صراط مستقیم، راہ اعتدال کا نام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صراط مستقیم، راہ اعتدال کا نام
خانقاہ اشرفیہ اختریہ، سرگودھا
تمہید
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد:
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا
الاسراء:9
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہےجو سب سے زیادہ سیدھاہے، اور جو لوگ(اس پر) ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں، انھیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں، ان کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں موجود ہے۔سورۃ فاتحہ کا خلاصہ "صراط مستقیم"ہے، کیونکہ اس سورۃ میں صرف ایک ہی دعا مانگی گئی ہے:
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
فاتحہ:6
کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صراطِ مستقیم کا معنیٰ
صراطِ مستقیم کا معنی ہے" راہِ اعتدال" جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط ، قرآن بھی اسی راہِ اعتدال کی دعوت دیتاہے:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
الاسراء:9
امت بہت سارے امور میں بے اعتدالی کا شکارہے۔ اس وقت ان میں سے دو کا تذکرہ کرتاہوں۔
1: خانقاہ و طریقت 2: نکاح
خانقاہ وطریقت
خانقاہ کے حوالے سے ایک طبقہ وہ ہے جو خانقاہوں کا منکر ہے، بیعت کا منکر ہے اور اس کو کفر وشرک کے دروازے قرار دیتاہے، اور ایک طبقہ وہ ہے جو خانقاہوں کا قائل تو ہے لیکن ان کی حیثیت وہ کبھی کبھی بارگاہ نبوت سے بھی آگے لے جاتاہے۔
تو پہلا طبقہ خانقاہوں کا قائل نہیں اور دوسرا طبقہ ضرورت سے زیادہ قائل ہے۔یہ دونوں افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ یہ دونوں غلط ہیں۔ ہم اعتدال سے چلتے ہیں،بے اعتدالی ہرگز اختیار نہیں کرتے۔ہم خانقاہ کے شیخ کو حلال وحرام کا اختیار نہیں دیتے،خانقاہ کے شیخ کو حلال اور حرام سمجھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ شیخ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے آدمی کو حلال پر عمل کرنا اور حرام سے بچنا بہت آسان ہوتاہےاور بغیر ولی اللہ اور صاحبِ دل کی صحبت کے دینی اعمال پر عمل کرنا ناممکن نہ ہوتو مشکل ضرور ہے۔
بعض لوگ ادب کے نام پر شرک کرتے ہیں اور بعض لوگ توحید کے نام سے گستاخیاں کرتے ہیں۔میرے ان جملوں کو سمجھیں اور دل کی تختیوں پر نوٹ فرمائیں۔ہم توحید کے بھی قائل ہیں اور ادب کے بھی قائل ہیں، توحید کے نام پر گستاخ نہیں بنتے اور ادب کے نام پر مشرک نہیں بنتے۔ہم اعتدال کے ساتھ چلتے ہیں۔
خانقاہوں کا مقصد
خانقاہوں کاجو بنیادی مقصد ہے وہ اعمال کی ترغیب اور اعمال پر پختہ کرناہے۔ جو شخص کسی دینی شعبے کے اندر منسلک ہو، اگر اس کا خانقاہ کے شیخ سے تعلق نہ ہوتو اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟اس کےلیے میں صرف ایک مثال عرض کرتاہوں۔
بانی تبلیغی جماعت کی مثال
ہمارا اس وقت پوری دنیا میں سب سے بڑا مذہبی نیٹ ورک تبلیغی جماعت کا ہے اور الحمدللہ وہ ہمارے مسلک دیوبند کا ہے۔ہماری اس تبلیغی جماعت کے بانی برصغیر میں حضرت مولانا محمد الیاس نوراللہ مرقدہ ہیں۔حضرت جی کے ملفوظات میں میں نے پڑھا، حضرت فرماتے ہیں: بازار میں جاتے ہیں،گشت کرتے ہیں،دعوت دیتے ہیں اور بازار کی ظلمت میں اپنے دل پر محسوس کرتاہوں اور واپس آکر خانقاہ میں وقت لگا کر اس قلب کی ظلمتوں کو دور کرتاہوں۔یہ کون فرما رہے ہیں؟حضرت مولانا محمد الیاس صاحب۔ کتنے بڑے شخص ہیں !وہ بھی خانقاہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔
میں یہاں ساتھیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَحَبُّ البِلادِ إلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا
کہ سب سے بہترین جگہ زمین پر مسجد ہے۔
وَأبْغَضُ البِلاَدِ إلَى اللهِ أسْوَاقُهَا
صحیح مسلم: رقم الحدیث:671
اور سب سے گندی اور ناپسندیدہ جگہ بازارہے۔تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث مدینہ منورہ میں فرمارہے ہیں۔معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں بھی جو ماحول مسجد کا ہے وہ بازار کا نہیں۔مدینہ منورہ کا وہ بازار ہمارے مدرسوں سے بھی اعلیٰ ہوگا لیکن مدینہ منورہ کا بازار مدینہ منورہ کی مسجد سے اعلیٰ تو نہیں ناں!
