلافہ کوفہ میں مشیت ایزدی نے یاوری کی اور بشارت نبوی کی پیشن گوئی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ثابت بن زوطی کے گھرانے میں ایک بچے نے آنکھ کھولی جسے دنیا سرتاج الفقہاءسید المحدثین امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ وہ عہد تھا کہ حالت ایمان میں وجود پیغمبر کی صحبتیں اٹھانے والے (یعنی صحابہ کرام ) میں سے چند بزرگ بھی موجود تھے جن میں سے بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے آغازِ شباب تک اپنے وجود کی برکتیں زمانے کو بانٹتے رہے۔
نام و نسب:
نعمان بن ثابت۔ نُعْمَانْ اصل میں اُس خون کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے بدن کا قِوام ہوتاہے۔اسی طرح آپ رحمہ اللہ کے ذریعے ملت اسلامیہ کا قوام ہے۔یا نعمان بمعنی گل لالہ۔آپ کے فضائل ایسے خوشبودار ہیں جیسے گل لالہ(پاک وصاف کردار کے مالک ہیں،فضائل اس طرح مہکتے ہیں جیسے گل لالہ کی خوشبو مہکتی ہے )
کنیت:
آپ کی کنیت ابوحنیفہ ہے یہ کنیت نسبی نہیں بلکہ وصفی ہے جیسے ابوہریرہ اور ابو تراب وغیرہ چونکہ دین اسلام کانام قرآن نے ملت حنیف بتلایا ہے اسی طرح امام اعظم نے سب سے پہلے اس دین حنیف کی تدوین فرمائی ہے اورعربی محاورہ میں ”اب“کے معنی ہوتے ہیں ”والا“ چونکہ آپ نے دین حنیف کی تدوین فرمائی اس لیے آپ کی کنیت ابوحنیفہ قرارپائی۔
بشارت نبوی:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر علم / دین / ایمان ثریا ستارے تک بھی پہنچ جائے تو فارس کے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی حاصل کرلیں گے۔ امام جلال الدین سیوطی الشافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارت دی ہے اس کا مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے۔
حلیہ مبارک:
خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ خوبصورت داڑھی، عمدہ کپڑے، اچھے جوتے، خوشبودار اور بھلی مجلس والے رعب دار آدمی تھے۔ آپ کی گفتگو نہایت شیریں، آواز بلند اور صاف ہوا کرتی تھی۔ کیسا ہی پیچیدہ مضمون ہو نہایت صفائی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ خوش لباس رہتے تھے۔
بچپن کا زمانہ:
تاریخ نویسوں نے اس وقت کا یوں نقشہ کھینچا ہے : حجاج بن یوسف، خلیفہ عبد الملک کی طرف سے عراق کا گورنر مقرر تھا۔ ہر طرف ظلم و جور کی سنسناہٹ تھی۔ ایک قیامت برپا تھی۔ حجاج کی سفاکیاں تاریخ سے وابستہ ہر شخص کو معلوم ہیں۔خلیفہ عبد الملک 86ھ میں فوت ہوا تو اس کا بیٹا ولید تخت نشین آراءہوا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کر تے تھے۔ "ولید شام میں، حجاج عراق میں، عثمان حجاز میں، قرہ مصر میں، واللہ تمام دنیا ظلم سے بھری تھی۔" حجاج 95ھ میں چل بسا۔
96 ھ میں ولید نے بھی یہاں سے کوچ کیا۔ اس کے بعد سلیمان بن عبد الملک مسندِ خلافت پر جلوہ آرا ہوا مورخین کہتے ہیں کہ بنو امیّہ کے حکمرانوں میں سب سے اچھا انسان اور صاحب فضل و کمال تھا۔ سلیمانؒ نے مرتے وقت یہ وصیت لکھی کہ کہ میرے بعد عمر بن عبد العزیزؒ کو تخت نشیں بنایا جائے۔ 99ھ میں سلیمان بھی اپنا وقت پورا کر کے راہی ملک بقا ہوا۔
وصیت کے مطابق عمر بن عبد العزیزؒ مسندِ خلافت پر آئے جن کا عدل و انصاف اور علم و عمل اور اہل علم کی قدردانی تاریخ میں روشن آفتاب کی طرح چمک رہی ہے۔حجاج اور ولید کے دور اقتدار میں آپ رحمہ اللہ نے خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کا کارخانہ قائم کرکے منافع بخش تجارت کی۔
