سورۃ الممتحنۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الممتحنۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ ۚ﴾
شانِ نزول:
یہ غزوہ بدر کے بعد اور فتحِ مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مکہ کی ایک عورت تھی جو مُغَنِّیہ تھی گانا گاتی اور پیسے کماتی۔ اس کا نام سارہ تھا۔ یہ مدینہ منورہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم مسلمان ہو کر آئی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔تو پھر یہاں کیوں آئی ہو؟ اس نے کہا کہ آپ لوگ مکہ کے اعلیٰ خاندان تھے۔ مکہ کے سردار تو بدر میں مارے گئے اور آپ لوگ یہاں آ گئے، اب میرا گزارا نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ مکہ کے نوجوانوں کا کیا بنا؟ مطلب کہ وہ تو تجھ پہ پیسا لٹاتے تھے، اب ان کا کیا ہوا؟ کہنے لگی کہ جنگِ بدر کے بعد انہوں نے مجھے بلانا چھوڑ دیا ہے اس لیے میں سخت تنگی میں ہوں، میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ میری کچھ مددکریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد المطلب سے فرمایاکہ اس کو کچھ مال دے کر اس کی کچھ مدد کر کے اس کو مکہ بھجوا دو۔ انہوں نے اس کی کچھ مدد کی۔اب وہ واپس مکہ جانے کی تیاری کرنے لگی۔
آپ کے علم میں ہے کہ حدیبیہ میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ مشرکین مکہ نے اس معاہدہ کی پاسداری نہیں کی اور معاہدہ کو توڑ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین پر حملہ کرنے کے لیے خفیہ طور پر تیاری شروع کر دی تھی۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا:
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے۔ ان کو پتا چلا کہ یہ عورت مکہ سے آئی ہے اور اب واپس جا رہی ہے۔حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اصلاً یمن کے تھے اور مکہ مکرمہ میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ مکہ مکرمہ میں ان کا قبیلہ نہیں تھا۔ یہ خود تو ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تھے لیکن ان کے اہل و عیال مکہ مکرمہ ہی میں تھے۔ تو ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ جتنے لوگ ہجرت کر کے آئے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کا خاندان وہاں پر ہے، اگر بیوی بچے بھی مکہ میں ہیں تو ساتھ دوسرا خاندان بھی ہے، رشتہ دار وہاں پر ہیں اس لیے ان کو تو نقصان کا خدشہ نہیں ہے۔
اب مکہ میں جب جنگ ہو گی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بچوں کو نقصان پہنچ جائے۔ تو میں مکہ والوں پر احسان کروں اور انہیں پیغام پہنچا دوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اوپر حملہ کرنے والے ہیں تم تیاری کر لو! اگر میں ان کے ساتھ یہ ہمدردی کروں تو وہ بھی اس کے بدلے میں میرے بچوں کا خیال رکھیں گے اور میرے بچے بچ جائیں گے اور یہ تو مجھے پورا یقین ہے کہ مکہ فتح ہونا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتح بننا ہے، میں مکہ والوں کو یہ بات بتاؤں تب بھی مکہ فتح ہونا ہے اور نہ بتاؤ ں تب بھی ہونا ہے! لیکن اس تدبیر سے میرے بچے بچ جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مکہ والوں کو ایک خط لکھا جس میں اس حملے کی خبر دی۔ یہ خط انہوں نے سارہ کو دیا اور کچھ پیسے بھی دیے۔
یہ سارہ ابھی روضہ خاخ ایک جگہ تھی وہاں پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اس معاملہ کا سارا حال بتا دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت ابو مرثد اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا کہ فلاں مقام پر یہ عورت پہنچی ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط لے کر آؤ! انہوں نے گھوڑے دوڑائے اور وہاں پہنچے۔ وہ عورت پکڑی گئی، ان حضرات نے کہا کہ تمہارے پاس ایک خط ہے وہ ہمیں دے دو۔ اس نے کہا کہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ خط دو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتروا دیں گے، خط ہم نے لینا ہے تم سے! اس سے وہ ڈر گئی۔ خط اس کی ازار میں تھا۔ اس نے وہاں سے نکالا اور ان حضرات کو دے دیا۔ خط لے کر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اسے چھوڑ دو! یہ بدری ہے:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کا پتا چلا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور! اس کو ذرا میرے حوالے کریں... میں اس کی گردن اڑا دو ں، اس کی جرأت کیسے ہوئی کہ ہماری بات کفر تک پہنچا دی ہے!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم نے یہ خط دیا ہے؟ کہاکہ جی میں نے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے ایسے کیوں کیا؟انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! مکہ میں میرے بچے ہیں ، میں یمنی ہوں، مکہ کا رہنے والا نہیں ہوں تو میں نے چاہا کہ مکہ والوں پر احسان کر دوں تاکہ میرے بچے بچ جائیں، باقی سب کا خاندان ادھر ہے لیکن میرا کوئی خاندان مکہ میں نہیں ہے، باقی میرے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں آیا، مجھے آپ کی فتح پر پورا یقین ہے، یہ میں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے کیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب سچ کہتا ہے، اس کے بارے میں خیر ہی کہو، خیر کے علاوہ کوئی بات نہ کہو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے مخاطب ہو کر فرمایا: عمر! یہ بدری نہیں ہے؟ کہا کہ جی بدری ہے۔ فرمایا کہ ان کے گناہوں کی معافی نہیں ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے کہ حضور! آپ نے سچ فرمایا۔ دیکھو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ جری تھے دین کے معاملہ میں لیکن جب بات سمجھ آتی تھی تو وہیں ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ کہا حضور! آپ نے سچ فرمایا۔ اس پر سورۃ الممتحنہ کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
دشمنِ خدا سے دوستی جائز نہیں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ ۚ یُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَ اِیَّاکُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللہِ رَبِّکُمۡ﴾
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو دوستی کے پیغام بھیجنے لگو! حالانکہ ان لوگوں نے تمہارے دین حق کو جھٹلایا ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کے نبی کو اور تمہیں مکہ سے صرف اس وجہ سے نکالا تھا کہ تم اللہ رب العزت پر ایمان لاتے ہو!
یہاں دیکھیں کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ
”لَا تَتَّخِذُوا الْکُفَّارَ اَوْلِیَاءَ“
کہ کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ بلکہ فرمایا:
”لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ “
کہ میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ! یہ اسلوب اختیار کیا یہ بتانے کے لیے کہ ان سے دوستی نہ رکھنے کی وجہ یہی ہے کہ یہ میرے بھی دشمن ہیں اور تمہارے بھی دشمن ہیں۔ کافر جب تک اپنے کفر پہ قائم ہے وہ کسی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا!
﴿اِنۡ کُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِہَادًا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِیۡ ٭ۖ ﴾
یہاں یہ بتایا کہ اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے نکلے ہو اور میری رضا مندی کے لیے نکلے ہو تو پھر ان کفار سے دوستی مت کرو! کفار سے دوستی کا مطلب ہے کہ ان کی رضا مندی کا خیال کیا جائے۔ جب تم اللہ کی رضامندی کے طالب ہو تو پھر کفار کی رضامندی اور ان کی دوستی کی بالکل پروا نہ کرو!
﴿ تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ٭ۖ وَ اَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَیۡتُمۡ وَ مَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡہُ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱﴾﴾
پھر تم ان کے پاس محبت کے خفیہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو میں سب جانتا ہوں۔ جو بھی ایسا کام کرے گا تو وہ راہِ راست سے بھٹک جائے گا۔
﴿اِنۡ یَّثۡقَفُوۡکُمۡ یَکُوۡنُوۡا لَکُمۡ اَعۡدَآءً وَّ یَبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ وَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ ؕ﴿۲﴾﴾
ان کا بس چلا تو یہ تمہارے خلاف اپنی دشمنی ظاہر کریں گے، تمہارے ساتھ برائی کرنے کے لیے اپنے ہاتھ بھی چلائیں گے اور اپنی زبانیں بھی دراز کریں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ تم کافر ہو جاؤ!
