سورۃ مریم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ مریم
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ کٓہٰیٰعٓصٓ ۟﴿ۚ۱﴾ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾ قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾﴾
ہمارے آج کے درس قرآن کا عنوان ہے مضامینِ سورت مریم۔ سورت مریم کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کا ذکر ایک تو پارہ نمبرسولہ سورت مریم میں ہے اور ایک پارہ نمبر تین سورت آل عمران میں ہے۔ ان دو جگہوں پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اجمال و اختصار کے ساتھ دو اور مقاما ت پر بھی ذکر فرمایا ہے۔
حضرت مریم کے ذکر سے پہلے یحییٰ اور حضرت زکریا کا تذکرہ کیوں؟
حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کا ذکر حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر سے پہلے کیا ہے، بظاہر آدمی کے ذہن میں آتا ہےکہ سورت کا نام ”سورت مریم“ ہے تو اس میں حضرت مریم کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اس کی ایک دو وجوہات ذہن نشین فرمالیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے خالو ہیں، حضرت مریم کی والدہ کا نام حنہ تھا اور حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی کانام ایشاع یا الیشع تھا۔ یہ دونوں آپس میں بہنیں تھیں۔ تو حضرت مریم کے ذکر سے پہلے حضرت زکریا کا ذکر کیا جائے تو یہ خاندان ہی کا ذکر ہے کسی اور کا ذکر تو نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کا بچپن حضرت زکریا علیہ السلام کی تربیت میں گزرا ہے۔ حضرت زکریا نے پرورش کی ہے حضرت مریم علیہا السلام کی۔ جب حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر آئے گا تو میں اس میں تفصیل سے عرض کروں گا۔
حضرت مریم کی والدہ کا نذر ماننا:
یہ آپ کے علم میں ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ امید سے تھیں، انہوں نے منت مانی تھی :
﴿رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّی﴾107F
آل عمران 3: 35
اے میرے رب! میں نے نذر مانی ہے کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اس کو ہر کام سے آزاد کر کے تیرے لیے وقف کروں گی۔
میں اس کو تیرا دین سیکھنےکے لیے وقف کر دوں گی لیکن جب ان کے ہاں پیدائش ہوئی تو وہ بیٹا نہیں بلکہ بیٹی تھی تو حضر ت مریم علیہا السلام کی والدہ نے بڑی حسرت کے ساتھ کہا:
﴿اِنِّیۡ وَضَعۡتُہَاۤ اُنۡثٰی﴾
کہ میرا خیال تھا کہ بیٹا ہوتا تاکہ تیرے دین کے لیے وقف کرتی، یہ دین کو پڑھتا اور دین کا کام کرتا لیکن میرے ہاں تو بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے۔ اللہ رب العزت نے جو ان کو جواب دیا وہ بڑا پیارا ہے۔ فرمایا:
﴿وَلَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی﴾
اس آیت کا مطلب سمجھیں، فرمایا کہ جو لڑکا تو نے مانگا تھا وہ کمالات اور برکات میں اس لڑکی کی طرح نہیں ہے جو ہم نے تمہیں دی ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے لڑکااپنی حیثیت کے مطابق مانگا تھا اور اللہ نے لڑکی اپنی شان کے مطابق دی ہے۔ اب ان کی سوچ اپنی ہے اور اللہ رب العزت کے فیصلے اپنے ہیں۔
پھر حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر قرآن کریم میں اللہ نے کئی بار فرمایا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کس قدر عظیم خاتون ہیں کہ جن کے بطن سے اللہ نے بغیر شوہر کے بیٹا عطافرمایا اور بیٹابھی نبی ہے اوروہ بھی مادر زاد نبی۔ آپ یہ تو سنتے ہیں کہ فلاں بندہ مادر زاد ولی ہے لیکن یہ بھی سنیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادر زاد نبی ہیں۔ عام طور پر اللہ کسی بھی بندےکے لیے نبی ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو اس کی عمر کے چالیس سال کے بعد اس سے اعلان نبوت کرواتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بتیس سال کی عمر میں زمین سے آسمان پر بھی چلے گئے تھے تو یہ پیدائشی نبی ہیں، بتاؤ! کس قدر اللہ کا انعام ہے۔
اور تاریخ میں کئی ایسے بچے گزرے ہیں جنہوں نے اس عمر میں گفتگو کی جس میں بچہ بول نہیں سکتا لیکن جس کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے اس کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ انہوں نے بچپن میں ماں کی گود میں کلام کیا ہے اور بڑے ہوکر بھی کریں گے اور نزول کے بعد جب زمین پر تشریف لائیں گے توپھر دوبارہ گفتگو فرمائیں گے ان شاء اللہ۔ اگر ہماری زندگی میں اللہ انہیں لے آئے تو دعا کریں کہ اللہ ہمیں ان کا سپاہی بننے کی توفیق عطافرمائے اور اگر ہماری زندگی میں نہ آئیں تو اپنی اولاد کو یہ وصیت کرکے جائیں کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی آئیں تو بیٹا! آپ نے ان کا ساتھ دینا ہے۔
تو حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر سے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر اس لیے کیا کہ حضرت مریم حضرت زکریا کی تربیت میں رہی ہیں۔
حضرت مریم کی کفالت کے لیے قرعہ اندازی:
حضرت مریم علیہا السلام پیدا ہوئیں، چلنے کے قابل ہوئیں، سنِ شعور کو پہنچیں تو آپ کی والدہ نے آپ کو لیا اور بیت المقدس جو اس وقت کا مدرسہ تھا، وہاں لے گئیں اوربیت المقدس میں اس زمانےمیں تورات پڑھائی جاتی تھی، اس وقت آسمانی کتاب تورات تھی،تورات کو لوگ پڑھتے اور لکھتے تھے، حضرت مریم علیہا السلام کا خاندان دینی و علمی اور معاشرتی شرافت کا حامل خاندان تھا۔ تو حضرت مریم علیہا السلام کو ان کی والدہ لے کر گئیں۔ تو وہاں جو علماء تھے تورات کو سمجھنے والے اور تورات کو جاننے والے ان میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ حضرت مریم علیہا السلام اس کی پرورش میں رہیں، اچھے شریف خاندان کی بیٹی ہے، اس بیٹی کی تربیت ہم کریں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ اَیُّہُمۡ یَکۡفُلُ مَرۡیَمَ﴾108F
آل عمران 3: 44
اے پیغمبر! آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ لوگ قرعہ اندازی کے طور پر اپنی قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے؟
فیصلہ یہ ہوا کہ قرعہ اندازی کریں او ر قرعہ اندازی کا طریقہ بڑا عجیب تھا، طریقہ یہ تھا کہ وہاں قریب ایک دریا گزرتا تھا تو جن قلموں سے تورات کو لکھتے تھے ہر عالم اپنے اپنے قلم کو اس دریا میں ڈالے تو جس کا قلم پانی کی مخالف سمت چل پڑے گا تو وہ مریم کی کفالت کرےگا۔ انہوں نے اپنا اپنا قلم ڈالا تو حضرت مریم کی کفالت کے لیے حضرت زکریا علیہ السلام کا قلم اس طرف چلا جہاں سے پانی آرہا تھا یعنی مخالف سمت پر۔ تو حضرت مریم حضرت زکریا علیہ السلام کی کفالت میں آگئیں۔
بے موسم کے پھلوں کی آمد:
حضرت زکریا علیہ السلام چونکہ اللہ کے نبی تھے، دعوت دینےکے لیے اور امت کو دین سمجھانےکے لیے جایا کرتے تھے۔ بیت المقدس کے محراب میں جو کمرہ تھا وہاں حضرت مریم کو چھوڑ کر دروازہ بند کر کے چلے جاتے تھے اور واپس آکر ان کو سبق پڑھا نا ہوتا تھا۔ جب واپس تشریف لاتے تو آپ نے کئی مرتبہ دیکھا کہ حضرت مریم کے پاس بے موسم کے پھل موجود ہیں، موسم نہیں ہے پھل کا لیکن پھل موجودہے۔ اس کا تذکرہ اللہ نے سورت آل عمران میں کیا ہے :
﴿کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الۡمِحۡرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزۡقًا ۚ قَالَ یٰمَرۡیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ﴾109F
آل عمران 3: 37
وہاں بغیر موسم کے پھل دیکھا تو حضرت مریم علیہا السلام سے کہا کہ اے مریم! یہ پھل کہاں سے آئے؟ انہوں نے جواب دیا: ﴿ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ﴾ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔
”عند اللہ“ قرآنی اصطلاح ہے:
یہاں یہ ضابطہ سمجھ لیں۔ اصل میں اس ”عند اللہ “کے لفظ پر کئی گھنٹے چاہئیں تاکہ میں آپ کو کئی عقائد سمجھاؤں۔ اس ایک لفظ کے سمجھنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے کئی عقائد حل ہوتے ہیں۔ صرف ایک لفظ سمجھ لیں۔ حضرت مریم علیہا السلام نے کہا:
﴿ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ﴾
یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
آپ بتائیں! جو کھانا حضرت زکریا علیہ السلام روزانہ دیتے تھے تو وہ کھاناکس کی طرف سے تھا؟ (اللہ کی طرف سے۔ سامعین) تو پھر یہ کیوں کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہرچیز کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے لیکن ضابطہ یہ ہے کہ جب اللہ کسی چیز میں ظاہری ملکیت انسان کی رکھ دیں تو اس میں نسبت انسان کی طرف ہوتی ہے، اللہ کی طرف نہیں ہوتی، مثال سمجھیں:
یہ گھر اللہ رحمٰن کا اور یہ عبد الرحمٰن کا:
ایک آدمی نے ایک کنال زمین خریدی۔ اس نے اس کنال میں سے پانچ مرلے میں مسجد بنا کر وقف کردی اور باقی پندرہ مرلے میں اپنا مکان بنا لیا۔ جب یہ دونوں مکان بن جاتے ہیں تو پوچھا جائے کہ یہ مکان کس کا ہے؟ وہ کہے گا: یہ اللہ کا گھر ہے، اور یہ پندرہ مرلے والا مکان کس کا ہے؟ یہ بھائی عبدالرحمٰن کا گھر ہے۔ تو یہ نام بدل کیوں گیا ہے؟ اس لیے کہ یہ جو بھائی عبدالرحمٰن کا گھر ہے اس پر ظاہری ملکیت بھی اس کی ہے جبکہ حقیقی مالک تو اللہ ہیں اور مسجد کے معاملے میں حقیقی مالک بھی اللہ اور ظاہری ملکیت بھی اللہ کی ہے۔ تو جہاں بندے کے اختیارات ختم ہوجاتے ہیں وہاں قرآن کریم میں نسبت آتی ہے ”ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ“۔ اگر آپ حضرات کو یاد ہو تو میں کچھ گفتگو اس پر پہلے دوسرے پارے میں کرچکا ہوں۔
تو حضرت مریم علیہا السلام فرمانے لگیں:
﴿ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴾
یہ اللہ کی طرف سے ہے، اللہ جس کو چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:
﴿ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۸﴾﴾110F
آل عمران3: 38
حضرت زکریا علیہ السلام کی عمر بعض روایات کے مطابق ننانوے سال یا اس سے بھی زیادہ تھی اورحضرت زکریا کی بیوی جوانی ہی میں بانجھ تھیں، ان کے ہاں اولاد کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور اب تو تھیں ہی بوڑھی۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے پاس بے موسم کے پھل کو دیکھا تو سجدے میں گرے اور اللہ سے دعا مانگی:
﴿رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً﴾
اے اللہ! تو اپنی طرف سے مجھے نیک اور پاکیزہ اولاد عطا فرما دے جس طرح بغیر موسم کے آپ مریم کو پھل دے سکتے ہیں تو بغیر موسم کے اللہ مجھے بھی اولاد والا پھل عطا فرما دے۔
ولی کی کرامت دیکھ کر ولی کے خدا سے مانگیں!
اب یہاں ایک بات سمجھیں! حضرت مریم نبی نہیں ہیں بلکہ اللہ کی ولی ہیں، ہم نبی سے معجزہ اور ولی سے کرامت کے قائل ہیں۔ نبی کی نبوت بھی مانتے ہیں اور معجزہ بھی مانتے ہیں، ولی کی ولایت بھی مانتے ہیں اور ولی کی کرامت بھی مانتے ہیں، نہ نبی کا معجزہ نبی کے اختیا ر میں ہوتاہے اور نہ ولی کی کرامت ولی کے اختیار میں ہوتی ہے۔ اللہ چاہیں تو نبی کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر فرما دیں، چاہیں تو ظاہر نہ فرمائیں، ولی کے ہاتھ پر چاہیں تو کرامت ظاہر فرما دیں اور چاہیں تو کرامت ظاہر نہ کریں۔ حضرت مریم ولی ہیں، نبی نہیں ہیں۔ بے موسم کے پھل ملنا ان کی کرامت ہے۔حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کی کرامت کو دیکھا تو کرامت کا انکار نہیں کیا بلکہ کرامت کو مان لیا لیکن مریم کی کرامت کو دیکھ کر مریم سے نہیں مانگا بلکہ مریم کے خدا سے مانگا ہے۔ اب اس سے ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ بعض لوگ دنیا میں ولی کی کرامت کو مانتے ہیں اور ولی سے مانگتے ہیں، عیسائی حضرت مریم سے مانگتےہیں، آپ چرچ میں جاکر دیکھ لیں وہ بی بی مریم سے مانگتے ہیں اور بعض لوگ ولی کی کرامت کو مانتے ہیں اور پھر ولی کے خدا سے مانگتے ہیں، ولی کی کرامت کو مان کر ولی سے مانگنا یہ عیسائیت ہے اور ولی کی کرامت کو مان کر ولی کے خدا سے مانگنا یہ اسلام ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:
حضرت زکریا علیہ السلام نے ولی کی کرامت کو مانا اور مانگا اللہ سے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی ہے، ایک دعا سورت آل عمران میں صرف اتنی ہے:
﴿رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً﴾
کہ اےاللہ! تو مجھے نیک اولاد عطا فرما دے۔ میں پہلے ان کی دعا پر بات کر لوں، دعا کی قبولیت پر بات بعد میں ہوگی۔ پہلے ذرا دعا سمجھ لیں، اور جو دعا سورت مریم میں مانگی ہے اس میں حضرت زکریا علیہ السلام کی تمہید ہے، پہلے انہوں نے اللہ سے باتیں کی ہیں:
﴿اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾﴾
جب انہوں نے اپنے رب کو چپکے سے پکارا۔
اللہ سے دعا مانگی ہے تو اونچی آواز سے نہیں مانگی بلکہ آہستہ آہستہ دعا کی ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں کہ اس کو مانگتے ہوئے انسان کو جھجک محسوس ہوتی ہے، اب زکریا علیہ السلام بوڑھے ہیں، بیوی بانجھ ہے تو دعا بھی مانگ رہے ہیں اور ساتھ چونکہ خود بھی تعجب ہے کہ یہ میں کیسی دعا مانگ رہا ہوں تو دعا میں یہ فرما رہے ہیں:
﴿رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا﴾
اے اللہ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اورمیرے سر میں سفید ی چھا گئی ہے، بڑھاپا آ گیا ہے۔
﴿وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾﴾
اور اے اللہ! میں نےجب بھی آپ سے مانگا تو آپ نے میر ی دعا کو قبول فرمایا، اب بظاہر جو دعا میں مانگنے لگا ہوں کوئی آثار نہیں ہیں کہ مجھے ایسی چیز ملنی چاہیے لیکن آپ نے ہمیشہ مجھے نوازا ہے۔ میں یہ دعا اس لیے مانگ رہا ہوں کہ:
﴿وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ﴾
میرے جو رشتہ دارہیں یہ دینی معاملات میں میرا ساتھ نہیں دیتے، مجھے ڈر ہے کہ میرے جانے کے بعد میری اس دعوت کو او ر میرے علم کو میرے رشتہ دار چلا نہیں سکیں گے، مجھے موت کے بعد اس کے ضائع ہونے کا خطر ہ محسوس ہو رہاہے۔
﴿وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾ یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ﴾
میری بیوی بانجھ ہے۔ اے اللہ! مجھے کوئی ایسا وارث عطافرمادیں جو میرا بھی وارث بنے اور یعقوب علیہ السلام کی اولاد کا بھی وارث بنے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کی جامعیت:
حکیم الامت مجدد الملت حضر ت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر بیان القرآن میں بہت پیاری بات لکھی ہے کہ یہ کیوں فرمایا کہ میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو۔ فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہےکہ ایک تودعا مانگنا چاہتے ہیں کہ اللہ ایک تو جو میرا مخصوص علم ہے یہ بھی اس کے پاس ہوں اور جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی آل کے پاس علم ہے وہ بھی اس کے پاس ہو، اس کو دونوں قسم کے علوم عطا فرما دے۔ تو ایسا کہنا جامعیت کی وجہ سے تھا کہ دونوں علوم کا جامع ہو۔
انبیاء کے مال میں وراثت نہیں چلتی:
اب یہاں پر ایک مسئلہ سمجھ لیں! ہمارا مسلک یہ ہے کہ نبی کے رشتہ دار اور نبی کے خاندان کے لوگ نبی کی وفات کے بعد نبی کے مال کے وارث نہیں ہوتے اور بعض لوگوں کی رائے یہ ہے -جن کا ہم سے تعلق نہیں ہے- کہ پیغمبر کےجانے کے بعد پیغمبر کی اولاد وارث ہوتی ہے۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی ہےکہ اے اللہ! مجھے بیٹا دے جومیرا وارث ہو۔ اگر نبی کا وارث نہیں ہوتا تو زکریا علیہ السلام نے دعا کیوں مانگی ہے؟ تو وہ کہتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کا وارث ہوتا ہے۔
ہم کہتےہیں کہ نبی کا مالی وارث کوئی نہیں ہوتا اس پر تو بہت سے دلائل موجود ہیں۔ یہاں ایک دو دلیلیں سن لیں کہ وارث کیوں نہیں ہوتا؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ دلیل ارشاد فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کےبعد یہ بحث چلی کہ پیغمبر کا جو باغ فدک تھا خیبر والا اس کا کیا بنےگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھر کے اخراجات کے لیے جو باغات تھے ان کا وارث کون بنے گا؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ حدیث سنی ہے :
" إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ."111F
المعجم الاوسط للطبرانی: ج3 ص276 رقم الحدیث4578
فرمایا کہ ہم نبیوں کے گروہ ہیں، ہمارے مال میں کوئی وارث نہیں ہوتا، جو مال نبی چھوڑ کر جائے وہ امت کے لیے صدقہ بن جاتاہے۔
اور ایک روایت ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے، اگر کوئی شخص آپ کے خلاف پیش کرے تو آپ اس کا جواب بھی ذہن نشین فرمالیں۔ روایت یہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں کہ باغ فدک اور خیبر کی زمینوں میں ہمارا حصہ ہے، آپ ہمیں دے دیجئے! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فاطمہ! اللہ کے نبی تمہارے والد کا ارشاد ہے کہ
”لَا نُوْرَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ“
کہ نبی کا کوئی وارث کوئی نہیں ہوتا، نبی جو مال چھوڑ کر جاتا ہے وہ امت کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا خاموش ہو گئیں حتی کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ 112F
صحیح البخاری، رقم: 6726
اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور دوبارہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کا مطالبہ نہیں کیا کیونکہ مسئلہ ان کو سمجھ آگیا۔
تو جن کا تقاضا تھا انہوں نے چھوڑ دیا کیونکہ مسئلہ ان کو سمجھ میں آ گیا تھا اور جن کا تقاضا نہیں ہے وہ چودہ سو سال ہوگئے ابھی تک لڑ رہے ہیں کہ ابوبکر صدیق نے -العیاذ باللہ- وراثت پر قبضہ کرلیا ہے۔
نبی کے مال میں وراثت نہ چلنے کی وجہ؟
