اُمّ المُومنین سیدہ زینب بنت جحش

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اُمّ المُومنین سیدہ زینب بنت جحش
اجمالی خاکہ
نام زینب
کنیت ام الحکم
والد جحش بن رباب
والدہ اُمیمہ بنت عبدالمطلب
سن پیدائش بعثت نبوی سے20سال قبل
قبیلہ بنو اسد
زوجیت رسول 5 ہجری
سن وفات 20ہجری
مقامِ تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ
کل عمر 53سال تقریباً
نام ونسب:
آپ کا پیدائشی نام بَرَّہ تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرما کر زینب رکھ دیا،والدکی طرف سے سلسلہ نسب اس طرح ہے: زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرة بن مرة بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ۔ جبکہ والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: زینب بنت امیمہ بن عبدالمطلب بن ہاشم۔
ولادت:
آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے تقریباً 20 سال قبل ہوئی۔
خاندانی پس منظر:
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی والدہ اُمَیْمَہ خواجہ عبدالمطلب کی دوسری بیوی فاطمہ بنت عمرو کی بیٹی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ، حضرت علی کے والد ابو طالب، زبیر بن عبدالمطلب اور ان کے علاوہ عاتکہ، برہ، بیضاء اور اَرویٰ یہ سب فاطمہ بنت عمرو سے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی دو بیوہ بھابھیاں سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما (زوجہ عبیداللہ بن جحش) اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا (زوجہ عبداللہ بن جحش) ازواج مطہرات میں شامل تھیں۔
قبولِ اسلام:
آپ رضی اللہ عنہا ابتدائی طور پر اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔
پیغام نکاح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کادوسرا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کرنا چاہااور ان کے گھر پیغام بھیجا دیا۔ پیغام ملنے کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے بھائی عبدالرحمن بن جحش نے اس کوخاندانی فوقیت کے پیش نظر اور اُس وقت کے حالات کے تناظر میں اسے ناپسند سا خیا ل فرمایا کہ قریش کی ایک آزاد معزز خاتون کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سے ہو۔ چونکہ اُس وقت کی معاشرتی روش یہی تھی کہ دو ایسے خاندان جن میں مالی و خاندانی برتری و کمتری پائی جاتی ہو نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
بزرگی کا معیار تقویٰ ہے:
اسلام نے دنیا میں مساوات کی جو تعلیم رائج کی ہے اور خاندانی برتری و کمتری کی تفریق کو جس طریقے سے ختم کیا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتاہے۔ قریش اور خصوصاًخاندان بنی ہاشم کو کعبہ کا متولی ہونے کی وجہ سے عرب میں جو مقام حاصل تھا اس کے لحاظ سےشاہان یمن بھی ان کے ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتے تھے لیکن اسلام نے بزرگی کا معیار محض تقوی کوقراردیااور فخر ومباہات کو جاہلیت کا علامت ٹھہرایاہے۔
اس اسلامی کسوٹی پر دیکھا جائے تو اگرچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بظاہرغلام تھے لیکن چونکہ وہ تقویٰ و للہیت کے اعتبار سے ایک صالح مسلمان تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے پیغام نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے گھر بھیجا۔
تاہم حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور آپ کے گھر والے معاشرتی طور پر اسے پسند نہیں فرما رہے تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِيْنًا۔
 سورۃ احزاب آیت نمبر 36
ترجمہ: اورجب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ فرما دیں تو نہ کسی مومن مردکے لیے اور نہ ہی کسی مومنہ عورت کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو باقی رکھیں۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
نکاح کا انعقاد:
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور ان کے بھائی کو اس آیت کے نازل ہونے کی خبر لگی تو دونوں اس پر راضی ہوگئے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوجائے۔ چنانچہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے حضرت زینب کا نکاح فرمادیااور10دینار اور 60درہم حق مہر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کی طرف سے خود ادا فرمایا۔ چونکہ اس وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ایک فرد کی حیثیت سے رہتے تھے۔ شادی کے بعد ان کی الگ رہائش کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدہ مکان کا انتظام فرمایا، کھانے پینے اور پہننے کی بنیادی ضروریات زندگی کا بندوبست بھی فرمایا۔
نوٹ: فائدے کے طور پر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا مختصر تعارف ذکر کیا جاتا ہے تاکہ سارے واقعے کی صورتحال کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
زید بن حارثہ کا مختصر تعارف:
سیدنا زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے والد کانام حارثہ اور والدہ کا نام سُعدیٰ تھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت 8 برس تھی آپ اپنی والدہ کے ہمراہ ننھیال جا رہے تھے راستے میں قبیلہ قین کے چند لٹیروں نے آپ رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ سے چھین لیا اور مکہ کے بازار عکاظ میں بیچ دیا۔ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نےزید رضی اللہ عنہ کو 400د رہم میں خرید لیااور اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےہوا تو انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کوتحفے کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو آزاد فرما کر اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور وہ زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام سے پکارے جانے لگے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و شفقت نے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد حارثہ اور چچا کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ مکہ مکرمہ ان کو لینے کے لیے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو اختیار دیا کہ اگر وہ جانا چاہیں تو چلے جائیں لیکن اگر وہ نہ جانا چاہیں تو میں مجبور بھی نہیں کر سکتا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والد اور چچا اس بات سے بہت خوش ہوئے لیکن ان کی یہ خوشی تھوڑی ہی دیر میں تعجب میں تبدیل ہوگئی جب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اپنے والد اور چچا کو ساتھ چلنے سے صاف انکار کردیا۔ اور کہا کہ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم ( کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔)یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اس وقت حضرت زید کی عمر 15 برس تھی اور ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت نہیں فرمایا تھا (چنانچہ والد اور چچا واپس چلے گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو غلامی سے آزاد فرما دیا۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بچپن سے بلوغ میں قدم رکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی باندی’’ برکہ‘‘سے کردیا۔ جن کی کنیت اُمِ ایمن تھی۔
اُمِّ اَیْمَنْ کا مختصر تعارف:
آپ کا نام”برکہ“اور کنیت”ام ایمن“ہے۔سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے: برکہ بنت ثعلبہ بن عروہ بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان۔آپ رضی اللہ عنہا حبشہ کی رہنے والی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم جناب عبداللہ کی کنیز تھیں۔ حضرت عبداللہ کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والد ہ ماجدہ حضرت آمنہ سے منسلک ہوگئیں۔ جب حضرت آمنہ کی بھی وفات ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کی لگیں۔ چونکہ ام ایمن رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ کی کنیز تھیں۔ مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ ان کے سامنے ہوئی تھی،اس لئے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی تربیت اور پرورش کا شرف بھی حاصل تھا۔
سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے ابتداءً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کوقبول فرمایا۔ قبول اسلام کے بعد انتہائی مشکلات اور مصائب سے دو چار بھی ہوئیں آپ رضی اللہ عنہا نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی فرمائی۔ حبشہ سے واپس آئیں اور جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا تو سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت بھی کی۔
سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نہایت دلیر اور شجاعت کی پیکر تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں بھی شرکت کی اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ مشکیزہ کندھوں پر اٹھا کر زخمیوں کو پانی پلاتیں، مرہم پٹی کرتیں۔ غزوہ احد میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں پر جب آثار ہزیمت نمودار ہونا شروع ہوئے اور میدان جنگ سے ان کے پاؤں اکھڑ نے لگےتو ام ایمن رضی اللہ عنہا نے مسلمانوں کو اسلا می غیرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کا واسطہ دے کر کہا کہ موت سے بھاگ کر کدھر جارہے ہو؟ کیا موت میدان جنگ سے باہر نہیں آئے گی؟ میدان جنگ سے باہر کی موت ذلت اور بزدلی کی موت اور میدان جنگ کی موت شہادت اور عزت کی موت ہوگی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بات کا احساس نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان کارزار میں مخالفین کا مقابلہ کر رہے ہیں اور تم انہیں چھوڑ کر بھاگے جا رہے ہو،چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واپس پلٹے۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے غزوہ خیبرمیں بھی شرکت کی تھی اور مخالفین اسلام کا پورے زور اور ہمت سے مقابلہ کیا تھا۔
سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت عزت فرماتے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری والدہ کے بعد امِ ایمن میری والدہ ہیں ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ام ایمن میرے خاندان کا بقیہ ہیں۔
سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبید بن زید رضی اللہ عنہ سے ہوا جو حارث بن خزرج کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔عبید بن زید رضی اللہ عنہ نعمت اسلام سے مالا مال ہوئے اور جنگ حنین میں شہادت پائی۔ان کی شہادت کے بعد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے حضرت زید رضی اللہ عنہاکے بیٹے اسامہ پیدا ہوئے جوکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا کے نام سے مشہور ہیں۔
تکوینی واقعات میں مضمر ایک بڑی حکمت:
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد تقریباً ایک سال تک حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس رہیں۔ چونکہ اللہ کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے انتخاب کا فیصلہ فرماچکے تھے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے فوائد و مضمرات اور بھی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔اس لیے تکوینی طور پر ایسے واقعات صادر ہونا شروع ہوئے جو دونوں کی جدائی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن خدائی حکمتوں پر نظر رکھنے والوں کو اس میں بھلائی ہی نظر آتی ہے۔
طلاق دینے کا پس منظر:
ہوا یوں کہ نکاح کےبعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا مزاج روکھا روکھا رہا پھر کچھ عرصہ بعد اس روکھے پن میں مزید شدت آئی اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا رویہ ترش ہو گیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا مزاج مبارک چونکہ حلم وحوصلہ والا تھا اس لیے برداشت فرماتے رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یہ بحیثیت شوہر ہونے کے یہ شکایت تھی کہ ان کی اہلیہ کے دل سے احساس برتری مٹ نہیں سکا۔ چنانچہ ایک دن حضرت زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اوراس ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ بطور مشورہ کے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں زینب کو طلاق دے دوں؟
نبوی مشورہ اورپوشیدہ امر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ لیکن ان سے نکاح کرنے کی ابھی تک واضح طور پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو وہی مشورہ دیا جائے جوایسے حالات میں زوجین کو دیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللهَ۔
ترجمہ: اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں ہی رہنے دو اور اللہ سے ڈرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید سے اس بات کا اظہار نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما رکھا ہے کہ زید تم اپنی بیوی کو طلاق دو گے اور اس کے بعد بحکم الہٰی وہ میری بیوی بنے گی۔ اس بات کا تذکرہ سورۃ احزاب کی آیت نمبر 37 میں موجود ہے۔
تُخْفِي فِي نَفْسِكَ
کہ آپ اپنے دل میں یہ بات چھپائے ہوئے تھے۔
بالآخر طلاق ہو گئی:
جیسےکاتب تقدیر نے لکھا تھا ویسے ہی ہوا،حضرت زید اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہما کے ایک سالہ ازدواجی سفر کا اختتام ہوا،5 ہجری میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔
زینب ام المومنین بنتی ہیں:
5 ہجری ذیقعدہ کا مہینہ تھا سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 38 سال ہوچکی تھی،طلاق کے بعد ایام عدت پورے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ زید!آپ جاؤ اور زینب کو میری طرف سے پیغام نکاح دے دو۔چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ فوراً حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مکان کی طرف چل پڑے۔ ابھی پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، خودفرماتے ہیں:جب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچا تو وہ میری نگاہ میں نہایت قابل عزت و احترام تھیں کہ میں ان کی طرف نظر نہ اٹھا سکا یہاں تک کہ ادب و احترام کی وجہ سے میں ان کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوا اور کہا:”آپ کے لیےبہت بڑی خوشخبری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کو نکاح کا پیغام دوں۔”
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتی یہاں تک کہ میں اپنے رب سے اس بارے مشورہ نہ کرلوں اور پھر اٹھ کر نماز استخارہ  پڑھنا شروع کی۔
ادھردوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنا شروع ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:’’ کون ہے جو زینب کو یہ خوشخبری سنائے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح ان سے کر دیا ہے’’ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ احزاب کی یہ آیت تلاوت فرمائیں:
فَلَمَّا قَضي‏ زَيْدٌ مِنْها وَطَراً زَوَّجْنٰکَها لِکَيْ لَا يَکُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنيْنَ حَرَجٌ فِيْ‏ أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَ کانَ أَمْرُ اللهِ مَفْعُوْلاً۔
’’جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کر لیا تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کرا دیا تاکہ مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سےنکاح کرنے میں اُس وقت کوئی تنگی نہ رہے جب انہوں نے اپنی بیویوں سے تعلق ختم کر لیا ہو اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اس پر تو عمل ہو کر ہی رہنا تھا۔”
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ موجود تھیں، انہوں نے سنا تو وہ خوشخبری سنانے کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئیں۔ اور فرمایا:اے زینب! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آسمانوں پر کردیا ہے۔آپ رضی اللہ عنہا نے جب یہ عظیم ترین خوشخبری سنی تو آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے زیور اتار کر حضرت سلمی رضی اللہ عنہا کو دے دیے۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور نذر مانی کہ میں دو ماہ روزہ رکھوں گی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور 400 درہم حق مہر ادا کیا۔
دعوتِ ولیمہ:
نکاح کے دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت رکھی۔ ایک بکری ذبح فرما کر ولیمہ کیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوولیمہ کیا اس سے بہتر ولیمہ کسی اور بیوی سے شادی کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکری ذبح فرمائی اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حریرہ ) عرب کی مشہور سوغات (بناکر ایک برتن میں بھیج دیا اور تقریباً 300 افراد نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جاؤ فلاں فلاں کو اور ان کے علاوہ جو تم کو ملےولیمہ کے لیے بلا کر لاؤ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمے میں آنے کی دعوت دی۔ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر لوگوں سے بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا کہ دس دس کا حلقہ بنالو اور ہر شخص اپنی طرف سے کھائے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ نے اپنا دستِ مبارک اس کھانے میں رکھا اور برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد اس میں اتنی برکت ہوئی اتنی برکت ہوئی کہ سب لوگوں نے خوب سیر ہوکرکھالیا کھانا تب بھی ختم نہ ہوا۔ جب سب لوگ کھا چکے تو مجھے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انس! اس کھانے کو اٹھا لو!حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب میں نے اسے اٹھایا تو میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ جب یہ کھانا میں نے لوگوں کے سامنے کھانے کے لیے رکھا تھا اُس وقت زیادہ تھا یا اب زیادہ ہے۔؟ اس میں اتنی برکت ہوئی کہ سینکڑوں آدمیوں کے کھالینے پر بھی بچ گیا۔ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ معلوم ہوتا تھا۔
پردے کے حکم کا نزول:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پردہ کا حکم کب، کہاں اور کیوں اترا؟ اس بات کو سب لوگوں سے زیادہ میں جانتا ہوں۔ فرماتے ہیں:’’ سب سے پہلے پردہ کا حکم اس وقت نازل ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے نکاح کے بعد دوسرے روز ولیمہ کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا۔ لوگ آئے اور کھانا کھا کر چلے گئے لیکن چند آدمی وہیں باتیں کرتے ہوئے رہ گئے اور بہت دیر لگادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہت تکلیف سی پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ یہ لوگ بھی چلے جائیں لیکن مروت کی وجہ سے ان کو کچھ کہہ نہ سکے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں کیا کہ خود وہاں سے چل دیے تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔
حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے، کچھ دیر بعد واپس آئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ شاید اب وہ لوگ بھی چلے گئے ہوں گے۔واپس آکر دیکھا کہ وہ لوگ ابھی تک بیٹھے ہوئے تھے ہیں۔ اس سارے واقعے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ دوسری مرتبہ آکر دیکھا تو لوگ چلے گئے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے تھوڑی دیر بعد باہر واپس تشریف لائے اور یہ آیت حجاب تلاوت فرمائی جو اسی وقت نازل ہوئی تھی:
يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَکُمْ إِلي‏ طَعامٍ غَيْرَ ناظِرينَ إِناهُ وَ لٰکِنْ إِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَأْنِسِيْنَ لِحَديْثٍ إِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيي‏ٰ مِنْکُمْ وَ اللهُ لا يَسْتَحْيِيْ‏ مِنَ الْحَقِّ وَ إِذَا سَأَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعاً فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجابٍ ذٰلِکُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ۔
ترجمہ: اےایمان والو! نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرومگریہ کہ تمہیں کھانے پر آنے کی دعوت دے دی جائےوہ بھی اس طرح کہ تم اس کھانے کی تیاری کے انتظارمیں نہ بیٹھے رہو۔ لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤپھر جب کھانا کھا چکو تو اپنی اپنی راہ لواور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو، حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے، اور وہ تم سے (کہتے ہوئے) شرماتے ہیں، او ر اللہ حق بات کہنے میں کسی سے نہیں شرماتا۔ اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو توتو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہو گا۔
اس آیت مبارکہ میں پردے کے بارے خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہے۔ لیکن حکم عام ہے ساری امت کے لیے ہے۔
نوٹ:
اس سے پہلے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں بھی پردے کے نزول کا تذکرہ ہوا، اور یہاں سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے حالات میں بھی پردے کے نزول کے احکام کا تذکرہ ہے۔ اس بارے ہم سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں وہاں دیکھ لیا جائے۔
امتیازی خصوصیات:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا دیگر ازواج مطہرات پر بطور فخر کے فرماتیں کہ تمہارے نکاح تمہارے گھر والوں نے کرائے میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں سے اوپر خودکرایا۔
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ زینب اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں اپنے اپنے طور پر فخر کیا کرتی تھیں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتیں: میں وہ ہوں جس کا نکاح آسمان پر ہوا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں: میں وہ ہوں جس کی عفت و آبرو کی گواہی آسمان سے آئی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں آپ کو وہ تین باتیں بتاتی جو میرے علاوہ آپ کی کسی بیوی کو حاصل نہیں۔

1.