اس سے معلوم ہوا کہ کافر جب تک کافر ہے اور مؤمن جب تک مؤمن ہے تو کافر اس مؤمن سے پیار نہیں کر سکتا جب تک کہ یہ ایمان کو نہ چھوڑ دے۔ اور اب تو اگر کوئی مسلمان ایمان چھوڑ دے تو کافر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ایمان کو چھوڑا ہے مفاد کے لیے تو پھر بھی پیار نہیں کرے گا۔ جب اس کو یقین ہو جائے کہ اس نے ایمان چھوڑا ہے کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے تو پھر شاید وہ پیار کر لے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
﴿لَنۡ تَنۡفَعَکُمۡ اَرۡحَامُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ ۚۛ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚۛ یَفۡصِلُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۳﴾﴾
قیامت کے دن نہ تمہاری رشتے داریاں تمہارے کام آئیں گی اور نہ اولاد تمہارے کام آئے گی۔ اللہ ہی وہاں تمہارے بارے میں فیصلہ کریں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ:
﴿قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَ مِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے اسوہ کو دیکھو! انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بھی بری ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو ان سے بھی بری ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے بھی برأت کا اعلان کیا، بادشاہ سے بھی برأت کا اعلان کیا کہ میں تم سے بیزار ہوں، میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں ۔
﴿ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَ بَدَا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَ الۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللہِ وَحۡدَہٗۤ﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم تمہارے نظریات کو نہیں مانتے اور تمہارے اور ہمارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا ہو گیا ہے جب تک تم اللہ وحدہ پر ایمان نہیں لاؤ گے!
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف یہ نہیں فرمایا ”حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللهِ“ کہ ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض ہےاور یہ ختم ہو گا جب تم اللہ پر ایمان لاؤ! نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللہِ وَحۡدَہٗ“
کہ تم ایک اللہ کو مانو، یہ جو تم نے جھوٹے خدا بنا رکھے ہیں ان سب کی نفی کرو اور ایک خدا کو مانو تو پھر ہم تمہارے اور تم ہمارے ہو، جب تک یہ نہیں ہوتا تو ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
تو اس معاملے میں مسلمانوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتداء کرنی چاہیے اور کفر سے برأت کا اعلان کرنا چاہیے۔ کافر باپ ہو یا بیٹا ؛ علیحدگی اختیار کرو۔ ہاں ایک بات کا خیال رکھو ابراہیم علیہ السلام نے ایک بات ایسی فرمائی تھی اس میں تم نے ان کی اتباع نہیں کرنی۔ وہ بات کیا تھی، فرمایا:
ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لیے استغفار کرنے کا مطلب:
﴿اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ وَ مَاۤ اَمۡلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنۡ شَیۡءٍ﴾
یہ جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا تھا کہ میں آپ کے لیے ضرور استغفار کروں گا ، باقی میں آپ کو خدا کے عذاب سے بچا تو نہیں سکتا !
تو یہاں منع کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی اتباع تو کرو لیکن اس معاملے میں اتباع نہ کرو۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں آئے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا تھا:
﴿لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ﴾
کہ میں آپ کے لیے استغفار کروں گا! لہذا میں بھی اپنے کافر رشتہ داروں کے لیے استغفار کروں! تو فرمایا کہ اس معاملے میں ان کی اتباع نہ کرو کیونکہ ہر بندہ اس بات کو نہیں سمجھ نہیں سکتا کہ ابراہیم علیہ السلام کے اس فرمان
﴿لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ﴾
کا کیا مطلب تھا؟!