تو پیغمبر کا وارث کوئی نہیں ہوتا، یہ بڑی اہم اور نکتہ کی بات ہے۔ اتنی تو آپ نے حدیث سن لی کہ نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کے نبی نے خود فرمایا ہے کہ ہم نبی ہیں اور ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے لیکن ہوتا کیوں نہیں؟ اس کا بہترین جواب وہی ہے جو قاسم العلوم والخیرات بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ نے اپنی کتاب ”تحذیر الناس“ میں دیا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ پیغمبر کا وارث نہ بننے کی بنیادی وجہ یہ ہے -یہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں لیکن اب صرف یاددہانی کے لیے دوبارہ عر ض کر رہا ہوں- کہ موت امتی پر بھی آتی ہے اور موت نبی پر بھی آتی ہے لیکن دونوں کی موت میں فرق ہے۔ موت کامعنی ہوتا ہے ”قبض روح“ -میں درسِ قرآن سبق کے انداز میں دیتا ہوں تاکہ آپ دلائل کو اچھی طرح سمجھیں اور یاد کریں- اور ”قبض“ کے دو معنی ہوسکتے ہیں:
1: قبض کا ایک معنی ہے سمٹ جانا اور ایک معنی ہے نکل جانا۔ میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں دیکھیں اس وقت میرے ہاتھ میں کنگھا ہے اور میں نے ہاتھ پھیلایا ہوا ہے، عربی میں کہیں گے:
”بَسَطْتُّ یَدِیْ“
کہ میں نے ہاتھ پھیلا دیا۔ اب میں نے ہاتھ سمیٹ لیا ہے تو عربی میں کہیں گے:
”قَبَضْتُ یَدِیْ“
کہ میں نے ہاتھ سمیٹ لیا ہے۔ اب یہ قبض؛ بسط کے مقابلے میں ہے، قبض کا معنی ہے سمٹ جانا اور بسط کا معنی ہے پھیل جانا۔
2: اور قبض کا ایک معنی ہوتا ہے؛ لے لینا۔[متکلم اسلام حفظہ اللہ سامعین میں سے ایک شخص کو اپنے پاس بلا کر اس کے سر سے ٹوپی ہاتھ میں لے کر فرماتے ہیں] مثلاً یہ ٹوپی پہلے اِن کے پاس تھی اور اب میرے پاس ہے۔ آپ کہیں گے کہ پہلے ٹوپی اِن کے پاس تھی اور اب ان سے نکل کر مولانا کے پاس آگئی ہے۔ اب قبض کا معنی ہے کہ ایک چیز کا ایک شخص سے نکل کر دوسرے کے پاس چلے جانا، پہلے قبضہ اِن کا تھا اور اب قبضہ میرا ہے۔ تو یہاں قبض کا معنی ہے خروج۔
تو قبض کا ایک معنی ہے؛ حبس یعنی سمٹ جانا اور ایک معنی ہے؛ خروج یعنی نکل جانا۔
حضرت نانوتوی کی توجیہہ:
مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب امتی پر موت آتی ہے تو اب قبضِ روح کا معنی ہے؛ روح کا نکل جانا،گویا امتی کے وجود سے روح نکل جاتی ہے اور جب نبی پر موت آتی ہے تو اب قبضِ روح کا معنی ہے؛ روح کا سمٹ جانایعنی نبی کے سر مبارک کے بالوں سے لے کر پاؤ ں کے ناخن مبارک تک تمام جسم سے روح سمٹتی ہوئی قلبِ اطہر میں جمع ہوجاتی ہے۔ تو امت کے لیے قبض بمعنی خروج ہوتاہے اور نبی کے لیے قبض بمعنی حبس ہے۔
اگلی بات سمجھیں کہ نبی کی وراثت کیوں نہیں چلتی! مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وراثت تو تب چلے گی جب جس کا مال ہو اس کی ملکیت سےنکل جائے، جب اس کی ملکیت سے مال نکلے گا ہی نہیں تو دوسرا شخص اس کا مالک کس طرح بن سکتا ہے؟ تو حضرت فرماتے ہیں کہ مال ملکیت سےاس وقت نکلتا ہے جب موت آجائے اور موت ایسے آئے کہ تمام اجزاء سے روح نکل جائے، نبی کی موت ایسی نہیں ہے کیونکہ یہاں روح جسم کے دیگر اجزاء سے نکلی ہے اور قلب اطہر میں سمٹ گئی ہے، جب پیغمبر کا مال ان کی ملکیت سے نکلا ہی نہیں ہے تو پیغمبر کے ورثاء مال کے مالک کیسے بنیں گے؟ اور ملکیت سے مال نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اجزاء سے روح نکل جائے، یہاں تمام اجزا سے روح نکلی نہیں ہے بلکہ قلب اطہر میں جمع ہوگئی ہے۔ اس لیے نبی کا مال نہ ملکیت سے نکلتا ہے اور نہ ہی رشتہ دار کو ملتا ہے۔
نبی کے قلب میں حیات ہوتی ہے:
اگلی بات آپ ذہن میں رکھیں۔ اس حدیث میں پہلالفظ ہے ”لَانُوْرَثُ“ ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا اور دوسرا لفظ ہے ”مَاتَرَکْنَاصَدَقَۃٌ“ جو مال ہم چھوڑ کرجاتے ہیں وہ امت میں صدقہ بن جاتاہے۔ بھائی! صدقہ تو تب بنے گا جب مال کا کوئی مالک ہو۔ مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بڑی عجیب بات فرماتے ہیں کہ صدقے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جس وقت مال صدقہ ہوتاہے اس وقت صدقہ کرنے والا زندہ ہو، صدقہ کرنے والا زندہ ہوگا تو مال صدقہ ہوگا نا! اگر وہ زندہ نہیں ہوگا تو صدقہ کیسے ہو گا؟ اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نبی پر موت آتی ہے تو مال اس کی ملک سے نکلتا نہیں ہے کہ کوئی رشتہ دار وارث بنے، ہاں خود نبی کا مال اللہ کے نبی کے فرمان کے مطابق صدقہ بنتا ہے، تو صدقہ بن جانا اس بات کی دلیل ہے کہ موت آ بھی جاتی ہے اور نبی کے قلب ِ اطہر میں حیات بھی ہوتی ہے۔
اگر آپ قلب کی حیات نہیں مانیں گے تو مال صدقہ کیسے ہوگا؟ اس لیے نبی کا مال وراثت میں تبدیل نہیں ہوتا البتہ نبی کامال صدقہ بن جاتاہے۔
ہمارے پاس دلائل موجود ہیں:
میں اپنے حضرات سے ایک بات کہتاہوں کہ آدمی دلائل سنتا رہے اور دلائل سمجھ نہ بھی آئیں لیکن اپنے عقیدے سے پھرتا نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس دلائل ہیں لیکن میں سمجھا نہیں سکتا۔ میں یہ بات اس لیے کہتا ہوں کہ مجھے ایک ساتھی نے ایک مرتبہ ایک جلسے میں یہ چٹ دی کہ مولانا صاحب! آپ اپنے بیان میں بسااوقات اتنے مشکل دلائل دیتے ہیں کہ لوگ سمجھتے نہیں۔ میں نے کہا: میں بھی سمجھ رہا ہوں کہ یہ دلیل نہیں سمجھ رہے لیکن میں دلیل پھر بھی دیتا ہوں کیونکہ انہیں دلیل سمجھ تو نہیں آئے گی لیکن یہ تو پتا چل جائے گاکہ ہمارے پاس دلائل موجود ہیں۔
آپ نے بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا ہے او ر اس اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں آپ بیٹے کو بتاتے نہیں ہیں اور آپ کے پاس چیک بک پڑی ہے۔ اب بیٹے کو یہ تو پتا ہے کہ باپ کے اکاؤنٹ میں پیسے ہیں لیکن یہ پتا نہیں کہ کتنے ہیں، پیسے ہوں تو بیٹا خوش ہوتا ہے اگر نہ ہوں تو پریشان ہوتاہے۔ آپ کہتے ہیں: بیٹا! عید آرہی ہے ہم ان شاء اللہ اس پر اونٹ ذبح کریں گے۔ ابو! پیسے کہا ں ہیں؟ میرے اکاؤنٹ میں ہیں۔ کتنے ہیں یہ نہیں بتاتے لیکن بیٹا مطمئن رہتاہے۔تو آپ کو پتا ہے کہ آپ کے اکاؤنٹ میں دلائل ہیں تو آپ بھی مطمئن رہتے ہیں۔ اس لیے دلائل دیتے رہنا چاہیے اور آہستہ آہستہ آدمی سنتا رہے․․․ سنتا رہے․․․ ایک وقت آتاہے کہ دلائل سمجھ میں بھی آجاتے ہیں۔
میرے علم میں -بحمدللہ تعالیٰ- دنیا کے غیر علماء کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے جو مسلسل دلائل سننے کی وجہ سے اپنے عقائد پر دلائل سے گفتگو فرماتے ہیں اور تھوڑی بہت تعداد نہیں ہے چونکہ ہمارے پاس تو ایک نعمت موجود ہے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم انٹرنیٹ استعمال کریں، سامنے بیٹھ کر دلائل سنتے ہیں، وہ جو انٹرنیٹ پر مسائل دیکھتے ہیں الحمدللہ ان کو بے حد نفع ہوتاہے۔ اللہ ہمیں بھی ان دلائل کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
وراثت سے مراد وراثت علمی ہے، قرآنی دلیل:
اب ان کی دلیل کا جواب ذہن نشین فرمالیں کہ جو کہتے ہیں حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی تھی اور کہا تھا کہ اے اللہ! مجھے بیٹا دے جو میرا وارث بنے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وراثت چلتی ہے۔
ہم نے کہا: جب قرآن آدھا پڑھیں تو مسئلہ آدھا ہوتا ہے اور جب قرآن پورا پڑھیں تو مسئلہ بھی پورا ہوتا ہے۔ زکریاعلیہ السلام نے صرف یہ نہیں کہا کہ میرا وارث بنے، انہوں نے کہا کہ اے اللہ! میرا وارث بھی بنے اور آل یعقوب کا وارث بھی بنے۔ اگر وراثت سے مراد مال والی وراثت ہو تو بتائیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد تو اِن کی رشتہ دار نہیں ہے، ان کا وارث کیسے بنے گا؟ معلوم ہوا کہ اس وراثت سے مالی وراثت مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد علمی اور دینی وراثت ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کی قبولیت:
زکریا علیہ السلام کی دعا اللہ رب العزت نے قبول فرمالی۔ میں پہلے بتا رہا تھا کہ سورت آل عمران میں ہےکہ زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی تھی۔ جب دعا مانگی تو:
﴿فَنَادَتۡہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ ۙ اَنَّ اللہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوۡرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۳۹﴾﴾
جب وہ محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے تو فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتے ہیں، یحییٰ اللہ کے ایک کلمے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کریں گے، ایک امت کے پیشوا ہوں گے، اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر روکے ہوئے ہوں گے اور نیک صالح نبی ہوں گے۔
زکریا علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے فرشتوں نے آ کر یہ خوشخبری دی کہ اس بیٹے کا نام یحییٰ ہوگا، وہ اللہ کے کلمہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرے گا، سردار اور پیشوا بھی ہوگا،
”حَصُوۡرًا“
وہ عورتوں سے بالکل الگ تھلگ ہوگا۔
حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا ایک قصہ:
حضرت یحییٰ علیہ السلام نے شادی نہیں کی۔ میں آج پڑھ رہا تھا کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام دونوں باہر نکلے چہل قدمی کے لیے۔ چونکہ دونوں رشتہ دار تھے اور بعض روایات کے مطابق دونوں کی عمروں میں صرف چھ ماہ کا فرق ہے، یحییٰ علیہ السلام چھ ماہ بڑے ہیں۔ اور بھی روایات ہیں۔ تو دونوں چل رہے تھے۔ اچانک حضرت یحییٰ علیہ السلام کا کسی گزرتی ہوئی خاتون سے ٹکراؤ سا ہو گیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے -وہ دونوں نبی ہیں، دونوں دوست ہیں، رشتہ دار ہیں، آپس میں باتیں کر رہے ہیں، وہ کہہ سکتے ہیں لیکن ہم یہ بات نہیں کہہ سکتے- انہوں نے کہا کہ یحییٰ! آج تو نے ایسا گنا ہ کیا کہ تیرا گنا ہ کبھی بھی معاف نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کون سا گناہ کیا؟ حضرت عیسیٰ نے کہا کہ تیر ا عورت سے ٹکراؤ ہو گیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر جبرائیل بھی آ جائیں تو میرا اللہ کے عرش سے ہر وقت ایسا تعلق رہتا ہے کہ میرا دل اُدھر بھی نہیں ہٹتا، تو اِدھر کیسے ہٹ جائے گا؟ مجھے تو پتا ہی نہیں ہے کہ کسی عورت کے ساتھ میرا ٹکراؤ ہوا ہے تو میرا گناہ کیسے ہے؟ تو حضرت یحییٰ علیہ السلام اس طرح عورت سے الگ تھلگ تھے کہ چوبیس گھنٹے ان کا قلب اطہر اللہ کے ساتھ تعلق میں لگا رہتا تھا۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات:
حضرت زکریا علیہ السلام کو خوشخبری دی جا رہی ہے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی۔ یہ میں سورت آل عمران سےپڑھ رہا تھا۔یہاں سورت مریم میں ہے:
﴿یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا ﴿۷﴾﴾
اے زکریا! ہم تمہیں ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کانام یحییٰ ہوگا۔ہم نے ان کا ہم نام بھی ان سے پہلے پیدانہیں کیا۔
اوران صفات والا بندہ بھی پہلے پیدانہیں کیا۔ یہ نام بھی ان کا یکتاہے اور صفات بھی یکتاہیں۔ بعض ایسی صفات اللہ تعالی نے ان کو عطاکی تھیں جو ان سے پہلے کسی کو نہیں دی تھیں۔ جب یہ دعا قبول ہوگئی تو اب زکریا علیہ السلام اللہ سے پوچھنے لگے:
﴿رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا ﴿۸﴾﴾
اے اللہ! میرے ہاں بیٹا ہوگا کیسے؟ میری بیوی تو بانجھ ہے اور میں انتہائی بوڑھا ہو چکاہوں کہ میرا جسم سوکھ چکا ہے۔
اب دیکھیں! جب مانگا ہے تو تعجب نہیں ہوا اور جب دعاقبول ہوئی ہے تو اب تعجب ہورہاہے کہ کیسے ہوگا؟ اور یہ ذہن میں رکھنا کہ زکریا علیہ السلام کو شک نہیں تھا، شبہ نہیں تھا۔ تو سوال ہوتا ہے کہ پھر یہ کیوں پوچھا کہ کیسے ہو گا؟ اس کی وجہ آگے آرہی ہے۔ اللہ نے فرشتہ بھیجا، اس نے کہا:
﴿کَذٰلِکَ ۚ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَّ قَدۡ خَلَقۡتُکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ تَکُ شَیۡئًا ﴿۹﴾﴾
اسی حالت میں ہوگا۔تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لیے آسان ہے، میں نے اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا تھا حالانکہ تم اس وقت کچھ بھی نہیں تھے۔
میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا؟
اے زکریا! پہلے آپ کا وجود ہی نہیں تھا، ہم نے آپ کو پیدا کردیا اور آپ سے بیٹا پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ آپ کچھ نہیں تھے تو ہم نے آپ کو وجود دیا تو آپ سے وجود دینا کیا مشکل ہے؟ تو اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح ہوگا۔
﴿کَذٰلِکَ﴾ ”
اسی طرح ہو گا“ اس کا معنی کیا ہے؟ اصل میں زکریا علیہ السلام کے ذہن میں تین کیفیتیں، تین صورتیں تھیں:
[1] : یا اللہ! جو بیٹا مجھے ملے گا تو کیا میں پھر جوان ہو جاؤں گا اور میری بانجھ بیوی ٹھیک ہو جائے گی تب ملے گا؟
[2]: یا مجھے جو بیٹاملے گا میری بیوی تو بانجھ ہے، کیا میں کوئی اور شادی کروں گا پھر ملے گا؟
[3]: میں بوڑھا ہوں، میری بیوی بانجھ ہے۔ کیا ہمیں بیٹا اسی حالت میں ملے گا؟
مزید اطمینان کے لیے سوال کرنا قابلِ اشکال نہیں:
اب سمجھیں! کہ یہ کوئی اشکال کی بات نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے پوچھا تھا کہ اے اللہ! آپ مجھے دکھا دیں کہ آپ مردے کو زندہ کیسے کرتے ہیں؟ اللہ نے پوچھا:
﴿اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ﴾
کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ کہا:
﴿بَلٰی﴾
کیوں نہیں، مجھے تو یقین ہے،
﴿وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ﴾
لیکن میں چاہتاہوں کہ میرا دل مزید مطمئن ہو جائے۔
آپ سوچیں گے کہ مزید مطمئن ہونے کا معنی کیا ہے؟ میں اس کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ میرا پچھلے ہفتے کراچی میں درس تھا ، وہاں پر ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات بھی آگئی تو میں نے ان کو ایک مثال دی تھی کہ میرا گھر سرگودھاہے اور آپ کراچی کے ہیں۔ آپ نے مجھ سے تاریخ لی ہے تو میں نے آپ کو تاریخ دی ہے۔ اب آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب! آپ کراچی کیسے آئیں گے؟ میں کہتا ہو ں کہ میں نے وقت دے دیا ہے، میں آ جاؤں گا۔ آپ کہیں گے: پھر بھی آپ کیسے آئیں گے؟ آپ بس پر آئیں گے، آپ جہاز پر آئیں گے، ٹرین کے ذریعے آئیں گے، کیسے آئیں گے؟ تو آپ کو یہ تو یقین ہے کہ میں آؤں گالیکن کیفیت کا پتا نہیں ہے کہ کیسے آؤں گا؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یقین ہے کہ اللہ مردوں کو زندہ کریں گے لیکن چونکہ مردہ کو زندہ کرنےکی کئی کیفیتیں ہو سکتی ہیں اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام پوچھتے ہیں کہ اے اللہ! اس کی کیفیت کیاہوگی؟ بس میں یہ چاہتاہوں۔ اب بات سمجھ میں آ گئی؟
اب حضرت زکریا علیہ السلام جوسوال کرتےہیں کہ اے اللہ! میں بوڑھا ہوں میری بیوی بانجھ ہے تو میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا؟ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو کوئی شک تھا بلکہ ان کے سامنے تین کیفیات تھیں؛ ایک ․․․ کہ آپ مجھے جوانی دے دیں گے اور میری بانجھ بیوی ٹھیک ہو جائے گی تب ملے گا، دوسری ․․․ کہ میں نیا نکاح کروں گا تب ملے گا، تیسری․․․ کہ اسی حالت میں رہیں گے تب ملے گا۔تو اللہ نے فرمایا:
”کَذٰلِکَ“
دونوں اسی حالت میں رہو گے اور میں تمہیں بیٹا عطا کروں گا۔
بچے کی امید لگنے کی نشانی:
اب حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی:
﴿رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ﴾
اے میرے رب! پھر کوئی نشانی بتا دیں۔
دیکھیں! اللہ سے کتنی پیار ومحبت کی باتیں ہو رہی ہیں، اب یہ جلدی ہے کہ اللہ کوئی نشانی بتا دیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ مثلاً آپ کسی بندے سے کہیں کہ اس سال ہمارا ارادہ ہے حج پر جانے کا، آپ سفارش کریں کہ آپ کے اچھے تعلقات ہیں، ویزہ لگوادیں۔ وہ بندہ کہتاہے کہ لگوا دیں گے۔ کل آپ پوچھتے ہیں کہ لگ جائے گا نا؟ تو وہ کہتا ہے: میں جو کہہ دیا ہے نا کہ لگ جائے گا۔ آپ پھر اس سے پوچھتے ہیں: بھائی! پکی بات ہےنا؟ وہ کہتا ہے یار! پکی بات ہے لگ جائے گا۔ آپ پھر کہتے ہیں: اچھایہ بتاؤ کب تک لگے گا؟ وہ کہتا ہے کہ بھائی آپ حج سے پہلے پہنچ جائیں گے، آپ پریشان کیوں ہوتےہیں۔ اب دیکھیں! آپ کو پورا یقین ہے لیکن پھر بھی کہہ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا شوق بڑھ رہا ہے۔اسی طر ح زکریا علیہ السلام کا شوق ابھر ر ہا تھا تو فرمانے لگے کہ اللہ! کوئی نشانی بتا دیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اس کی نشانی یہ ہے :
﴿قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ﴿۱۰﴾﴾
اللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں لیکن آپ تین دن تین راتیں زبان سے بات نہیں کر سکیں گے، ذکر کرتے رہیں گے، نماز پڑھتے رہیں گے،تورات کی تلاوت کرتے رہیں گے۔ جب آپ پر یہ حالت طاری ہو جائے تو آپ سمجھنا کہ آپ کی بیوی امید سے ہوگئی ہے، بس یہ اس کی علامت ہے۔
قوم کو اشاروں سے تسبیح کی تلقین:
﴿فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنَ الۡمِحۡرَابِ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ اَنۡ سَبِّحُوۡا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا ﴿۱۱﴾﴾
اب زکریا علیہ السلام محراب سے نکلے اور لوگو ں کو اشارے سے کہا کہ تم صبح شام تسبیح کیا کرو۔ تم بھی ذکر کرو، میں بھی ذکرکرتاہوں۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ان کی بیوی امید سے ہیں۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کو خطاب:
جب حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو اللہ تعالی نے یحییٰ علیہ السلام سے فرمایا:
﴿یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ﴾
اے یحییٰ! تورات کو مضبوطی سےپکڑو۔ اس پر عمل کرو اور امت کو عمل کی دعوت دو! یحییٰ علیہ السلام نبی تھے۔آپ کی دعوت میں پانچ بنیادی باتیں تھیں:
1: اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
2 : نماز توجہ سے پڑھو، دائیں بائیں دھیان نہ کرو۔
3 : روزے کا بہت زیادہ خیال کرو۔
4 : صدقات کا بہت اہتمام کرو۔
5 : ہروقت اللہ کا ذکر کرو۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کوعطا کردہ چیزیں
﴿وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿ۙ۱۲﴾ وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا ﴿ۙ۱۳﴾ وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴿۱۴﴾ وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾﴾
حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ نے کئی چیزیں عطا فرمائیں:
پہلی چیز :․․․ فرمایا کہ
﴿وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا﴾
ہم نے بچپن میں ان کو دانائی اور فہم عطافرمایا۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ جن کو بچپن میں اللہ دانائی عطافرمائیں، فہم وفراست عطا فرمائیں۔
دوسری چیز:․․․․
﴿وَ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا﴾
کہ ہم نے دل کی نرمی ان کو عطاکی تھی، یہ ہر وقت بہت روتے تھے۔ ایک روایت میں آتاہے کہ حضر ت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام گھر میں نہیں تھے، تین دن گھر سے باہر رہے، حضرت زکریا علیہ السلام پریشان ہوکر نکلے کہ میرا بیٹا کدھر ہے؟ ایک جگہ پر گئےتو دیکھا کہ حضرت یحییٰ نے قبر کھودی ہوئی ہے اور اس میں لیٹ کر رو رہے ہیں۔ حضرت زکریا نے پوچھا: بیٹا! یہ کیاہے؟ انہو ں نے کہا کہ ابو آپ خود ہی کہتے تھے کہ جہنم کا معاملہ بڑا سخت ہے اور قبر کی گھاٹی سے گزر کر جانا ہے، جو یہاں سے پاس ہو گیا تو وہ آگے بھی پاس ہے، اور یہ راستہ آنسو بہائے بغیر طے نہیں ہو سکتا اس لیے تو میں روتاہوں۔ تو زکریا علیہ السلام بھی رونے لگ گئے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام بہت زیادہ روتے تھے۔ اللہ نے رقت عطا فرمائی تھی۔
تیسری چیز:․․․
﴿وَ زَکٰوۃً﴾
اللہ نے اخلاق بڑے صاف ستھرے عطافرمائے۔
چوتھی چیز:․․․
﴿وَ کَانَ تَقِیًّا﴾
خدانے تقویٰ بھی عطافرمایا تھا۔
پانچویں چیز:․․․
﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ﴾
والدین کے فرماں بردار بہت تھے۔
چھٹی چیز:․․․
﴿وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا﴾
نہ مخلوق کو تنگ کرتے اور نہ اللہ کی نافرمانی کرتے تھے۔
حضرت مریم کا تذکرہ کیجیے:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا ﴿ۙ۱۶﴾ فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴿۱۷﴾ قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا ﴿۱۸﴾﴾
حضرت مریم علیہا السلام کی عمر تیرہ سال یا پندرہ سال تھی، دونوں قول ملتے ہیں۔ حضرت جبر ائیل علیہ السلام خوبصورت مرد کی شکل میں آئے۔ فرشتہ جب بھی انسان کی شکل میں آتا ہے تو ہمیشہ خوبصورت مرد کی شکل میں آتا ہے۔ تو حضرت مریم نے ان کو دیکھا تو پردے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے بتا یا کہ میں جبرائیل امین ہوں، اللہ کی طرف سے بچے کی بشارت لےکر آیا ہوں ۔ حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری اس سے ان کو حمل ٹھہر گیا۔
ولادت کے دن جب قریب آئے تو ان کو بتایا گیا کہ فلاں جگہ پر تشریف لے جائیں، وہ ٹیلے کی طرف گئیں تو وہاں پر بغیر موسم کے اللہ نے کھجور پر پھل لگا دیا اور پانی کا چشمہ بھی جاری فرمادیا۔ بچہ کی ولادت کے بعدآپ وہیں پر کھجور کھاتیں اور چشمہ کا پانی پیتیں۔ چالیس دن تک یا جتنے دن نفاس کے تھے وہیں ٹھہری رہیں۔
اس کے بعدواپس اپنے خاندان میں آئیں تو خاندان والوں نے کہا: یہ بچہ کہاں سے آ گیا ہے؟ تمہارا تونکاح ہی نہیں ہے۔تو حضرت مریم کو حکم تھا کہ آپ اس بچے کی طرف اشارہ کریں، پھر عیسیٰ علیہ السلام نے صفائی دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ رب العزت نبی بنائیں گے، مجھے کتاب دیں گے۔ اس طرح ان لوگوں کا سارا بہتان ختم ہو گیا۔
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ﴾
اس کتاب میں مریم علیہا السلام کا بھی ذکر فرمائیں،
﴿اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا﴾
اس وقت کا ذکر کریں جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف واقع ایک جگہ پہ چلی گئیں تھیں،
﴿فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا﴾
پھر انہوں نے اپنے اور لوگوں کے درمیان ایک پردہ لٹکا لیا۔ جس محراب میں آپ عبادت کیا کرتی تھیں اس سے مشرقی جانب آپ تشریف لے گئیں۔ اس لیے عیسائی آج بھی بیت المقدس کی مشرقی جانب کو اپنا قبلہ بنا کر عبادت کیا کرتے ہیں۔
حضرت جبرئیل کی حضرت مریم کے پاس آمد:
﴿فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا﴾
اس وقت ہم نے ان کے پاس اپنی روح یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک مکمل انسان کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ذات نور تھی اور شکل اور ڈھانچا بشر کا تھا۔ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور بشر ہونے پر اہل بدعت یہی بحث چلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس طرح جبرائیل امین آئے تھے کہ ذات نور تھی اور شکل و صورت بشر کی تھی اسی طرح اللہ کے نبی ذات کے اعتبار سے نور ہیں اور آپ شکل و صورت کے اعتبار سے بشر ہیں، یہ ان کا عقیدہ ہے۔
جبکہ ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذات کے اعتبار سے بشر ہیں اور آپ وصف کے اعتبار سے نور ہیں۔ جہاں آپ کی اور صفتیں ہیں مثلاً سراجا منیرا ہیں، بشیر ہیں، نذیر ہیں، رحمت ہیں وہاں آپ کی ایک صفت نور بھی ہے۔
متکلمِ اسلام کی ایک بدعتی سے گفتگو:
فیصل آباد جامعہ اسلامیہ امدایہ؛ جلالین والے سال ہم پڑھتے تھے اور عمارت کی چھت پر ہمارا تکرار ہوتا تھا، تو ظاہر ہے کہ تیسری منزل پر چھت ہے، آس پاس کی آوازیں بھی زیادہ آتی ہیں، ہمارےمدرسے کے قریب ایک اہل بدعت کی مسجد تھی تو وہاں مولانا سعید اسد صاحب آئے، وہ جو معروف سعید اسد ہیں وہ نہیں بلکہ کوئی اور تھا۔ اعلان ہوا تو میں تکرار کرا رہا تھا، طلبہ نے کہا چلیں، تو میں نے طلبہ سے کہا : بھائی! آپ کو پتا ہے کہ جامعہ امدادیہ میں کس طرح سختی ہوتی ہے۔ خیر انہوں نے کہا: لازمی جانا چاہیے۔ جب سب کا مشورہ ہو گیا تو میں بھی تیار ہوگیا۔ پھر جب وہاں گئے تو ہم پانچ سات لڑکے ساتھ تھے، تو میں نے پہلے ایک ترتیب بنا لی کہ ان کا بیان توجہ سے سنیں۔ جب بیان ختم ہو جائے تو پھر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ ہم نے آپس میں مشورہ کر لیا۔ خیر بیان ختم ہوا۔ ان کے مولانا محراب میں بیٹھے۔ ہم قریب ہو گئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ جو کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں تو آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں کہ آپ کی ذات نور ہے اور آپ لبادۂ بشریت میں آئے ہیں یا آپ کی ذات بشر ہے اور آپ صفت کے اعتبار سے نور ہیں؟ آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ذات اور ماہیت دونوں کے اعتبار سے نور ہیں اور لبادہ بشریت میں آئے ہیں جس طرح جبرائیل امین آئے تھے۔
میں نے کہا: آپ اس پر کوئی دلیل پیش فرمائیں، تو انہوں نے دلیل پڑھی:
﴿قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۵﴾﴾ 113F
المائدۃ5: 15
کہنے لگے: فلاں فلاں مفسر نے لکھا ہے کہ یہاں نور سے مراد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ذات ہے۔ میں نے کہا کہ عقیدہ میں کون سی نص پیش کرتے ہیں؟ نص کی تو چار قسمیں ہیں :
1: قطعی الثبوت قطعی الدلالت
2: ظنی الثبوت ظنی الدلالت
3: قطعی الثبوت ظنی الدلالت
4: ظنی الثبوت قطعی الدلالت
”دلالت“ کہتے ہیں معنی کو اور ”ثبوت“ کہتے ہیں اس کے ثابت ہونے کو یعنی الفاظ اللہ کے نبی سے ہم تک قطعیت کے ساتھ پہنچے ہوں اور اس کا معنی متعین ہو کہ یہی معنی ہے، اس کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں ہے، یہ ہے قطعی الدالت، اور اگر معنی میں کئی احتمالات ہوں کہ یہ بھی ہے․․․ یہ بھی ہے ․․․ اسے کہتے ہیں کہ ظنی الدلالت ہے۔
آپ یہ بات یاد رکھ لیں جو عقیدہ قطعی ہو اور اس کا منکر کافر تو ایسے عقیدہ میں نص وہ پیش کرتے ہیں جو قطعی الثبوت بھی ہو، قطعی الدلالت بھی ہو۔ جب عقیدہ ظنی ہو، اس کا منکر کافر نہ ہو تو پھر دلیل میں قطعیت کی ضرورت نہیں ہوتی، ظنیت سے بھی کام چل جاتا ہے۔
میں نے ان صاحب سے کہا: یہ جو آپ نے آیت پڑھی ہے یہ قطعی الثبوت تو ہے لیکن قطعیت الدلالت نہیں ہے۔ چونکہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں تین احتمالا ت لکھے ہیں کہ یہاں نور سے مراد کیا ہے! اور ضابطہ ہے کہ
”إِذَا جَاءَ الِاحْتِمَالُ بَطَلَ الاِسْتِدْلَالُ“
تو یہ آیت قطعی الثبوت تو ہے لیکن قطعی الدلالت نہیں۔ آپ ایسی نص پیش کریں جو قطعی الثبوت بھی ہو اورقطعی الدلالت بھی ہو۔ اب ان مولانا صاحب کو احساس ہوا کہ ہم نے چیلنچ تو بہت کیے ہیں لیکن اب سامنے بھی طالب علم تگڑا ہے -بندے کو محسوس ہو جاتا ہے- وہ تھوڑا سا گھبرایا۔ مجھے کہنے لگا کہ مولوی اشرف علی تھانوی نے نشر الطیب میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضور کو پیدا کیا ہے اور اس میں لفظ نور آیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے نشر الطیب پڑھی ہے؟ میں نشر الطیب بھی پڑھی ہے اور اس کا حاشیہ بھی پڑھا ہے، حضرت نے لکھا ہے کہ یہاں نور سے مراد روح محمد ہے، ذات محمد مراد ہی نہیں۔ آپ لوگ نشر الطیب کا تو بتاتے ہیں لیکن حاشیہ میں جو تشریح حضرت خود کرتے ہیں وہ کیوں نہیں بتاتے؟ وہ مولانا اٹھ کے کھڑے ہو گئے کہ شرطیں طے کرو، باضابطہ مناظرہ کریں گے۔ میں نے کہا: باضابطہ کیا ہوتا ہے، اب تو بات شروع ہو گئی ہے، آپ شروع کرنے سے پہلے کہتے کہ شرطیں طے کرو، جب بات چل پڑی تب آپ کو یاد آیا․․․․ خیر وہ بات ختم ہو گئی اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ پہلے اپنی تیاری مکمل کرو، پھر بات کرنے کا مزہ آتا ہے،فضول باتیں نہ کرو، فتویٰ بازی نہ کرو، پھڈا نہ ڈالو لیکن تیاری آپ کی مکمل ہونی چاہیے۔
حضرت مریم علیہا السلام کا استعاذہ:
﴿قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا ﴿۱۸﴾﴾
حضرت مریم علیہا السلام نے جبرائیل امین کو انسانی شکل میں دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو،متقی ہو تو میں رحمٰن کی پناہ میں آتی ہوں، میں تم سے بچتی ہوں۔ اب اس جملے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ متقی نہ ہو تو پھر نہ بچیں، متقی ہو تو پھر بچیں،
”اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا“
یہ استعاذہ کی شرط ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ جو شرط ہے
”اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا“
یہ استعاذہ کے مؤثر ہونے کی شرط برائے ترغیب ہے، مطلب یہ کہ تم متقی آدمی ہو، تمہیں تو یہ کام نہیں کرنا چاہیے، تمہیں تو خیال کرنا چاہیے۔ جیسے ہم ایک طالب علم سے کہتے ہیں کہ اگر تم طالب علم ہو تو پھر تمہیں تہجد پڑھنی چاہیے، کیا اس کا یہ معنی ہے کہ اگر طالب العلم نہ ہو تو نہیں پڑھنی چاہیے؟ ہرگز یہ معنی نہیں۔ تو یہ جملہ ترغیب کے لیے ہے کہ اگر تم متقی ہو تو تمہیں خیال کرنا چاہیے، میں اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، اور یہ بطور مبالغہ کے ہے کہ اگر عام آدمی ہو تو گناہ ا س کو بھی نہیں کرناچاہیے لیکن تم متقی ہو اور یہ گناہ کر تے ہو، تم بھی نامحرم عورت کے سامنے آتے ہو!
اللہ ہی بیٹا دینے والا ہے:
﴿قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا ﴿۱۹﴾﴾
انہوں نے کہا: میں اللہ کی طرف سے رسول ہوں، فرشتہ ہوں، میں تو تمہیں پاکیزہ بیٹا دینے کے لیے آیا ہوں۔ اس پر اشکال یہ ہے کہ جب حضرت جبرائیل بیٹا دےسکتے ہیں تو نبی کیوں نہیں دے سکتا؟ فرشتہ دے سکتا ہے تو پیر کیوں نہیں دے سکتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام خود فرما رہے ہیں
”اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ“
کہ میں تمہارے رب کا نمائندہ ہوں،یعنی اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تمہیں بیٹا دوں، وہ اپنی طرف سے تو نہیں دے رہے بلکہ اللہ نے بھیجا ہے۔
حضرت مریم علیہ السلام کی پریشان حالی:
﴿قَالَتۡ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمۡ اَکُ بَغِیًّا ﴿۲۰﴾ قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ﴿۲۱﴾﴾
حضرت مریم بولیں: میں نے نہ تو نکاح کیا کہ جائز طریقے پر کوئی مرد میرے قریب آیا ہو اور نہ ہی میں بد کردار ہوں تو بچہ کیسے پیدا ہو گا؟ تو انہوں نے کہا:
”کَذٰلِکِ“
اسی طرح ہو گا یعنی بغیر مرد کے ہو گا۔ اللہ فرماتے ہیں یہ تو میرے لیے بہت آسان ہے۔
بچہ کے پیدا ہونے کے چار طریقے ہیں: کبھی مرد اور عورت ملتے ہیں تو بچہ ہوتا ہےجیسا کہ عام طریقہ ہے، کبھی نہ مرد ہوتا ہے نہ عورت لیکن اللہ تعالیٰ پیدا فرما دیتے ہیں جیسے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، کبھی صرف مرد سے پیدا فرماتے ہیں جیسے حضرت حوا کو حضرت آدم سے پیدا کیا اور کبھی صرف عورت سے پیدا فرماتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت مریم سے پیدا کیا۔
﴿وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا﴾
یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو ہو کر رہنا ہے۔
بیت اللحم میں آمد:
﴿فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا ﴿۲۲﴾ فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ﴾
حضرت مریم امید کے ساتھ ہو گئیں تو لوگوں سے الگ ایک دور کے مقام پر چلی گئیں۔ اس مقام کا نام بیت اللحم ہے اور یہ بیت المقدس سے آٹھ میل دور ہے،یہ تقریباً تیرہ کلو میٹر بنتے ہیں، آپ وہاں چلی گئیں اور وہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
﴿قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا ﴿۲۳﴾﴾
حضرت مریم علیہا السلام فرمانے لگیں: کاش! میں اس سے پہلے مر جاتی اور میں بھولی بسری ہو جاتی، کسی کو پتا بھی نہ ہوتاکہ مریم نام کی کوئی عورت دنیا میں آئی تھی۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بشارتیں دی ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے کہ آپ کا بیٹا ان ان صفات کا حامل ہو گا، کتاب و حکمت جانتا ہو گا، تورات وانجیل کا علم رکھتا ہو گا، اسے معجزات عطا ہوں گے وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے باوجود بھی جب درد نے بہت زیادہ تکلیف دی اور بدنامی کا خوف سوار ہوا تو وہ بشارتیں بھی بھول گئیں اور کہا کہ کاش میں مر جاتی۔
موت کی تمنا کب جائز ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ موت کی تمنا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ حدیث پاک میں ہے کہ تم اللہ سے موت نہ مانگا کرو، اگر موت مانگنی ہی پڑے تو یوں مانگا کرو کہ:
اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِيْ وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِيْ․114F
صحیح البخاری، رقم: 5671
اے اللہ! اگر زندگی میرے حق میں بہتر ہے تو مجھے زندگی دے اور اگر موت میرے حق میں بہتر ہے تو مجھے موت دے دے۔
تو سوال یہ ہے کہ حضرت مریم نے موت کیوں مانگی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بسا اوقات آدمی اپنے حالات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور جب مغلوب الحال ہو جائے تو وہ من کل الوجوہ مکلف نہیں رہتا، کچھ احکام اس سے ساقط ہو جاتے ہیں، پھر اگر وہ مغلوب الحال ہو کر کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اس کو بطور اعتراض پیش نہیں کرتے۔ دیکھیں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر فرمایا :
اللّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هٰذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا.115F
مسنداحمد:ج1 ص 259 رقم الحدیث221
اے اللہ! یہ میری مٹھی بھر جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو قیامت تک کوئی تیری عبادت نہیں کرے گا۔
تو کیا اللہ کی عبادت تین سو تیرہ اصحابِ بدر پر موقوف ہے؟ یہ ختم ہو جائیں تو عبادت بھی کوئی نہیں کرے گا؟ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلبہ حال میں یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ میری پونجی تو یہی ہے، مجھے آپ نے نبی بنا کر بھیجا، میرے ساتھ یہی ہیں، میں بھی ختم ہو گیا اور یہ بھی ختم ہو گئے تو آپ کی عبادت کون کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسباب اورحالات کو دیکھ کر یہ بات ارشاد فرمائی۔
تو حضرت مریم علیہا السلام نے بھی غلبہ حال میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ کاش! میں مر جاتی، باقی چیزوں کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی۔ یا اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مریم علیہا السلام نے یہ سوچ کر فرمایا کہ جب میرا خاوند نہیں ہے، میرے ہاں بچے کی پیدائش ہو اور لوگ طعنہ دیں، مجھے بدنام کریں تو اس وقت انسان کو صبر سے کام لینا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بدنامی کے ڈر سے بے صبری ہو جاؤں اور بے صبر ہونا بہت بڑا گناہ ہے اور گناہ سے تو بہتر ہے کہ بندہ مر ہی جائے ۔ تو گناہ کے خوف سے موت مانگنا یہ تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
﴿فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا ﴿۲۴﴾ وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫۲۵﴾﴾
اور نیچے سے آواز آئی -اس کا معنی یہ ہے کے وہ ٹیلہ پر تھیں- تو فرشتے نے آواز دی کہ غم نہ کرو، دیکھو! تمہارے نیچے چشمہ بھی ہے۔ کھجور کے تنے کو ہلاؤ تو تمہارے پاس تر کھجوریں بھی آئیں گی۔ یوں اس نے بشارت دی۔
یہاں دو چیزوں؛ پانی اور کھجور کا ذکر فرمایا۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے خرقِ عادت وہاں چشمہ جاری فرما دیا کیونکہ وہاں پانی نہیں تھا اور دوسرا وہاں کھجوروں پر پھل نہیں تھا، یہ بھی خرق عادت تھا۔ یہ دونوں چیزیں بطور کرامت کے تھیں۔
انسان کوشش کرے، نتیجہ اللہ دیتے ہیں:
اب یہاں سوال یہ ہے اللہ تعالیٰ پانی دینا چاہتے تو چشمہ کے بغیر ویسے دے دیتے، پھل دینا تھا تو یہ کیوں فرمایا کہ تنے کو حرکت دے دو تو کھجور اترے گی! دراصل یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ حرکت انسان کرتا ہے اور دیتےاللہ ہیں، جس حد تک ممکن ہو اس حد تک محنت کرو، حضرت مریم کیا کر سکتی تھیں! اب جب موسم نہیں ہے تو کھجوریں پیدا تو نہیں کرسکتی تھیں اس لیے فرمایا کہ تم تنے کو ہلاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں کھجوریں دیں گے۔ انسان کو اپنی ہمت کے مطابق اسباب اختیار کرنے چاہیں۔
کھانا پہلے یا پینا پہلے؟
﴿فَکُلِیۡ وَ اشۡرَبِیۡ وَ قَرِّیۡ عَیۡنًا﴾
کھاؤ اور پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو!