عہد صحابہ میں :
اہل علم نے لکھا ہے کہ 70 صحابہ کرام کا امام صاحب رحمہ اللہ نے زمانہ پایا ہے۔ ان میں سے بعض سے حدیث نقل بھی کی ہے۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی نے ان کے نام بھی درج کیے ہیں۔ حضرت انس بن مالک ، حضرت عبداللہ بن جزءالزبیدی ، حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت معقل بن یسار ، حضرت واثلہ بن اسقع اور حضرت عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہم۔
تحصیل علم :
سلیمان کے دور اقتدار میں ایک دن امام صاحب بازار جا رہے تھے۔ کوفہ کے مشہور عالم دین امام شعبیؒ نے آپ کو دیکھ لیا اور پوچھا:بیٹا تم کس سے پڑھتے ہو؟" آپ نے نفی میں جواب دیا اس پر امام شعبیؒ نے کہا "مجھے تیرے اندر قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں، تم علماءکی صحبت میں بیٹھا کرو۔" اس نصیحت کے بعد تحصیلِ علم کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔اس وقت علم کلام کو حاصل کرنے لیے صرف قدرتی ذہانت اور مذہبی معلومات درکار تھیں۔ قدرت نے امام ابو حنیفہؒ میں یہ تمام باتیں جمع کر دی تھیں۔
اس وقت کے تمام گمراہ فرقوں کے سامنے آپ نے منطقی ، استدلالی اور علمی انداز میں مذہب اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا اور دین اسلام پر ہونے والے عقلی اعتراضات کو احسن انداز سے دور کیا۔
علم فقہ کا حصول :
اس وقت کوفہ میں امام حماد رحمہ اللہ کا مدرسہ طلباءدین کا مرجع سمجھا جاتا تھا اس کی ابتداءخلیفہ راشد حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد شریح، علقمہ اور مسروق رحمہم اللہ۔
پھر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور ان کے بعد امام حماد رحمہ اللہ تک اس کی امامت پہنچی۔حضرت علی و عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے فقہ کا جو سلسلہ چلا آتا تھا اس کا مدار انہی پر رہ گیا تھا۔ ان وجوہ سے امام ابو حنیفہؒ نے علمِ فقہ پڑھنا چاہا تو انہی کو منتخب کیا۔
کمال ِذہانت:
شروع شروع میں ایک نئے طالب علم ہونے کی وجہ سے درس میں پیچھے بیٹھتے۔ لیکن چند روز کے بعد جب امام حماد کو تجربہ ہو گیا کہ تمام حلقہ میں ایک شخص بھی حافظہ اور ذہانت میں اس کا ہمسر نہیں ہے تو حکم دے دیا کہ”ابو حنیفہ سب سے آگے بیٹھا کریں۔“
امام حماد کی جانشینی :
خود آپؒ کا بیان ہے کہ "میں دس برس تک حمادؒ کے حلقہ میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہیں چھوڑا۔ انہی دنوں میرے استاد امام حمادؒ کے ایک رشتہ دار کا انتقال ہوگیا تو وہ مجھے اپنا جانشین بنا کر تعزیت کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے۔ چونکہ مجھ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے تھے، تلامذہ اور اربابِ حاجت نے میری طرف رجوع کیا۔ بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہیں سنی تھی اس لئے اپنے اجتہاد سے جواب دیئے اور احتیاط کیلئے ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو مہینہ کے بعد حماد بصرہ سے واپس آئے تو میں نے وہ یادداشت پیش کی۔ اس سے میرے استاد بہت زیادہ خوش ہوئے اور بعض معمولی اصلاح بھی فرمائی۔ میں نے عہد کیا کہ حماد رحمہ اللہ جب تک زندہ ہیں ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہ چھوڑوں گا۔"
علم قرآت کا حصول :