دراصل آپ علیہ السلام کے اس فرمان کا معنی یہ تھا کہ میں تمہارے لیے دعا کروں گا کہ اللہ تمہیں ایمان دے پھر اللہ تمہارے گناہ معاف فرما دے! یہ مطلب نہیں تھا کہ کافر ہوتے ہوئے تمہارے گناہ معاف فرما دے ۔
یا اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا خیال یہ تھا کہ میرے ابا کے دل میں ایمان اتر آیا ہے تو اللہ کرے اپنی زبان سے اس کا اظہار کریں لیکن
﴿فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ﴾
جب آپ کو پورا یقین ہو گیا کہ ان کے دل میں ایمان نہیں اترا تو آپ نے والد سے برأت کا اعلان کر دیا۔
التوبہ 9: 114
تو یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کافر تھے اور آپ نے کافر والد کے لیے استغفار فرمایا تھا تو بظاہر اس سے شبہ ہوتا ہے کہ کافر کے لیے استغفار کرنا جائز ہے۔ تو فرمایا کہ باقی سارے معاملات میں ان کی اقتداء کرو لیکن اس معاملے میں نہیں، کافر کے لیے استغفار نہ کرنا کہ کافر ہوتے ہوئے اللہ ان کو معاف فرما دے ... یہ کبھی نہ کرنا۔
اہلِ ایمان کی دعائیں:
﴿رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَ اِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۴﴾﴾
اے ہمارے رب! ہم آپ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں، آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف ہم نے آنا ہے۔
﴿رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ اغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۵﴾﴾
اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کی آزمائش سے محفوظ رکھ اور ہمرای مغفرت فرما! بے شک تو غالب حکمت والا ہے۔
﴿ عَسَی اللہُ اَنۡ یَّجۡعَلَ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَ الَّذِیۡنَ عَادَیۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّوَدَّۃً ؕ وَ اللہُ قَدِیۡرٌ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۷﴾﴾
یہ معاملہ بہت مشکل تھا کہ باپ مسلمان تو بیٹا کافر، بیٹا مسلمان تو باپ کافر، شوہر مسلمان تو بیوی کافرہ، بیوی مسلمان تو شوہر کافر ... اورحکم یہ تھا کہ ان سے برأت کا اعلان کر دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکمِ شرعی پر عمل کیا لیکن مشکل تو بہت تھا۔ مشکل نہ ہوتا تو پھر ان کو شاباش کیوں ملتی ! مشکل بہت تھا اس لیے اللہ نے اس پر ان کو تسلی دی ہے۔
فرمایا: وہ وقت دور نہیں کہ جب اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے دوستی پیدا فرما دےگا۔ اللہ اس بات پر قادر ہے اور مغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
یعنی یہ کچھ وقت کی بات ہے، بہت جلد یہ عداوت محبت میں تبدیل ہو جائے گی۔ مطلب کہ تم فاتح بنو گے اور وہ مسلمان ہو جائیں گے تو دشمنی ختم ہو جائے گی، پھر دوستی دوبارہ لوٹ آئے گی۔ ساتھ ہی اللہ پاک نے تسلی بھی عطا فرمائی کہ یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے، ان شاء اللہ جلدی کام ہو جائے گا۔
رشتہ دار کفار ہوں توتعلقات کا حکم:
﴿لَا یَنۡہٰىکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۸﴾﴾
جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے بھی نہیں نکالا تو ان سے اچھے تعلقات رکھنے اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتے!