اب یہاں ایک نکتہ سمجھیں! جب فرشتے نے بشارت دی تو پانی کا ذکر پہلے ہے اور کھجور کا بعد میں ہے اور جب کھانے کا حکم دیا تو فرمایا کہ کھاؤ اور پیؤ! یہاں کھانے کا حکم پہلے ہے اور پینے کا حکم بعد میں ہے۔ یہ ترتیب کیوں بدلی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کھانے کا انتظام کرنا ہو تو دستر خوان پر پانی پہلے رکھتے ہیں، کھانا بعد میں رکھتے ہیں اور خصوصاً اگر کھانا ایسا ہو کہ جس کے بعد پیاس لگے تو کھانے سے پہلے پانی کا انتظام کرتے ہیں۔ اللہ نے انہیں کھجوریں دی تھیں تو کھجور کھانے کے بعد پانی کی طلب بڑھ جاتی ہے، اس لیے پانی کا انتظام پہلے کیا ہے۔
دسترخوان لگانے کا طریقہ:
اس لیے میں اپنے طلبہ کو خدمت کرنے کا طریقہ سمجھاتا ہوں کہ جب بھی کھانے کی خدمت ہو تو پہلے دستر خوان لگاؤ، اس کے بعد برتن رکھو، اس کے بعد پانی رکھو اور اس کے بعد کھانا رکھو، پھر روٹیاں رکھو اور چاول اس کے بعد لاؤ کیونکہ چاول جلدی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ تو جس چیز نے جلدی ٹھنڈا ہونا ہے اس کو بعد میں لاؤ، جس چیز نے دیر تک رہنا ہے اس کو پہلے لاؤ۔اگر سلاد ہو، رائتہ ہو، دہی ہو تو یہ چیزیں بھی پہلے رکھو۔
دسترخوان کے متعلق چند واقعات:
[۱]: کل صبح ہم ایک جگہ پر تھے۔ جن کے ہاں تھے ماشاءاللہ ان کا ادارہ بہت اچھا ہے۔میں نے ان سے کہا کہ ہم چائے پییں گے۔ چائے بن گئی۔ تو میں نے کہا کہ بغیر چینی والی دو! انہوں نے کہا کہ جی چائے تو چینی والی ہے۔ میں نے کہا: جب مہمان مانگے تو یہ نہیں کہتے کہ چینی والی ہے بلکہ اس سے پوچھے بغیر چینی والی بنا کر لاتے ہیں، یہ ادب کا تقاضا ہوتا ہے، آپ نے چینی والی بنا لی اور ہمیں بغیر چینی والی چاہیے تو یہ نہ کہیں کہ یہ تو چینی والی بنی ہے، چاہیے تھا کہ کچھ چائے پھیکی بھی لاتے، اگر نہیں ہے تو دوبارہ بنا لیں، جب یہ کہیں گے کہ چینی والی ہے تو مہمان کہے گا کہ بس رہنے دو! تو آپ لوگ ادب بھی سیکھیں، آپ شہر میں رہتے ہیں۔
میرے ساتھ کچھ ساتھی بیٹھے تھے۔ میں نے کہا: چلیں چینی والی چائے ہے تو ان کو پلا دیں۔ ان سے پوچھا کہ آپ میں سے کوئی بغیر چینی کے پیے گا؟ انہوں نے کہا جی ہم میٹھی پیتے ہیں۔ میں نے کہا: چلو یہ ان کو پلادو۔ تو اس وقت میزبان نے کہا: جی میں نے آپ کے لیے ایک کپ بغیر چینی کے بھی بنائی ہوئی ہے۔ میں نے کہا: پھر پوری بات پہلے کر دو، پوری بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ پھر بسکٹ لینے کے لیے لڑکا گیا ہوا تھا اور چائے پہلے آ گئی۔ جب ہم نے چائے پی لی تو بسکٹ بعد میں آئے۔ بھائی خدمت کرنا سیکھو ! میں اس لیے سمجھاتا ہوں، طریقہ بتاتا ہوں کہ خدمت کیسے کی جاتی ہے؟ آپ یقین کریں ! بسا اوقات دسترخوان کی ترتیب مہمان کو کھینچ لیتی ہے، کھانے کی چیزیں بہت مہنگی نہ ہوں لیکن دستر خوان صاف ہو،برتن صاف ہوں، دال رکھی ہو،اچار رکھا ہو، سلاد رکھا ہو، دہی رکھا ہو، اچھے چمچ رکھے ہوں اور ساتھ پانی رکھا ہو تو دیکھو دسترخوان میں حسن کتنا آتا ہے! انسان کی رغبت بڑھ جاتی ہے کھانے میں۔
[۲]: آج صبح ہمارے اساتذہ کا اجلاس تھا۔ دس بج کر بیس منٹ پرچھٹی ہوئی۔ ہمارا اجلاس دس بج کر بیس منٹ پر شروع ہوا اور دس بج کر تیس منٹ پر ختم ہو گیا اور پینتیس منٹ پر کھانا شروع ہوا تو پچاس پر ختم۔ یعنی تیس منٹ میں اجلاس بھی ہے اور کھانا بھی ہے۔ آپ کسی کو بتائیں گے تو کوئی نہیں مانے گا۔ ہم نے اتنے سے وقت میں اجلاس بھی کیا اور کھانا بھی کھایا۔ اب کھانا باہر کا نہیں تھا، یہی لنگر کی دال تھی، میں نے کہا کہ دال کو تڑکا لگا دو اور دو کلو دہی لاؤ اور اس کی لسی بناؤ، ساتھ سلاد رکھ دو، آپ کھانے کے لیے آئیں گے تو آپ کا جی چاہے گا کہ کھائیں۔ دستر خوان کو دیکھ کر بھوک لگ جاتی ہے۔
ہمارے ہاں کچھ دن پہلے کراچی سے مہمان آئے تھے۔ میں نے ان کو بتایا کہ ہمارے ہاں اجلاس ہوتا ہے دس بجے، تو دس کا معنی دس ہوتا ہے، ہمارے تمام اساتذہ دس بجے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کو میری باتو ں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ وقت کی پابندی میں آپ کو تو راحت ہوتی ہو گی لیکن باقیوں کو تو تکلیف ہوتی ہو گی۔ میں نے کہا: نہیں، ان کو مجھ سے بھی زیادہ راحت ہوتی ہے کیونکہ مزاج بن گیا ہے۔
نذر نہیں مانی تھی تو یہ کیوں کہا کہ نذر مانی ہے؟
﴿فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾ یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَ اَ سَوۡءٍ وَّ مَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۖۚ۲۸﴾﴾
فرمایا: جب تم کسی آدمی کو آتا دیکھو تو تم کہنا کہ میں نے اللہ کے لیے روزے کی منت مانی ہے، میں آج کسی سے بات نہیں کروں گی۔ جب حضرت مریم واپس آئیں تو لوگوں نے کہا :اے ہارون کی بہن! تیرا باپ بھی اچھا تھا اور تمہاری ماں بھی بدکردار نہیں تھی، تو ماں باپ نیک ہو ں اور پھر اولاد جرم کرے تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ نیک باپ کی بیٹی، نیک بھائی کی بہن، اور یہ تو نے کیا کیا؟
حضرت مریم نے کہا: میں نے تو چپ رہنے کی منت مانی ہے، اشارہ کیا کہ میں نہیں بولوں گی، بچے کی طرف اشارہ کیا، پھر وہ بچہ بولا۔
اس پر سوال یہ ہے کہ انہوں نے تو منت مانی نہیں تھی لیکن اللہ فرما رہے ہیں کہ تم کہنا
”اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا“
اس کا جواب یہ ہے کہ نذر مانی تھی اسی حکم میں خود بخود آگیا ہے یعنی جب وہ پوچھیں گے تو تم نے کہنا ہے کہ میں نذر مانی تھی یعنی نذر مان لینا اور کہہ دینا کہ میں نے نذر مانی ہوئی ہے۔
پہلی شریعت میں چپ کا روزہ چلتا تھا، اس شریعت میں چپ کا روزہ نہیں ہے بلکہ چپ کو ثواب سمجھنا گناہ ہے۔ ہاں اگر بندہ اس وجہ سے خاموش رہے کہ میں بولوں گا تو غیبت ہو گی تو بہتر ہے کہ میں چپ رہوں تو پھر کوئی حرج نہیں، پھر خاموش رہنا چاہیے،
”مَنْ صَمَتَ نَجَا“
116Fحدیث میں بھی ہے کہ جو خاموش رہتا ہے وہ نجات پا تا ہے۔
سنن الترمذی، رقم: 2501
حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ:
حضرت مریم کو ہارون کی بہن کیوں کہا گیا؟ اس کی دو وجوہات ہیں:
(1): یا ان کا بھائی تھا جس کا نام ہارون تھا۔
(2): یا آپ حضرت ہارون علیہ السلام کے خاندان میں سے تھیں اور یہ ان میں یہ رواج تھا۔ جیسے عرب کا آدمی ہو تو اس کو ”ابو العرب“ کہتے ہیں، تمیم کے خاندان کا ہو تو اخو التمیم کہتے ہیں، اسی طرح ”اخت ہارون“ کہا کہ یہ ہارون علیہ السلام کے خاندان کی عورت ہے۔
یقینی خبر کو ماضی سے تعبیر کر دیتے ہیں:
﴿قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾﴾
انہوں نے کہا کہ اس بچے سے کیسے بات کریں جو گود میں ہے؟
اب بظاہر یہ سوال ہوتا ہے کہ ”کَانَ“فعل ماضی ہے اور ماضی بعید ہوتا ہے تو انہوں نے کیسے کہا کہ ہم اس بچے سے کیسے بات کریں جو بچہ گو میں تھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
”کَانَ“
ہمیشہ ماضی بعید کے لیے نہیں آتا بلکہ کبھی کبھی حال کے لیے بھی آتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
﴿اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ﴿۳۷﴾﴾117F
ق50: 37
اس میں اس شخص کے لیے نصیحت کا سامان ہے جو صاحبِ دل ہو اور متوجہ ہو کر سنتا بھی ہو اورحاضر بھی ہو۔
ایک اور جگہ ہے:
﴿وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾﴾118F
الاسراء 17: 32
زنا کے قریب نہ جاؤ کیونکہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور بہت برا راستہ ہے۔
تو یہاں تینوں آیات میں
”کَانَ“
حال کےمعنی میں ہے۔ تو
”کَانَ“
ہمیشہ ماضی کے لیے نہیں آتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گود میں گفتگو کرنا:
﴿قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾ وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا ﴿۳۲﴾﴾
تو انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کتاب عطا فرمائیں گے، مجھے نبی بنائیں گے اور میں جہاں بھی ہوں گا اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے نماز کا، حکم دیا ہے زکوٰۃ کا، میں جب تک زندہ رہوں مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور مجھے سختی والا نہیں بنایا۔
﴿وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾ ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ ﴿۳۴﴾﴾
اور مجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور جس دن میں دوبارہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہ عیسیٰ بن مریم تھے جنہوں نے بالکل سچی بات کی ہے، یہی وہ حق بات ہے جس کے بارے میں لوگ شک کرتے ہیں۔
کتاب ابھی ملی نہیں تو یہ کیوں فرمایا کہ کتاب ملی ہے؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے حالانکہ ابھی کتاب دی نہیں تھی بلکہ کتاب تو ابھی ملنی تھی تو ماضی سے کیوں تعبیر فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ”ماضی تحقق کے لیے ہے“ کیا مطلب کہ جس کام کا مستقبل میں ہونا یقینی ہو اس کو ماضی کے لفظ سے تعبیر کر دیتے ہیں۔
اس کی مثال سمجھیں! آپ میرے پاس آتے ہیں کہ استاذ جی! سردی بہت ہے، ہمارا جی چاہتا ہے کہ کل حلوہ پکے۔ میں کہتا ہوں: پک گیا اور بتاؤ؟ استاذ جی! ہمارا دل چاہتا ہے کہ کل چھٹی ہو۔ میں نے کہا: ہو گئی، اور بتاؤ؟ اب میں یہاں ماضی کا لفظ بول رہا ہوں لیکن یہ عرف ہوتا ہے اور مراد یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس کام کا ہونا یقینی ہے۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
”اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ“
لفظ ماضی کا استعمال کیا ہے لیکن مراد مستقبل ہے کہ مجھے اللہ کتاب دیں گے۔
آپ کی تعبیرات کے کیا کہنے!
میں کل ایک جگہ لاہور میں تھا۔ بعض علماء مجھے ملے تو انہوں نے مجھے کہا: مولانا! ہم نے تفاسیر بہت پڑھی ہیں لیکن یہ جو آپ دروس القران میں تفسیر کرتے ہیں مثال کے ساتھ بس یہ مثال آپ کے پاس ہے، اس سے بات ایسے کھلتی ہے کہ قرآن کو سمجھنے میں الجھن نہیں ہوتی۔تو آپ کا درسِ قرآن کب مکمل ہوگا؟ ایک جلد کے بعد اتنے تقاضے دنیا سے ہو رہے ہیں کہ آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے! میں نے ان سے کہا کہ ان شاء اللہ جلد مکمل ہو جائے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نماز و زکوٰۃ کا حکم:
فرمایا:
﴿وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ﴾
مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں نماز پڑھوں اور زکوٰۃ دوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس زندگی بھر میں کبھی اتنا پیسہ جمع نہیں ہوا کہ وہ زکوٰۃ دیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی برتن نہیں رکھے بلکہ آپ چلو سے پانی پیتے رہے، کبھی آپ نے مکان بھی نہیں بنایا، بس جہاں رات آئی تو وہاں سو جاتے تھے۔ تو انہیں زکوۃ کا حکم کیسے دیا؟ اصل بات یہ ہے کہ زکوۃ کا حکم ہونا الگ ہے کہ اللہ نے ہم پر زکوٰۃ کوفرض قرار دیا لیکن دیں گے تب جب پیسہ ہو گا۔ اللہ نے حج فرض قرار دیا ہے لیکن کب؟ جب استطاعت ہو گی۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نماز بھی پڑھوں اور زکوٰۃ بھی دوں، کیا مطلب کہ اگر میرے پاس پیسہ ہو تو زکوٰۃ دوں! یہ ایسا معنی ہے کہ اس میں تاویلات نہیں کرنی پڑتیں۔
﴿وَ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ﴾
میں اپنی والدہ کا فرنبردار ہوں گا۔ ظاہر ہے کہ والد تو تھے نہیں اس لیے صرف والدہ کا ذکر فرمایا۔
منکرین حیات النبی کے استدلال کا جواب:
﴿وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾﴾
بعض لوگو ں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ نہیں ہیں۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا، جس دن مجھ پر موت آئی اور جس دن میں زندہ کیا جاؤں گا۔ موت کے بعد حشر کو مَیں زندہ کیا جاؤں گا۔ یہاں درمیان میں قبر والی حیات کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی قبر میں زندہ نہیں ہیں۔
جبکہ ہم اھل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا عقیدہ ہے کہ انبیا علیہم السلام اپنی قبروں میں زند ہ ہیں۔ ہم نے کہا: یہ بات وہ کرتا ہے جس کو نحو نہیں آتی، نحو آتی تو اتنی حماقت وغلطی کبھی نہ کرتا۔ نحو کا ضابطہ ہے کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہو تا ہے۔ جیسے آپ کہتے ہیں کہ ہمارے استاذ جی آئے ہیں اور آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ کب آئے ہیں؟ آپ کہتے ہیں: آٹھ بجے۔ کس چیز پر آئے ہیں؟جی اپنی گاڑی پر آئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں:
”جَاءَنِیْ اُسْتَاذِیْ رَاکِبًا عَلٰی سَیَّارَتِہٖ“
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آئے ہیں تو گاڑی پر سوار تھے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ گھر سے چلے تھے تو پیدل تھے اور جب گیٹ سے داخل ہوئے تو گاڑی پر بیٹھ گئے بلکہ جب آئے ہیں تو گاڑی پر سوار تھے، اس سے پہلے گاڑی پر تھے یا نہیں تو وہ ہمارے عرف سے ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی پر ہی سوار تھے، لغت اس پر خاموش ہوجاتی ہے۔
تو اس سے تو اتنا ثابت ہو رہا ہے کہ جب میں کھڑا ہوں گا تو زندہ ہوں گا۔ یہ نہیں کہ کھڑا ہونے سے پہلے میں مردہ ہوں گا۔ بعثت اور حیات اکٹھی ہوں گی، تو اس سے تو قبر کی حیات کا ثبوت مل رہا ہے۔
﴿وَ اِنَّ اللہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۳۶﴾﴾
اللہ تعالیٰ میرا اور تم سب کا رب ہے، اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ؕ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿۴۱﴾﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں اور دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ آپ کی ایک بیوی کا نام سارہ ہے اور دوسری بیوی کا نام ہاجرہ ہے۔ تو ہماری گفتگو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات تک رہے گی، حضرت اسماعیل او ر حضرت اسحاق علیہما السلام کا تذکرہ ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔ ویسے تو جب آدمی قرآنی آیات پر گفتگو کرے تو ایک ایک آیت پر کتنی تفصیل سے گفتگو کی جاسکتی ہے آپ سنتے ہیں آپ کو اس کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ہم خلاصہ بیان کرتے ہوئے تھوڑا تھوڑا کر کے درس آگے چلا رہے ہیں تاکہ خلاصہ اور ضروری مضامین آپ کے سامنے آ جائیں۔ اس سے پھر بات مکمل ہوتی ہے۔
میرا پچھلے مہینے عرب امارات، کینیا، ملائیشیا کا سفر تھا۔ گفتگو ہوئی تو ان حضرات کو احساس ہوا کہ ایک آیت، ایک حدیث اور ایک عقیدہ کو سمجھنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوتا ہے۔ ہمارا ایک جگہ سبق تھا صبح نو سے بارہ بجے تک اور پھر ظہر سے عصر اور پھر مغرب سے عشاء۔ تو انہوں نے ایک مجلس میں مجھے کہا کہ مولانا صاحب! ہماری خواہش ہے کہ کسی عقیدہ پر کوئی ایک دلیل پیش فرما دیں۔ تو میں نے عشاء کے بعد ایک حدیث
”اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ“
119F
مسند ابی یعلی الموصلی: ص658 رقم الحدیث3425
پر جب بات شروع کی تو رات کے ساڑھے دس بج گئے۔ میں نے کہا کہ آگے شروع کریں یا بس کریں؟ کہنے لگ: بس کریں،باقی اگلے سفرمیں۔ تو ایک حدیث پر دو گھنٹے لگے ہیں۔
میں تھوڑے تھوڑے اشارے کرتا ہوں وگرنہ بہت تفصیل سے گفتگو کی جا سکتی ہے ۔ ہم آپ کے وقت کا بھی خیا ل کرتے ہیں اور اس بات کا بھی خیال کرتے ہیں کہ ضروری ضروری مضامین بھی ہمارے سامنے آتے رہیں۔
بیان ریکارڈ کرنے کی اہمیت:
آج چونکہ رائیونڈ کا اجتماع بھی شروع ہے -اللہ اس کو مبارک فر مائے، اس کو امت کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے، شرور اور فتن سے محفوظ فرمائے- ہمارےبہت سارے ساتھی وہاں پر تشریف لے گئے ہیں اور ہم نےبھی کل جانا ہے ان شاء اللہ، دعا کے بعد واپس آئیں گے تو بعض حضرات کا خیال تھا کہ شاید یہ درس مؤخر ہو۔ میں نے کہا کہ بھائی درس مؤخر نہیں ہوگا، سارے ساتھی تو اجتماع پر بھی نہیں جاتے، کچھ رہ بھی جاتے ہیں اور جو جاتے ہیں اگر وہ واقعتاً درس سننےکا شوق رکھتے ہوں تو ہمارا درس ریکارڈ ہوتا ہے تو وہ سن لیں گے اور وہ ریکارڈنگ نہ مانگیں تو آپ سمجھیں کہ وقت پورا کرتے ہیں، سننے کا شوق نہیں رکھتے، جن کو سننے کا شوق ہو تو ہمارا تو ہر درس ریکارڈ ہوتا ہے، وہ بعد میں سن لیا کریں۔
میں اس سفر میں عجیب باتیں دیکھتا رہا، شاید آپ کو میری بات پر کسی حد تک یقین آئے۔ میں نے اس دفعہ باہر کے سفروں میں بعض ایسے حضرات کو دیکھا ہے کہ میرے خیال میں میری نجی مجلس کی گفتگو جو میں نے کی ہے اور اس کی آڈیو ریکارڈنگ ہوئی ہے اور وہ نیٹ پر بھی گئی ہے تو شاید کوئی بھی ایسی گفتگو نہیں ہے جو انہو ں نے نہ سنی ہو، بیانات تو بہت دور کی بات ہیں، اور بعضوں نے تو ایک ایک بیان کو سو سو بار سنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب! ہم خلوت میں آپ کے بیانات سنتے رہتے ہیں اور پھر کیسٹ بند کر کے روتے ہیں، پھر سنتے ہیں پھر روتےہیں اور ہم پاکستا ن والوں پر حیران ہوتے ہیں کہ آپ جیسا بندہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حوالے کیا ہو ا ہے!
آپ واقعی نرم آدمی ہیں!