میں جب بھی سفر پر وہاں(سعودی عرب)جاتاہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ ہوٹل کی بجائے حضرت شیخ مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب دامت برکاتہم کی خانقاہ میں قیام کروں۔بعض مرتبہ حضرت کے قریبی رشتہ دار، جن کا ہوٹلنگ کا کام ہے ،انہوں نے کہا بھی کہ ہم ہوٹل میں آپ کو جگہ دیتے ہیں ،آناجانا آسان ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ ہوگا، لیکن وہ خانقاہ تو نہیں ہوگی۔
تو میں نے گزارش کی ہے کہ خانقاہ کے حوالے سے ہم اعتدال کے ساتھ چلیں،افراط وتفریط کا شکار نہ ہوں۔جس تحریک میں کام کریں اس کے اصولوں کے مطابق چلیں ،لیکن شیخ سے رابطہ رکھیں گے، تو گناہوں سے ان شاء اللہ العزیز بچتے رہیں گے اور بہت حفاظت ہوگی۔کسی بندے کو شیخ ماننے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اس پر بندہ اعتماد کرے اگر شیخ کی بات سمجھ میں نہ آئے تب بھی اس کی بات کو رد نہ کرے۔
حضرت مولانا محمد طلحہ کاندہلوی صاحب کی نصیحت
رات حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب دامت برکاتہم فرمارہے تھے کہ جب آپ کام کریں گے اور مشائخ کے طرز پر کریں گے اور کچھ نہ کچھ پڑھ کر مشائخ کو ایصال ثواب کریں گےتو نتیجہ نکلے گا کہ مشائخ کی ارواح کو جب ثواب پہنچے گا تو ان کی ا رواح خوش ہوگی اور ہماری طرف متوجہ ہوں گی۔آپ کا کام بڑھے گا اور کام میں برکتیں بھی ہوں گی اور نحوستوں اور آفات سے اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائیں گے۔تو خیر میں نے ایک گزارش کی ہے کہ ہم اعتدال کاخیال رکھیں، خانقاہوں سے اپنے آپ کو جوڑیں ،مشائخ واکابر کی عزت کریں ،ان کے آرام وسکون کاخیال رکھیں، پھر دیکھیں اللہ رب العزت کس طرح نتائج عطاء فرماتے ہیں۔
مشائخ سے تعلق؛تین واقعات
مشائخ سے تعلق کے حوالے سے میں اپنے تین واقعات ذکر کرتا ہوں۔
واقعہ 1، علامہ علی شیر حیدری
علامہ علی شیرحیدری، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے -ہم یہاں مرکز میں بیٹھے تھے،اجلاس ہورہاتھا۔مجھے بعض اساتذہ نے کہا کہ مولانا حیدری صاحب سرگودھا تشریف لائے ہیں، آپ انہیں مرکز آنے کی دعوت دیں۔میں نے کہا: میں ان کو دعوت نہیں دوں گا مجھے کہنے لگے کیوں؟میں نے کہا کہ حضرت سے میرا تعلق ہے۔میں سندھ جاؤں تو میں فون کروں اور وہ سرگودھا آئیں تو بھی میں فون کروں؟یک طرفہ دوستیاں تو نہیں چلاکرتیں۔ میں دعوت نہیں دوں گا ،اگر وقت ہوگامجھ سے محبت ہے وہ تشریف لائیں گے ، نہیں وقت ہوگا تو میں تنگ نہیں کرتا۔