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی تھی جن کا نام تھا قُتَیْلہ اور آپ نے زمانہ کفر میں ان کو طلاق دی تھی۔ ان سے آپ کی بیٹی پیدا ہوئی تھیں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا۔ آپ کی دوسری بیوی حضرت ام رومان سے بیٹی پیدا ہوئیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔ اب ذرا اندازہ کرنا! حضرت اسماء مسلمان ہیں اور ہجرت کر کے مدینہ آ گئی ہیں۔ آپ کی والدہ قُتَیْلہ کافرہ ہے، وہ مکہ سے مدینہ آئی ہے اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے اور ساتھ ہدیہ بھی لے کر آئی ہے۔ کیا کیفیت ہو گی ایمان کی! اللہ کی قسم بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ میں تو جب خلوت میں بیٹھتا ہوں تو رو پڑتا ہوں یہ واقعات پڑھ کر، مجھ سے بالکل براداشت نہیں ہوتا! مکہ سے ماں چلی ہے اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے اور ہدیے ساتھ لے کر آئی ہے۔ حضرت اسماء نے فرمایا: امی اندر نہیں آنا! گھر نہیں آنے دیا اور ہدیے قبول نہیں کیے۔ پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ حضور! میری ماں آئی ہے ملنے کے لیے، اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایاکہ صلہ رحمی کا خیال کرو! ان کا خیال رکھو، ان سے تعلق میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس پر یہ آیت اتری ہے۔
حضرت اسماء کا ایمان دیکھو! جب اس سطح پر بندہ کھڑا ہو نا پھر اللہ کی طرف سے مدد اترتی ہے، پھر فتوحات اترتی ہیں۔
﴿وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
اور جو لوگ ان سے دوستی رکھیں گے ایسے لوگ ظالم ہیں۔
میں خدا کی قسم کھا کر بڑے درد سے تمہیں سمجھاتا ہو ں کہ کافر سے کبھی محبت نہ کرنا، فاسق سے کبھی محبت نہ کرنا، وہ نافرمان ہے، ظالم ہے،ان سے پیار نہ کرو! پیار صلحاء سےکرو،پیار مؤمنین سے کرو! ہاں مدارات ومعاملات مجبوری ہیں، رشتہ دار ہیں، خاندان کے لوگ ہیں لیکن موالات نہ کرنا، دل سے کبھی ان سے پیار نہ کرنا، دل میں کبھی کسی کافر کو جگہ نہ دینا! دل خالص اللہ کے لیے رکھو۔
صلح حدیبیہ کی بعض شرائط:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕ اَللہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ ؕ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ ؕ﴾
فرمایا: اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لیا کرو۔ جب تمہیں یقین ہو جائے کہ یہ ایمان والی ہیں تو انہیں کافروں کو واپس مت کرو! یہ مسلمان عورتیں ان کافروں کے لیے حلال نہیں اور وہ کافر ان کے لیے حلال نہیں ہیں۔
حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا۔ اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مسلمان العیاذ باللہ مرتد ہو کر چلا گیا تو واپس نہیں ہو گا اور اگر کوئی کافر مسلمان ہو گیا اور مسلمانوں کے پاس آ گیا تو اس کو واپس کیا جائے گا۔ ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی تھا، کہتے ہیں کہ ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ابو جندل آ گئے۔ عرض کرنے لگے: حضور! میرا کچھ کریں۔ ابو جندل کا والد سہیل بن عمرو چونکہ معاہدہ لکھنے والا تھا تو اس نے کہا کہ ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے کہ اگر ہمارا بندہ ہمارے دین کو چھوڑ کر آپ کےپاس آ جائے تو آپ واپس کرنے کے پابند ہیں، اس لیے ابو جندل کو واپس کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ابو جندل! واپس چلے جاؤ۔ کہا کہ حضور! یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے، بہت مشکل سے جان چھڑا کر آیا ہوں۔ فرمایا کہ ہم نے معاہدہ کیا ہے۔ ابو جندل! واپس چلے جاؤ، اللہ کوئی اچھی سبیل پیدا فرما دیں گے۔
اسی موقع پر حضرت سعیدہ بنت حارث رضی اللہ عنہا صحابیہ تھیں وہ بھی آ گئیں کہ حضور! میں بھی آ گئی ہوں۔ یہ اس وقت صیفی بن انصب کے نکاح میں تھیں جو کافر تھا۔ وہ بھی ساتھ آ گیا اور اس نے حضور سے عرض کیا کہ میری بیوی مجھے واپس کر دیں کیونکہ آپ کے اور ہمارے درمیان معاہدہ ہوا ہے اور آپ نے شرط قبول کر لی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا معاہدہ عورتوں کے لیے نہیں ہے،یہ صرف مردوں کے لیے ہے، خواتین کو واپس نہیں کیا جائے گا۔