ہمارے ہاں جیسے بہت مشہور ہے کہ مولانا گھمن صاحب بہت سخت ہیں، لہجہ بڑا سخت ہے، مجھے اس سفر میں شافعی المسلک اور ملائیشیاء کے دو علماء اکٹھے ملے۔ ایک عجیب بات کی۔ دنیا میں جو قو میں نرم شمار ہوتی ہیں ان میں شاید ملائیشیا ءوالے ایک نمبر پر ہوں، یہ بہت نرم لوگ ہیں، مزاج نرم ہے،آپ لوگ چائے گرم پیتے ہیں اور وہ چائے ٹھنڈی پیتے ہیں، اتنی ٹھنڈی پیتے ہیں کہ بسا اوقات تو برف ڈال دیتے ہیں، ہوٹل سے چائے لیں گے اور پلاسٹک میں بند کریں گے، موٹر سائیکل پر ر کھیں گے اور گھر جاکر پییں گے۔ اب بتاؤ! وہ کیسی چائے ہو گی؟! ہردستر خوان پر جیسے کھانے کے لیے پلیٹ رکھتے ہیں اس طرح وہ چائے بھی رکھتے ہیں، تو جو قوم اتنی ٹھنڈی چائے پیتی ہو وہ کتنی نرم مزاج ہو گی؟
مجھے ان علما نے کہا کہ ہمیں ایک بات پر تعجب ہے کہ مشہور یہ ہے کہ آپ بہت سخت ہیں اور آپ کے میز بان ملائشیا کے لوگ ہیں جن سے زیادہ نرم ہی کوئی نہیں۔ تو اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملائشیا کے لوگ آپ کو شوق سے سنتے ہیں حالانکہ یہ سخت بندے کو بالکل نہیں سنتے۔ ملائشیا میں ایک ٹی وی ہے IKIM، انہوں نے مجھے بلایا اور جو بیان آپ نہیں سن سکتے انہوں نے کہا کہ جی مولانا صاحب! ہمارے ٹی وی پر عقیدہ اھل السنۃ کے نام سے بیان کریں! ہم اہل حدیث اور اہل قرآن نہیں بلکہ خود کو اھل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں،آپ اس پر دلائل دیں او ر لائیو بیان دنیا میں نشر ہوا اور لوگ اس کو سن رہے ہیں اور ساتھ ملائیشین زبان میں اس کا تر جمہ بھی چل رہا ہے۔
تو خیر مجھے ایک بات کا احساس ہوا باہر کے سفروں میں کہ یہ جو آپ کی مسجد کا درس ہے دنیا کا بہت بڑا طبقہ ہے جو اس درس کو بڑے اہتمام سے سنتا ہے، جب یہ ریکارڈ ہو کر نیٹ پر جاتا ہے تو لوگ اس کو شوق سے سنتے ہیں۔ لوگ ”دروس القرآن“ کو شوق سے خریدتے ہیں اور ابھی دروس القرآن کی ایک ہی جلد چھپی ہے اور چھپ کے دنیا میں جا رہی ہے اور لوگ بار بار کہہ رہے ہیں کہ مولانا صاحب! دوسری جلد کب آئے گی؟ میں نے کہا: بھائی! ہمارے اس درس کا چھ سات دفعہ ناغہ ہوا ہے کچھ مجبوریوں کی وجہ سے، ان شاء اللہ ہم کوشش کریں گے کہ دسمبر میں اگر نہیں تو جنوری میں دوسری جلد بھی آ جائے گی تو پھر آپ کو اندازہ ہو گا کہ جامع مسجد عثمانیہ کے دروس القرآن کا فیض دنیا میں کتنا پھیلا ہے۔ اللہ ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے دو تین باتیں ذہن میں رکھ لیں! حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا جو سلسلہ ہے وہ اپنے گھر سے ہی شروع ہوا۔ سب سے پہلے اپنے والد کو دعوت دی۔ جو میں نے آیت تلاوت کی ہے:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ؕ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿۴۱﴾﴾
فرمایا: اس کتاب قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی باتیں بھی کیا کرو! وہ سچے نبی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد کو دعوت:
﴿اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعۡبُدُ مَا لَا یَسۡمَعُ وَ لَا یُبۡصِرُ وَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡکَ شَیۡئًا ﴿۴۲﴾ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿۴۳﴾ یٰۤاَبَتِ لَا تَعۡبُدِ الشَّیۡطٰنَ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ عَصِیًّا ﴿۴۴﴾﴾
جب انہوں نے اپنے والد سے کہا: اے ابا جی! آپ ان بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو سنتے بھی نہیں اور دیکھتے بھی نہیں، آپ کے کسی کا م کےنہیں اور میرے پاس وحی کا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ میرے پاس وہ علم ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ میری بات مان لیں اور شیطان کی بات نہ مانیں، شیطا ن اللہ کا نافرمان ہے اور دشمن ہے، یہ آپ کو پریشان کرے گا اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ پر اللہ کا عذاب نہ آ جائے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے کہہ رہے ہیں۔
والد نے کہا:
﴿اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِہَتِیۡ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ﴾
اے ابراہیم! کیا تو یہ چاہتا ہے کہ تیری اس دعوت کی وجہ سے میں بتوں کی عبادت چھوڑ دوں؟ کان کھول کر سن لے
﴿لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا﴾
اگر تو اس دعوت سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔
اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ کی توحید کا مسئلہ بھی ہے اور والد کے ادب کا مسئلہ بھی ہے، اللہ کی تو حید بھی نہیں چھوڑ تے اور والد کا ادب بھی نہیں چھوڑ رہے، اپنے والد سے کہتے ہیں
”سَلٰمٌ عَلَیۡکَ“
اچھا ابا جی! اللہ کے حوالے، میں آپ کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں، جتنا میں آپ کو سمجھا سکتا تھا اس حد تک تو میں نے آپ کو سمجھایا ہے۔
﴿سَاَسۡتَغۡفِرُ لَکَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِیۡ حَفِیًّا ﴿۴۷﴾﴾
میں آپ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہوں لیکن میں آپ سے الگ ہو کر بھی اللہ سے آپ کے لیے معافی مانگتا رہوں گا کہ اے اللہ! میرے ابا جی کو معاف فرما، اللہ! میرے ابا جی کو سمجھ عطا فرما، میں آپ کے بتوں کو چھوڑتا ہوں اور مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ اللہ مجھے محروم نہیں کرے گا۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی پہلی دعوت ہے جو آپ نے اپنے والد کو دی ہے اور والد نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دعوت:
اب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے گھر سے نکلے اور اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا۔ نبی کا دل دیکھیں! کتنا بڑا ظرف ہوتاہے۔ اکیلے ہیں، گھر کا ماحول مخالف ہے، خاندان مخالف ہے اوراپنی قوم سے دلائل کے ساتھ بات کی ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۷۰﴾ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اَصۡنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰکِفِیۡنَ ﴿۷۱﴾﴾
اے میرےپیغمبر! ان کو ابراہیم کا واقعہ سناؤ جب انہوں نے اپنی قوم سے اور اپنے والد سے بھی کہا تھا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ اللہ کو چھوڑ کر سجدے کسے کر تے ہو؟ تو قوم نے کہا تھا: ہم ہمیشہ ان بتوں کی پوجا کریں گے جن کی ہم ہمیشہ سے پوجا کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا:
﴿قَالَ ہَلۡ یَسۡمَعُوۡنَکُمۡ اِذۡ تَدۡعُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾ اَوۡ یَنۡفَعُوۡنَکُمۡ اَوۡ یَضُرُّوۡنَ ﴿۷۳﴾﴾120F
الشعراء 26: 69 تا 73
جب تم ان کو بلاتے ہو تو کیا یہ تمہاری بات کو سنتے ہیں؟ اور اگر تم کہیں پھنس جاؤ تو تمہیں نفع دیتے ہیں؟ تمہیں خوشی ملے تو تمہیں تکلیف دے سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا: اے ابراہیم! یہ ساری باتیں چھوڑو،
﴿بَلۡ وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ﴾
ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے تو ہم نےبھی ایسے ہی کرناہے، بس یہ نہ پوچھو کہ یہ نفع دیتے ہیں یا نقصان دیتے ہیں؟ سنتے ہیں یا نہیں؟ ہمارے آباء واجداد اسی طرح کرتے تھے تو ہم بھی اسی طرح کریں گے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمانے لگے: پھر یہ بات سن لو کہ تم اور تمہارے آباء واجداد جو مشرک ہوں
﴿فَاِنَّہُمۡ عَدُوٌّ لِّیۡۤ اِلَّا رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۷۷﴾﴾
رب العالمین کے علاوہ ہر مشر ک میرا دشمن ہے، میں نہ تمہیں مانتا ہوں اور نہ تمہارے آباء واجداد کو مانتا ہوں۔
ابراہیم علیہ السلام کے دلائلِ توحید:
پھر ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایک اللہ کو ماننے پر دلائل دینا شروع کیے۔ فرمایا:
﴿الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾﴾
میرا اللہ وہ ہے جس نے مجھے پیدا بھی کیا ہے اور پھر وہ ہر موقع پر میری رہنمائی بھی فرماتا ہے۔ یہ کیسی عجیب گفتگو ہے! بچہ چھوٹا سا ہوتا ہے، اس کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ میری خوراک کہاں ہے؟ اللہ اس کے دل میں ڈالتے ہیں کہ تیری خوراک تیری ماں کا دودھ ہے، اللہ اس کے دل میں ڈالتے ہیں تو یہ دائیں بائیں نہیں جاتا بلکہ سیدھا اپنی ماں کے دودھ پر جاتا ہے۔ تو اللہ یوں رہنمائی فرماتے ہیں۔
﴿وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۷۹﴾﴾
میرا رب وہ ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور مجھے پلاتا ہے۔
﴿وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾ وَ الَّذِیۡ یُمِیۡتُنِیۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡنِ ﴿ۙ۸۱﴾ ﴾
جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا بھی دیتاہے۔ موت بھی وہی دیتا ہے اور زندگی بھی وہی دیتا ہے۔
﴿وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾﴾
اور مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے قیامت کے دن معاف بھی فرمائے گا۔
اسلوب کی تبدیلی کی وجہ:
ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ ساری باتیں فرمائی ہیں تو دو مقامات پر طرز بالکل بدل دیا ہے۔ پہلےفرمایا: اللہ نے مجھے پیدا بھی کیا ہے، اللہ میری رہنمائی بھی فرماتے ہیں، اللہ مجھے کھلاتے بھی ہیں، اللہ مجھے پلاتے بھی ہیں․․․ آگے ایک جملہ چھوڑ کر فرمایا کہ اللہ مجھے موت بھی دیں گے، اللہ مجھے زندگی بھی دیں گے۔ اب اس سے پہلے ایک بات فرمائی :
[۱]: ﴿وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾﴾
جب میں بیمار ہوتا ہوں تو شفا بھی دیتے ہیں ۔
اور اس سے آگے ایک بات فرمائی:
[۲]: ﴿وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾﴾
فرمایا اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن مجھے معاف بھی فرمائیں گے۔
اب یہ دو جملے آپ سمجھیں۔ جب پیدائش کی باری آئی تو فرمایا: اللہ پیدا بھی کرتے ہیں، اللہ ہدایت بھی دیتے ہیں، کھلاتے بھی ہیں، پلاتے بھی ہیں، موت بھی دیں گے، زندہ بھی کریں گے․․․ اور جب بیماری کی باری آئی تو ابراہیم علیہ السلام نے لفظ بدل دیے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بیماری بھی دیتا ہے اور اللہ شفا بھی دیتا ہے۔
بیماری کی نسبت اپنی طرف اور شفا کی نسبت اللہ کی طرف:
جیسے ہم کسی کے پاس جائیں تو یہی لفظ کہتے ہیں کہ بھائی! گھبراؤ نہیں، جس خدا نے بیماری دی ہے تو وہی خدا صحت بھی دے گا! یہی بات ہم لوگ کہتے ہیں جبکہ ابراہیم علیہ السلام کہہ رہے ہیں
﴿وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾﴾
کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو شفا اللہ دیتا ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا کہ جو اللہ بیماری دیتا ہے وہی صحت بھی دیتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کی نسبت اپنی طرف کی ہے، اللہ کی طرف نہیں کی اور صحت اور شفا کی نسبت اللہ کی طرف کی۔ یہ جملے کہہ کر ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات سمجھائی ہے کہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ بیماری کی نسبت اللہ کی طرف نہ کریں، صحت کی نسبت اللہ کی طرف کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً بندے جب بیمار ہوتے ہیں تو ان میں سے ننانوے فیصد وہ ہوتے ہیں جن کی بیماری میں ان کی بد پرہیزی کا دخل ہوتا ہے۔ ایک فیصد ایسے ہوتے ہیں جو بالکل ترتیب سے چل رہے ہوں اور پھر بھی بیماری آئے۔ جیسے اب مجھے بھی گلے میں ہلکی سی خراش محسوس ہو رہی ہے زکام کی وجہ سے، چونکہ موسم بدل رہا ہے۔ اب بدلتے موسم میں ہم موسم کا خیال نہیں کرتے۔ ابھی کھانا کھایا اور میزبان نے پوچھا: مولانا صاحب! بوتل پییں گے؟ اب دل تو نہیں کر رہا لیکن چونکہ آ گئی ہے تھوڑی سی پی بھی لیتے ہیں۔ میں بھی ایسے کرتا ہوں اور آپ بھی ایسے کرتے ہیں۔ اب بتاؤ اس موسم میں بوتل پینے کا کوئی جوا ز بنتا ہے؟ لیکن بس پی لی۔ اب جب انسان نے بد پر ہیزی کی ہےتو بتاؤ کہ بیماری آنی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اللہ پاک نے ہر چیز میں تاثیر رکھی ہے۔ تو اس تاثیر نے اس کے مطابق عمل بھی کرنا ہے۔
شہد میں شفا؛ لیکن کیسے؟
ہم بہت ساری باتیں نہیں سمجھتے تو غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شہد میں اللہ نے شفا رکھی ہے اس میں کوئی اشکال نہیں لیکن شفا کیسے رکھی ہے اور اس کو کھانا کیسے ہے؟ یہ طبیب کو پتا ہے۔ اب گرمی میں شہد پانی میں ملاکر پییں تو شہد کی تاثیر ٹھنڈی ہو جائے گی تو گرمی میں شفا ہو گی۔ سردی میں شہد کو ویسے چاٹ لیں بغیر پانی ملائے تو اب اس میں شفا ہے۔
کوئی شخص کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی میں شہد ملا کر پیتے تھے تو یہ دسمبر میں صبح کو اٹھے اور ایک جگ شہد کا پانی بنا کر پی لے اور پھر بیمار ہو اور کہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے تو بندہ بیمار نہیں ہوتا، یہ کیسے ہوا؟ بھائی! حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہد پیتے تو تھے لیکن کب پیتے تھے یہ بھی تو سمجھنا ضروری ہے۔
ہر روز گوشت نہ کھائیں:
میں ایک بار لاہور گیا -یہ بہت پرانی بات ہے- ہمارے ایک قاری صاحب دوست تھے تو وہ مجھے فرمانے لگے: مولانا صاحب! کیا پسند کرتے ہیں، کیا کھائیں گے؟ میں نے جیسے دوست سے کہتے ہیں انہیں کہا کہ بکرا کھائیں گے۔ مجھے وہ کہنے لگے: سبزی ہو جائے؟ میں نے کہا: جو بھی ہو جائے، میں نے تو اپنی پسند بتا دی ہے۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ اس پسند کی کوئی خاص وجہ ہے؟ میں نے کہا کہ بکرے کا گوشت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا، اس لیے ہمیں بھی پسند ہے۔ مجھے انہوں نے کہا : مولانا صاحب! پسند تو تھا لیکن اس کا یہ معنی تو نہیں کہ ہر روز کھائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی کھائیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رو زکھاتے تھے؟ تو یہ حضور پاک صلی اللہ کی سنت ہے لیکن یہ بھی دیکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم استعمال کب فرماتے تھے۔
رات کو دودھ پییں لیکن بکری کا:
ملتان میں ہمارے ایک حکیم صاحب ہیں، مجھے جسم میں کوئی تکلیف ہوئی تو میں نے علاج ان سے کروایا۔ مجھے انہوں نے میری بیماری نہیں بتائی بس علاج کرتے رہے۔ جب علاج ہو گیا تو پھر انہوں نے بتایا کہ آپ کی بیماری یہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں پہلے بتاتا تو آپ پریشان ہو جاتے، دراصل آپ کا خون اور پیپ آپس میں ملنا شروع ہو گیا تھا، اس وجہ سے جسم میں خارش شروع ہو گئی تھی، علاج کرتا رہا اب ٹھیک ہو گیا تو اب آپ کو بتا دیا کہ بیماری یہ تھی۔ تو وہ حکیم صاحب مجھے کہنے لگے کہ جب تک آپ دوا کھاتے ہیں یا تو آپ دودھ نہ پییں، اگر پینا بھی ہے تو صبح صبح گرم پییں، رات کو سوتے وقت نہ پییں۔ اب چونکہ میں مولوی تھا اور مولوی دلیل بھی دیتے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ سوتے وقت دودھ پینا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، حکیم صاحب! سنت سے بیماری کیسے پھیل سکتی ہے؟ سنت میں تو شفا ہی شفا ہے۔ تو حکیم صاحب فرمانے لگے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جو دودھ پیتے تھے وہ بکری کا ہوتا تھا اور آپ کے ہاں تو بھینس کا ہوتا ہے، بکری کا ملے تو آپ بھی پی لیں، کچھ نہیں ہو گا، بھینس کا ہو تو پھر نہیں پینا!
اب جس کے سامنے یہ پوری بات نہیں ہے وہ کیا سمجھے گا کہ سوتے وقت دودھ پینا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور حکیم کہتا ہے کہ نہ پیو! لہذا حکیم پاگل ہے، اس کو پتا ہی نہیں ہے شریعت کا، یہ اسلام کو جانتا ہی نہیں ہے، اس پر بس حکمت چڑھی ہوئی ہے۔ اب حکیم کو برا کہیں گے حالانکہ حکیم تو بات ٹھیک کہہ رہا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ادب:
ابراہیم علیہ السلام کی بات کو اس تناظر میں سمجھیں
﴿وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾﴾
کہ جب بیمار میں ہوتا ہوں تو اللہ ایسے کریم ہیں کہ مجھے شفا دیتے ہیں۔
تو مرض کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور شفا کی نسبت اللہ کی طرف کی ہے۔ یہ ادب ہے اور ہمیں ادب سمجھانا نہیں آتا تو پھر امت تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ ادب بڑی بنیادی چیز ہے۔
معصوم ہیں تو مغفرت کے یقین کے بجائے امید کیوں فرمایا؟
اب دوسری بات سمجھیں کہ نبی تو معصوم ہے، نبی سے اللہ گناہ نہیں ہونے دیتے، جب گناہ نہیں ہوتا تو یقیناً نبی بخشا ہوا ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام فرما رہے ہیں:
﴿وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾﴾
کہ مجھے امید ہے کہ قیامت کو اللہ مجھے معاف بھی فرما دیں گے۔ امید نہیں بلکہ پورا یقین ہے تو پھر یقین کو امید سے کیوں تعبیر کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پر یقین ہونے کے باوجود پھر بھی اللہ سے ڈرتے ہیں کہ میں ایسی بات کیسے کہہ دوں۔ یہ ابراہیم علیہ السلام جیسے نبی کا معاملہ ہے۔
ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے:
اس لیے علماء کہتے ہیں:
”اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ“
کہ ایمان امید اور خوف کے درمیان ہوتا ہے، کیا مطلب کہ اللہ سے ڈرتے بھی رہیں اور امید بھی رہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر قیامت کے دن اعلان ہو جائے کہ سارے لوگ جہنم میں جائیں گے اور ایک بندہ جنت میں جائے گا تو مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا اور اگر قیامت کو اعلان ہو جائے کہ سارے جنت میں جائیں گے اور صرف ایک جہنم میں جائے گا تو میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں میں ہی نہ ہو ں۔121F
العرف الشذی للشیخ انور الکشمیری: ج2 ص407
اب دیکھیں! امید بھی کتنی ہے اور خوف بھی کتنا ہے؟! آدمی ڈرتا بھی رہے اور اللہ سے امید بھی ہو تو اس کو ایمان کہتے ہیں۔ آدمی کبھی بھی بے خوف نہ ہو۔
اب ابراہیم علیہ السلام کے ایک ایک لفظ سے کیسا خوف نکل رہا ہے آپ کو خود اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ تو اپنی قوم کو وہ دلیل دی ہے جو عام سنجیدہ طبقہ سمجھتا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کی ایک اور دلیل:
اب ایک اور دلیل ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو دی کہ تم جو اللہ کے علاوہ بتوں کی عبادت کرتے ہو، اللہ کے علاوہ اور بڑی بڑی چیزیں کیا ہو سکتی ہیں؟ آسمان پر ستارہ ہو سکتا ہے، چاند ہو سکتا ہے، سورج ہو سکتا ہے، یہ بھی اللہ کی بڑی مخلوق ہیں، تو بتوں کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں، یہ تو چل بھی نہیں سکتے، اندھیرے میں روشنی نہیں دے سکتے تو ان پر کیا توقع رکھیں؟
﴿فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا﴾ 122F
الانعام6: 76
جب رات چھا گئی، ستارہ طلوع ہوا تو ابراہیم علیہ السلام فرمانے لگے:
﴿ہٰذَا رَبِّیۡ﴾
کہ یہ میرا رب ہے؟ اس کو رب مانوں؟
﴿فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ﴿۷۶﴾﴾
جب ستارہ غروب ہو گیا تو ابرا ہیم علیہ السلام نے فرمایا: میں غروب ہونے والے سے پیار نہیں کرتا۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو ڈوبتا ہے میں اس کو خدا نہیں مانتا بلکہ فرمایا کہ جو ڈوبتا ہے میں اس سے پیار نہیں کرتا،اس سے محبت نہیں کرتا، عبادت تو دور کی بات ہے میں ڈوبنے والوں سے پیار بھی نہیں کرتا۔ اس کی وجہ بھی ہے، قرآن کریم میں ہے :
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ﴾
البقرۃ2: 165
