عباداتِ رمضان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عباداتِ رمضان
……متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔ انہی برکات کا یہ ثمرہ ہے کہ اس میں ایک نفل کاثواب فرض کے برابر اورایک فرض کاثواب ستر فرائض کے برابرکردیاجاتاہے۔
(مشکوۃ المصابیح: ج1، ص173 کتاب الصوم- الفصل الاول)
اس مہینہ میں عبادات و ریاضات کا عالم کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث پر نظر ڈالیے، فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ، ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتّٰى يَنْسَلِخَ •
(شعب الایمان للبیہقی: ج3ص310فضائل شہر رمضان)
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔
لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِى الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِى غَيْرِهَا•
(صحیح مسلم: ج1، ص372، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر الخ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔
رمضان المبارک میں چونکہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے جتنی بھی عبادات انسان کر سکتا ہو ضرور کرے۔ روز مرہ کی چند عبادات کو مستقل مزاجی اور اعتدال اور اطمینان سے کیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
1:تہجد کی فضیلت:
نماز تہجد کو اپنی پوری زندگی کا معمول بنانا چاہیے ، ورنہ کم از کم رمضان المبارک میں تو اسے ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ان دنوں میں ہمارے پاس اس کو ادا کرنے کا کافی وقت ہوتا ہےاور انسان کے دل میں ہدایت و روحانیت کا نور پیدا ہوتا ہے۔ چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟“
)صحیح بخاری(
ایک حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز درمیانی رات کی نماز تہجد ہے۔ “
)صحیح مسلم،مستدرک حاکم، سنن ابن ماجہ، جامع الترمذی(
ایک اور حدیث مبارک میں ہے: ”اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اگر ہو سکے تو تم ان بندوں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔“
)جامع الترمذی (
2:سحری کی فضیلت:
یہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اس ذات نے ہمیں جسمانی ضروریات کو پورا کرنے پر اجر وثواب عنایت فرماتے ہیں۔ سحری بھی ہماری ان جسمانی ضروریات میں سے ایک ہے جس پر اللہ تعالی نے انعام و اکرام اور برکت سے نوازتے ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تَسَحَّروا فَاِنَّ فی السَّحُورِ بَرکَۃٌ
سحری کیا کرو ، کیونکہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے۔
) متفق علیہ (
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَصلُ مَا بَینَ صَیِامنا و صَیِام اَھلِ الکِتابِ؛ اَکلَۃ السَّحَرِ
ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔
) صحیح مُسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا۔
اِنَّھَا بَرکَۃٌ اَعطَاکُم اللَّہ ُ اِیَّاھَا ، فَلا تَدعُوہُ
)سحری والی ( برکت جو اللہ نے تم لوگوں کو عطا کی ہے اسے چھوڑو نہیں۔ [ سُنن نسائی(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
تَسحَرُوا و لَو بِجُرعَۃِ مَاءٍ
سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو۔
) صحیح ابن حبان(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اِنَّ اللَّہ َ و الملائِکتہ ُ یَصَّلُونَ عَلیَ المُتسَحَرِینَ
بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے دُعا ان کے لیے کرتے ہیں۔
)صحیح ابن حبان(
3:روزہ کی فضیلت:
روزہ رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے اس کے فضائل پر مشتمل چند احادیث پیش خدمت ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَهَا أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ خُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُفْطِرُوا وَيُزَيِّنُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ كُلَّ يَوْمٍ جَنَّتَهُ ثُمَّ يَقُولُ يُوشِكُ عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمْ الْمَئُونَةَ وَالْأَذَىٰ وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ وَيُصَفَّدُ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ فَلَا يَخْلُصُوا إِلٰى مَا كَانُوا يَخْلُصُونَ إِلَيْهِ فِي غَيْرِهِ وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ لَا وَلٰكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفّٰى أَجْرَهُ إِذَا قَضٰى عَمَلَهُ•
(مسند احمد)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں:
(۱)ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲)ان کیلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔
(۳)جنت ہر روز ان کیلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔
(۴) اس مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔
(۵)رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:کیایہ شب قدرہے؟ ارشادفرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دی جاتی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ رَخَّصَهَا اللّهُ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صِيَامُ الدَّهْرِ•
(مسند احمد: ج9 ص346، رقم الحدیث9870)
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور پھر تمام عمر کے روزے بھی رکھے تو اس ایک روزے کا بدل نہیں ہو سکتا۔
قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا•
(سنن نسائی: ج1 ص311باب فضل الصیام)
ترجمہ: حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روزہ انسان کے لئے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔
فائدہ: ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزہ سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اور روزہ پھاڑ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ، غیبت اور اس قسم کے ناجائز کام کیے جائیں۔ لہذا روزہ کے حقیقی فوائد اور ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب انسان ان گناہ کی چیزوں اور لایعنی کاموں سے بچا رہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ لَا يُرَدُّ دُعَاؤُهُمْ؛ اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حَتّٰى يُفْطِرَ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكَ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ•
(مسند احمد بن حنبل: ج9 ص298 رقم الحدیث9703)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی؛ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کواللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے!) میں تیری ضرور مدد کروں گا ، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے۔
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اُحْضُرُوا الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقٰى دَرَجَةً قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ: آمِينَ ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ مِنَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَقُلْنَا لَهٗ يَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ سَمِعْنَا الْيَوْمَ مِنْكَ شَيْئًا لَمْ نَكُنْ نَسْمَعُهُ قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَرْضَ لِي فَقَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَقُلْتُ: آمِينَ فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّانِيَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدَهُمَا، فلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ - أَظُنُّهُ قَالَ- فَقُلْتُ: آمِينَ•
(شعب الایمان للبیہقی: ج2 ص214باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم الخ)
ترجمہ: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جاؤ۔ ہم لوگ (قریب قریب) حاضر ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا تو فرمایا :آمین۔ جب دوسرے زینہ پر قدم رکھا توپھر فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا توپھر فرمایا آمین۔ جب آپ علیہ السلام خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جبرئیل میرے پاس آئے تھے۔ جب میں نے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا :آمین، پھر جب میں دوسرے زینے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا:آمین،جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے ا س کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں آئیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں،میں نے کہا:آمین۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ذَاكِرُ اللهِ فِيْ رَمَضَانَ یُغْفَرُ لهٗ وَسَائِلُ اللهِ فِیْہِ لَا يَخِيْبُ •
(شعب الایمان للبیہقی: ج3ص311فضائل شہر رمضان)
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا: ”رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔“
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِىِّ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ •
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج4 ص240)
ترجمہ: حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“
4:فرض نمازوں کی پابندی:
نماز اہم العبادات ہے ، اس کی پابندی ضروری ہے ، بے شمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اس کی فضیلت ثابت ہے چند احادیث پیش خدمت ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ جس نے نماز کی پابندی کی تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور، حجت اور نجات کا سبب بنے گی‘‘
( مشکوٰۃ شریف(
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ پت جھڑ کے موسم میں باہر تشریف لے گئے اور ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑ کر ہلایا جس کی وجہ سے درخت سے پتے جھڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! ابو ذر نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، آپ نے فرمایا دیکھو جب کوئی مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے ذریعہ اﷲ کی خوشنودی اور رضا کا طالب بنتا ہے تو اس کے گناہ اسے طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں۔
(مسند امام احمد(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ تو کسی کے دروازے پر نہر ہو وہ اس میں ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہ جائے گی ؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ ان نمازوں کے سبب خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔
(صحیح بخاری (
فقیہ امت حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول !اﷲ تعالیٰ کو بندے کا کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔
(صحیح بخاری (
5:تلاوت قرآن:
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے بہت نسبت ہے۔ اسی مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں حضرت جبرئیل امین سے قرآن کریم کا دَور )سننا اور سنانا(فرمایا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إقرؤا القرآن فإنہ یأتی یوم القیامۃ شفیعا لأصحابہ۔
قرآن مجید پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرےگا۔
)صحیح مسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن میں ماہر ہے وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت کے ساتھ پڑھتا ہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
(متفق علیہ (
حدیث پاک ہے کہ صاحب قرآن سے قیامت کے روز کہاجائےگا: قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو جیسے دنیا میں ترتیل)ٹھہر ٹھہر کر ( سے کرتے تھے اور بلند منازل طے کرتے جاؤ۔ جنت میں تمہارے لیے وہ جگہ متعین ہوگی جس جگہ آخری آیت کی تلاوت پر تمہاری سانس رکےگی۔
(جامع الترمذی (
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
لا تجعلوا بیوتکم مقابر، إن الشیطان ینفر من البیت الذی یقرأ فیہ سورۃ البقرۃ .