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے قرآت امام عاصم رحمہ اللہ سے سیکھی جن کا شمار معروف قراءِ سبعہ میں ہو تا ہے اور انہیں کی قرآت کے مطابق قرآن حفظ کیا۔
حدیث کی تحصیل:
حمادؒ کے زمانہ میں ہی امام صاحبؒ نے حدیث کی طرف توجہ کی کیونکہ مسائلِ فقہ کی مجتہدانہ تحقیق جو امام صاحبؒ کو مطلوب تھی حدیث کی تکمیل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ لہذا کوفہ میں کوئی ایسا محدث باقی نہ بچا جس کے سامنے امام صاحبؒنے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو اور حدیثیں نہ سیکھیں ہوں۔ اس سلسلے میں آپ نے مکہ مکرمہ کا سفر بھی کیا فن حدیث کے اساتذہ میں سے صحابہ کرام کے خاص معتمد اور فیض یافتہ حضرت عطا ءسے استفادہ کی غرض سے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ کی قوت حافظہ اور قوت استدلال کو دیکھ کر حضرت عطاءآپ کو خصوصی توجہ سے نوازتے۔115ھ کو یہ آفتاب علم بھی غروب ہوگیا۔حضرت عطاءکے بعد مکہ مکرمہ میں جن کے علم کا سکہ چلتا تھا ان کا نام عکرمہ ہے یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے۔آپ نے ان سے بھی علم حاصل کیا۔اس کے بعد آپ مدینہ پہنچے تو بطور خاص سلیمانؒ اور سالم بن عبد اللہؒ سے کسب فیض کیا۔ سلیمان ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ اور سالمؒ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے اور اپنے والد بزرگوار سے تعلیم پائی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیثیں روایت کیں۔الغرض امام ابو حنیفہؒ کے اساتذہ کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق بقول امام ابو حفص کبیرؒ چار ہزار تک پہنچتی ہے۔ آپ کے اساتذہ آپ سے انتہائی شفقت والا معاملہ فرماتے تھے۔
مسند حماد پر جلوہ آرائی :
امام حمادؒ نے 120ھ میں فوت ہوئے۔ ابراہیم نخعیؒ کے بعد فقہ کا دارو مدارچونکہ امام حماد پر ہی موقوف تھا اس لیے ان کی وفات سے چراغ علم ٹمٹا اٹھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر تمام بزرگوں نے متفقاً امام ابو حنیفہ سے درخواست کی کہ مسندِ درس کو زینت بخشیں۔آپ کی عمر چالیس سال تھی۔
مبارک خواب :
تاریخ بغداد اور دیگر کتب میں لکھا ہے کہ اس زمانہ میں آپ نے یہ خواب دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھود رہے ہیں اور وہاں ہڈیاں جمع کر کے انہیں ترتیب سے رکھ رہے ہیں،یہ خواب دیکھ کر سخت پریشانی ہوئی جب اس کی تعبیر امام ابن سیرین سے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ خواب دیکھنے والے شخص کو احادیث سے مسائل کے استنباط کی توفیق خاص نصیب ہوگی۔
آپ کے معمولات :
آپ نہایت عبادت گزار تھے کثرت سے نوافل پڑھتے۔ اکثر روزہ سے ہوتے قرآن کریم سے بے حد لگاؤ تھا۔ خوب تلاوت فرماتے آپ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں 60 مرتبہ قرآن کریم ختم فرماتے جبکہ عام مہینوں میں ایک رات میں مکمل قرآن کریم کا ختم فرماتے ،تہجد گزار تھے ، رات کو اللہ کے حضور اتنا روتے اتنا روتے کہ اس آواز سے پڑوسیوں کو بھی آپ پر ترس آتا۔
آپ کے اوقات کار:
صبح کی نماز کے بعد مسجد میں درس دیتے، دور دور سے استفتا آئے ہوتے۔ ان کے جواب لکھتے۔ پھر تدوینِ فقہ کی مجلس منعقد ہو تی، بڑے بڑے نامور شاگردوں کا مجمع ہوتا۔ پھر ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آتے۔ نمازِ عصر کے بعد کچھ دیر تک درس و تعلیم کا مشغلہ رہتا۔ باقی دوستوں سے ملنے ملانے، بیماروں کی عیادت، تعزیت اور غریبوں کی خبر گیری میں صرف ہوتا۔ مغرب کے بعد پھر درس کا سلسلہ شروع ہوتا اور عشاءتک رہتا۔ نمازِ عشاءپڑھ کر عبادت میں مشغول ہوتے اور اکثر رات رات بھر نہ سوتے۔