جو ایمان والے ہیں ان سے زیادہ اللہ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو ڈوبے اس سے محبت نہیں ہوتی، جب اس سے محبت نہیں تو وہ خدا کیسے بنے گا؟
﴿فَلَمَّا رَاَ الۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ﴾
جب چمکتا ہوا چاند دیکھا تو فرمایا: یہ میرا رب ہے؟ اور ایک وقت آیا کہ چاند بھی ڈوب گیا تو فرمانے لگے:
﴿لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷۷﴾﴾
کہ اگر خدا نے میری راہنمائی نہ کی تو تمہاری طرح میں بھی گمراہ ہو جاؤں گا، اس چاند کو بھی میں خدا نہیں مان سکتا۔
پھر اس کے بعد سورج اس سے بھی زیادہ روشن ہو گیا،
﴿فَلَمَّا رَاَ الشَّمۡسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۚ﴾
فرمایا: یہ رب ہے؟ یہ جو بڑا ہے اس کو خدا مان لوں؟
﴿فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿۷۸﴾﴾
جب وہ بھی ڈوب گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ یہ سب نفع نہیں دے سکتے، نقصان نہیں دے سکتے، سن نہیں سکتے، بات نہیں کر سکتے تو میں ان کو خدا کیسے مانوں؟ ابراہیم علیہ السلام کتنی محنت کے ساتھ اپنی قوم کو آہستہ آہستہ سمجھاتے رہے۔ جب یہ سارے راستے پورے ہو گئے اور آپ نے سمجھا کہ قو م کو دلیل سے بات سمجھ نہیں آ رہی، اب ان کے ساتھ کوئی اور ہاتھ کرنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمانے لگے :
﴿وَ تَاللہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصۡنَامَکُمۡ بَعۡدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۵۷﴾﴾124F
الانبیاء 21: 57
مجھے لگتا ہے کہ تمہیں تب سمجھ آنی ہے جب میں نے تمہارے خداؤں سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ جملہ کہہ دیا۔ اب یہ قوم ایک میلہ لگتا تھا اس پر جانے لگی۔ ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ تم بھی چلو! قرآن کریم میں ہے:
﴿فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۸۸﴾ فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ﴿۸۹﴾﴾125F
الصافات 37: 88، 89
ستا روں کو دیکھا اور فرمایا: میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، میں نہیں جا سکتا۔ قوم نے سمجھا کہ ابراہیم علیہ السلام اب کچھ ٹھیک ہو گئے ہیں، انہوں نے بھی ستاروں کے اثر کو ماننا شروع کر دیا ہے جبکہ ابراہیم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں، تمہارے شرک کو دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔
قوم میلے پر چلی گئی۔ ابراہیم علیہ السلام ان کے جانے کے بعد بت خانے میں داخل ہوئے، کسی بت کا ناک کاٹ دیا، کسی کا کان کاٹ دیا، کسی کا ہاتھ کاٹ دیا، کسی کا پاؤں کاٹ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ جب وہ میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ کوئی بت لنگڑاہے، کوئی سر کٹا ہے، سارے بت یوں پڑے تھے۔اب انہوں نے کہا کہ یہ کا م کس نے کیا ہے؟ تلاش کرو اسے! بعض لوگ کہنے لگے:
﴿سَمِعۡنَا فَتًی یَّذۡکُرُہُمۡ یُقَالُ لَہٗۤ اِبۡرٰہِیۡمُ﴾
ہم نے ابراہیم کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ہمارے بتو ں کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کرتا تھا، کہنے لگے:
﴿فَاۡتُوۡا بِہٖ عَلٰۤی اَعۡیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡہَدُوۡنَ﴾
لاؤ ان کو سب کے سامنے تاکہ ہم ان سے پوچھیں۔
جب ان کو لایا گیا تو قوم نے پوچھا:
﴿ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ﴾
اے ابراہیم! ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام آپ نے کیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: یہ میں نے نہیں کیا، ﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾ یہ جو بڑا ہے نا اس نے کیا ہے۔ تو وہ فوراً کہنے لگے: ابراہیم! آپ بھی عجیب ہیں، یہ بات نہیں کر سکتا، چل نہیں سکتا تو یہ کلہاڑا مارے گا؟ ابراہیم علیہ السلام فرمانے لگے: یہی بات تو میں تمہیں کہتا ہوں،
﴿اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
تف ہے تمہاری عبادت پر، تم اتنی موٹی سی بات کو بھی نہیں سمجھ سکتے، یہی بات تو میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں، تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔
﴿ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ﴾
پھر وہ شرمندہ ہو کر کہنے لگے کہ تجھے پتا ہے کہ یہ باتیں نہیں کر سکتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمانے لگے کہ مجھے پتا ہے تبھی تو تمہیں کہتا ہوں کہ ان کی عبادت نہ کرو ۔
کیا بتوں کو بڑے بت نے مارا تھا؟
یہاں ایک چھوٹا سا سوال سمجھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جو کہا ہے کہ بڑے نے یہ کیا ہے، یہ بظاہر سچ اور درست نہیں کہا۔اس کا جواب سمجھیں؛ بسا اوقات گفتگو میں اپنے مخالف کے مسلَّمات کو لے کر گفتگو کی جاتی ہے۔ مسلَّمات کا معنی کہ جس بات کو مخالف بھی مانتا ہو اس کو فرض کر لیتے ہیں کہ تم ٹھیک کہتے ہو، اب بتاؤ اب کیا کریں؟ نتیجہ پھر اس کے خلاف نکلتا ہے۔ ابرہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ یہ ہمارے مدد گار ہیں، نفع دیتے ہیں، نقصان دیتے ہیں، چلو مان لیتے ہیں، اس لیے تو میں کہتا ہوں کہ اس بڑے نے کیا ہے۔اب انہوں نے کہا: یہ تو نہیں کر سکتے۔ فرمایا: یہی بات تو میں بھی کہتا ہوں۔ یہ مقصد تھا اس بات کے کہنے کا، ایسا نہیں تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کی بات میں جھوٹ تھا العیاذ باللہ۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
حضرت ابراہیم کی نمرود کو دعوت:
جب قوم کی بس ہو گئی تو ابراہیم علیہ السلام نے براہ راست نمرود کو دعوت دی۔ جب نمرود کو پتا چلا کہ ہمارےملک میں کوئی نوجوان لڑکا ہے جو دعوت دیتاہے، ہماری عبادت کے خلاف بولتا ہے اور ہمیں بھی خدا نہیں مانتا تو اس نے کہا کہ جا¬ؤ! ان کو بلا کر لاؤ۔ ابراہیم علیہ السلام اب نمرود کے دربار میں آئے۔ نمرود نے ابراہیم علیہ السلام سےپوچھا: تو ہمیں خدا نہیں مانتا؟ فرمایا: نہیں۔ پوچھا کہ ان بتو ں کو خدا نہیں مانتا؟ آپ نے فرمایا کہ ان کو بھی نہیں مانتا۔ اس نے پوچھا: پھر کس کو مانتا ہے؟
فرمایا: میں خدا اس کو مانتا ہوں
﴿رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ﴾
جو زندہ بھی کرتا ہے اور موت بھی دیتاہے۔ اس نے کہا: یہ کون سی بڑی بات ہے؟ سزائےموت کے ایک قیدی کو لیا اور کہا: چلو تم بری ہو اور کہنے گا کہ میں نے اسے زندہ کیا اور ایک اس قیدی کو لیا جس کے لیے فیصلہ تھا بری ہونے کا، کہا کہ اس کو سزائے موت دے دو، اسے سولی پر لٹکا دو! کہنے لگا کہ ہم نے اس کو مار دیا۔تو دیکھو! ہم نے زندہ بھی کیا اور ہم نے مار بھی دیا، تم کہتے تھے کہ اللہ مارتا ہے اور اللہ ہی زندہ کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ نمرود موت وحیات کا معنی نہیں سمجھتا۔
اس پر میں بات کروں گا تو بات لمبی ہو جائے گی۔ بعض باتیں جلدی سمجھ میں نہیں آتیں، ان پر تھوڑی سی بات کرنی پڑتی ہے پھر جا کر بات سمجھ آتی ہے۔ اگر میں نے بات شروع کی تو آپ کو میری بات پر تعجب ہو گا اور آپ لوگ کہیں گے کہ مولانا صاحب! اس مسئلہ کی کیا ضرورت ہے؟
میں ملائشیا گیا،وہاں لوگو ں نے یہ حیات ممات کا مسئلہ چھیڑا ہوا ہے۔ تو مجھے شافعی المذہب لوگو ں نے کہا جو ہماری اردو زبان بھی نہیں سمجھتے کہ مولانا صاحب! حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ سمجھائیں! اور یہ کہنے والے بھی تبلیغی جماعت کے لوگ ہیں کہ ہمارے بچوں کو اِن لوگوں نے خراب کرنا شروع کر دیا ہے، ہمیں مسئلہ سمجھائیں! تو میں نے کہا: بھائی اس کے لیے وقت زیادہ چاہیے، انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
عذاب قبر پر اشکالات کے جوابات:
میں صرف یہ بتا رہا تھا کہ بسا اوقات مسئلہ سمجھانے کے لیے لمبی بات سمجھانی پڑتی ہے تو مجھے صرف موت کا معنی سمجھانے کے لیے پانچ گھنٹے سبق پڑھانا پڑھا، صرف یہ سمجھانے کے لیے کہ موت کیا ہے! جب ان کو بات سمجھ میں آ گئی تو میں نے کہا کہ اب تمہیں سمجھ آئے گا کہ برزخ کیا ہے۔ مجھے اچھا خاصا وقت لگا نا پڑا کہ برزخ کسے کہتے ہیں؟ اب اگر برزخ کا مسئلہ نہ سمجھائیں تو بہت سارے اعتراضا ت ہوتے ہیں۔
مثلاً یہ لوگ کہتے ہیں کہ فرعون جو مصر میں ہے وہ قبر میں نہیں پڑا ہوا بلکہ قبر سے باہر پڑا ہوا ہے اور آپ لوگ کہتے ہیں کہ عذابِ قبر ہوتا ہے۔ جب فرعون قبر میں ہے ہی نہیں تو اس کو عذابِ قبر کیسے ہوگا؟ اس طرح ایک شبہہ یہ بھی کرتے ہیں کہ ایک آدمی کو جانور کھا گیا ہے، وہ تو دفن ہوا ہی نہیں تو اس کو عذابِ قبر کہاں ہو گا؟ ایک کافر ہے اس کو شیر نے کھا لیا ہے، اگر اس کو عذاب ہو رہا ہے تو اس سے شیر کوبھی تکلیف ہو رہی ہو گی۔ تو بتاؤ اس جانور کو کس بات کی سزاہے؟ اس بنا پر یہ لوگ کہتے ہیں کہ جسم کو عذاب ہی نہیں ہوتا۔ ایسے شبہات وہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں ڈالے ہو ئے ہیں۔اس لیے لوگوں کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہو جاتاہے۔ اس لیے پھر سمجھانا پڑتا ہے کہ برزخ کیا ہے!
جب میں نے سارے سوالات چھیڑے تو ان کو بڑا تعجب ہوا کہ سارے سوالات تو یہی ہیں۔ پھر میں نے مسئلہ سمجھانا تھا، بتاؤ پانچ گھنٹے لگنے ہیں یا نہیں؟ ایک ایک اعتراض میں نقل کرتا رہا اور ان کو سمجھاتا رہا۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک بات کو سمجھانے میں کافی دیر چاہیے تب جا کے بات سمجھ آتی ہے۔
برزخ کسے کہتے ہیں؟
چھوٹی سی بات آپ بھی سمجھ لیں، میں لمبی بات نہیں کرتا۔ آپ یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ برزخ کسے کہتے ہیں؟ برزخ دو چیزوں کے مجموعے کانام ہے:
1: زمان 2 : مکان
زمان؛ وقت کو کہتے ہیں اور مکان؛ جگہ کو کہتے ہیں۔ برزخ کا زمان یہ ہے کہ موت سے لے کر حشر تک یہ سارا وقت زمان ہے اور سجین سے لے کر علیین تک یہ سارا مکانِ برزخ ہے۔ سجین ساتو ں زمینوں سے نیچے ایک جگہ ہے اور علیین آسمان پر ایک جگہ ہے، یہ سارا برزخ ہے۔
اب آپ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہو جاتا ہے اور اس کی لاش باہر پڑی ہوتی ہے لیکن وہ پھر بھی برزخ میں ہے۔ کوئی بندہ کہے گا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ لاش برزخ میں ہے اور ہم برزخ میں نہیں ہیں، جبکہ ہیں تو دونوں عثمانیہ مسجد میں! تو آپ اسے سمجھائیں گے کہ برزخ دو چیزوں کا نام ہے؛ سجین سے علیین تک مکان اور موت سے لے کر حشر تک زمان، اس میت کو دونوں چیزیں مل رہی ہیں، اس کو مکان بھی مل گیا اور زمان بھی اور ہمیں مکان تو مل گیا کہ سجین اور علیین کے درمیان ہیں لیکن ہمیں زمان نہیں ملا۔ یہ بات کب سمجھ میں آئے گی جب آپ کو برزخ کا معنی سمجھ میں آئے گا اور جب برزخ کا معنی سمجھ میں نہیں آئے گا تو سوالات پیدا ہوتے رہیں گے۔
لاش کو جانور کھالے تو عذاب کیسے ہو گا؟
یہ جو اعتراض تھا کہ بندہ شیر کے پیٹ میں ہے اس کو تکلیف ہوتی ہے تو شیر کو تکلیف کیو ں نہیں ہوتی؟ میں نے کہا: یہ تو بہت آسان ہے، انگلی میں ہڈی کو تکلیف ہو تو چمڑے کو بھی تکلیف ہوتی ہے؟ (نہیں ہوتی۔ سامعین) کبھی نہیں ہوتی۔ ہڈی کی حیثیت الگ ہے اور چمڑے کی حیثیت الگ ہے۔ سر میں درد ہو تو اوپر بھی تکلیف ہوتی ہے؟ اوپر تو نہیں ہوتی۔ پیٹ میں معدے میں درد ہو تو چمڑے کو بھی تکلیف ہوتی ہے؟ چمڑے کو تو نہیں ہوتی۔ تو کافر کو تکلیف ہوتی ہے لیکن شیر کو نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے پیٹ میں کیڑے پڑ جائیں، اس کو دوا کھلائی تو اندر کیڑے مر رہے ہیں اور آدمی کو کچھ بھی نہیں ہو رہا، وہ چیز جو کیڑے نے کھائی ہے اس کو تکلیف ہوئی ہے کہ نہیں؟ ہوئی ہے۔ اب دیکھو! باقی معدے کو تکلیف نہیں ہو رہی، جسم میں معدہ ہے اور معدے میں کیڑا ہے، وہ کیڑا مر جاتا ہے، کیڑے کو تو تکلیف ہوتی ہے لیکن معدے کو تکلیف نہیں ہوتی۔
اس لیے اگر کافر کسی شیر کی غذا بن جائے اور اس کی غذا کو تکلیف ہو اور شیر کو تکلیف نہ ہو یہ تو عقل میں آنے والی بات ہے۔ جب ہم نے یہ مسئلہ چھیڑا تو انہوں نے کہا: مولانا صاحب! ہم پر ایک اور احسان کریں۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ کہا کہ آپ دوبارہ دس دن آئیں، اس دفعہ آپ نے سفر کیا ہے کبھی صوبہ گڈا ، کبھی صوبہ پنگی، کبھی صوبہ کلنتن وغیرہ جب آپ دوبارہ آئیں گے تو ملائیشیا ء کے علماء ایک جگہ جمع ہوں گے، اُس بار آپ سفر نہیں کریں گے بلکہ ہم سفر کریں گے، ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہمارے ملک میں کون ہے۔ اب ہمیں پتا چلا ہے۔ آئندہ آپ ایک جگہ بیٹھیں گے اور ہم آپ کے پاس آئیں گے۔ تو اب ان کو احساس ہوا کہ دلائل کسے کہتے ہیں اور دلیل کی طاقت کتنی ہوتی ہے۔
اس لیے میں کبھی سرگودھا والوں سے کہتا ہوں کہ مزے کی نیند سو جاؤ! ہمارے ہوتے ہوئے آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہے ان شاء اللہ۔ بس یہ شرط ہے کہ تم تھوڑا سا اعتماد تو کرو! تم یہاں سے لاہور جاتے ہو تمہیں تکلیف نہیں ہوتی اور تمہیں 87 جاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے، اب اس کا علاج تو ہمارے پاس نہیں ہے۔
نمرود سے مناظرہ:
تو خیر میں عرض کر رہا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو سمجھایا۔ اب وہ موت وحیات سمجھتا نہیں تھا، وہ بد دماغ آدمی تھا، اس کو اب کیسےسمجھائیں؟ اس کے لیے وقت چاہیےتھا۔ تو ابراہیم علیہ السلام نے فوراً رخ بدل کر کہا کہ میرا اللہ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا!
﴿فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ﴾
نمرود چپ ہو گیا، اس کی بس ہو گئی۔ بادشاہوں اور حکومتوں کا مزاج ہوتا ہے کہ وہ دلیل سے بات نہیں کرتے، طاقت سے بات کرتے ہیں۔جب یہ سارے حربے نا کام ہو گئے تو نمرود نے کہا:
﴿حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿۶۸﴾﴾126F
الانبیاء 21: 68
کہ اپنے خداؤں کی مدد کرو اور ابراہیم کو آگ میں ڈالو۔
آگ جلا دی۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ مجھے کوئی ڈر نہیں، پھینک دو، اللہ میر ی مدد کرے گا۔ انہوں نے جلتی آگ میں ڈالا، آگ ایسی تھی کہ اوپر سے پرندہ گزرتا تو جل جاتا۔ جب ابراہیم علیہ السلام آگ میں گئے تو اللہ رب العزت نے فرشتے کو بھیجا کہ جاؤ آگ کو میری طرف سے کہہ دو !
﴿یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾﴾ 127F
الانبیاء 21: 69
اے آگ! ٹھنڈی ہوجا لیکن زیادہ ٹھنڈی نہیں کہ ہمارے ابراہیم کو تکلیف ہو، بلکہ ایسے ہو جا کہ گل وگلزار میں پڑے ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام وہاں سے بھی فارغ ہوئے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت:
جب یہ سارے مرحلے ختم ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام نے سوچا کہ اب بہتر یہ ہے کہ میں اس شہر کو چھوڑ دوں۔ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ، لوط علیہ السلام اور ان کی بیوی کو ساتھ لیا اور وہاں سے چل پڑے۔ پہلے فرات پہنچے، وہاں سے فلسطین، وہاں سے مصر پہنچے تو وہاں ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ مصر کا بادشاہ تھافرعون ۔
یہ وہ فرعون نہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آیا تھا بلکہ جیسے ہمارے ہاں صدر ہوتا ہے، وزیر اعظم ہوتا ہے، ہمارے ہاں بادشاہ صدر ہے اور اس دور کا مزاج یہ تھا کہ مصر کا جو بھی بادشاہ تھا اس کو فر عون کہتے تھے، فرعون نام نہیں ہے یہ فرعون وہاں کا ایک خاص لقب تھا، اس دور کا جو فرعون تھا اس کا ایک عجیب گندہ مزاج تھا کہ اگر کوئی شحص وہاں سے گزرتا تھا اور اس کے ساتھ اس کی عورت بھی ہوتی اور خوب صورت ہوتی تو بادشاہ اس کے خاوند کو قتل کر دیتا تھا اور اس کی بیوی کو رکھ لیتا اور اگر شوہر ساتھ نہ ہوتا کو ئی اور ہوتا بھائی وغیرہ تو پھر وہ کچھ نہیں کہتا تھا۔
ابراہیم علیہ السلام وہاں سے گزرے۔ اس مصیبت کا ان کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ کو اللہ نے ظاہری حسن بہت عطا کیا ہوا تھا۔ تو سرکاری کارندے آ گئے پکڑنے کے لیے۔ ابراہیم علیہ السلام نے بیوی سے کہا کہ جب وہ تجھ سے کہے کہ یہ کون ہے؟ تو کہنا کہ یہ بھائی میرے ساتھ ہے اور میں تیرا مذہبی بھائی ہوں۔ مسلمان سارے بہن بھائی ہیں۔ اسلامی رشتے کے لحاظ سے بہن تھی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت سارہ؛ ابراہیم علیہ السلام کی چچا زاد بہن تھی تو فرمایا کہ میں تیرا چچا زاد اور اسلامی بھائی ہوں۔
حضرت سارہ جب فرعون کے پاس پہنچیں تو اس نے پوچھا: ساتھ کون ہے؟ کہا کہ بھائی ہے۔ وہ بد بخت پھر بھی باز نہ آیا۔ ہاتھ بڑھانا چاہا تو خدا نے اس کا ہاتھ شل کردیا۔ اس نے سمجھا کہ یہ کوئی نیک عورت ہے۔ کہا کہ دعا کرو، اللہ مجھے ٹھیک کردیں، میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ نے دعا کی تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ پھر ہاتھ ڈالا تو پھر شل ہو گیا۔ اس نے پھر کہا کہ دعا کرو کہ اللہ مجھے ٹھیک کردیں، میں تجھے کچھ نہیں کہو ں گا۔ تیسری بار ٹھیک ہوا تو پھر ہاتھ ڈالا، پھر شل ہوا، پھر اس نے کہا کہ آخر ی بار تجھ سے کہتا ہوں، مجھے معاف کردو۔ حضرت سارہ نے دعا مانگی تو وہ ٹھیک ہو گیا۔ پھر اس فرعون نے اپنی بیٹی ہاجرہ حضرت سارہ کو دی کہ یہ تیری خدمت گزار ہے تم اس کو بھی ساتھ لے جاؤ۔
کیا حضرت ہاجرہ باندی تھیں؟
ابراہیم علیہ السلام مصر میں داخل ہوئے تو ایک بیوی ہے اور نکلے تو دو بیویاں ہیں۔ اس نے امتحان لینا چاہا خد انے ساتھ بیوی دے دی۔ اس ہاجرہ سے پھر عرب کی نسل چلی ہے۔ اب آپ کے ذہن میں ایک سوال آئے گا اور عموماً مشہور ہے کہ ہاجرہ فرعون مصر کی لونڈی اور خادمہ تھی، وہی اس نے حضرت سارہ کو دی تھی اور وہ حضرت ابراہیم کی خادمہ تھی تو ان کی نسل سے جو لوگ چلے ہیں ان میں سے قریش بھی ہیں اور قریش سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں تو کیا پیغمبر کے خاندان میں کوئی ایسی عورت بھی ہے جو باندی ہو؟
اس کا بہترین جواب جو علماءنے دیا ہے وہ یہ ہے کہ جب ایک آدمی ایک شادی کے بعد دوسری شادی کرتا تو دوسری شادی کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ پہلی بیوی کےلیے خادمہ بن کر رہتی۔ جب فرعون مصر نے اپنی بیٹی دی تو کسی نے کہا کہ آپ تو شہزادی کو خادمہ بنوا رہے ہیں تو نمرود نے کہا کہ سارہ اتنی نیک عورت ہے کہ میری بیٹی میرے پاس شہزادی بن کر رہے اس سے بہتر ہے کہ سارہ کی نوکرانی بن کر رہے۔ تو خادمہ نہیں تھی شہزادی تھی وہ اس نے دی تھی۔ اس سے پھر اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔ آگے جو اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ چلتا ہے تو میں نے صرف خلاصہ عر ض کیا ہے۔
تو ابراہیم علیہ السلام جد امجد ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کی ملت کی اتباع کرنے کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے اور یہاں سے پھر آگے وہ سلسلہ چلا ہے۔
حضرت ابراہیم پر اشکال کا جواب (ثلاث کذبات) :
اس میں صرف ایک بات یاد رکھ لیں۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور بڑا مشہور اعتراض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيْمُ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ." 128F
صحیح البخاری، رقم5084
ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین جھوٹ بولے ہیں۔
اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ روایت ٹھیک نہیں ہے۔ جو لوگ صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں۔ اعتراض کیا ہے؟ کہ یہ حدیث آیت کے خلاف ہے، قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ؕ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا﴾
قرآن ابراہیم علیہ السلام کو صدیق کہتا ہے اور بخاری کہتا ہے کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے تھے۔