اصل میں یہ تھا کہ چونکہ معاہدے کے عموم میں بظاہر عورتیں شامل تھیں لیکن وضاحت تو نہیں تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جو شِق ہے یہ مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ اللہ کی شان ہے کہ اللہ نے کفار کے دل میں بات کو ڈال دیا اور اس کی مخالفت انہوں نے بھی نہیں کی، وہ بھی خاموش ہو گئے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعیدہ صحابیہ ہے، اس کو ہم واپس نہیں کریں گے۔
یوں سمجھیں کہ وہ جو تعمیم تھی نا... وہ اس تخصیص سے منسوخ ہو گئی کہ یہ خاص مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کریم کی یہی آیات نازل ہوئیں۔
اور بعض روایات میں ہے کہ ام کلثوم بنت عتبہ بن ابی معیط یہ صحابیہ تھیں، عمرو بن عاص کے نکاح میں تھیں، ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی مدینہ منورہ آ گئیں اورا ن کے دو بھائی تھے، ایک کا نام ولید تھا اور ایک کا نام عمارہ تھا وہ بھی مسلمان ہو کر مدینہ آ گئے۔ عمر وبن عاص ان کو لینے کے لیے آ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام کلثوم تو واپس نہیں جائے گی، ہاں اس کے بھائیوں کو لے جاؤ ۔ اس نے کہا: کیوں ؟فرمایا کہ اس میں ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے، عورت ہم واپس نہیں کر سکتے، باقی مردوں کو لے جاؤ، ہم اس سے منع نہیں کرتے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ان عورتوں سے قسم لی جاتی تھی کہ تم اپنے مرد سے ناراض ہو کر تو نہیں آئیں؟ کہتیں کہ جی نہیں! کسی مرد کی محبت میں تو نہیں آئیں؟وہ کہتیں کہ جی نہیں! تمہارے آنے کا کوئی اور مقصد تو نہیں ہے؟ کہتیں کہ جی نہیں! پوچھا جاتا کہ صرف اسلام کی وجہ سے آئی ہو؟ جی ہاں۔ بس ٹھیک ہے، یہ مسلمان ہے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لو۔ اس بیعت کے کلمات آگے آ رہے ہیں۔
مسلمان عورتوں کے کافر خاوندوں کو مہر واپس کرو:
﴿وَ اٰتُوۡہُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ؕ وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ وَ سۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ وَ لۡیَسۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ ذٰلِکُمۡ حُکۡمُ اللہِ ؕ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۱۰﴾﴾
ان عورتوں کے خاوندوں نے ان پر جو کچھ خرچ کیا یعنی ان کو مہر دیا تو وہ ان کو ادا کر دو!جب تم ان کے مہر ادا کر دو تو ان سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور کافر عورتوں کی عصمتیں اپنے پاس نہ رکھو۔ آگے ان عورتوں کا معاملہ یوں طے کرو کہ جو مہر تم نے ان بیویوں کو دیا ہو جو کافر ہیں تو تم اس کا مطالبہ ان کے نئے شوہروں سے کر سکتے ہو اور جو عورتیں مسلمان ہو کے آئی ہیں ان کے شوہر ان کے مہر کا مطالبہ تم سے کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
﴿وَ اٰتُوۡہُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا﴾
کافر نے جو مہر اِن کو دیا تھا تو وہ مہر تم ان کو واپس کر دو۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ عورت حق مہر واپس کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس نے استعمال کر لیا ہواور اب دینے کی طاقت نہ رکھتی ہو۔ تو فرمایاکہ مہر تم مسلمان اس کو واپس کرو اور اس کو رکھ لو۔
﴿وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ﴾...
اور کافر عورتوں کی عصمتیں اپنے پاس نہ رکھو۔ ”عصم“ یہ عصمت کی جمع ہے یعنی وہ جو کافرہ عورتیں ہیں اب ان کی عصمت کو تم چھوڑ دو، انہیں آزاد کر دو ، ان کو تم اپنے نکاح میں نہ رکھو۔ یعنی مسلمان ہجرت کر کے آ گیا اور بیوی اس کی کافرہ ہے تو اس کو چھوڑ دے۔