جذبہ خیر خواہی :
علم کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے جذبے نے آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیوست کر دی۔ آپ لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ، لوگوں کا بوجھ اٹھانے لگے اور ایسے ایسے کام کرنے لگے جن کو کرنے سے دوسرے لوگ عاجز تھے۔مفلس اور نادار لوگوں کی کفالت بھی آپ نے خوب کی۔آپ کی علمی شہرت اور خدمت خلق کے چرچے دنیا بھر میں عام ہونے لگے یہاں تک کہ مکہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، مصر، یمن، یمامہ، بغداد، اصفہان، استرآباد، ہمدان، طبرستان، مرجان، نیشاپور ، سرخس، بخارا، سمرقند، کس، صعانیاں، ترمذ، ہرات، خوازم، سبستان، مدائن، حمص وغیرہ۔تک آپ کے علم و فضل اور خدمت خلق کاطوطی بولتا تھا۔
تقویٰ ، عقلمندی اور قدردانی :
آپ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ آپ نے اپنے شریک حفص بن عبدالرحمان سے کہا کہ فلاں کپڑے میں کچھ عیب ہے لہذا جب تم اسے بیچو تو خریدار کو واضح طور پر اس عیب کا بتلا دینا۔ لیکن جب حفص نے وہ کپڑا بیچا تو خریدار کو عیب کا بتلانے بھول گئے۔ اس واقعے کی جب امام ابو حنیفہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے وہ ساری کمائی صدقہ کر دی۔ آپ کے عقلمندی کےبارے میں ائمہ حدیث و فقہ کے بہت سارے اقوال اور واقعات کتب میں ملتے ہیں۔اہل علم کی قدردانی کے بارے میں حجر بن عبدالجبار کہتے ہیں کہ دوستوں اور اہل مجلس کا سب سے زیادہ اکرام و اعزاز کرنے والا شخص میں ابو حنیفہ کے علاوہ نہیں دیکھا۔
افراد سازی :
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے تلامذہ کو جمع فرمایا اور کہا کہ میں نے تم کو تیار کر دیا ہے اب تم میں سے 40تو ایسے ہیں جو قاضی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 10 ایسے ہیں جو قاضی بنانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب تم اٹھو اور سارے عالم میں انصاف وعدل کی بہاریں چلا دو۔چونکہ قانون سازی اور افراد سازی کے لیے محکمہ قضا سے دور رہنا حکمت ودانش کا تقاضا بھی تھا اور مجبوری بھی تھی اس لیے خود علمی کام میں مصروف رہے اور امام ابو یوسف کو چونکہ تیار کرلیا تھا اس لیے وہ چیف جسٹس بن گئے۔
قانون سازی :
امام ابو حنیفہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اڑھائی سالہ دور حکومت دیکھا اس کے بعد جب یزید بن عبدالملک تخت نشین آرا ہوا تو اس نے کہا عمر بن عبدالعزیز فریب خوردہ شخص تھا اپنے عمال کو حکم جاری کیا کہ آج سے جیسے تین سالہ پہلے کی حالت تھی دوبارہ وہی حالات پیدا کیے جائیں چنانچہ ایسا ہوا بھی لوگ دوبارہ اسی ابتری کا شکار ہوگئے۔امام اعظم ابوحنیفہ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو دو بنیادی کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے جس سے اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی تھی وہ دو بنیادی کام قانون سازی اور افراد سازی کے تھے شریعت کو قانون کی شکل دینے کے لیے پرائیویٹ سطح پر ایک ادارہ قائم کیا جس میں مختلف الانواع علوم وفنون کے ماہرین بٹھائے اور باہمی مباحثے کرائے محتاط اندازے کے مطابق تقریبا83 ہزار دفعات پر مشتمل عملی قوانین مرتب فرمائے،اسی طرح قانون سازی بھی کی گویا فقہ اسلامی کے پہلے مدون امام اعظم ابوحنیفہ ہیں۔