علماء نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس کو کذب اور جھوٹ کہا ہے تو دراصل یہ جھوٹ نہیں تھا، یہ ایسے الفاظ تھے جو دیکھنے میں جھوٹ لگ رہے تھے، در حقیقت سچ تھے، اس کو بلاغت اور علم المعانی کی زبان میں ”توریہ“ کہتے ہیں۔ تو ریہ کا معنی یہ ہے کہ مخاطب معنی کوئی اور سمجھے اور بولنے والا مراد کوئی اور معنی لے۔
یہ تین واقعات ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پیش آئے ہیں جو میں نے ابھی درس کےدوران بیان کر دیے ہیں لیکن صر ف سمجھانے کے لیے میں کہہ رہا ہوں۔ ایک واقعہ یہی ہے کہ بیوی سے فرمایا کہ جب فرعون آپ سے پوچھے کہ یہ شحص کون ہے؟ تو آپ نے کہنا ہے کہ یہ میرا بھائی ہے، وہ کچھ اور سمجھا اور ابراہیم علیہ السلام کا مقصد تھا کہ اسلامی بھائی ہوں۔ یہ جھوٹ تونہیں ہے۔ دوسرا واقعہ جب بتوں کو مارا تو کلہاڑا بڑے کے کندھے پر رکھا اور کہا:
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
کہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے حالانکہ بڑے نے تو نہیں کیا تھا تو چونکہ وہ کہتے تھے کہ بت سب کچھ کرتے ہیں تو ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات ان کے دعوے کے مطابق کہی تھی کہ اس نے کیا ہے، حالانکہ مراد ان کی یہ نہیں تھی۔
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا ﴾
اور بعض نے اور جواب دیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ﴾
کو الگ کہا، پھر
﴿کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
کو الگ کہا۔ سانس توڑ کر دوجملے بولے ہیں۔ قوم نے کہا: ابراہیم! تونے یہ کیا ہے؟ فرمایا: نہیں،
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ﴾
اِس کو اُس نےکیا ہے،
﴿کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
بڑا یہ ہے۔ اب یہ کام کس نے کیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے اس کے متعلق کچھ نہیں فرمایا۔ تو دیکھو بات بالکل الگ فرمائی ہے۔
تیسرا واقعہ کہ جب ستاروں کو دیکھا تو کہا کہ
﴿ہٰذَا رَبِّیۡ﴾
یہ میرا رب ہے؟ اب تو بالکل عنوان ہی بالکل بدل گیا، یہ تو استفہام ہو رہا ہے۔ اس لیے اس میں اعتراض کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ تو ابراہیم علیہ السلام کا طرز یہ تھا کہ سننے والا اور سمجھے اور کہنے والے کی مراد کچھ اور ہو۔
یہ شخص مجھے راستہ دکھا رہاہے:
اس کو سمجھنا ہو تو آخر میں ایک مثال سمجھو! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں مکہ سے مدینہ لے جا رہے تھے توراستے میں ایک کافر ملا۔ اس نے ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو پہچان لیا لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا۔ تو اس نے پوچھا کہ یہ ساتھ کون ہے؟ اب صدیق اکبر پریشان ہو گئے کہ اگر بتاتا ہوں تو یہ ظالم ہمیں چھوڑے گا نہیں، مخبری کر دے گا اور اگر جھوٹ بولوں گا تو صدیق نہیں رہوں گا۔ اب میں کیا کروں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"هٰذَا الرَّجُلُ يَهْدِيْنِي السَّبِيْلَ." 129F
صحیح البخاری، رقم: 3911
یہ میرے ساتھ بندہ ہے جو مجھے راستہ دکھا رہا ہے۔
وہ کافر سمجھا کہ جہاں جانا ہے تو راستے کا پتا نہیں ہے یہ شخص وہ راستہ دکھا رہا ہے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے کہ یہ مجھے جنت کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ وہ کچھ اور سمجھا اور انہو ں نے کچھ اور فرمایا۔ یہ بڑی عقل کی باتیں ہیں اور جب انسان خود کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے تو اللہ ایسی باتیں انسان کو سمجھا دیتے ہیں۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو توفیق عطا فرمائیں کہ ہم بھی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مُوۡسٰۤی ۫ اِنَّہٗ کَانَ مُخۡلَصًا وَّ کَانَ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا ﴿۵۱﴾﴾
اس آیت کریمہ میں دو لفظ ہیں جو ہم نے سمجھنے ہیں۔ اپنی زبان پر ہم اس کو لاتے بھی ہیں لیکن عموماً اس کے مضمون کو ہم سمجھ نہیں پاتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”وَ کَانَ رَسُوۡلًا نَّبِیًّا“ موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی تھے۔ ہم عموماً کہتے ہیں کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ․․․ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم․․․ تو کیا نبی اور رسول کا معنی ایک ہے یا الگ الگ ہے؟ ذرا اس بات کو سمجھیں۔
کئی بار آپ نے سنا ہو گا کہ سوا لاکھ کم وبیش انبیاء علیہم السلام اللہ نے مبعوث فرمائے ہیں اور تین سو تیرہ ان میں رسول ہیں، تو رسولوں کی تعداد کم ہے اور نبیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کامعنی یہ ہے کہ نبی اور رسول میں فرق ہے۔
نبی اور رسول میں فرق:
رسول اسے کہتے ہیں جو نئی اور مستقل شریعت لے کر آئے اور اس کی دو صورتیں ہیں؛ ایک صورت یہ ہےکہ رسول اپنی قوم کے پاس اپنی مستقل شریعت لے کر آئے جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف سے تورات دی، یہ مستقل شریعت ہے، عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو انجیل دی، یہ مستقل شریعت ہے، داؤد علیہ السلام نے زبور دی یہ مستقل شریعت ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے تھے یہ مستقل شریعت ہے، حضرت ادریس علیہ السلام کے تیس صحیفے تھے یہ مستقل شریعت ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک نبی جس قوم کی طرف مبعوث ہے تو وہ گزشتہ نبی کی شریعت اس قوم کو دے۔ تو وہ شریعت تو نئی نہیں ہے لیکن اس قوم کے لیے وہ نئی شریعت ہے۔ اس کی مثال سمجھیں! حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبیٹے ہیں؛ ایک حضرت اسحاق اور ایک حضرت اسماعیل علیہما السلام۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق تھے، ان کے بیٹے یعقوب تھے، ان کے بیٹے یوسف․․․ علیہم السلام۔ یہ انبیاء کی لڑی ہے، اور حضرت اسماعیل؛ ابراہیم علیہ السلام کے وہ بیٹے ہیں کہ جن کی نسل سے ایک ہی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔
تو حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے بہت سارے انبیا ء آئے ہیں جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے صرف حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ آپ نے کئی بار سناہے کہ حضر ت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو بنو اسرائیل کہتے ہیں۔ ”اسر ائیل“ یہ دو لفظ ہیں؛ ایک ”اسرا“ اور دوسرا ”ئیل“۔ اسرا کا معنی ہوتا ہے عبد اور ”ئیل“ کا معنی ہوتا ہے اللہ۔ تو اسرائیل کا معنی ہے عبد اللہ، یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ نام آپ کا یعقوب تھا اور لقب آپ کا اسرائیل تھا یعنی عبداللہ۔ ان کے پھر بارہ بیٹے تھے جن میں بڑے کا نام یہودا اورسب سے چھوٹے کا نام بنیامین تھا۔ دو بیویاں تھیں۔ ایک سے دس بیٹے تھے اور دوسری سے بنیامین اور یوسف علیہ السلام دو بیٹے تھے۔
اب حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد تھی ان کا لقب تھا ”بنو اسرائیل“ اسرائیل کا معنی تو ہے عبد اللہ اور ابن کی عربی میں جمع ”بنون“ آتی ہے۔ تو بنو اسرائیل کا معنی ہے یعقوب علیہ السلام کی اولاد۔ تو یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے بہت سے نبی آئے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام قوم جرہم کے نبی تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہجر ت کر کے مکہ مکرمہ گئے تو اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو وہاں چھوڑا۔ وہاں پر کھانے کا انتظام بھی نہیں تھا۔ تو جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی برکت سے اللہ نے زم زم کا چشمہ جاری کیا تو پانی کا انتظام بھی ہو گیا جس کی وجہ سے آبادی شروع ہو گئی اور قافلے آنا شروع ہو گئے۔ جہاں پانی ہو وہاں آبادیاں ہوتی ہیں۔ آبادیو ں کے لیے پانی شرط ہے ورنہ آبادی ہوتی ہی نہیں ہے۔ وہ قبیلہ جو آباد ہوا وہ قبیلہ جرہم تھا۔ اسماعیل علیہ السلام اس قبیلے کے نبی تھے۔
اسماعیل علیہ السلام کی شریعت حضرت ا براہیم علیہ السلام والی تھی۔ اب ابراہیم علیہ السلام قبیلہ جرہم کے نبی نہیں ہیں لیکن شریعت حضرت ابراہیم علیہ السلام والی تھی۔ اب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جو شریعت ہے وہ نئی شریعت نہیں بلکہ پرانی شریعت ہے لیکن جس قوم کے لیے یہ آئی اس کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی شریعت نہیں آئی۔ تو اگرچہ شریعت پرانی تھی مگر ان لوگوں کے لیے نئی تھی۔ اس لیے اسماعیل علیہ السلام بھی رسول ہیں۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ رسول اسے کہتے ہیں جو نئی شریعت لے کر آئے اور نبی اسے کہتے ہیں جو خواہ نئی شریعت لے کر آئے یا پرانی شریعت کے مطابق چلے۔ اب ہم یہ کہیں گے کہ ایک نبی ہے اور ایک رسول ہے، نبی عام ہوتاہے اور رسول خاص ہوتا ہے، نبی ہر صاحبِ وحی کو کہتے ہیں اور رسول ہر صاحبِ وحی کو نہیں کہتے، رسول اسے کہتے ہیں جس پر وحی بھی آئے اور مستقل نئی شریعت بھی آئے۔
تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی بھی تھے اور رسول بھی تھے۔ نبی تھے کہ ان کے پاس اللہ کی وحی آتی تھی اور رسول بھی تھے کہ ان پر اللہ نے تورات کو نازل کیا تھا۔ میں نے صرف یہ بات سمجھائی ہے کہ نبی اور رسول کامعنی کیا ہے۔
رسول کا لغوی معنی:
اس سے ایک چھوٹی سی بات اورسمجھیں۔ میں چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ اگر وہ آپ کو سمجھ آ جائیں تو اس سے عقائد درست ہوتے ہیں، نظریات ٹھیک ہوتے ہیں، کل کو الجھن اور پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ نبی اور رسول کا یہ معنی ہے یہ شریعت کی مخصوص اصطلاح ہے ورنہ عربی لغت میں رسول کا معنی صرف
”قاصد“
ہے، نبی بھی رسول ہے اور غیر نبی بھی رسول ہے۔ عربی زبان میں معنی یہ ہے کہ میں کسی کو کوئی پیغام دے کر کسی کے پاس بھیجتا ہوں تو یہ میرے رسول ہیں، ہم اسے قاصد کہتے ہیں اور عربی میں اسی قاصد کو ”رسول“ کہتے ہیں۔ نبی اللہ کا رسول ہے، اللہ کا قاصد ہے، اللہ کا نمائندہ ہے، اللہ کا سفیر ہے۔
میں یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ جہاں بھی قرآن میں لفظ رسول آئے تو اس رسول کا معنی یہ نہ سمجھنا کہ اس پر وحی آ رہی ہے، کبھی قرآن رسول کا لفظ اصطلاحی معنی میں استعمال کرتا ہے جسے ہم پیغمبر کہتے ہیں اور کبھی قرآن رسول کا لفظ اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ عربی زبان کا معنی استعمال کرتا ہے جس کا معنی صرف پیغام لانے والا اور نمائندہ ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿اَللہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ﴾ 130F
الحج22: 75
اللہ پاک فرشتوں میں سے بھی رسول بناتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی بناتے ہیں۔
بتاؤ! کبھی کوئی فرشتہ نبی ہوا ہے؟ (نہیں۔ سامعین) تو جب فرشتہ نبی نہیں ہے تو رسول کیسے ہو گا؟ لیکن قرآن کہہ رہا ہے کہ ہم رسول بناتے ہیں فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔ اب جب آپ یہ بات سمجھ لیں گے کہ ”رسول“ کا معنی عربی لغت میں قاصد ہے تو کوئی بندہ آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ تو ایک ہے رسول کا شریعت کی اصطلاح میں معنی جسے ہم پیغمبر کہتے ہیں وہ رسول صرف انسان ہوتاہے اور ایک ہے رسول کا عربی زبان میں معنی جس کامعنی قاصد ہے وہ انسان بھی ہوتا ہے اور وہ اللہ کا فرشتہ بھی ہوتاہے۔ تو رسول کے دو معنی الگ الگ ذہن میں رکھ لیں۔
نبی نمائندہ خدا اورصحابی نمائندہ مصطفیٰ
اللہ نے قرآن کریم میں فرشتے کو بھی رسول کہا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بھی رسول کہا ہے۔ صحابہ کے لیے بھی لفظ رسول آیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے چلے عمرہ ادا کرنے کے لیے تو کفارِ مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک لیا۔ وہ واقعہ آپ نے سنا ہو گا صلح حدیبیہ والا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاکرات کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا۔ کفارِ مکہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر لیا اور مشہور کر دیا کہ ہم نے ان کو قتل کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیعت لی کہ ہم عثمان کا بدلہ لیں گے، بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ اب اس کے لیے جو لفظ جامع ترمذی میں آیا ہے وہ ہے:
"كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰى أَهْلِ مَكَّةَ." 131F
سنن الترمذی ، رقم: 3702
یہاں لفظ ”رسول“ دو بار آیا ہے، موٹی موٹی عربی تو سب سمجھتے ہیں نا؟ یہاں لفظ ”رسول اللہ“سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور پہلے لفظ رسول سے مراد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان مکہ میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول تھے، حضور پاک رسولِ خدا ہیں اور حضرت عثمان رسولِ مصطفی ہیں۔ تو یہاں رسول کا معنی ہے قاصد اور نمائندہ۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ نبی نمائندۂ خدا ہوتا ہے اور صحابی نمائندۂ مصطفیٰ ہوتا ہے۔
جتنے نمائندے میرے اُتنے نمائندےآپ کے:
ایک بات آپ نے سنی ہوئی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بھی ایک لاکھ چوبیس ہزارہے۔ دونوں کی تعداد سوا لاکھ کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی؛ نمائندۂ خدا ہوتا ہے اور صحابی؛ نمائندۂ مصطفی ٰ ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ میرے محمد! یہ آپ کا اعزاز ہے کہ جتنے نمائندے میرے ہیں اتنے نمائندے آپ کے ہیں، میری بات جن سے سمجھ آتی ہے وہ نمائندۂ خدا ہیں اور جن سے آپ کی بات سمجھ آتی ہے وہ نمائندۂ مصطفیٰ ہیں، اِن پہ نمائندگی میری ختم اُن پہ نمائندگی آپ کی ختم،آپ کے بعداگرکوئی نمائندۂ خدا ہونے کا دعوی کرے وہ بھی بے ایمان ہے اوراُن کے بعد کوئی نمائندۂ مصطفیٰ ہونے کا دعوٰی کرے تو وہ بھی بے ایمان ہے، حضور آئے ہیں نبوت ختم ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہیں صحابیت ختم ہے۔ (سبحان اللہ۔ سامعین)
تو میں نبی اور رسول کا معنی سمجھا رہا تھا کہ رسول مستقل شریعت والا ہوتا ہے اور نبی صاحبِ وحی ہوتا ہے خواہ مستقل شریعت ہو یا پچھلے رسول کی شریعت کو لے کر چلے۔ تو موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں چونکہ اللہ نے دونوں لفظ استعمال فرمائے ہیں اس لیے میں نے دونوں لفظوں کا معنی بتا دیا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام سے خطابِ خداوندی:
﴿وَ نَادَیۡنٰہُ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنِ وَ قَرَّبۡنٰہُ نَجِیًّا ﴿۵۲﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے دائیں جانب کوہِ طو رتھا وہاں سے ہم نے انہیں آواز دی۔
یہ دائیں جانب کس کی ہے، بس اس بات کو سمجھیں۔ میں وہ باتیں بتاتا رہتا ہوں جو آپ نے سنی ہوں گی لیکن آپ کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ میں وہ آپ کو سمجھا دیتا ہوں تاکہ الجھنیں پیدا نہ ہوں۔ پہاڑ کی نہ دائیں جانب ہوتی ہے نہ بائیں جانب ہوتی ہے، پہاڑ تو برابر ہوتاہے تو یہ دائیں جانب کس کی ہے؟ علامہ نسفی نے تفسیر مدارک میں لکھا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب مدین سے چلے اور مصر جا رہے تھے تو راستے میں پہاڑ طورِ سینا ہے اور یہ موسیٰ علیہ السلام کی دائیں جانب ہے۔ تو طورِ سینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دائیں جانب تھا اور وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کے ہم کلام ہونے کا تفصیلی واقعہ آگے ہم عرض کریں گےان شاء اللہ۔
منصور حلاج کے نعرۂ انا الحق کی توجیہہ:
آج صرف ایک بات سمجھ لیں۔ ہماری تاریخ میں ایک بزرگ گزرے ہیں جنہیں منصور حلاج کہتے ہیں اور وہ کہتے تھے ”انا الحق․․․اناالحق․․․اناالحق ․․․ “ اس وقت علماء نے فتوی ٰ دیا کہ ان کو قتل کرو، ”حق“ اللہ کی ذات ہے․․․ لیکن ہمارے مشائخ کہتے ہیں کہ وہ ولی تھے، ہم ان کے بارے میں یہ کلمہ نہیں کہتے ہیں کہ وہ کافر تھے۔ جن کو اشکال تھا وہ اس بات پر تھا کہ ”حق“ تو اللہ کی ذات ہے اور یہ کہتے ہیں ”انا الحق“ تو گویا یہ کفر کہہ رہے ہیں، خود کو العیاذ باللہ اللہ کہہ رہے ہیں۔
جو حضرات کہتے ہیں کہ یہ کفر نہیں تھا یہ اسلام تھا ان کی دلیل یہ ہےکہ موسیٰ علیہ السلام کو جو آواز آئی اللہ کی طرف سے وہ یوں آئی کہ طورِ سینا پر درخت تھا اور درخت کے پتے سے آواز آئی:
﴿اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ﴾
132Fکہ میں خدا ہوں، میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے، میری عبادت کرو۔
طٰہٰ20: 14
ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ تجلیاتِ الہی کوہِ طور کے درخت پر پڑیں تو پتا بولا، ادھر منصور کی ذات پر پڑیں تو منصور کی ذات بولی اور یہ الفاظ استعمال ہوئے۔ منصور کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ میں حق ہوں۔ ان کی زبان سے الہی آواز تھی کہ میں حق ہوں۔ یہ اب کفر تو نہیں رہتا لیکن اتنی باریکی سمجھنا ہر بندے کے بس کی بات نہیں ہے اور جب یہ باریک باتیں سمجھ میں نہیں آتیں تو پھر ہم فتویٰ بہت زیادہ دیتے ہیں حالانکہ فتویٰ کی زیادہ ضرورت نہیں ہے بلکہ امت کو سمجھانے کی زیادہ ضرورت ہے۔
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے مرید تھے اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی بہت بڑے آدمی ہیں۔ حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے تھے: اگر میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کا مرید نہ ہوتا تو میں فتوے باز مولوی بنتا، میں بچا اس لیے ہوں کہ میری لگام کسی پیر کے ہاتھ میں تھی۔
بیعت کی ضرورت و اہمیت:
میں اس لیے کہتا ہوں کہ عالم جتنا بڑا ہو اس کے لیے مرید بننا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا بڑا ڈاکٹر ہو اس کے لیے مرید ہونا اتنا ہی زیادہ ضروری ہے، تبلیغ میں جتنا زیادہ وقت لگاتا ہو اس کے لیے پیر کا ہونا بھی اتنا ہی زیادہ ضروری ہے۔ میں یہ باتیں کھل کر اس لیے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو آدمی ڈاڑھی منڈاتا ہو، نماز نہ پڑھتا ہو تو لوگ اسے کہتے ہیں کہ کسی پیر صاحب سے بیعت کر لے تو نیک ہوجائے گا اور نیک کو کوئی نہیں کہے گا کہ تو بیعت ہو جا۔ میں کہتا ہوں کہ بے نمازی کے لیے مرید بننا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا نمازی کے لیے ضروری ہے۔
شاید آپ کو میری بات اتنی جلدی سمجھ میں نہ آئے، میں اس لیے کہتا ہوں کہ اس بات کو اچھی طرح سمجھیں۔ نیک آدمی کا مرید ہونا زیادہ ضروری ہے، جس آدمی میں شریعت کا شوق نہیں ہے تو اس میں بلا شبہ شوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن جس میں شریعت کا شوق موجود ہے تو ضرورت ہے کہ اس کو شریعت سمجھاؤ! بسا اوقات آدمی شریعت سمجھا ہوا نہیں ہوتا اور کبھی سمجھتا ہے لیکن عمل نہیں کرتا۔ تو دونوں چیزیں ضروری ہیں۔
میں اس کی ایک مثال دےکر بات سمجھاتا ہوں۔ اگر گھوڑا طاقت ور ہو خوراک اس کی اچھی ہو تو گھوڑا جتنا طاقت ور ہو اتنا ہی اس کا کوچوان اچھا ہونا چاہیے۔ گھوڑا مضبوط ہو اور اس کی لگام کسی کے ہاتھ میں نہ ہو وہ خود بھی مرتا ہے اور ساری سواریوں کو بھی مارتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ جب گھوڑا طاقت ور ہے تو اب لگام کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے آپ بتائیں! گھوڑا کمزور ہو اور لگام کسی کمزور کے ہاتھ میں ہو تو کام چل جاتا ہے اور اگر گھوڑا مضبوط ہو اور لگام کسی کمزور بندے کے ہاتھ میں ہو تو برباد ہوتا ہے کہ نہیں؟ (برباد ہوتا ہے۔ سامعین) تو آدمی جتنا زیادہ دین پرعمل کرے تو یہ مضبوط گھوڑا ہے، اس کی لگا م کسی مضبوط آدمی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ میں بعض باتیں کہتا ہوں لیکن اتنی جلدی وہ لوگو ں کو سمجھ نہیں آتیں، تھوڑی دیر لگتی ہے۔