یہ تقریباً چھ خواتین تھیں۔ ان میں سے پانچ مکہ مکرمہ میں تھیں اور کافرہ تھیں۔ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہ ہجرت کر کے مدینہ نہیں آئیں بلکہ مکہ ہی میں رہیں اور اپنے کفر پر قائم رہیں۔ صرف ایک عورت ام الحکم بنت ابی سفیان یہ حضرت عیاض بن غنم قریشی کے نکاح میں تھی۔ یہ مرتد ہو کر مکہ واپس چلی گئی تھی۔ باقی پانچ ایسی تھیں جو نکاح میں تھیں اور شروع سے ہی کافرہ تھیں، تو انہوں نے ہجرت نہیں کی اور کفر پر باقی رہیں۔ ان کے بار ے میں حکم یہ تھا کہ اگر کسی کی بیوی کافر ہ ہے اور وہ ہجرت کر کے نہیں آتی تو تمہارا نکاح ختم ہو گیا، اب وہ کافر تمہارا حق مہر تمہیں واپس لوٹائیں اور اگر ان کی عورت تمہارے پاس آئی ہے اور تم اس کے کافر شوہر کو اس کا حق مہر لوٹاؤ۔ کفار تو ظاہر ہے کہ شریعت کو نہیں مانتے تھے انہوں نے تو نہیں دیے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیا۔
جن چھ عورتوں کا ذکر ہوا کہ پانچ تو شروع ہی سے کافر رہیں اور ایک اسلام لانے کے بعد مرتد ہو کر مکہ چلی گئی تھی۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ جو مرتد ہوئی تھی ام الحکم بنت ابی سفیان بعد میں وہ اسلام کی طرف لوٹ آئی تھی اور جو باقی پانچ تھیں انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔
﴿وَ اِنۡ فَاتَکُمۡ شَیۡءٌ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ اِلَی الۡکُفَّارِ فَعَاقَبۡتُمۡ فَاٰتُوا الَّذِیۡنَ ذَہَبَتۡ اَزۡوَاجُہُمۡ مِّثۡلَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ وَ اتَّقُوا اللہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۱﴾﴾
اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے اس طرح کہ اس کا حق مہر بھی تمہیں نہ مل سکے تو پھر جب تمہاری باری آئے یعنی کافروں کی عورتوں میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے اور تم اس سے نکاح کرو تو اب ضابطے کے تحت تمہیں اس عورت کے خاوند کو اس کا حق مہر ادا کرنا چاہیے تھا لیکن چونکہ تمہیں بھی تمہاری بیوی والا حق مہر نہیں ملا اس لیے تم بھی حق مہر نہ دو بلکہ یہ حق مہر اس شخص کو ادا کر دو جس کی بیوی ان کافروں کے پاس چلی گئی تھی۔ اور اللہ سے ڈر اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو!
ایمان والی عورتوں کی بیعت:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾﴾
فرمایا کہ اے نبی! جب آپ کے پاس مومن عورتیں آئیں اور بیعت کرنا چاہیں تو انہیں بیعت کرو۔ آگے پھر وہ بیعت کے الفاظ ہیں کہ تم بیعت ان باتوں پر کرو:
[1]: شرک نہیں کریں گی۔
[2]: چوری نہیں کریں گی۔
[3]: زنا نہیں کریں گی۔
[4]: ناحق اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔
[5] : بہتان نہیں باندھیں گی،
﴿بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ﴾
کے الفاظ ذکر کیے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ قیامت کے دن آدمی کی زبان نہیں بولے بلکہ اس کے ہاتھ پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ تو یہاں ہاتھ پاؤں کا ذکر اس لیے کیا کہ انسان کو چاہیے کہ کسی پر بہتان باندھنے سے پہلے سوچ لے کہ میں یہ کام دو ہاتھوں اور دو پاؤں کے درمیان کر رہا ہوں اور یہی چار گواہ قیامت میں میرے خلاف گواہی دیں گے۔
[6]: اور ہر نیک بات آپ کی مانیں گی۔
آپ ان کی بیعت بھی کریں اور ان کے لیے اللہ سے دعا بھی کریں۔ اللہ معاف فرمانے والے ہیں ۔
عالم سے بیعت کی دلیل (ایک دلچسپ واقعہ):
میں یہاں پر ایک واقعہ سنایا کرتا ہوں کہ ہم نے جب کام کا آغاز کیا تو یہ ادارہ نہیں تھا اور سب سے پہلے ہم نے بچیوں میں کام شروع کیا ہے۔ تو اس وقت پانچ بچیاں غالباً پانچ پانچ سال کی میں نے داخل کیں ۔ جو صبح آتیں یہاں گھر پہ ا... ب ... ت... ث... پڑھ کر چلی جاتیں، پھر شام کو آتیں، آدھا گھنٹا پھر میں ان کو سبق پڑھاتا اور چھوٹے بھائی قاری شعیب احمد صاحب کو میں نے کہا کہ آپ بچوں کو پڑھاؤ۔ اب وہ بچیاں بھی چلی گئیں۔ ان میں سے ایک بچی نے ہمارے ہاں مرکز اصلاح النساء میں دو سال کا کورس بھی کر لیا ہے۔ مجھے اب نہیں یاد کہ میں نے مہینا پڑھایا یا ڈیڑھ مہینا... بہرحال اس سے زیادہ نہیں پڑھایا۔
