خالق کا تعارف؛

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خالق کا تعارف؛ محبت اور حقوق
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا. مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔
الاحزاب: 40
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میں نے جوآیت کریمہ آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ (اے لوگو) محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ،مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
خالق، مالک اور موجد میں فرق :
اللہ رب العزت ہم سب کے” خالق“ بھی ہیں اور اللہ رب العزت ہم سب کے ”مالک“ بھی ہیں۔انسان دنیا میں کسی بھی چیز کا ”خالق“ نہیں۔ ہاں !البتہ انسان دنیا میں بعض چیزوں کا ”موجد“ ضرور ہے۔خلق کا معنیٰ اور ہوتا ہے اور ایجاد کا معنیٰ اور ہوتاہے۔خلق کا معنی الگ ہوتا ہے اور ایجاد کا معنیٰ الگ ہوتا ہے،عدم سے کسی چیز کو وجود میں لانا اسے ”خلق“ کہتے ہیں اور بعض موجودات کو جمع کرکے نئی ترتیب دینا اسے ”ایجاد“ کہتے ہیں۔مثلاًلوہا اس کا خالق اللہ رب العزت کی ذات ہے ،درخت اور جس قدر بھی لکڑی ہے ان سب کا خالق رب العزت کی ذات ہے انسان ان میں سے کسی چیز کا بھی” خالق “نہیں۔
اللہ تعالیٰ خالق ہیں :
میں عرض یہ کررہا تھا کہ اللہ رب العزت تمام اشیاء کے خالق ہیں، انسان کسی بھی چیز کا خالق نہیں ہاں البتہ بعض چیزوں کا ”موجد“ ہے۔”خلق“الگ چیز ہوتی ہے اور ”ایجاد“ الگ چیز ہوتی ہے۔ عدم سے وجود میں لانے کو ”خلق “کہتے ہیں اور بعض موجودات کو جمع کر کے نئی شکل دینے کو” ایجاد “کہتے ہیں۔

۝

لوہے کاخالق اللہ رب العزت ہے۔

۝

لکڑی کا خالق اللہ رب العزت ہے۔

۝

پانی کا خالق اللہ رب العزت ہے۔
انسان؛ اشیاء کا موجد ہے :
انسان ان میں بعض چیزں کا ”موجد “ہے۔ مثلا لکڑی کو پیدا تو اللہ فرماتے ہیں، جب اللہ رب العزت لکڑی کو پیدا فرمادے انسان کو دماغ عطا فرمائےعقل عطا فرمائے اسباب عطا فرمائے تو انسان لکڑی کو چند لکڑی کی قسمیں جمع کر کے اس کو نئی شکل دیتا ہے۔

