حیاتِ نانوتوی کی روشن قندیلیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حیاتِ نانوتوی کی روشن قندیلیں(1)
مفتی اشتیاق احمد قاسمی
مدرس دارالعلوم دیوبند
حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃاللہ علیہ )1317ھ(نے حضرت حافظ محمداحمدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تحریر فرمایا : آپ اللہ رب العزت کا شکر ادا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ولی کامل عطا فرمایا ہے کہ انہیں کے سانسوں کہ برکت سے اس طرح کے نیک اعمال ظاہر ہو رہے ہیں جو خدا اور رسول خدا کی رضا مندی کا باعث ہیں ورنہ یہ دولت اللہ تعالیٰ ہر کسی کو عنایت نہیں فرماتے ہیں۔
)امدادامشتاق ص 203(
گم نامی:
اس ولی کامل نے اپنے کو مٹانے ہی کی کوشش کی وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کو کوئی جانے ان کے کارناموں کا ذکر ہو ،چنانچہ ارشاد فرمایا:”اگر مولویت کی یہ قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک تک کا بھی پتہ نہ چلتا ،جانوروں کا بھی گھونسلا ہوتا ہے میرے لیے تو یہ بھی نہ ہوتا اور کوئی میری ہوا تک نہ پاتا۔“
)سوانح قاسمی ج1 ص140(
اور ایک دوسرے موقع سے فرمایا :”لوگ جان نہ گئے ہوتے تو ایسا گم ہوتا کہ کوئی بھی نہ پہچانتا کہ قاسم دنیا میں پیدا بھی ہوا تھا۔ “
)سوانح قاسمی ج1 ص 140(
حق میراث کی ادائیگی:
لڑکیوں اور بہنوں کو میراث سے محروم کرنے کے لیے آج لوگ ہزار حیلے حوالے کرتے ہیں،آج مسلمانوں میں یتیموں، بیواؤں اور کمزوروں کے مال کھانے اور ہڑپنے کا رواج پڑا ہوا ہے ،دنیا کی محبت میں لوگ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں سنتے ،ان کی خواہش ہوتی ہے کہ شریعت کا قانون بھی ہماری موافقت کرے۔ آج دلوں سے اللہ کا خوف نکل چکا ہے آخرت کی جزاوسزا کا تصور مٹ چکا ہے۔ حضرت نانوتوی جب علم سے فارغ ہوئے تو سب سے پہلے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر دامن گیر ہوئی ،میراث کی شرعی تخریج مرتب فرمائی اور سب کو ان کا حصہ رسد پہنچا دیا فرائض کی تخریج کا عکس سوانح قاسمی میں موجود ہے ،لکھا ہے: جب تحصیل علم سے فارغ ہو کر گھر آئے تو املاک کا جائزہ لیا اور تمام املاک کو مشتبہ اور بعض کو مغصوبہ پایا، والد صاحب کو بہت سمجھایا کہ یہ کمائی ناجائز اور مشتبہ ہے۔ قیامت کے مواخذے کا تقاضا ہے کہ حقیقی حق داروں تک ان کے حصے پہنچا دیے جائیں پھر ان زمینوں کے غلے کے استعمال میں احتیاط فرمائی اور والد صاحب کو باربار سمجھاتے رہے ،یہی نہیں بلکہ مفصل فرائض نکلوائے اور اوپر کی بعید بعید پشتوں کے حقوق اور حصے نکلوائے۔
)سوانح قاسمی ج 1 ص 494(
تقدیر پر اطمینان:
اولیائے کاملین کی طبیعت بالکل معتدل رہتی ہے ان کا ایمان تقدیر پر بالکل کامل رہتا ہے ،خوشی کے مناظر سے وہ بہت زیادہ خوش نہیں ہوتے اور مصائب میں وہ زیادہ غمگین نہیں ہوتے۔ ان کا یقین ہوتا ہے:
لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا
)ہرگز ان کو تکلیف نہیں پہنچ سکتی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے (
حضرت نانوتوی آخری حج سے واپس ہو رہے تھے کشتی غرق ہوا چاہتی تھی ، سارے لوگ گھبرا گئے مگر حضرت پر اطمینان کی کیفیت تھی ،ہوا چلنے لگی کہ کشتیاں ادھر ادھر قریب غرق ہونے کے جھک جاتی تھیں، کشتی پر جو لوگ سوار تھے ہر ایک کا چہرہ زرد ہو جاتا تھا، اس طوفان بے تمیزی سے سب لوگ گھبراتے تھے مگر مولانا اپنے حال پر رہے ہم نے کبھی مولانا کو گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا، مولوی صاحب اپنے معمولی کام بہ دستور انجام فرماتے رہے۔