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بےشک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم (
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں ناہو۔ حدیث مبارک کے پیش نظر آپ کی سہولت کے لیےتلاوت کلام پاک کے حوالے سے ایک نقشہ پیش کیا جا رہا ہے
وقت
تلاوت کی مقدار
30 دنوں میں
30 منٹ )آدھ گھنٹہ (روزانہ
ایک پارہ
ایک ختم قرآن
60 منٹ )ایک گھنٹہ (روزانہ
دو پارے
دو ختم قرآن
90 منٹ)ڈیڑھ گھنٹہ (روزانہ
تین پارے
تین ختم قرآن
120 منٹ )دو گھنٹے (روزانہ
چار پارے
چار ختم اورآٹھ سپارے
150منٹ)اڑھائی گھنٹے( روزانہ
پانچ پارے
چھ ختم قرآن
اگر مستقل مزاجی سے تلاوت کی جائے تو اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
6:توبہ و استغفار کی فضیلت:
ہم فرشتے بھی نہیں کہ کبھی ہم سے گناہ نہ ہو اور ہمیں شیطان کی طرح ہمیشہ گناہ بھی نہیں کرتے رہنا چاہیے بلکہ اگر گناہ ہو جائے تو توبہ استغفار کر نی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچ سکیں۔ تاہم اگر بار بار بھی توبہ ٹوٹ جائے تب بھی ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ : وَ عِزَّتِکَ يَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أغْوِي عِبَادَکَ مَادَامت اَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ. قَالَ الرَّبُّ : وَ عِزَّتِي وَجَلَالِي لَا أَزَالُ أَغْفِرُلَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِي.
)مسند أحمد (
شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا : (اے باری تعالیٰ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی جسموں میں روحیں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نےجواب میں فرمایا : مجھے بھی اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے یعنی بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص مجلس میں بیٹھا اور اس میں اس نے بہت سی لغو باتیں کیں تو وہ اٹھنے سے پہلے
سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، أشْهَدُ أن لَا إِلٰهَ إِلَّا أنْتَ أَستغفرُکَ وَ أتُوْبُ إلَيْک
اے اﷲ میں تعریف کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ کہے تو ان لغو باتوں سے اس کی مغفرت ہو جائے گی۔‘‘ ) جامع الترمذی(
7:صدقہ وخیرات کی فضیلت:
رمضان المبارک میں جہاں اور اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے اسی طرح صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بھی بڑھ جاتا ہے۔ چند احادیث مبارک پیش خدمت ہیں :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
(صحیح البخاری: ج1 ص3 باب كیف كان بدء الوحی الى رسول الله)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، آپ سے قرآنِ کریم کا دور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔
) جامع الترمذی(
نوٹ : اس مہینہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور وجوبی صدقات تو ادا کرنا تو انسان کے ذمہ ہیں ان کے ساتھ ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ نفلی صدقات کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کسی نادار روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، کسی محتاج کی مدد کرنا، کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا، یتیم اور بیواؤں کا خیال رکھنا وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں کہ انسان ان کو اس ماہِ مقدس میں ضرور ادا کرے۔
8:صبر و تحمل کی فضیلت:
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزوں کی وجہ سے خشکی آجاتی ہے اور مزاج میں چڑچڑا پَن پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ایسے موقع پر اپنے آپ پر قابو پانا اور صبر سے کام لینابہت ضروری ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ پر قابو پانے والے بردبار اور حلیم مزاج شخص کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے :
لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب۔
پہلوان وہ شخص نہیں جو غصے کے وقت لوگوں کو پچھاڑ ڈالے بلکہ پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر کنڑول کرے۔
9:نوافل کی فضیلت:
جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ رمضان المبارک میں نوافل کا ثواب فرضوں کے ثواب تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی ذوق شوق سے اہتمام کریں۔
نماز اشراق :
نماز اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے پندرہ، بیس منٹ بعد شروع ہو جاتا ہے۔ دو یا چار رکعت پڑھی جاتی ہیں ،جن کا ثواب ایک حج وعمرہ کے برابر ہے۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الْفَجْرَفِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُاللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَتْ لَہٗ کَاَجْرِحَجَّۃٍ وَّ عُمْرَۃٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔
(سنن الترمذی ج 1ص130 باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجد )
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی ، پھر وہیں اللہ کا ذکر کرنے بیٹھ گیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثو اب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ’’مکمل‘‘ کا لفظ تین بار ارشاد فرمایا۔
عَنْ حَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الْفَجْرَثُمَّ قَعَدَفِیْ مَجْلِسِہٖ یَذْکُرُاللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ قَالَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَی النَّارِاَنْ تَلْفَحَہٗ اَوْتَطْعَمَہٗ۔
(شعب الایمان للبیہقی ج 3ص85 )
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے فجر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالی کا ذکر کرنے لگا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالی آگ پر حرام کر دیں گے کہ اسے کھائے۔ ‘‘
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اسی مضمون کی روایت مروی ہے
ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ اَوْاَرْبَعَ رَکْعَاتٍ۔
پھر وہ دو رکعتیں پڑھے یا چار رکعات۔
(الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص178)
نماز چاشت کی فضیلت :
عَنْ اَبِی الدَّرْدَآئِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الضُّحٰی رَکْعَتَیْنِ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی اَرْبَعاًکُتِبَ مِنَ الْعَابِدِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی سِتًّاکُفِیَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ وَمَنْ صَلّٰی ثَمَانِیًاکَتَبَہُ اللّٰہُ مِنَ الْقَانِتِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًافِی الْجَنَّۃِ۔
(مجمع الزوائد للھیثمی ج2 ص494 باب صلوٰۃ الضحیٰ، رقم الحدیث 3419)
ترجمہ : حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے چاشت کی دو رکعات پڑھیں تو ا س کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔ جس نے چار رکعات پڑھیں تو اس کانام عبادت گزار بندوں میں لکھا جائے گا۔ جس نے چھ رکعات پڑ ھیں اس دن اس کی کفایت کی جائے گی، جس نے آٹھ پڑھیں اسے اللہ تعالی اطاعت شعاروں میں لکھ دیں گے اور جس نے بارہ رکعات پڑھیں تو اس کے لئے اللہ تعالی جنت میں گھر بنا دیں گے۔
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ یُصْبِحُ عَلٰی کُلِّ سَلَامٰی مِنْ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ فَکُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَھْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ وَاَمْرٌبِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ وَنَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِصَدَقَۃٌ وَیُجْزِیُٔ مِنْ ذٰلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُھُمَامِنَ الضُّحٰی۔
(صحیح مسلم ج1 ص 250 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ ہر با ر سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر با ر لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر با ر اللہ اکبرکہنا ایک صدقہ ہے، اچھی بات کا حکم کرنا ایک صدقہ ہے، بری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں جنھیں انسان پڑھ لیتا ہے۔
تعداد رکعات نماز چاشت:
چاشت کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔
حدیث ابو الدرداء رضی اللہ عنہ جس میں دو سے بارہ رکعت کا ذکر ہے ، پیچھے گزر چکی ہے۔
(مجمع الزوائد للھیثمی ج2 ص494 باب صلوٰۃ الضحیٰ)
حضرت معاذہ العدویہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی الضُّحٰی اَرْبَعًاوَیَزِیْدُ مَاشَائَ اللّٰہُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص249 باب استحباب صلوۃ الضحی)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی (عموماً) چار رکعت پڑھتے تھے اور (کبھی) اس سے زیادہ بھی پڑھتے جو اللہ تعالی کو منظور ہوتا۔
عَنْ اُمِّ ھَانِیِّ رضی اللہ عنہا قَالَتْ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ بَیْتَھَا یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَاغْتَسَلَ وَصَلّٰی ثَمَانِیَ رَکْعَاتٍ فَلَمْ اَرَ صَلٰوۃً قَطُّ اَخَفَّ مِنْھَا غَیْرَ اَنَّہٗ یُتِمُّ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ… وَقَالَتْ فِی رِوَایَۃٍ اُخْریٰ… وَذٰلِکَ ضُحیً۔
(مشکوٰۃ المصابیح ج1 ص115 باب صلوۃ الضحی)
ترجمہ : حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن میرے گھر تشریف لائے ، غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ میں نے کبھی اس سے ہلکی پھلکی نماز نہیں دیکھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں بھی رکوع و سجود پورا کر رہے تھے۔ فرماتی ہیں کہ یہ چاشت کی نماز تھی۔
چاشت کا وقت:
سورج کے طلوع ہونے کے بعد شروع ہوجاتا ہے اور زوال تک رہتا ہے۔ لیکن افضل یہ ہے کہ دن کے چوتھائی حصہ گزرنے کے بعد پڑھے جیسا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص257 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی)
ترجمہ : چاشت کی نماز اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب اونٹنی کے بچے کے پاؤں گرمی سے جھلسنے لگیں۔
فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلوۃ ضحیٰ (چاشت) کو صلوۃ الاوابین بھی کہا جاتا ہے۔
نماز اوابین:
نماز مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھی جاتی ہیں۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی بَعْدَالْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ لَمْ یَتَکَلَّمْ فِیْمَابَیْنَھُنَّ بِسُوْئٍ عُدِلْنَ لَہٗ بِعِبَادَۃِ ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ سَنَۃً۔
(جامع الترمذی ج 1ص98)
ترجمہ : حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
رَاَیْتُ حَبِیْبِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ بَعْدَ الْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ وَقَالَ مَنْ صَلّٰی بَعْدَالْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ غُفِرَتْ لَہٗ ذُنُوْبُہٗ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ زَبَدِالْبَحْرِ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج5 ص255 رقم الحدیث 7245)
ترجمہ: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ مَابَیْنَ اَنْ یَّنْکَفِتَ اَھْلُ الْمَغْرِبِ اِلٰی اَنْ یُّثَوَّبَ اِلَی الْعِشَائِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص266،267،فی الصلوۃ بین المغرب و العشاء)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’صلوۃ الاوابین‘‘ کا وقت اس وقت سے ہے کہ جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ لَتَحُفُّ بِالَّذِیْنَ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ اِلَی الْعِشَائِ وَھِیَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ۔
(شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439 باب الصلوۃ بین المغرب و العشاء)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ ’’صلوۃ الاوابین‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت ، معرفت اور قرب حاصل کا کرنے کا بہترین ذریعہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل کا اہتمام کرنا ہے۔ بالخصوص رمضان المبارک میں ان کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہیے۔ تاکہ اللہ کی رضا ، محبت اور اس کی معرفت نصیب ہو۔ جو دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