کبھی کرسی بنتی ہے۔

کبھی میز بنتا ہے۔

کبھی دروازے بنتے ہیں۔

کبھی فرنیچر بنتا ہے۔
تو یہ نہیں کہتے کہ انسان اس کرسی اور میز کا خالق ہے بلکہ کہتے ہیں اس کرسی اور میز کا موجد ہے۔لوہے کا خالق اللہ ہے لیکن اس لوہے سے جب گاڑیاں تیار ہوتی ہیں تو کہتے کہ فلاں بندہ اس گاڑی کا موجد ہے۔خالق اللہ رب العزت ہے اور جب سٹیل اورلوہے کو نئی شکل ملتی ہے تو کہتے بھائی فریج کا موجد انسان ہے۔ ان دو باتوں کو اچھی طرح سمجھیں کہ انسان خالق نہیں ہوتا بعض چیزوں کا موجد ہوتاہے۔
موجد کی ہدایات اور پابندی:
موجد ہونے کی وجہ سے انسان مالک نہیں بنتا کبھی مالک کوئی اور ہوتاہے اور موجد کوئی اور ہوتاہے۔ایک آدمی فیکٹری لگاتا ہے اس میں جو نئی چیزیں تیار کرتا ہے اس کو فیکٹری کے سامان کا موجد کہتے ہیں۔یہ موجد ہدایات دے تو سکتا ہے ہدایات کی پابندی نہیں کروا سکتا ،اگر ہدایات کی پابندی نہ کرے تو وہ پوچھ نہیں سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس چیز کا موجد تو ضرور ہے ،لیکن مالک نہیں ہے۔
ملکیت ظاہری ہے اور محدود ہے :
اور وہ بندہ جو اس چیز کا ظاہری طور پر مالک بھی ہے اس کی ملکیت ایک حد اور مدت تک ہوتی ہے۔ اس مدت کے بعد اس کی ملک بھی ختم ہوجاتی ہے۔
ایک سادہ سی مثال :
ایک کمپنی ایک گاڑی تیار کرواتی ہے، انجینئر اس گاڑی کا موجد ہوتا ہے، اور اس فیکٹری کا مالک گاڑی بیچنے کے بعد اس گاڑی کا مالک نہیں رہتا خریدنے والا مالک ہوتا ہے تو یہ انجینئر ہدایات دیتاہے مالک ہدایات دیتا ہے۔جب ملک بدل گئی ہے تو خریدنے والا پابندی کرے گا تو گاڑی ٹھیک چلے گی ،نہیں کرے گا تو ٹوٹ جائے گی۔اگر ان ہدایات کی پابندی نہ کرے اور گاڑی ٹوٹ جائے کمپنی اس سےپوچھ نہیں سکتی کہ تو نے ہدایات کی پابندی کیوں نہیں کی؟
اللہ تعالیٰ مالک حقیقی ہیں :
لیکن اللہ رب العزت کی ذات جس طرح تمام اشیاء کی خالق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بندے کے بھی خالق ہیں اور بندے کی مالک بھی ہیں ، اللہ ہمارا خالق بھی ہے اور مالک بھی،تو جو خالق عدم سے وجود دے اور مالک بھی ہو اس کو حق حاصل ہے کہ ہدایات بھی دے اور ہدایات کی پابندی بھی کروائے۔
مالک حقیقی کی ہدایات :
اس لیے

اللہ رب العزت نے چونکہ آنکھ پیدا کی ہے اور پیدا کرنے کے بعد اللہ ہی آنکھ کے مالک بھی ہیں۔بندہ آنکھ کا مالک نہیں بنتا۔

جسم کو اللہ نے پیدا فرمایا ہے تو پیدا کرنے کے بعد جسم کا مالک بھی اللہ ہی رہتا ہے۔بندہ جسم کا مالک نہیں بنتا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے سنا بھی ہے آپ نے پڑھا بھی ہے کہ کوئی انسان خودکشی کرنا چاہے تو جائز نہیں۔جسم کا مالک انسا ن ہے ہی نہیں تو دوسرے کی ملکیت میں بندہ اپنا اختیار استعمال نہیں کرسکتا، جب بندہ مالک ہی نہیں ہے تو جسم کو استعمال غلط کیسے کرے گا؟جس طرح خود کشی کرنا حرام ہے اسی طرح جسم کے بعض اعضاء کو نقصان دینا بھی حرام ہے۔
بے اختیار آنسو اور ماتم :
مثلاً احادیث میں بھی ہے اور فقہاء نے مسئلہ بھی لکھا ہے کہ ”ماتم نہ کریں “ کیوں منع کیا ہے؟ اللہ نہ کرے کسی کا بچہ فوت ہوجائے تو جو بے اختیار آنسو آئے وہ تو عورت کے لیے جائز ہے، مرد کے لیے بھی جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت بھی ہے۔
رسول اللہ کی آنکھو ں سے آنسو:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے بیٹے کم عمری میں فوت ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گود میں بچہ اٹھایا آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے اور ساتھ یہ بھی فرماتے تھے۔
وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُون
صحیح البخاری: رقم الحدیث1303 
اے ابراہیم !میں آپ کے جانے پر غمزدہ ہوں۔
صحابہ کرام کا تعجب :
حضرت عبد الرحمن بن عوف فرمانے لگے: حضور! لوگوں کو منع کرتے ہیں خود آپ یوں فرماتے ہیں۔ تو نبی پاک نے بات سمجھائی
إِنَّهَا رَحْمَةٌ۔۔۔۔۔ إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا
)صحیح البخاری: رقم الحدیث1303(
ایک ہوتا ہے کسی کے جانے پر آواز کے ساتھ رونا ایک ہوتا ہے آنسو کا بے اختیار نکلنا یہ اولاد کا حق ہوتا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ:
بلکہ میں ایک بات کہتا ہوں جو پہلے ہم سنتے تھے اور تجربے میں نہیں تھی اور بعض باتیں بندہ سنے تو سمجھ میں نہیں آتیں اور بعض باتیں تجربات کے بعد سمجھ میں آتی ہیں۔ مثلاً ایک ہوتا ہےاولاد کے دنیا سے جانے پر غمزدہ ہونا اور ایک ہوتا ہے اولاد کے دنیا سے نہیں ایک گھر سے دوسرے گھر جانے پر غمزدہ ہونا۔
جب بیٹیوں کا نکاح ہوجائے :
بیٹی کا نکاح ہوتاہے ماں کی آنکھوں سے آنسو آجاتے ہیں، باپ کی آنکھوں سے بھی آنسو آجاتے ہیں۔ تو عام بندہ سمجھتا ہے یہ خوشی کا موقع تھا یہ آنسو کس بات کے؟یہ بات ہمیں بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ جب تک ہم صاحب اولاد نہیں تھے ہمیں تعجب ہوتا تھا۔ہم کیونکہ دیہات کے لوگ ہیں دیہات میں شادی ہوتی ہے ،تو بچی کی رخصتی ہوتی ہے تو وہ روپڑتی ہیں۔
خوشی کے آنسو:
ہم بچپن میں سوچتے تھے یہ خوشی کی بات یا رونے کی بات ہے۔شادی ہو رہی ہے،شادی پر تو لوگ خوش ہوتے ہیں اور یہ کیوں روتی ہیں؟ لیکن آج یہ بات سمجھ میں آئی جہاں بچی کی شادی کی خوشی ہوتی ہے وہاں اپنے والدین سے جدا ہونے کا غم بھی ہوتا ہے، جہاں ماں اور باپ کو بہت بڑی خوشی ہوتی ہے کہ ہم نے ایک بڑا فرض ادا کیاہے اللہ کے فضل وکرم سے، وہاں اس اولاد کے گھر سے جانے کا غم بھی ہوتا ہے خواہ اپنی بیٹی ساتھ والے گھر میں کیوں نہ جائے۔ دیوار ایک ہو لیکن تب بھی باپ اور ماں کے دل پر ایک چوٹ لگتی ہے جس کو ماں اور باپ کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا۔
جب صاحبزادی کی نسبت طے ہوئی:
ہمیں کب سمجھ آئی تجربات سے ہم گزرے۔میری بیٹی کی عمر زیادہ نہیں 16سال کی ہے ،الحمدللہ قرآن کریم حفظ کیا ہے، گردان کی ہے ،کتابیں پڑھ رہی ہے، تو ابھی تک ہم نے اپنی بیٹی کا نکاح نہیں کیا ،ابھی تک بیٹی کو رخصت نہیں کیا،صرف بیٹی کی نسبت طے کی۔ جو میرے ہونے والے داماد کے والد ہیں، وہ تشریف لائے بات ہوئی تو میں نے ہاں کردی۔
رسوم کا شریعت میں وجود نہیں :
کیونکہ ہمارے ہاں وہ رسمیں نہیں ہیں جو لوگوں کے ہاں ہیں، ہم رسموں کے قائل نہیں۔ پہلے انگوٹھی دیں، پھر انگوٹھی لیں، پھر گھڑی لیں، 2 مرتبہ جائیں، 10مرتبہ آئیں اس کا شریعت میں وجود نہیں۔ بس آپ کسی سے بیٹی لینا مناسب سمجھیں تووہ ہاں کر دیں اسی کا نام منگنی ہے وہ انکار کردے تو منگنی نہیں ہے۔منگنی کا معنیٰ ہے کہ ہم نے فلاں سے بیٹی مانگی ہے اور انہوں نے دےدی ہے۔اس کا نام ہوتا ہے منگنی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
آنسو چھلک پڑے :
میں گزارش یہ کر رہا ہوں کہ صرف بیٹھک سے گھر جاکر میں نے یہ بات بتائی کہ بھائی ابوبکر کے والد صاحب آئے ہیں، انہوں نے بیٹی مانگی ہے اور میں نے” ہاں “ کردی ہے آپ ہاں کریں یا نہ۔آپ یقین فرمائیں میرے بھی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور بیگم بھی روپڑی ،اب مجھے اس وقت پتہ چلا کہ بیٹی کی رخصتی یا نکاح پر باپ کیوں روتاہے؟
مجھے پہلے زندگی میں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ بیٹی کے نکاح پر یا رخصتی پر باپ کیوں روتا ہے؟ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہم نے نکاح نہیں کیا ابھی بیٹی ہمارے پاس ہے صرف ہاں کی ہے کہ ہم تمہیں دیں گے اسی پر رو پڑے حالانکہ بیٹی نے ہمارے گاؤں میں جانا ہے رشتہ داروں کے ہاں جانا ہے دوسری جگہ پر نہیں جانا۔
ماتم ، قتل اور خود کشی :
اب میں بات سمجھاتاہوں کہ خودکشی کرنا حرام ہے ،اپنے جسم کو بلا وجہ اپنے سینے پر ایسا ہاتھ کیوں مارا؟ جس کی وجہ سے درد ہوا ،آپ نے اپنے چہرہ پر ہاتھ کیوں مارا جس سے چہرہ پہ درد ہوئی ہے، شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ بلاوجہ دوسرے بندے کی جان لو تو حرام، دوسرے کو مارے تو حرام اور خود مارے تو حرام۔
اپنی ذلت بھی ناجائز ہے :
اس سے بڑھ کر میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا: میری ماؤوں، بیٹیوں سے گزارش ہے کہ غور سے سنیں!ایک ہوتا ہے خود کشی کرنا ، ایک ہوتا ہے اپنے عضو کو بلاوجہ تکلیف دینا،اس سے اگلی بات جس طرح کسی دوسرے مومن کو، دوسرے انسان کو ذلیل کرنا جائز نہیں اپنے نفس کو بھی بلا وجہ ذلیل کرنا جائز نہیں
لایُحلُّ لِمُوْمِن اَنْ یّذلَ نفسَہ۔
) جامع الاحادیث رقم الحدیث 27837(
ہماری عزت وذلت کا مالک اللہ ہے :
ایک ہوتا ہے اللہ کے دین کے لیے بندہ ذلت برداشت کرے اور ایک ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے بندہ خود کو ذلیل کرے، جس طر ح ہم اپنی ذات کے خود مالک وخالق نہیں ، اپنی عزت کے بھی مالک وخالق نہیں۔ چونکہ اللہ کی ذات خالق بھی ہے مالک بھی ہے ہم اپنے جسم میں کوئی تصرف نہیں کرسکتے اسی طرح ہماری ذات اور عزت کا مالک کون ہے؟ اللہ ہے۔ تو خدا کی مرضی کے بغیر خود کو ذلیل کرنا جائز نہیں اور دوسرے کی عزت نفس کو مجروح کرنا جائز نہیں۔
طیبِ نفس یعنی خوش دلی:
کسی مسلمان کا مال بھی اس کی خوش دلی کے بغیر کھانا جائز نہیں۔ آپ کسی سے چائے کا کپ پئیں اور یہ سمجھے کہ دل سے نہیں پلا رہا تو ایسی چائے کا ایک کپ پینا بھی جائز نہیں ہے۔ ایک گلاس پانی کا پئیں اور آپ یہ سمجھے کہ وہ خوشدلی سے نہیں پلا رہا تو یہ ایک گلاس پانی بھی جائز نہیں ہے، اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
اعضائے انسانی کا ضیاع اور ماتم :
تو اللہ رب العزت ہمارے جس اور جان کے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں لہٰذا ایک مسئلہ تو یہ سمجھیں کہ اپنی جان کا ضیاع یہ بھی حرام اوراپنے جسم کا عضو ضائع کرنا یہ بھی حرام یہ بھی جائز نہیں ہے اس لیے یہ جوہمارےمعاشرے میں لوگ ماتم کرتے ہیں شریعت میں ناجائز ہے حرام ہے ، اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائیں۔
خود کشی کرنے والا کا جنازہ :
اسی طرح کبھی آدمی دنیا کے حالات سے تنگ آکر خود کشی کرتا ہےتو اتنا بڑا جرم ہے ، اتنا بڑا جرم ہے کہ فقہا نے لکھا ہے کہ اس علاقہ کے مذہبی پیشوا یا مقتدا شخصیات کو اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے عام لوگ تو بےشک نماز جنازہ پڑھیں لیکن مقتدا نہ پڑھے۔کیونکہ کافر تو نہیں فاسق ہے جنازہ بے شک پڑھیں اس کے لئے دعا مغفرت کرتے کہ اللہ اس کو معاف فرمائیں۔
جیسے اللہ کا حکم ہو :
میں نے ایک مسئلہ میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے جسم میں اپنی مرضی سے کوئی تصرف نہیں کرسکتے اللہ رب العزت جیسا فرمائیں گے ویسا کریں گے۔
ہدایات کون دے سکتاہے ؟
یہ سمجھیں کہ انسان اشیاء کا موجد ہے ،خالق نہیں۔ وہ بتائے گا کہ اس کا استعمال کیسے کرنا ہے؟وہ جو فریج کا موجد ہے، خالق نہیں۔ وہ بتائے گا اس کا استعمال کیسے کرنا ہے ؟ گاڑی کا موجد گاڑی کے استعمال کا طریقہ بتائے گا۔ کوئی بندہ گاڑی کے انجینئر کی مخالفت کرے، اس کی کوئی بات نہ سنے!!
مالک حقیقی کو ہدایات کا حق زیادہ ہے :
گا ڑی انجینئر کی ہدایات کے مطابق استعمال کروگے تو گاڑی صحیح چلےگی اور اگر گاڑی انجینئر کی ہدایات کے مطابق استعمال نہیں کروگے تو خود بھی برباد ہوں گے اور تمہیں بھی برباد کردے گا۔اب بات سمجھیں وہ جو بلڈنگ بنائے ہدایات دے سکتا ہے،فریج کا موجد بھی ہدایا ت دے گا کہ طریقہ استعمال اس طرح ہے تو جو اللہ بند ے کو بنائے اور ا س کی تخلیق کرے، وہ بھی بندے کو ہدایات دےگا کہ تم نے میری تخلیق کردہ چیزوں کیسے استعمال کرنا ہو گا ؟ اللہ کو زیادہ حق حاصل ہے کہ کسی بات کا حکم فرمائیں۔
شریعت کا حکم اچھا نہیں لگتا:
ایک مثال میں اور دیتا ہوں اس بات کو سمجھیں۔ بسا اوقات مردوں کو اُلجھن ہو تی ہے اورکبھی عورتوں کو اُلجھن ہوتی ہے۔ مردوں کو یہ اُلجھن ہوتی ہےکہ شریعت کا حکم ہے داڑھی رکھو !ایک مشت سے کم داڑھی کٹانا بھی حرام ہے۔منڈانا بھی حرام ہے۔ اب بعض لوگوں کو یہ حکم شرعی اچھا نہیں لگتا بلکہ ان پر گراں گزرتا ہے۔ خواتین کو حکم ہے کہ اپنے بال پورے رکھیں اور سوائے عمرہ کے خواتین کو کبھی بھی بال کٹانے کی اجازت نہیں۔
الھدیٰ انٹر نیشنل کا فتنہ :
آج کے دور میں ایک نیا مسئلہ ہے۔ ایک خاتون ہے فرحت ہاشمی ”الھدیٰ انٹرنیشنل “اس کا ادارہ ہے۔ اس نے ایک نیا مسئلہ پیش کیا ہے:عورت ویسے بال نہیں کٹوا سکتی، ہاں! شوہر کی خوشی کے لئے کٹوا سکتی ہے،یہ بالکل غلط ،ناجائز اورحرام ہے۔ کبھی بھی ایسا نہ کریں۔
میاں بیوی کو خوش کرنے کے شیطانی طریقے :
میں نےکہا یہ تو ایسا ہے کہ شوہر کی خوشی کے لئے بال کاٹی گئی کل کوئی نیا مسئلہ اٹھائے گی کہ عورت کی خوشی کے لئے شوہر داڑھی کٹوا سکتا ہے۔جس طرح شوہر کے لئے داڑھی کٹوانا اور منڈوانا حرام ہے اسی طر ح عورت کو بھی ایک پورا بال کٹوانا بھی حرام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ستر ہزار فرشتوں کی روزانہ تسبیح یہ ہے ۔
سبحان الله الذي زين الرجال باللحى والنساء بالذوائب
پاک ہے وہ اللہ جس نے مرد کو داڑھی کے ساتھ زینت عطاء فرمائی اور جس نے عورت کو سر کے بالوں کے ساتھ زینت عطاء فرمائی۔ جس طرح عورت اگرحلق ، ٹنڈ کروائے بد صورت لگتی ہے اسی طرح اگرمرد داڑھی کٹوا دے منڈوا دے مرد بد صورت لگتا ہے۔
داڑھی منڈا بد صورت کیسے ؟
آپ کےذہن میں شاید یہ بات ہو کر آئے کہ مرد اگر داڑھی منڈوائے بد صورت لگتا ہے ہمیں تو نہیں لگتا معاشرے میں وہ اگر داڑھی رکھے تب بد صورت لگتا ہے۔ میں نے کہا بات ہے سوچ و دماغ کی، ہمارے معاشرے میں چونکہ غلاظت اور بددینی اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ جوخلاف فطرت کام ہے وہ ہمیں اچھے لگتے ہیں۔
داڑھی منڈانے والا فطرت کے خلاف چلتا ہے اور سلیم الفطرت لوگوں کی نظر میں بد صورت ہی ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو فطرت سلیمہ نہیں ملتی وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ میں خلاف فطرت پر میں دو مثالیں دے کر بات کو ختم کرتا ہوں۔
جب معاشرے میں مسلسل کام خلاف فطرت ہونا شروع ہو جائے تو اس کے نقصانات کیا ہوتے ہیں؟ اور بندے پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟
سانپ آیا ہے، مرد بلاؤ :
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشر ف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ تھا،اس کا بچہ تھا ، گھر میں عورتیں تھیں ،کنیزیں تھیں ،بچہ ان عورتوں اور کنیزوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ ایک دن گھر میں ایک سانپ گھس آیا ،تو گھر کی عورتوں نے آواز لگانا شروع کی: سانپ آیا ہے ، کوئی مرد بلاؤ! سانپ آیاہے، کوئی مرد بلاؤ! کوئی لاٹھی لاؤ!
تو وہ شہزادہ صاحب وہاں تھے کہنے لگے کوئی مرد ہے تو بلاؤ!کسی نے کہا کہ تو تو خود مرد ہے تو سانپ کیوں نہیں مارتا؟ تو اسے احساس ہوا کہ میں بھی مرد ہوں، وہ چونکہ مسلسل بچپن سے عورتوں میں پلابڑھا اس میں یہ احساس بھی نہیں تھا کہ میں مرد ہوں اور سانپ کو میں بھی مار سکتا ہوں۔ یہ معاشرے کا اثر پڑا ہے۔ خلاف فطرت کام کرنے سے بندے کا مزاج بدلتا ہے اور بندے کی فطرت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
حس ختم یا بدبو ختم؟:
اس کی دوسری مثال آپ سمجھیں :کہتے ہیں کہ ایک لڑکی تھی اس کا نکاح ہوا، رخصتی ہوئی، لڑکی کا خاندان کوئی اور تھا، جس گھر میں اس کا نکاح ہوا تھا و ہ پیشے کے لحاظ سے موچی تھے)میں موچیوں کی ذات پر تنقید نہیں کر رہا تمام ذاتیں اور قومیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں۔ اللہ کے ہاں معیارایمان اور تقویٰ ہے۔ ذات پات یا حسب و نسب نہیں( خیر !چمڑے کا ان کا کاروبار تھا۔ چمڑے کو رنگنا،چمڑے کو سیٹ کرنا۔
اب ظاہر ہےجہاں چمڑا ہو بدبو تو آتی ہے، اب لڑکی نے ناک چڑھائی اور جا کر لڑکے کی ماں سے کہنے لگی: تمہارے گھر میں بدبو بہت ہے،اب ظاہر جہاں چمڑا ہو گا بد بوتو ہوگی۔ اس میں نہ کوئی عورت کی خاصیت ہے اور نہ کوئی مرد کی۔ ہر بد بو والی جگہ پر بد بو محسوس ہوگی۔
کچھ دن گزرے اب وہی بچی اپنی ساس سے کہنے لگی: امی جان آپ نے میری کرامت دیکھی ہے؟ امی نے کہا کہ بیٹی کون سی کرامت؟ اس نے کہا کہ تمہارے گھر کی ساری بد بو ختم ہو گئی ہے۔ ساس بڑی سمجھ دار تھی اس نے کہا : بیٹی! بد بو ختم نہیں ہوئی تمہاری ناک کی حس ختم ہوگئی ہے یہ تمہاری کرامت نہیں ہماری صحبت کا اثر ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت والی زندگی نصیب فرمائے۔ اللہ ہم سب کا خاتمہ بالایمان فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فتنوں اور فتنیوں سے ہمارے مردوں اور خواتین سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