فساد کی وجہ:
میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ ہماری مساجد میں زیادہ تر فساد بے نمازیوں کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی وجہ سے ہوتے ہیں، بے نمازی آ کر لڑتے ہیں یا نمازی لڑتے ہیں؟ (نمازی لڑتے ہیں۔ سامعین) امام کے خلاف فساد نمازی کرتے ہیں یا بے نمازی کرتے ہیں؟ (بے نمازی۔ سامعین ) تو اصلاح کس کی زیادہ ضروری ہے؟ (نمازیوں کی۔ سامعین) لیکن پھر آپ کہتے ہیں کہ مولا نا صاحب! بے نمازیوں کو بیعت کرو، فساد آپ کرتے ہیں اور بیعت بے نمازیوں کی کرواتے ہیں۔ ہم دین دار ہیں، ہم ٹھیک ہیں تو لوگ مزید جلدی ٹھیک ہو سکتے ہیں، میں ٹھیک نہ ہوا تو میرا گاؤ ں جلدی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ میرا ٹھیک ہونا میری عوام کے ٹھیک ہونے سے زیادہ ضروری ہے، میرے عقیدے کا ٹھیک ہونا میرے مقتدی کے عقیدے کے ٹھیک ہونے سے زیادہ ضروری ہے، میرے عمل کا ٹھیک ہونا میرے مقتدیوں کے عمل کے ٹھیک ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔
بیعت کی تین اقسام:
حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طرح کی بیعت ہوتی تھی؛ ایک بیعت علی الایمان کہ بندہ پہلے کافر تھا، بیعت کرتا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا۔ دوسری بیعت علی الموت اور بیعت علی الجہاد تھی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیعت کی تھی کہ حضور! ہم مر جائیں گے لیکن عثمان غنی کا انتقام لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ تیسری بیعت تھی علی ارکان الاسلام کہ اللہ کے نبی! ہم شریعت پر عمل کریں گے۔
اب بات سمجھنا! یہ بیعت علی ارکان الاسلام کون کر رہے ہیں، جو پہلے ایمان لا چکے تھے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاچکے تھے، انہیں صحابہ کہتے ہیں رضی اللہ عنہم، اب یہ مزید بیعت کر رہے ہیں کہ ہم شریعت پر عمل کریں گے، صحابی سے زیادہ کوئی نیک ہو سکتا ہے؟ نہیں، تو صحابی بھی سمجھتا ہے کہ بیعت کی ضرورت ہے۔تو آپ کو ضرورت کیوں نہیں ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ مجھے ضرور ت نہیں ہے کیونکہ میرے چہرے پر تو ڈاڑھی پہلے سے ہے، میں تو نماز پہلے سے پڑھتا ہوں۔
اس لیے ہمارا تو معمول ہے کہ ہم تو اپنا ہاتھ شیخ کے ہاتھ میں دیتے ہیں، جہاں پھنستے ہیں وہاں پوچھتے ہیں، اصلاحی خط بھی لکھتے ہیں، اپنے گنا ہ کی اصلاح کے لیے شیخ سے پوچھتےبھی ہیں۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔
میں نے آپ سے کہا تھا کہ ایک ایک لفظ پر اگر ایسے نکتے بیان کرتے جائیں تو آپ اندازہ فرمائیں کہ کتنے سالوں میں قرآن ختم ہو گا۔
حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِدۡرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿٭ۙ۵۶﴾﴾
ایک نبی حضرت ادریس علیہ السلام ہیں، ان کا تذکرہ آگے قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ شاید نہ ہو سکے تو خلاصہ ذہن میں رکھ لیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام کی بعض خصوصیات ہیں جو مفسرین حضرات نے ذکر کی ہیں۔ ان کے بارے میں ہے
”وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ“
کہ آپ پہلا وہ شحص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھنا شروع کیا،
”وَ أَوَّلُ مَنْ خَاطَ الثِّيَابَ وَلَبِسَ الْمَخِيْطَ“
آپ پہلے وہ شحص ہیں جنہوں نے کپڑا سی کر لباس پہنا ہے، آپ سے پہلے لوگ جانوروں کے چمڑے کا لباس پہنتے تھے،
”وَهُوَ أَوَّلُ مَنِ اتَّخَذَ السِّلَاحَ وَقَاتَلَ الْكُفَّارَ“
آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلحہ بنایا اور کفار سے جہاد کیا،
”وَ أَوَّلُ مَنْ نَظَرَ فِيْ عِلْمِ الْحِسَابِ“
آپ ہی پہلے شخص ہیں کہ جو حساب کتاب میں ماہر تھے۔ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ 133F
تفسیر الخازن: ج3 ص238
اب یوں سمجھو کہ آج دنیا جتنی بھی ترقی کر رہی ہے اس ترقی کے بانی حضرت ادریس علیہ السلام ہیں، یہ مسلمان ہیں اور کوئی نہیں ہے۔ ہم نے چھوڑ دیا تو کسی اور نے لے لیا۔ وراثت ہماری ہے لیکن اوروں نے لے لی ہے۔ اس لیے مادیات میں ترقی کرنا شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ ہاں ترقی کرتے ہوئے شریعت کو چھوڑ دینا یہ شریعت کے خلاف ہے۔ دائرۂ شریعت میں رہ کر ترقی کریں تو کون ہے جو مسلمان کا مقابلہ کرسکے، کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ ہمیں یہ میراث حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین
انبیاء علیہم السلام اور خشیتِ الٰہیہ:
میں بات سمیٹتا ہوں۔ اللہ رب العزت نے سورت کے شروع میں حضرت زکریا علیہ السلام کا تذکرہ کیا، حضرت یحییٰ علیہ السلام کا تذکرہ کیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ کیا، پھر حضر ت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کیا، حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ کیا، پھر حضرت نوح علیہ السلام کا تذکرہ کیا۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ سب لوگ وہ تھے کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی تھیں تو یہ سجدہ بھی کرتے تھے، روتے بھی تھے اور گڑ گڑاتے بھی تھے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کا معمول تھا۔
نالائق جانشین کی بیماریاں:
﴿فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿ۙ۵۹﴾﴾
انبیاء علیہم السلام تو بڑے تھے ان کی اولاد بھی نیک تھی لیکن ایک وقت آیا کہ ان کے بعد نالائق قسم کے جانشین پیدا ہوئے، انہوں نے سب سے پہلے کام یہ کیا کہ نمازیں برباد کیں اور دوسرا کام شہوات اور خواہشات کے اند ر پڑے۔ معلوم ہوا کہ جو نالائق قسم کے جانشین ہو تےہیں ان کی دو بیماریاں ہیں:
1: نماز میں کوتاہی کرتے ہیں۔
2: نا جائز خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔
جائز خواہش پر عمل کرنا گناہ نہیں ہے البتہ ناجائز خواہش پر عمل کرنا گناہ ہے اور جائز خواہش میں اتنا مبتلا ہونا کہ آدمی اگلے جائز کے بھی قابل نہ رہے تو پھر جائز خواہشات کو کنٹرول کرنا چاہیے کہ آدمی اتنا آگے نہ نکل جائے۔
”خَلَف“ اور ”خَلْف“ میں فرق:
یہاں عربی زبان کے دو لفظ سمجھ لیں۔ ایک لفظ ”خَلَف“ ہے اور ایک لفظ
”خَلْف“
ہے۔ عربی کتنی عجیب زبان ہے۔ اگر خلَف پڑھیں لام کے زبر کے ساتھ تو اس کا معنی ہے لائق جانشین اور اگر خَلْف پڑھیں لام کے سکون کے ساتھ تو اس کا معنی ہے نالائق جانشین۔ لفظ کی حرکت کے بدلنے سے معنی بدل جاتا ہے۔
یہاں قرآن کہتا ہے
”فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ“
لام کے سکون کے ساتھ ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ جانشین نالائق ہو گئے تھے،انہوں نے نمازیں بھی برباد کیں اور خود خواہشات میں بھی پڑ گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ کی ترتیب ہے کہ پہلے لائق کا ذکر کرتے ہیں، پھر نالائق کا ذکر کرتے ہیں، نیک کام کا ذکر کرتے ہیں پھر برے کام کا ذکر کرتےہیں، جنت کا کرتے ہیں پھر جہنم کا کرتےہیں۔
توبہ کا دروازہ کھلا ہے:
﴿اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ﴿ۙ۶۰﴾ جَنّٰتِ عَدۡنِۣ الَّتِیۡ وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ عِبَادَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ وَعۡدُہٗ مَاۡتِیًّا ﴿۶۱﴾﴾
یہاں اللہ نے جنت کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ نالائق جانشین ہیں اور اللہ کا نظام دیکھیں۔ فرمایا: بندہ نالائق ہو، مجرم ہو، گناہ گار ہو میں اللہ پھر بھی دروازے کھلے رکھتا ہوں اور وہ کھلا دروازہ یہ ہے کہ یہ نالائق توبہ کریں، نیک عمل کریں تو میں انہیں پھر جنت میں بھیج دوں گا۔
اللہ رب العزت ہم نالائقوں کے لیے بھی راستے رکھتے ہیں، ہمارے لیے ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔
اللہ کے نام اور صفات جیسا کوئی نہیں!
﴿رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فَاعۡبُدۡہُ وَ اصۡطَبِرۡ لِعِبَادَتِہٖ ؕ ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا ﴿٪۶۵﴾﴾
آگے عام بندوں کو خطاب کیا ہے کہ اللہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ان سب کا رب ہے، اللہ کی عبادت میں جمے رہو۔
ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا: ”ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا“ اللہ کو چھوڑ کر تم اور وں کی عبادت کرتے ہو! کیا تم نے خدا جیسا کوئی دنیا میں سنا ہے یا دیکھا ہے؟
یہاں
”سَمِیًّا“
کے دومعنی ہیں:
[۱]: ایک معنی یہ ہے کہ جو صفت اللہ کی ہو وہ صفت کسی اور کی ہو۔ یعنی صفات میں اللہ جیسا تم نے کسی کو دیکھا ہے یا سنا ہے؟
[۲]: اور ایک معنی یہ ہے کہ جس طرح اللہ کا نام ہے اسی طرح کسی معبود باطل کا نام اللہ ہو ایسا نہیں۔ بعض علماء نے عجیب بات یہ لکھی ہے یہ
”سَمِیًّا“
اسم سے ہے اور اسم کا معنی نام ہوتا ہے۔ اللہ پاک کا نظام عجیب دیکھیں کہ دنیا میں لوگو ں نے جتنے غلط، ناجائز اور باطل خدا بنائے ہوئے تھے ہر خدا کا کوئی نام بھی رکھا لیکن آج تک کسی باطل کانام
”اللہ“
نہیں رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
”ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا“
کہ کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ معبود باطل بھی ہو اور نام اللہ بھی ہو؟ نہیں سنا۔ تو یہ دنیا میں ایک ہی ہے جس کا نام اللہ ہے۔ نہ کوئی اللہ کے نام جیسا ہے، نہ کوئی اللہ کی صفات جیسا ہے، اللہ پاک کا نام بھی جدا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بھی جدا ہیں۔
بعث بعد الموت برحق ہے:
﴿وَ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوۡفَ اُخۡرَجُ حَیًّا ﴿۶۶﴾ اَوَ لَا یَذۡکُرُ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ یَکُ شَیۡئًا ﴿۶۷﴾﴾
اگلی بات اللہ پاک نے یہ بھی فرمائی ہے کہ تعجب اس بات پر ہے کہ بندہ پھر بھی کہتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو کیا میں دوبارہ زندہ ہوں گا؟ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بھول گیا ہے کہ ہم نے اس کو پیدا کیا جب یہ کچھ بھی نہیں تھا، جب کچھ ہے تو پھر دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ اللہ تو
”بدیع السماوات والارض“
ذات ہے۔ بدیع کہتے ہیں کہ جس کے پاس کوئی ماڈل نہ ہو پھر بنائے۔ اگر کوئی ماڈل پہلے سے موجود ہو تو پھر بنانا آسان ہوتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ تم کچھ نہ تھے ہم نے پھر بنا دیا، اب ان کو تعجب ہوتا ہے کہ اللہ ہمیں دوبارہ کیسے بنائے گا؟
﴿فَوَ رَبِّکَ لَنَحۡشُرَنَّہُمۡ وَ الشَّیٰطِیۡنَ ثُمَّ لَنُحۡضِرَنَّہُمۡ حَوۡلَ جَہَنَّمَ جِثِیًّا ﴿ۚ۶۸﴾﴾
فرمایا: تم سن لو کہ ہم تمہیں بھی اٹھا ئیں گے اور شیطان کو بھی اٹھائیں گے۔ قیامت کے دن وہ بھی آئے گا، قیامت کے دن تم بھی آؤگے، سارے انسان چاہے وہ نیک ہیں یا برے ہیں یہ سب کے سب قیا مت کے دن آئیں گے، اور یہاں اللہ نے اپنا فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم یاد رکھ لو، برا ہو یا اچھا
﴿وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا﴾
اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر بندے نے جہنم کے اوپر سے گزرنا ہے، میدان محشر اور جنت کے درمیا ن جہنم ہے، ہاں فرق اتنا ہو گا کہ کوئی ایسے گزرے گا جس طرح ابراہیم علیہ السلام نمرود کی آگ سے گزرے اور کوئی اس میں گرے گا اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا اور پھر جنت میں جائے گا اور کوئی ایسے گزرے گا کہ گرے گا پھر وہیں رہ جائے گا اور جنت میں جانے کی اس کو توفیق نہیں ہوگی۔
پل صراط سے گزرنے والوں کی تین اقسام:
اب یوں سمجھو کہ تین قسم کے لوگ ہوں گے :
[۱]: بعض لوگ ایسے ہوں گے کہ جنہو ں نے جہنم سے گزرنا ہے اپنے اعمال کے حساب سے۔ کوئی بہت زیادہ رفتار سے، کوئی آہستہ ، لیکن گزرنا ضرور ہے۔ لیکن جو صلحاء ہوں گے وہ جہنم کے اوپر سے گزر رہے ہوں گے تو ٹھنڈک محسوس کریں گے اور جہنم کی گر می انہیں محسوس تک نہیں ہوگی۔ صرف جہنم کا مشاہدہ کر کے جانا ہے۔
[۲]: اور جو مسلمان ہیں اور فاسق ہیں وہ جہنم میں جائیں گے، وہاں کچھ عر صہ رہیں گے اور نکل جائیں گے۔ اللہ ہمیں کچھ عرصے کے لیے جانے سے بھی محفوظ فرمائے۔
[۳]: کافر جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے جائیں گے اور پھر کبھی بھی اس جہنم سے نکل نہیں سکیں گے۔
ایمان کی قدر کیجیے!
اللہ کی قسم ایمان جیسا بھی ہو بہت بڑی نعمت ہے، مسلمان جیسا بھی ہو دنیا کے اربوں کافروں سے اچھا ہے، کبھی بھی کافر کومسلمان سے اچھا نہ کہنا! قیا مت کے دن جب کافر جہنم میں جائیں گے تو ایک وقت آئے گا کہ مسلمان فاسق بھی جہنم میں اور کافر بھی جہنم میں ہوں گے۔ کافر مسلمانوں کو یہ طعنہ دیں گے کہ تم ہمیں کہتے تھے کہ تم کافر ہو اس لیے جہنم میں جلو گے لیکن یہاں جہنم میں تو تم بھی پڑے ہو، تمہارے کلمہ کا تمہیں کیا فائدہ ہوا؟اس وقت اللہ کی غیرت کو جوش آئے گا، اللہ فرشتے کو حکم دیں گے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان موجود ہو گا اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے آؤ۔ قرآن کہتا ہے:
﴿رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۲﴾﴾
134F
الحجر15: 2
اس وقت کافر کہیں گے کہ اے کاش! ہم بھی دنیا میں مسلمان ہو تے، لیکن آج کاش کہنے سے کچھ نہیں بنے گا۔ دنیا میں انسان کلمہ پڑھ کر دائر ہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور جو شحص مسلمان ہو -میں اکثر کہا کرتا ہوں- کہ اس کی حوصلہ شکنی نہ کیا کرو، اس کی حوصلہ افزائی کرو، مسلمان جیسا بھی ہو اس کو سینے سے لگاؤ، اس کو دور نہ کرو، مسلمانو ں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالو، کمزوریوں کو ظاہر نہ کرو، کوئی عیب نظر آ جائے تو اس کو چھپانے کی کوشش کرو اور اپنے بارے میں ذہن بناؤ کہ اس کا ایک عیب مجھے پتا چلا ہے لیکن میرے دس ہیں جو اللہ نے چھپا کر رکھے ہیں۔ اگر میرے عیب کھل گئے تو بتاؤ میرا کیا بنے گا؟ یہ بات ہمیں ضرور سوچنی چاہیے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
مسلمان اور کافر کے جہنم میں جانے میں فرق:
ایک چھوٹی سی بات سمجھ لیں کہ جہنم میں کافر بھی جائے گا اور اگر مسلمان فاسق ہو تو وہ بھی جائے گا۔ تو دونوں میں کیا فرق ہے؟ فرق یہ ہے کہ کافر کو اللہ جہنم کا میں بھیجیں گے ذلیل کرنے کے لیے اور مسلمان کو اللہ بھیجیں گے لیکن پاک کرنے کے لیے۔ ذلیل کرنا اور ہے اور پاک کرنا اور ہے۔ یہ جو اس پر گناہوں کی نجاست تھی یہ تو بہ کر کے اس کو پاک نہیں کر سکا تو اس کے لیے خدا نے جہنم کی آگ رکھی ہے کہ اس سے پاک کر کے پھر جنت میں بھیج دیں گے۔ لیکن کفر کی نجاست ایسی ہے کہ وہ جہنم کی آگ سے بھی پاک نہیں ہو گی۔
تو میں سمجھا یہ رہا تھا کہ جہنم میں تو فاسق مؤمن بھی جائے گا لیکن وہ پاک ہو گا تو نکل جائے گا اور کافر نے جو منہ سے کفر کی نجاست نکالی ہے یہ اتنی گندی نجاست ہے کہ اس کو پوری جہنم بھی پاک نہیں کر سکتی۔ عام طور پر اگر نجاست آگ میں گرے تو آگ نجاست کو ختم کر دیتی ہے لیکن کفر اور شرک ایسی نجاست ہے کہ اس کو جہنم کی آگ بھی پاک نہیں کر سکتی۔ یہ ناپاک اسی میں پڑا رہے گا۔ مسلمان جیسا بھی ہے یہ پھر بھی مسلمان ہے، اس نے ان شاء اللہ جنت میں جانا ہے۔ اللہ ہم سب کو جنت میں لے جائیں۔
شرک کی قباحت:
آگے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ بعض لوگ شرک کرتے ہیں اور شرک اتنا بڑا جرم ہے کہ
﴿تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۰﴾ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿ۚ۹۱﴾﴾
جب یہ مشرک اپنی زبان سے خدا کےلیے بیٹا کہتا ہے، خدا کی بیٹیا ں کہتا ہے، خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے تو آسمان پھٹنے لگتا ہے، زمین ٹوٹنے لگتی ہے، پہاڑ گرنے لگتے ہیں میں اللہ ان کو تھام لیتا ہوں۔
اور کمال یہ ہے کہ مشرک ایک مرتبہ کہتا ہے کہ اللہ! میری توبہ، میں اب شرک نہیں کروں گا تو اللہ سب صاف فرما دیتے ہیں۔ جرم اتنا بڑا ہے اور عنایت اتنی بڑی ہے تو بندہ سوچ سکتا ہے! بس ہمارے آنےکی دیر ہے، اللہ کے ہاں معافی میں کوئی دیر نہیں ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے محبوبیت عامہ:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا ﴿۹۶﴾﴾
جو آدمی ایمان لائے، عقیدہ اس کا ٹھیک ہو، اعمال سنت کے مطابق ہوں تو اللہ اس کے لیے محبت کی ہوائیں چلادیتے ہیں۔ میں اس سے آسان اور عام فہم ترجمہ نہیں کر سکتا۔ حدیث پاک میں ہےکہ جب اللہ اس سے پیار کرتے ہیں تو جبرائیل امین علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ فلاں بندے سے مجھے بہت پیار ہے، جبرائیل فرشتوں سے کہتے ہیں کہ اللہ کو اس بندے سے بہت پیار ہے۔ فرشتے آگے اعلان کرتے ہیں۔ وہ اعلان چلتے چلتے زمین والوں تک آتا ہے۔ پھر اس نیک بندے سے سارے زمین والے پیار کرتے ہیں۔
اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا بھی مانگی ہے- ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اس دعا کو مانگا کریں، عربی یاد نہ ہو سکے تو اردو ترجمہ سے مانگیں، اردو میں بھی نہ ہو سکے تو پنجابی میں مانگ لیا کریں، وہ دعا یہ ہے:
"اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِىْ شَكُوْرًا وَاجْعَلْنِىْ صَبُوْرًا وَاجْعَلْنِىْ فِىْ عَيْنِىْ صَغِيْرًا وَفِىْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا." 135F
جامع الاحادیث للسیوطی:ج6 ص103 رقم الحدیث 4801
اے اللہ! مجھے اپنی نعمتوں پر شکر کرنے والا بنا دے، اے اللہ! مجھے صبر کرنے والا بنا دے، مجھے میری آنکھ میں چھوٹا کر دے اور لوگوں کی آنکھ میں بڑا کر دے۔ بندہ خود کو بڑا سمجھے تو یہ جرم ہے اور خود کو چھوٹا سمجھے اور دوسرے اس کو بڑا سمجھیں تو یہ اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ ہم سب کو ایسا ہی بنادیں، یہ اللہ کی نعمت ہے۔
آیت پر ایک شبہ اور اس کا جواب:
میں آخری بات سنا کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ یہ جو ہم نے آیت پڑھی ہے کہ جس کا عقیدہ ٹھیک ہو اور اعمال بھی اس کے سنت کےمطابق ہوں تو اللہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا فرما دیتے ہیں۔ بعض کو اس آیت پر شبہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے کتنے لوگ دیکھے ہیں کہ ان کا عقیدہ بھی ٹھیک ہے، عمل بھی سنت کے مطابق ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے پیار نہیں کرتے، تو کیا یہ آیت غلط ہے؟
جواب یہ ہے کہ آیت تو ٹھیک ہے لیکن ہمیں سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ اس کا ایک معنی علامہ نسفی رحمہ اللہ نے تفسیر مدارک میں لکھا ہے کہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت مؤمن کے لیے ترتیب یوں بنا دیتے ہیں کہ مؤمن کی نیک لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا فرما دیتے ہیں تو وہ اس سے پیار کرتے ہیں اور جو فجار اور نیک نہیں ہوتے ان کے دلوں میں محبت نہیں ہوتی بلکہ اس نیک آدمی کا رعب بٹھا دیتے ہیں، وہ اس کو چھیڑتے نہیں ہیں۔ اگر چھیڑیں تو بھی ڈر تے ہیں، ان کو پتا ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ ہونا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافر چھیڑتے تھے لیکن کافروں کو پتا تھا کہ اس چھیڑ کا کچھ نتیجہ نکلناہے۔ اللہ ہم سب کو ایسا بنا دیں، اللہ ہم سب کو نیک بنادیں، اللہ ہمارے عقائد کو درست بنا دیں اور اللہ ہم سب کو قرآن کریم کی خدمت کے لیے قبول فرما لیں۔(آمین )
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․