ہم اجلاس ہی میں بیٹھے تھے کہ علامہ حیدری رحمہ اللہ کا اسی وقت فون آگیا: کہاں پر ہیں؟میں نے کہا: جی مرکز میں ہوں۔ فرمایا: میں آ رہا ہوں۔ میں نےکہا: جی ٹھیک ہے ،کب تشریف لائیں گے؟فرمانے لگے: میں یہ نہیں بتا سکتا میں نے کہا جی ٹھیک ہے۔ کیا کھائیں گے ؟فرمایا: کچھ نہیں۔ میں نے کہا: جی بہتر۔ ان کا دو بجے پھر فون آ گیا: میں آرہاہوں، چائے تمہارے پاس پیوں گا۔
آپ یقین فرمائیں میں نے کسی ڈرائیور کو نہیں بھیجا، میں خود سرگودھا شہر گیا، ان کی چائے کا اہتمام کیا۔جب حضرت جانے لگے تو میں نے کچھ ہدیہ پیش کیا۔ فرمانے لگے: تم نے پیسے دئیے تو میں آئندہ نہیں آؤں گا۔میں نے کہا: میں نے تو آج بھی نہیں بلایا، آپ خود تشریف لائے ہیں۔آئندہ دل مانے گا پھر آجائیے گا،دل نہیں مانے گا نہ آئیے گا،ہم آپ کو تنگ تھوڑا کریں گے۔
واقعہ2 ، سید نفیس شاہ صاحب
میں خانقاہ سید نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ کے ہاں کئی بار حاضر ہوتا اور میں نے کبھی بھی نہیں کہاکہ میرا شاہ صاحب سے اندر جاکے مصافحہ کراؤ۔وجہ صرف یہ کہ مشائخ کے آرام میں خلل نہ آئے۔خدام خود لے کر جاتے، مصافحہ کرو۔ میں نے کہا :جی ہم یہاں آگئے ہیں۔خانقاہ میں حاضری ہوگئی ہے،پھر دعا جب ہوگی تو ہمارے لیے بھی ہوجائے گی واقعی مشائخ کی راحت میں ہماری راحت ہے۔
واقعہ3 ، حضرت حکیم شاہ محمد اختر مد ظلہ
آپ کو اس بات کا تعجب ہوگا،حضرت شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم اللہ ان کی عمر میں برکت عطاء فرمائے-حضرت نے مجھے اس وقت خلافت واجازت عنایت فرمائی جب میں نے خانقاہ میں ایک دن بھی نہیں گزارا تھا۔میں رمضان المبارک میں حضرت سے ملنے کراچی گیا۔تو حضرت نےفرمایا:کیا پروگرام ہے؟میں نے کہا: جی سرگودھا جاناہے۔یہاں کتنے دن ٹھہروگے ؟میں نے کہا: جی تین دن۔فرمایا: تین دن نہیں، چالیس دن میں نے کہا : چالیس دن۔ حضرت روپڑے خوشی میں۔ میں رک گیا اور چھوٹی عید پر بھی نہیں آیا۔ اس دوران ایک بارحضرت نے فرمایا: کب جاؤ گے؟میں نے کہا: جب آپ فرمائیں گے جاؤں گا۔
جوبات میں سنانا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ چالیس دن کے عرصہ میں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کا جو اپنا کمرہ ہے،شاید میں دو یا تین مرتبہ اس میں گیا۔ایک دن اتنا عجیب واقعہ پیش آیاکہ ظہر کی نماز کے بعد میں اوپر کمرے میں تھا، تو میرا جی چاہا کہ میں اپنے شیخ کے پاس ان کے مخصوص کمرے میں جاؤں، میں وہاں سے نیچے جو خانقاہ کا بڑا کمرہ ہے، وہاں آکے بیٹھ گیا۔پھر ہمت نہ ہوئی اندر جانے کی۔