فقہ حنفی چند جزوی مسائل کا نام نہیں بلکہ ایک مضبوط اور مربوط نظام کا نام ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت خلفاءراشدین اور صحابہ کرام کے اقول وآثار اور اجتہاد کی بنیاد پر ہے۔اسلامی عقائد کی تعبیر وتشریح میں آپ کا بہت بڑا کردار ہے امام صاحب کے نزدیک فقہ صرف احکام کا نام نہیں بلکہ فقہ النفس جس کو)اخلاقیات یا تصوف(کہتے ہیں فقہ الاحکام اور فقہ العقائد بھی فقہ کے وسیع مفہوم میں شامل ہیں۔
عہدہ قضا سے انکار:
خطیب بغدادی نے روایت کی ہے کہ یزید بن عمر بن ہیبر، والی عراق نے امام ابو حنیفہؒ کو حکم دیا کہ کوفہ کے قاضی بن جائیں لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا تو اس نے ایک سو دس کوڑے لگوائے۔ روزانہ دس کوڑے لگواتا جب بہت کوڑے لگ چکےامام صاحب قاضی نہ بننے پرڈٹے رہے تو اس نے مجبور ہو کر چھوڑ دیا۔
ائمہ کرام کا خراج تحسین:
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہو اگر وہ اس لکڑی کے ستون کو سونا کا ثابت کرنا چاہے تو دلائل کی قوت سے اسے ثابت کر سکتا ہے اور وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان موجود ہے کہ اگر کوئی شخص دین کی تفقہ حاصل کرنا چاہے وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورآپ کے اصحاب سے حاصل کرے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عیال ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں علم و روع اور تقوی کے جس مقام پر ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے وہاں دنیا کا کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔
وفات:
146 ھ میں منصور نے قاضی القضاۃ کے عہدہ قبول نہ کر نے کی وجہ سے امام صاحب کو قید کر ڈالا۔ قید خانہ میں ان کا سلسلہ تعلیم بھی برابر قائم رہا۔امام محمد نے جو فقہ کے دستِ بازو ہیں انہوں نے یہاں قید خانہ میں بھی آپ سے تعلیم حاصل کی۔بالآخر رجب 150 ھ میں بادشاہ نے آخری تدبیر یہ اختیار کی کہ ان کو زہر دلوا دیا۔
جب ان کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں جاں؛ جانِ آفریں کے سپرد کر دی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی کل عمر 70 سال بنتی ہے۔
کفن دفن:
آپ کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی سارا شہر آپ کے جنازے کے لیے امڈ آیا۔قاضی شہر حسن بن عمارہ آپ کو غسل دے رہا تھا اور اس کی زبان پر برابر یہ جاری تھا :
”اے ابو حنیفہ !واللہ!تم سب سے بڑے فقیہ تھے ،سب سے بڑے عبادت گزار تھے ، سب سے بڑے زہد و تقویٰ کے مالک تھے، تم میں تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔“
امام صاحب رحمہ اللہ نے وصیت کی تھی کہ خیزران میں دفن کئے جائیں۔وصیت کے موافق خیزران کے مشرقی جانب آپ کی قبر تیار کی گئی۔
459 ھ میں سلطان الپ ارسلان سلجوقی نے آپ کی قبر کے قریب ایک مدرسہ تیار کرایا جو ”مشہدِ ابی حنیفہ “کے نام سے مشہور ہے۔
توجہ فرمائیں!!!
دفتر رسائل و جرائد کی طرف سے گزارش ہے کہ جن قارئین خریدار اور ایجنسی ہولڈرز کی سالانہ فیس پوری ہو چکی ہے یا ان کے ذمہ سابقہ رقم واجب الادا ہے وہ جلد از جلد اپنی رقم جمع کرائیں۔ تاکہ رسائل کوبلا تعطل اور بروقت روانہ کیا جا سکے۔ امید ہے کہ آپ ضرور شفقت والا معاملہ فرمائیں گے۔
نوٹ : رقم جمع کرانے کے بعد اطلاع ضرور دیں۔
فون نمبر : 03326311808
واٹس ایپ : 03062251253