)سوانح قاسمی ج 1 ص 282(
حرام ومشتبہ سے نفرت:
عام طور سے آدمی حرام کمانے سے تو احتیاط کرتا ہے مگر دوسرے کے یہاں دعوت وغیرہ کھانے سے احتیاط نہیں کرتا ،تاویل کرلیتا ہے کہ داعی کی کمائی حلال وحرام دونوں ہے تو ہم حلال کو سوچ کر قبول کر لیتے ہیں۔ حضرت نانوتوی کا باطن اتنا صاف اور پاکیزہ تھا کہ حرام ومشتبہ کا احساس بھی ہو جاتا تھا اور طبیعت بھی منقبض ہو جاتی تھی، سوانح قاسمی میں ہے:حضرت نانوتوی کو حرام کے طعام سے جیسی نفرت تھی ویسی ہی اس کا احساس بھی بہت جلد کرتے تھے۔
)ج 1 ص 360(
دنیا سے نفرت:
حضرت نانوتوی کو دنیا چھو کر بھی نہیں لگی تھی، آپ دنیا کو بڑی حقارت سے ٹھکرا دیا کرتے تھے بڑے بڑے نوابوں نے ملنے کی تمنا کی، مگر کسی سے نہ ملے اور جب بھی ملے دین کے لیے ملے اور بے غرض ملے۔ ایک مرتبہ ایک رئیس صاحب روپے لے کر آئے اور آپ کو پیش کیے، آپ نے انکار کر دیا وہ مایوس ہو کر آپ کی جوتیوں میں ڈال دیا اور سوچا کہ اس طرح اٹھوا لیں گے مگر آپ جوتیوں کو جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور ہنس کر فرمانے لگے :دیکھو! کہ دنیا ہمارے قدموں پر گرتی ہے اور دنیا دار اس کے قدموں پر گرتے ہیں۔
)سوانح قاسمی ج 1 ص 587(
شیخ الہند رحمہ اللہ نے حضرت نانوتوی کی سادگی اور زہدواستغناء کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :اس منقطع عن الخلق [مخلوق سے کنارہ کش]اور زاہد فی الدنیا [دنیا سے بے نیاز ]کے حجرے میں تو کچھ بھی تو نظر نہ آتا تھا ،چٹائی بھی آخر ایک تھی تو وہ بھی ٹوٹی ہوئی۔ گویا عمر بھر کے لیے اس چٹائی کو منتخب کر لیا تھا نہ کوئی صندوق تھا نہ کبھی کپڑوں کی گٹھڑی بندی تھی۔ سفر میں بھی کوئی اہتمام نہ تھا، آخر ایک آدھ کپڑا ہو تو کسی کے پاس رکھوا دیا ورنہ اس ایک جوڑے میں سفر پورا ہوتا جو حضر میں پہنے ہوتے ، البتہ ایک نیلی لونگی ساتھ رہتی تھی جب کپڑے زیادہ میلے ہو گئے تو لنگی باندھ کر کپڑے اتار لیے اور خود ہی دھو لیے۔
)سوانح قاسمی ج1ص452(
حضرت نانوتوی نے اپنی اہلیہ کو بھی زہد وقناعت کی تعلیم دی اور عجیب وغریب تربیت فرمائی، خود اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں :جب حضرت شب اول میں تشریف لائے تو آتے ہی نوافل شروع فرمائے ،نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میرے پاس تشریف لائے اور متانت وسنجیدگی سے فرمانے لگے جب تم کو اللہ نے میرے ساتھ وابستہ کر دیا ہے تو نبھاؤکی ضرورت ہے مگر بہ صورت موجودہ نبھاؤمیں دشواری ہے کہ تم امیر ہو اور میں غریب ونادار ہوں۔ صورتیں اب دو ہی ہیں یا میں بھی تونگر مال دار بنوں یا تم میری طرح نادار بن جاؤ،پھر فرمایا میرا امیر بننا دشوار ہے اس لیے آسان صورت دوسری ہو سکتی ہے کہ تم میری طرح ہو جاؤ۔یہ سب قول قرار لے کر فرمایا اچھا سب زیور اتار کر مجھے دے دو پھر کپڑوں اور جہیز کے سامانوں پر بھی اختیار کا مطالبہ کیا اور علی الصباح تمام زیورات تمام جوڑے کپڑوں کے اور سارے برتن جو ہزاروں روپے کے تھے سب کا سب چندہ سلطانی )ترکی امدادی فنڈ( میں دے دیا، سسرال والوں نے پھر سارے زیور بنوا دیے حضرت نے دوبارہ سارا سامان چندہ میں دیے دیا۔
…………)جاری ہے (