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ شیخ کی قلبی توجہ اور کسے کہتے ہیں؟اوپر کمرے سے نیچے آیا اور اندر جانے کی بجائے دفتر میں بیٹھ گیا۔ابھی دو منٹ بھی نہیں گزرے کہ اندر سے خادم آیا اس نے کہا: حضرت آپ کو کمرے میں بلارہے ہیں میں کمرے میں چلاگیا تو مجھے فرمایا:مولانا!تم ادھر آئے ہو ،ہمارے پاس کیوں نہیں آتے؟باہرکیوں بیٹھے ہو؟میں نے کہا: آپ بڑے ہیں مجھے ڈر لگتاہے، اس لیے باہر بیٹھا رہتاہوں۔فرمایا: ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کو ڈر لگتاہے!خیر یہ واقعات زیادہ نہیں سنا رہا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس کا اہتمام کریں کہ اپنے مشائخ کی محبت لیں،اپنے مشائخ کی دعائیں لیں،اپنے مشائخ کا قلبی تعلق اپنےساتھ رکھیں۔
مشائخ سے قلبی محبت کیوں؟
ہم ان مشائخ سے محبت کیوں کرتے ہیں؟اس لیے کہ ان کا تعلق اللہ سے ہے اور تو کوئی وجہ نہیں۔سہارنپور مظاہر العلوم میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ حدیث پڑھا تے تھے -یہ بڑا سننے والاواقعہ ہے- شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا فتویٰ تھا کہ انگریز کا بنایا ہوا کپڑا استعمال کرنا حرام ہے ، لہذا سادہ کھدر کا کپڑا استعمال کرنا چاہیے۔حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ کے بدن کا تقاضا یہ تھا کہ وہ نرم اور آرام دہ کپڑا نہ پہنیں تو بدن کو کوفت ہوتی تھی ،ان کی ضرورت تھی تو ململ کا کپڑا استعمال کرتے۔
حضرت مدنی رحمہ اللہ جب سہارنپور تشریف لاتے تو ان کے آنے سے پہلے حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ ململ کا کپڑا اتار کر کھدر کا کپڑا پہن لیا کرتے تاکہ حضرت سے ڈانٹ نہ پڑے۔ اندازہ کریں کتنے بڑے آدمی تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مدنی رحمہ اللہ تشریف لائے اور محبت میں فرمانے لگے: زکریا! مجھے پتہ ہے تو ململ کا کپڑا پہنتاہے، میرے ڈر کی وجہ سے جب میں آتاہوں تو ململ کا کپڑا اتار کر کھدر کا پہن لیتاہے۔ تو حضرت شیخ زکریا کا جواب سنیں! فرمانے لگے: حضرت !میں آپ سے تونہیں ڈرتا ،آپ کے کندھے پر کون سی بندوق رکھی ہے ،میں اس وجہ سے ڈرتاہوں کہ اللہ کا آپ سے تعلق بہت ہے، آپ ناراض ہوگئے تو اللہ ناراض ہوجائے گا۔
نکاح میں بے اعتدالی
دوسری چیز جس میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں وہ نکاح ہے۔ اچھی طرح بات سمجھیں کہ جو بندہ حقوق ادا نہ کر سکتا ہو اس بندے کے لیے ایک نکاح کرنا بھی جائز نہیں، جو حق تلفی کرتا ہو، ظلم کرتا ہو وہ ایک نکاح سے بھی بچےاور جو حقوق کی ادائیگی کر سکتا ہو، اعتدال کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہو تو شریعت نے اجازت دی ہے کہ وہ دو، تین یا چار نکاح کرے۔میں اکثر یہی گزارش کرتا ہوں کہ خواتین اورعورتوں کی آہوں سے بچو۔
