ایک کا سات سو گنا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ایک کا سات سو گنا
مولانا محمدمبشربدر
انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور جاتا بھی خالی ہاتھ ہی ہے۔ دنیا میں جو کچھ اس کی ملک میں آتا ہے وہ سب اللہ عزوجل کی دین ہے جو وہ اپنے لطف و کرم سے اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے۔وہ انسانوں کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی، اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انسان کہتا ہے ’’میرا مال ، میرا مال ‘‘ حالانکہ اس نے جو کھایا وہ فائدہ میں رہا جو آخرت کے واسطے بھیجا وہ ذخیرہ ہوگیا جو اسے بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا اور جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑا اس کے بارے قیامت کے دن اس سے سوال کیا جائے گا۔
فطری طور پر انسان کے دل میں مال کی محبت ڈال دی گئی ہے، چنانچہ انسان کے لیے مال کی کمی طبعاً ناگوار ہوتی ہے، وہ ذخیرہ اندوزی کا قائل ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس سونے چاندی کے انبار لگے ہوں ،لیکن اس کا پیٹ مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اکثر گھر میں داخل ہوتے وقت یہ فرماتے تھے ’’ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تمنا کرنے لگے گا کہ اس کے ساتھ تیسری بھی مل جائے اور ابنِ آدم کا پیٹ تو مٹی ہی پر کرے گی۔‘‘
( بخاری و مسلم)
مال کی اس حد درجہ محبت کی وجہ سے انسان میں بخل کا مرض پیدا ہوجاتا ہے ، جس کی شریعتِ مطہرہ میں مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سخی ہے اور سخاوت کو پسند کرتا ہے۔ بخیل کبھی بھی اللہ کا دوست نہیں بن سکتا، اسی وجہ سے خدائے لم یزل نے انسانوں کو اپنے پاکیزہ مالوں میں سے خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور قرآن مقدس میں جابجا صدقہ و خیرات کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ عبادات دو قسم کی ہیں :ایک کا تعلق انسان کے بدن سے ہے جسے بدنی عبادات کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کا تعلق انسان کے مال سے ہے جسے مالی عبادات کہا جاتا ہے۔ مالی عبادات میں صدقات و خیرات وغیرہ شامل ہیں جن کی دو قسمیں ہیں ’’صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ‘‘ صدقاتِ واجبہ میں اول درجہ زکوٰۃ کا ہے ، جو ارکانِ اسلام میں اہم ترین رکن ہے اور مشہور قول کے مطابق قرآن مقدس میں بیاسی (۸۲) جگہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے ، جہاں جہاں صرف زکوٰۃ کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:
’’ اور میری رحمت ( ایسی عام ہے کہ ) تمام چیزوں کو محیط ہے۔ پس اس کو ان لوگوں کے لیے( کامل طور پر خاص طور سے ) لکھوں گا جو خدا سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ ‘‘
آیت مبارکہ میں زکوٰۃ دینے والوں کے لیے اللہ کی رحمت کاملہ کی مکمل بشارت ہے، جو بہت بڑی سعادت اور نعمتِ عظمیٰ ہے کہ محض چند روپے اللہ کے راستے میں دینے سے انسان اتنے بڑے انعام کا مستحق ہوتا ہے۔ زکوٰۃ سے مال پاکیزہ اور محفوظ ہوجاتا ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں آیا ہے کہ:
’’ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کےذریعے محفوظ بناؤ ، اپنے بیماروں کا صدقہ کے ذریعے علاج کرو، بلا اور مصیبت کی موجوں کا دعااور اللہ کے سامنے عاجزی سے مقابلہ کرو۔‘‘
(ابوداؤد ، طبرانی، بیہقی)
صدقہ دینے سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں ، صدقہ جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے۔ فقراء و مساکین پر خرچ اللہ کی رضا اور خوشنودی کا سبب اور آمدنی کا ذریعہ ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اے ابنِ آدم تو( میرے ضرورت مند بندوں پر ) اپنی کمائی خرچ کر ، میں اپنے خزانے سے تجھے دیتا رہوں گا۔‘‘
( بخاری و مسلم)
سورہ بقرہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کے روپے کو اس دانے سے تشبیہ دی گئی ہے ، جسے زمین میں بویا جائےپھر اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں ، یعنی کہ ایک دانے سے سات سو دانے بن جاتے ہیں ، اسی طرح اللہ اخلاص والوں کے اخلاص کے بقدر مقدار میں اضافہ فرماتا جاتا ہے۔ ایمان والا ایک روپیہ خرچ کرے اللہ اس کو سات سو گنا تک بڑہا کر واپس کرتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں :
’’ کون ہے جو اللہ کو قرض دے کہ اللہ اس کو بڑھا چڑھا کر لوٹائے گا۔‘‘القرآن
اسلام کا یہ حکم انسانیت کی فلاح اور پرسکون معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اگر تمام مال دار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالیں تو معاشرے میں غربت و افلاس ختم کی جاسکتی ہے، جس کے ہاتھوں تنگ آکر اچھے بھلے شریف لوگ بھی ڈاکہ زنی اور چوری چکاری کی عادت اپنا لیتے ہیں۔دنیا میں خود کشی کا عنصر تیزی سے پھیل رہا ہے اس میں سب سے زیادہ تعداد غربت کے ہاتھوں مجبور افراد کی ہوتی ہے جو بے روز گاری اور افلاس کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہم شادی بیاہ اور دیگر رسومات میں فضول پیسہ اڑا دیتے ہیں ،محض دل بہلانے کے واسطے لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کردیتے ہیں ، لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمارے مالوں میں غرباء کا حق رکھ دیا ہے۔