قسط-10-حلم و بردباری

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط-10حلم و بردباری
اللہ تعالیٰ خود ”حلیم“ ہیں اور اپنے ”حلیم الطبع“ لوگوں سے محبت بھی فرماتے ہیں ۔چنانچہ قرآن کریم میں بعض انبیاء کرام اور اپنے نیک بندوں کی صفت حلم کی وجہ سے مدح و تعریف فرمائی ہے ۔حلم کے معانی بردباری اور نرمی اختیار کرنے کے آتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ میں ناموافق حالات میں نرمی اختیار کرنا اور ناگوار باتوں میں برداشت ، ضبط نفس اورغصے کو کنٹرول کرنا ”حلم و بردباری“ کہلاتا ہے ۔
یہاں اس بات کو بطور خاص ملحوظ رکھا جائے کہ حلم و بردباری کی حقیقت یہ ہے کہ انتقام کی طاقت اور قدرت کے باوجود غصے کو پی جانا، تواضع اختیار کرتے ہوئے نرمی کا برتاؤ کرنا اور عفو و درگزر سے کام لینا ”حلم و بردباری“ کا صحیح مفہوم ہے ۔ اگر انتقام لینے کی قدرت ہی نہیں ، بدلہ لینے کی طاقت اور سکت ہی نہ ہو یا کسی دنیاوی مفاد کی خاطر سختی کو برداشت کرلیا جائے تو یہ عمل ”حلم“ نہیں کہلاتا۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ صفت اپنی حلم سے پیش آتے ہیں ،اس لیے ان کے گناہوں، خطاؤں، لغزشوں اور غلطیوں سے باوجود قدرت کاملہ اور جزا و سزا اور عذاب دینے کی طاقت کے معاف فرما دیتے ہیں۔ ان کی غلطیوں ، گناہوں اور نافرمانیوں پر فوری گرفت نہیں فرماتے اور اسی وقت عذاب میں مبتلا نہیں کرتے بلکہ انہیں مہلت دیتے ہیں، اپنے انبیاء و رسل کو مبعوث فرماتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو گناہوں اور نافرمانیوں سے بچائیں ان کی اصلاح کریں انبیاء کرام کے بعد اولیاء اللہ اس عظیم مقصد میں انبیاء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں یہ سب کچھ اللہ کی شان حلم کی وجہ سے ہے۔خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےذاتی عمل سےحلم کا نمونہ پیش فرمایا اور اپنی تعلیمات میں اس پر بہت زور دیا ہے تاکہ معاشرہ میں امن و امان قائم رہے اور باہمی نفرتیں و عداوتیں محبت میں بدل جائیں ۔ چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ۔
صحیح بخاری ، باب الحذر من الغضب ، حدیث نمبر6114
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :طاقتور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی (پہلوانی) میں لوگوں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ)حقیقت میں (طاقتور وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے آپ پر قابو رکھے۔
2: عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللهُ عَنْها زَوْجِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِى عَلَى الرِّفْقِ مَا لاَ يُعْطِى عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لاَ يُعْطِى عَلَى مَا سِوَاهُ۔
صحیح مسلم ، باب فضل الرفق ، حدیث نمبر6766
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خود مہربان ذات ہے اور مہربانی کو پسند فرماتا ہے اور جو )انعامات و اعزازات( نرمی کرنے پر عطاء فرماتے ہیں وہ سنگدلی و سختی کرنے پر عطاء نہیں فرماتے ۔
3: عَنْ ابْنِ عُمَرَرَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ جُرْعَةٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللّهِ مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ كَظَمَهَا عَبْدٌ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللّهِ۔
سنن ابن ماجہ ، باب الحلم ، حدیث نمبر 4189
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصے کا وہ گھونٹ جسے کوئی بندہ اللہ کی رضا کے لئے پی لیتا ہے اللہ کے ہاں اس سے بڑھ کر ثواب والا کوئی گھونٹ نہیں۔
4: عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللّهُ عَلَى رُؤوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ۔
سنن ابن ماجہ ، باب الحلم ، حدیث نمبر 4186
ترجمہ: حضرت معاذ بن انس جُہنی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنا غصہ روک لیا جب کہ وہ غصہ (کے مطابق سختی) نافذ کرنے کی طاقت رکھتا تھا اسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب مخلوقات کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے مرضی پسند کر لے۔
5: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا جَمَعَ اللّهُ الْخَلَائِقَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نَادَى مُنَادٍ: أَيْنَ أَهْلُ الْفَضْلِ؟ فَيَقُومُ نَاسٌ وَهُمْ يَسِيرٌ، فَيَنْطَلِقُونَ سِرَاعًا إِلَى الْجَنَّةِ، فَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ فَيَقُولُونَ: إِنَّا نَرَاكُمْ سِرَاعًا إِلَى الْجَنَّةِ، فَمَنْ أَنْتُمْ؟! فَيَقُولُونَ: نَحْنُ أَهْلُ الْفَضْلِ. فَيَقُولُونَ: وَمَا فَضْلُكُمْ؟
فَيَقُولُونَ:كُنَّا إِذَا ظُلِمْنَا صَبَرْنَا، وَاِذَا أُسِيْءَ إِلَيْنَا عَفَوْنَا، وَإِذَا جُهِلَ عَلَيْنَا حَلُمْنَا فَيقَالَ لَهُمُ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ. قَالَ: ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ: أَيْنَ أَهْلُ الصَّبْرِ، فَيَقُومُ نَاسٌ وَهُمْ يَسِيرٌ فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى الْجَنَّةِ سِرَاعًا، فتلقاهم الْمَلَائِكَةُ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا نَرَاكُمْ سِرَاعًا إِلَى الْجَنَّةِ؟ فَمَنْ أَنْتُمْ؟! فَيَقُولُونَ: نَحْنُ أَهْلُ الصَّبْرِ. فَيَقُولُونَ: وَمَا صَبْرُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: كُنَّا نَصْبِرُ عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ- عَزَّ وَجَلّ- وَكُنَّا نَصْبِرُ عَنْ مَعَاصِي اللّهِ. فَيُقَالُ لَهُمُ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ۔
اتحاف الخیرۃ المہرۃ ، باب فی مجازات اھل الصبر واھل الفضل ، حدیث نمبر 7786
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: )قیامت کے دن (جب اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو جمع کرے گا تو ایک آواز لگانے والا پکارے گا اہل الفضل )فضیلت والا طبقہ (کہاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ جو تعداد میں زیادہ نہیں ہوں گے وہ اٹھیں گے اورجلدی جلدی جنت کی طرف چل پڑیں گے ، اس دوران ان کو فرشتے ملیں گے وہ ازراہ تعجب پوچھیں گے کہ کیا بات ہے کہ تم لوگ جلدی جلدی جنت کی طرف دوڑے جا رہے ہو؟ تم ہو کون ؟ وہ کہیں گے کہ ہم ”اہل الفضل“ ہیں ۔ فرشتے سوال کریں گے کہ تم میں باعث فضیلت کیا چیز ہے ؟وہ جواب دیں گے کہ جب ہم پر ظلم کیا جاتا تھا تو ہم صبر سے کام لیتے تھے ، جب ہمیں کوئی تکلیف دی جاتی تو ہم )باوجود طاقت اور قدرت کے ( غصہ کو کنٹرول کرتے تھے۔ فرشتے ان کی باتیں سن کر کہیں گےجنت میں تشریف لے چلوکیونکہ نیک اعمال کرنے والوں کے لیے یہ )جنت( بہت ہی اچھا ٹھکانہ ہے ۔
6: عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:وَجَبَتْ مَحَبَّةُ اللهِ عَلَى مَنْ أُغْضِبَ فَحَلُمَ.
الترغیب والترھیب للاصبہانی ، باب فی الترغیب فی الحلم، حدیث نمبر1185
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالی کی محبت اس شخص کے لیے یقینی طور پر ضروری ہو جاتی ہے جو غصہ کے وقت حلم بردباری سے کام لیتا ہے ۔
7: عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍرَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْحَلِيمَ الْحَيِيَّ الْغَنِيَّ الْمُتَعَفِّفَ، وَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ السَّائِلَ الْمُلْحِفَ»
الحلم لابن ابی الدنیا ، باب محبۃ اللہ للحلیم ، حدیث نمبر 54
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ باحیاء ، حلیم و بردبار شخص سے محبت فرماتے ہیں۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت ہے جن مواقع پر ضبط نفس اور حلم و بردباری کا حکم ہے اس سے مراد وہ امور ہیں جن کا تعلق دنیاوی معاملات سے ہے اگر معاملہ دینی حمیت و غیرت کا ہو یعنی مقدس شخصیات کی بے حرمتی ، اسلامی شعائر کی پامالی اور شرعی احکامات کا تمسخر اڑایا جا رہا ہو تو وہاں غصہ کا نہ آنا مذموم ہے ۔
آج ہمارے معاشرے میں مال و دولت اور سامان عیش و عشرت کی بہتات ہے، کمی ہے تو صرف انسانی و اخلاقی اقدار کی جن کےبغیر معاشرے میں محبتیں ، الفتیں اور باہمی خوشیاں نصیب نہیں ہو سکتیں،آئیے سب مل کرمعاشرے میں پھر سے وہ خوشیاں لائیں تاکہ دنیا و آخرت کی خوشحالی و کامیابی ہمارا مقدر بن سکے ۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
ملتان، پاکستان
16 مارچ، جمعرات ، 2017ء