میرا اور آپ کا دادا ایک ہے۔ یعنی عبدالمطلب

2.

میرا آپ کے ساتھ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر کرایا ہے۔

3.

اور ہمارے اس خدائی نکاح کی خوشخبری دینے والا جبرائیل امین ہے۔
خدا خوفی:
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بھی آپ کے قریب پردے ہی میں  تشریف فرما تھیں، سیدہ زینب نے کوئی بات کہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو منع کیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عمر !زینب سے درگزر کرو، یہ اَوّاہ ہیں یعنی عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے حضور آہ و زاری سے دعائیں مانگنے والی ہیں 
ایک حدیث میں ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:میں نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو خشوع و خضوع کرنے والا نہیں دیکھا۔
فائدہ:
یہاں یہ سمجھ لیں کہ زبان سے اظہارِ عاجزی کو” خشوع“ کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ طٰہٰ آیت نمبر 108میں ہے:
وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ۔
ترجمہ: اور خدائے رحمان کے سامنے سب آوازیں دب کر رہ جائیں گی۔
جبکہ اپنے اعضاء جسمانی سے عاجزی کے اظہارکرنا مثلاً بدن کو جھکانا، نظریں اور آواز پست کرنا الغرض ہر ادا سے بے چارگی کا اظہار کرنے کانام” خضوع” ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ الشعراء آیت نمبر 4 میں ہے:
إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاءِ آیَۃً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِیْنَ۔
ترجمہ: اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانی اتاریں کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھک کر رہ جائیں۔
اتباعِ شریعت:
زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوا تو میں ان کے گھر گئی۔ انہوں نے مجھے خوشبوسنگھائی اور فرمایا: واللہ! مجھے خوشبو لگانے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنی والی کسی مومن خاتون کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرےما سوائے اس عورت کے جس کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔
فائدہ نمبر1: یہاں چار ماہ سے قمری مہینےیعنی چاند کے مہینے مراد ہیں۔
فائدہ نمبر2: مذکورہ حدیث میں شوہر کے فوت ہونے پر جو عدت بیان کی گئی ہے وہ اس عورت کی ہے جو حاملہ نہ ہو۔ اگر حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل بچہ جننے تک ہے۔ عدت کے مزید احکامات میری کتاب” مسلمان عورت” میں ملاحظہ کریں۔
سوکنوں کی گواہی:
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ آپ کی سوکنیں امہات المومنین نے بھی فرمایا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بڑھ کرکوئی عورت زیادہ دین دار، پرہیزگار، زیادہ راست گفتار، زیادہ جود وسخا کی مالک،اللہ کے راہ میں خرچ کرنے اور رضائے الہی کو حاصل کرنےکےلیےآپ رضی اللہ عنہا سےزیادہ سرگرم نہیں دیکھی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے وصال کی خبر سن کر مدینہ منورہ کے غریبوں، فقیروں اور مسکینوں میں غم کی لہر دوڑ گئی اور وہ گھبرا گئےکہ ان کے بعداس قدر ہمارا پرسان حال اور کون ہو گا؟
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ایک خوب صورت خاتون تھیں، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے آپ رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتے تھے۔ صالح، روزہ دار اور شب بیدار تھیں۔
سخاوت و دریا دلی:
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سخاوت و دریا دلی میں بہت مشہور تھیں جو کچھ ہوتا راہ خدا میں خرچ کر دیتیں۔ آپ کی سخاوت کا اندازہ اس ایک واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں 12000 دراہم بھیجے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ کی بخشش فرمائے، میری دوسری بہنیں امہات المؤمنین مجھ سے زیادہ اس نوازش کی حق دار ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے بھی الگ بھیجاہے، یہ سب آپ ہی کا ہے۔فرمانے لگیں: سبحان اللہ! پھر اسے ایک کپڑے سے چھپا کرڈھانپ دیا اوربرزہ بنت رافع کو کہا کہ اس کو لوگوں میں بانٹ دو، اُن لوگوں میں سے کچھ آپ رضی اللہ عنہا کے عزیز بھی تھے اور کچھ مسکین و یتیم لوگ بھی تھے۔انہوں نے آپ کے حکم پر لوگوں میں تقسیم کیا اس کے باوجود بھی کچھ رقم بچ گئی تو برزہ بنت رافع نے کہا: اس میں ہمارا بھی حق ہے۔سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو کپڑے کے نیچے باقی ہے، سب آپ کا ہے۔اس میں85 درہم باقی تھے۔
وفات کا اشارہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا: تم میں سے وہ مجھے جلد ملے گی جس کا ہاتھ لمبا ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنے اپنے ہاتھ ناپنے لگیں۔ اس میں لمبا ہاتھ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدامہات المومنین میں سے سب سے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو امہات المومنین سمجھ گئیں کہ لمبے ہاتھ سے مراد سخاوت اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ کیونکہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سخاوت و دریا دلی میں سب سے آگے تھیں۔
وصیت نامہ:
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اپنا کفن بھی خود تیار کر کے رکھا ہوا تھا وفات سے کچھ دن پہلے آپ رضی اللہ عنہا نے وصیتیں کیں۔
نمبر1: میں نے اپنا کفن تیار کیا ہوا ہے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے لیے کفن بھیجیں تو ان دو میں سے ایک کفن صدقہ کردینا۔
نمبر 2: میری لاش اس چارپائی پر لے کر جانا جس چارپائی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا گیا تھا۔
نمبر 3: میرے جنازے کے پیچھے آگ نہ لے جائی جائے اور میری قبر بقیع میں عقیل اور ابن حنیفہ کے گھر کے درمیان کھودی جائے۔
نمبر 4: جب مجھے قبر میں اتار دیا جائے تو اگر میرا پٹکا خیرات کرسکو تو کردینا۔
نوٹ: پٹکا اس کپڑے کو کہتے ہیں جو لاش کی کمر میں ڈال کر قبر میں اتارے جانے کے کام آتا ہے۔
وفات:
آپ رضی اللہ عنہا کی وفات 20 ہجری کو ہوئی، آپ کی کل عمر 53 سال کے قریب تھی۔
جنازہ:
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا جب وصال ہوا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اعلان کرایا: اے اہل مدینہ! اپنی ماں کے جنازے میں شرکت کرو۔ چنانچہ جنازے میں اہلیان مدینہ نے کثرت سے شرکت کی۔ جس دن آپ نے وفات پائی وہ سخت گرمی کا دن تھا۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قبر پر ایک شامیانہ لگوادیا تاکہ قبر کی تیاری اور سیدہ کی تدفین میں لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔یہ بھی یاد رہے کہ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا شامیانہ تھا جو کسی قبر پر نصب کیا گیا تھا۔اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختصر سا خطبہ بھی ارشاد فرمایا جس میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی تیمارداری،غسل، تجہیز وتکفین اور تدفین کے بارے امہات المومنین رضی اللہ عنہن کا پیغام سنایا اور آپ نے4تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔
تدفین:
عام لوگوں کو سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کے پاس سے ہٹادیا گیا چنانچہ آپ کےتین بھانجوں محمد بن عبداللہ بن جحش، عبداللہ بن ابی احمد بن جحش، محمد بن طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قبر جنت البقیع کے قبرستان میں اتارا۔
…… ……