7 ستمبر یومِ دفاعِ ختمِ نبوت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
7 ستمبر یومِ دفاعِ ختمِ نبوت
مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی
7 ستمبرہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں کامیابی حاصل کی۔
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے اس کے ایمان کا تقاضہ اور آخرت میں شفاعتِ رسول ﷺ کا ذریعہ ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے۔ اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے۔ اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو دین محفوظ نہیں۔
قرآن کریم میں ایک سو سے زائد آیات اور ذخیرہ احادیث میں دوسوسے زائد احادیث نبوی اس عقیدے کا اثبات کر رہی ہیں۔ جن میں پوری تفصیل سے ختم نبوت کے ہر پہلو کو اجاگر کیاگیا ہے۔
قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے بلکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے جو عظیم قربانی دی وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظر میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جو اہمیت تھی اس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش فرمایا جس میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراء تھے حتیٰ کہ اس معرکہ میں بدری صحابہ کرام نے قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔
حضورﷺ کی حیات طیبہ میں دین اسلام کیلئے شہید ہونے والے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں و بوڑھوں اور نوجوانوں کی تعداد 259 ہے اور اس دوران قتل ہونے والے کفار کی کل تعداد 759 ہے جبکہ کل تعداد 1018 بنتی ہے۔ جبکہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے لڑی جانے والی صرف ایک جنگ میں شہداء و مقتولین کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
انیسویں صدی کے آخر میں بے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس کی تمام تر وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لیے وقف تھیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں الجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے۔ اس لیے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی۔
اس فرقہ کے مفادات کی حفاظت بھی انگریزی حکومت سے وابستہ تھے۔ اس لیے اس نے تاج برطانیہ کی بھر پور انداز میں حمایت کی، ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے، حکومت برطانیہ نے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لیے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا، چاپلوسی کے وہ گھٹیا اور پست طریقے اختیار کیے جس سے مرزا غلام احمدکی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے۔ مرزا قادیانی کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علماء دیوبند کا ہے ، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات اور مساعی اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقاء کا سبب ہیں۔ علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ گویا کہ اس فتنہ کے خاتمے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے‘ اس فتنے کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے۔
امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابیں تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا‘ جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ‘ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ؒ‘ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ‘ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ‘ ‘ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔
امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لئے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے۔‘‘ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماء و صلحا موجود تھے‘ ان سب نے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒنے تحریک آزادی کے بعد عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور قید وبند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:۔۔۔۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ، قویٰ میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔
حضرت مولانا سیّد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت علامہ شمس الحق افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی ، چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی ، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں ، اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا ایک پالکی لائی گئی ،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا ، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا ، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور دھیمی تھی۔ تمام اجل شاگرد حضرت انور شاہ کشمیر ی ؒ کے ارداگردہمہ تن گوش بیٹھے تھے آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں ، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں ، قادیانی فتنہ سے بڑا اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا۔
دوسری بات یہ فرمائی حضور ﷺ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کیلئے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم ﷺ اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا ! کہ جو کوئی اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے اپنے آپ کو لگا دے گا ، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں۔ لہذاعقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت اور قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کرنے کیلئے ہر ایک مسلمان کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکے۔