باپ نے اپنی بیٹی بیاہ کے آپ کے گھر بھیج دی ہے، اس عورت نے بھی سارا خاندان چھوڑا ہےاس شوہر کے لیے۔ اگر یہ بھی اس پر ظلم کرے گا تو اس کا ظلم عرش کو ہلا کے رکھ دے گا۔اس کو ڈانٹنا، اس کو مارنا، پیٹنا،بتاؤ اس سے بڑا ظلم اور کون سا ہو سکتا ہے؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے جا رہے تھےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر دو ہی جملے تھے:
الصلوۃ و ما ملکت ایمانکم
سنن ابن ماجہ: رقم الحدیث 1625
لوگو!نماز کا خیال کرنا اور اپنے ماتحتوں کا خیال کرنا۔
محدثین فرماتے ہیں کہ اس میں بیوی بھی شامل ہے کیونکہ یہ بھی شوہر کے ماتحت ہوتی ہے۔
مولانا سعید احمد صاحب کا واقعہ
حضرت مولانا محمد سعید احمد صاحب رحمہ اللہ بہت بڑے بزرگ تھے۔مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔ ایک ساتھی کا نکاح ہوا۔وہ ایک ڈیڑھ مہینہ کے بعد سال کے لئے جماعت میں جانے لگا۔ حضرت کو کسی ساتھی نے کہا تو حضرت نے بلا کر فرمایا: بھائی! نئی نئی شادی ہے ، مہینہ ڈیڑھ مہینہ گزرا ہے اورتم سال میں چل پڑے ہوتو ہر مہینے میں ایک خط --- ذرا تو جہ رکھنا اکابر کا مزاج سمجھنا--- گھر اپنی بیوی کو لکھنا اور اس میں لکھنا کہ دن تو گشت میں گزرتا ہے ، تعلیم میں گزرتا ہے ، اعمال میں گزرتا ہے ، رات نہیں گزرتی ، تم بہت یاد آتی ہو ، کروٹیں بد ل بدل کے سوتا ہوں اور پریشان ہوں ، تمہاری محبت میں چُور ہوں۔ اس نے کہا : حضرت مجھے تو اتنا پیار ہی نہیں ،میں جھوٹ کیسے لکھوں ؟ حضرت کا جواب سنو ! فرمانے لگے : خاوند اور بیوی کا رشۃ وہ ہے کہ جھوٹ بول کر بھی اس کو خوش رکھے تو اس پر بھی ثواب ملتا ہے۔
ڈاکٹر عبد الحئ عارفی کا واقعہ
حضرت ڈاکٹر عبد الحئ عارفی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حکیم الامت کے خلیفہ تھے ، غالباً مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ایک گھر میں کھانے کے لئے گئے ، بہت اچھی دعوت تھی۔ کھانا کھایا۔ پردے میں خواتین بیٹھی تھیں، کھانا کھاکے اونچی آواز میں فرمایا : بھائی ! ہماری بیٹی سے کہو کہ تم نے بہت اچھا کھانا پکایا، ہمارا دل خوش ہو گیا، اس کو تو بہت سلیقہ ہے پکانے کا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ عورت کی چیخیں نکل گئیں اتنی روئی کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے پو چھا: بیٹی کیا ہوا؟ اس نے کہا: حضرت مجھے کتنے سال گزر گئے، یہ جملہ مجھے شوہر نے کبھی نہیں کہا ، جس کے لئے میں سب کچھ چھوڑا اس نے کبھی بھی مجھے یہ بات نہیں کہی۔ آج میں نے آپ سے یہ جملہ سنا ہے، میں کتنی خوش ہوں میں آپ کو کیسے بتاؤں ؟
اللہ تعالی ہمیں بھی صحیح معنوں میں اللہ کی ان بندیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
آمین یا رب العلمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین