قربانی کے بعد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قربانی کے بعد!!
مفتی صادق قاسمی
قربانی کے بابرکت ایام ختم ہوگئے، اور عید قرباں کی چہل پہل بھی پوری ہوگئی، ایک مسلمان اپنی بساط کے مطابق قربانی دینے کا اہتمام کرتا ہے، اور بڑے شوق و جذبے کے ساتھ اس کو انجام دیتا ہے، استطاعت کے باوجود قربانی نہ دینے و الوں کے بارے میں سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی، اور قربانی کے عمل کی بہت فضیلت بھی بتائی گئی، ان چیزوں کو پیش نظر رکھ کر ہر مسلمان اس بات کی ضرور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس عظیم عبادت کو انجام دے اور اطاعت و محبت کا ثبوت دے۔
قربانی بلاشبہ سالہا سال سے مسلمان کرتے آرہے ہیں، اور ہر سال اس جذبے میں اضافہ بھی ہورہا ہے، اور لوگ کئی افرادکی جانب سے قربانی دے رہے ہیں، قربانی کو عبادت سمجھ کر اور حکم الہی مان کر جب کرتے ہیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ ایام قربانی کے گذرجانے کے بعد مقصود ِقربانی اور روح ِقربانی کو فراموش نہ کیا جائے، فلسفہ قربانی کو سمجھتے ہوئے قربانی کے بعد زندگی میں تبدیلی کے آثار ظاہر ہونا چاہیے، اور قلب ودماغ میں قربانی کی عظمت جاگزیں ہوجانی چاہیے۔
اسلام میں جتنی عبادات وقت اور موسم کے لحاظ سے انجام دی جاتی ہیں جیسے روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ یہ اگرچہ خاص موقعوں پر ادا کی جاتی ہیں لیکن ان کااصل مقصود ان کے ذریعہ انسانوں کی اصلاح اورتربیت ہے، رمضان المبارک میں ایک ماہ کی تربیت و مشق کرواکر انسانوں کو عبادات کا خوگر بنایا جاتا ہے، حج کے مخصوص ایام اورمتعین مقاما ت پر اطاعت و فرماں برادی کا سبق یاد دلایا جاتا ہے، زکوۃ کی ادائیگی کے ذریعہ مال کے مقابلہ میں حکم الہی کی اہمیت کو بتلایا جاتا ہے۔
ٹھیک اسی طرح قربانی کے ذریعہ بھی مسلمانوں کو ایثار و قربانی، دین کے لئے جفا کشی، اور اطاعت کی تعلیم دیجاتی ہے، قربانی کا عمل صرف ایک وقتی عمل نہیں ہے، نہ ہی قربانی گوشت خوری کے لئے کروائی جاتی ہے، اور نہ ہی ظاہر ی شان و شوکت کے دکھاوے اور مال و دولت کی نمائش کے لئے بلکہ قربانی کے اصل مقصودکو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم فرمایا گیا کہ :
لن ینال اللہ لحومہا ودمائوھاولکن ینا لہ اللہ التقوی منکم۔
(سورۃ الحج:37)
اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔
اسی طرح قربانی کرتے وقت ایک مسلمان یہ دعا پڑھتا ہے :
ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ بذلک امرت وانا اول المسلمین۔
(سورۃ الانعام:162)
بیشک میری نماز، میری عبادت اور میراجینامرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تما م جہانوں کا پروردگار ہے، اس کاکوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والاہوں۔
قربانی کے عمل کو اللہ تعالی نے گذشتہ قوموں میں بھی رکھا تھا :
ولکل امۃ جعلنا منسکالیذکروااسم اللہ علی مارزقہم من بھیمۃالانعام فالھکم الہ واحدفلہ اسلموا وبشر المخبتین۔
(سورۃ الحج:34)
اور ہم نے ہر امت میں قربانی اس غرض کے لئے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطافرمائے ہیں، لہذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرماں برداری کرو، اور خوشخبری سنادوان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
اس میں بھی قربانی کا اصل مقصو د اطاعت و فرماں برداری کو بتایا گیا۔ اللہ تعالی کی اطاعت و فرماں برداری میں حضرت ابراہیم ؑ نے جو حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا اور بغیر پس و پیش کے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکو ذبح کرنے تیار ہوگئے اور اپنے حصے کا کام بھی پورا کرلیا تو اللہ تعالی کو ان کی یہ ادااس درجہ پسند آئی کہ آنے والے انسانوں میں اس یاد گار کو بطور عبادت باقی رکھ دیا۔ قربانی قرب سے نکلا ہوا لفظ ہے جس کے معنی تقرب اور نزدیکی کے آتے ہیں۔
جس مقصد کے لئے انسان قربانی دیتا ہے اور محنت و مجاہد ہ برداشت کرتا ہے نتیجۃ وہ چیز اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔ دنیا میں لوگ مال ومتاع اور اسباب و وسائل کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں، دن ورات مشقتیں اٹھاتے ہیں، صبح و شام کو ایک کردیتے ہیں تاکہ مقصود میں کامیابی اور منصوبے میں کامرانی مل جائے، اللہ تعالی نے دنیا کا دستور بھی یہ بنایا ہے کہ جو قربانی دے گا وہ اپنے مقصود کو پائے گا چاہے وہ دنیا کے لئے دی جانے والی قربانی کیوں ہو؟
جس راہ میں انسان خود کو کھپاتا ہے اور فنا کردیتا ہے وہ سرخروئی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ قربانیاں مختلف قسم کی ہیں اور مختلف مقاصد کے لئے دی جاتی ہیں، کوئی ملک ووطن کے لئے قربانی دیتا ہے، کوئی جاہ ومنصب کے لئے قربانی دیتا، کوئی تجارت معیشت کے لئے قربانی دیتا ہے اور کوئی دین و اسلام کے لئے اور خدا کی محبت اور اطاعت کے لئے قربانی دیتا ہے، اور یہی قربانی پائیدار اور ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ نبیوں کی سیرت اور خاص سیدنا ابراہیم اورخاتم النبین ﷺ کی حیات مبارکہ بے شمار قربانیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اور آپ ﷺ کے بعد آپ کے وفادار و جاں نثار اصحاب کی قربانیاں دین حق کے لئے بے مثال ہیں۔
جانورکی قربانی سے پہلے اس بات کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ اللہ تعالی اصل ہمارے جذبہ اطاعت و فرماں برداری کو دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح خلیل اللہ نے محبت الہی میں بیٹے کوقربان کرنے سے گریز نہیں کیا اسی طرح ہمیں بھی اللہ کی محبت اور اطاعت کے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ ہم سے تو صرف اللہ نے جانور کو قربان کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کم ازکم اسی کے ذریعہ قربانی کی قدر وقیمت معلوم ہوجائے اور حصول قرب کے لئے جانفشانیوں کا اندازہ ہوجائے۔
اللہ تعالی تک رسائی اور اس کا قرب، اس کی محبت اور اس سے تعلق اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک کہ اپنی خواہشات کو قربان نہ کیا جائے اور اپنے ارمانوں کومٹایا نہ جائے۔
اللہ تعالی نے اپنی رضا اور محبت کے حصول کے لئے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکی عظیم المرتبت شخصیت کو انسانوں کے نمونہ بنایا، اور آپ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کا حکم دیا، آپ کی پیروی میں کامیابی کا اعلان فرمایا اور آپ کی اتباع کو دوجہاں کی سعادت کا ذریعہ قراردیا خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:تم میں کوئی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا کہ جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے مطابق نہ ہوجائے۔
(شرح السنہ حدیث نمبر:103)
اس فرمانِ نبیﷺ کے بعد آپ کے لئے جان و تن قربان کرنے والے صحابہ کرام نے اتباع واطاعت میں سب کچھ قربان کردیا اور اپنے ظاہر وباطن کو اسوہ ٔ محمدی میں ڈھالنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ ایک دو سبق آمو ز واقعات ملاحظہ فرمائیں۔
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺصحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں کہیں تشریف لے جارہے ہیں تھے، راستے میں ایک عمارت نظر آئی جس پر قبہ (گنبد)بناہواتھا، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کا مکان ہے ؟صحابہ نے نام بتادیا کہ فلا ں صاحب کا ہے !دوسری مرتبہ جب آپ ﷺ کی مجلس آراستہ تھی وہ مکان والے صحابی مجلس میں حاضر ہوئے اور سلام کیا، نبی کریم ﷺ نے کوئی التفات نہیں فرمایا، انہوں نے پھر سلام کیا آپ نے پھر اعراض کیا، جب کئی مرتبہ ہوچکا تو ان کو بڑی فکرہوئی اور تشویش میں مبتلا ہوگئے کہ آخر نبی کریم ﷺ کیوں ناراض ہیں ؟صحابہ کرام اپنے محبوب کی ناراضگی اور بے رخی کو بہت جلد معلوم کرلیتے تھے اور اس ناراضگی کو فوری دور کردینے کی کوشش کرتے تھے۔ ساتھیوں سے پوچھا تو بتایا گیا کہ ایک مرتبہ تمہارے گھر کے سامنے سے اللہ کے نبی کا گذر ہوا تو مکان پر بنے قبہ کے بارے میں پوچھا تھا شاید یہی وجہ ناراضگی کی ہوگی؟وہ صحابی فوری اٹھے گھر آئے اور اس کو منہدم کردیا اور خاموشی سے آکربتائے بغیر ہی مجلس میں بیٹھ گئے، جب کسی اور مرتبہ اللہ کے نبی ﷺ کا وہاں سے گذر ہوا تب دیکھا تو بالکل صاف نظر آیا اس اطاعت پر آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔
(ابوداؤد ـحدیث نمبر:4561)
حضرت سہیل بن حنظلیۃ ایک صحابی ہیں جو دمشق میں رہتے تھے اور حصرت ابودرداء ؓ بھی وہیں مقیم تھے، راستہ میں اکثر دونوں کی ملاقات ہوجاتی، سہیل ؓحضرت ابودرداء ؓ سے نبی کریم ﷺ کے واقعات پوچھا کرتے۔ حضرت ابودرداء نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خریم اسدی بڑا اچھا انسان ہے اگر اس میں دو باتیں نہ ہوتیں۔ ایک سر کے بال بہت بڑھے رہتے ہیں۔ دوسرے تہبند ٹخنوں سے نیچے باندھتا ہے، نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد جب حضرت خریم اسدیؓ کو پہنچاتو فورا چاقو منگوائی اور کان سے نیچے والے بال کاٹ دیئے اور تہبندنصف پنڈلی تک اونچا کرلیا۔
(ابوداؤد :حدیث نمبر3568)
اپنی مرضی اور خواہش کو قربان کرکے منشائے نبوی کو پورا کرنا اور اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے ہر عزیز و قیمتی چیز کو نچھاور کردینے کے بے شمار واقعات ان حضرات کی زندگیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے دین کے لئے، اسلام کی سربلندی کے لئے اور نبی کی نصرت کے لئے ہر طرح کی قربانی دی، اور ان کی قربانیاں بارگاہ ِ خدا میں قبول بھی ہوئیں کہ ان کو ہمیشہ کے لئے اپنی رضا کا پروانہ عطا کردیا۔ جانور کی قربانی کا مقصود صرف اراقۃ الدم ( خون بہانہ ) نہیں ہے بلکہ جذبہ ٔ قربانی سے لبریز ہوکر اطاعت ومحبت سے سرشار ہونا ہے۔ خواہشات ِ نفس اور تمنائے دل کو قربان کرکے حکم الہی کو پورا کرنے لئے ہمہ وقت تیار رہنا ہے، اسی کی مشق و تربیت جانور کی قربانی سے کرائی جاتی ہے، عید قرباں کے دنوں میں چاروں طرف جس والہانہ انداز میں مسلمان قربانی انجام دیتے ہیں اس کا یہ واضح ثبوت ہے۔
لیکن بڑا مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہم قربانی کے دنوں میں حکم الہی سمجھتے ہوئے جانور کی قربانی تو دیتے ہیں مگر قربانی کے دن ختم ہوجانے کے بعد قربانی کا مقصود ہی ذہن و دل سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ جس مسلمان نے قربانی دی اب وہی مسلمان نماز سے بے توجہی بھی اختیا رکرتا ہے، شریعت کی تعلیمات اور نبی کی سنتوں سے روگردانی کرتا ہے، جائز اور ناجائز کی تمیز کو مٹا کر اور حلا ل وحرام کے فرق کو بالائے طاق رکھ کر زندگی بسر کرتا ہے، نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اور دنیا کو راضی رکھنے کے لئے بے دریغ اللہ و رسول کی ناراضگی مول لیتا ہے، اگر قربانی کے بعد زندگی میں اطاعت و محبت اور حکم خدا کو پورا کرنے کے خفتہ جذبات بیدار نہیں ہوئے اور دین پر عمل آوری کے لئے ایثار وقربانی کا مزاج نہیں پیدا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قربانی کا مقصود ہماری زندگیوں میں نہیں آیا، اور ہم نے رواجی اور رسمی طور پر جانور کو قربان کرکے خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دین کا راستہ تسلیم و رضا کا راستہ ہے، یہاں پر سر اطاعت خم کرنے ہی پر سرخروئی اور کامیابی ملتی ہے، اور خودکو نچھاور کرکے بعد ہی ایمان کا لطف و حلاوت حاصل ہوتی ہے۔ خواہشات کی پیروی اور نفس کی غلامی کے ساتھ منزل مقصود تک رسائی دشوار ہے۔
قربانی ایک مسلمان کو تسلیم و رضا کا سبق سکھانے اور وفاشعاری کا پیغام دینے کے لئے آتی ہے، جس نے قربانی کے مقصود کو سمجھ کر اس کو انجام دیا تو یقینا اس کے اثرات و برکات ظاہر ہوں گے اور قربانی انسان کی تبدیلی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے تمام مسلمان ایک باراپنی قربانی کا جائزہ لیں اور غور و فکر کریں کہ جس اللہ نے قربانی کا حکم دیا اور ہم نے اس کو بخوشی پورا کیا وہی اللہ مسجدوں کو آباد کرنے، نمازوں کو قائم کرنے، فرائض کو ادا کرنے، حقوق کو بجا لانے، جائز کو اختیا ر کرنے، ناجائز سے اجتناب کرنے، حلال حاصل کرنے، حرام سے بچنے اور دیگر بے شمار احکامات دیتا ہے اس کو بھی پورا کرنا اور رب کی بندگی مانتے ہوئے عمل کرنا لازمی ہے۔