اس سے پہلے میں نے چھ ماہ کا کورس کرایا۔ اس میں ایک غیر مقلد لڑکی ہماری گاؤں کی تھی۔ وہ میرے سبق میں آ گئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ استاد جی! کیا کوئی عورت کسی عالم مرد سے بیعت کر سکتی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، کر سکتی ہے۔ اس نے کہا کہ دلیل؟ میں نے یہ آیت پڑھی
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللہِ شَیۡئًا﴾
اس نے کہا کہ میرا سوال یہ نہیں کہ کوئی عورت نبی کی بیعت کر سکتی ہے یا نہیں؟ میرا سوال یہ ہےکہ کسی عالم کی بیعت کر سکتی ہے یا نہیں؟ عورت نبی کی بیعت کرے اس کو تو میں مانتی ہوں، اس پر تو مجھے دلیل کی ضرورت نہیں، عورت کسی عالم کی بیعت کرے میں تو اس پر دلیل مانگتی ہوں، اس پر کوئی دلیل پیش کریں۔ آپ اس عورت کی تیاری دیکھیں!
میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب نماز کھڑی ہوتی تو جماعت کون کراتا تھا؟کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
میں نے کہا کہ جمعہ کے دن خطبہ کون دیتا تھا؟کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
میں نے کہا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم مسئلہ پوچھتے تو فتویٰ کون دیتا؟کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
میں نے کہا کہ جب جہاد ہوتا تو قیادت کون کرتا؟کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میں نے کہا کہ جب کوئی خواب دیکھتا تو تعبیر کون دیتا ؟کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
جب مسجد میں نکاح ہوتا تو کون پڑھاتا؟....کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میں نے کہا کہ جب خواتین ہوتیں تو ان کی بیعت کون لیتا؟....کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم
میں نے کہا کہ آپ بتائیں کہ
• اب نماز کون پڑھائے گا؟ کہا کہ مولاناصاحب
• اب خطبہ جمعہ کون دے گا؟ کہا کہ مولانا صاحب
• اب خطبہ نکاح کون دے گا؟ کہا کہ مولانا صاحب
• اب فتویٰ کون دے گا؟ کہا کہ مولانا صاحب
• اب خواب کی تعبیر کون بتائے گا؟ کہا کہ مولانا صاحب
میں نے کہاکہ جب عورتوں نے بیعت لینی ہو تو اب بیعت کون لے گا؟ تو اس کے لیے نبی کو لائیں؟ اب چپ ہو گئی۔ میں نے کہا کہ بات اچھی طرح سمجھو! عالم نبی کا وارث ہے اور وارث اپنے مورث کی تمام چیزوں کا وارث ہوتا ہے، صرف ایک کا نہیں ہوتا، اگر باقی سارے کام مولانا صاحب نے کرنے ہیں اور نبی نے نہیں کرنے تو تمہیں بیعت بھی مولانا صاحب نے کرنی ہے، کوئی نبی تمہارے لیے نہیں لا سکتے۔ ا س نے کہا کہ مجھے بات سمجھ میں آ گئی ہے۔
اور یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ اس کا تعلق خاص مہاجرات کے ساتھ نہیں ہے، اس کا تعلق بعد میں صحابیات کےساتھ بھی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیات مہاجرات کے علاوہ ان سے بھی بیعت لی ہے اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مرد بیعت کرتے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ میں ہاتھ دیتے، خواتین بیعت کرتیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نا محرم عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا۔
بیعت کی اقسام:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تین قسم کی بیعت لیتے تھے:
[1]: بیعت علی الایمان... کہ پہلے کافر تھے، اب کلمہ پڑھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور بیعت کی کہ ہم مسلمان ہوتے ہیں ۔
[2]: بیعت علی الجہاد... میدانِ جہاد میں بیعت کرنی ہے۔ اس کو بیعت علی الموت بھی کہتے ہیں۔ ہم مر جائیں گے لیکن آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، جب تک زندہ ہیں آپ کے ساتھ رہیں گے ۔
[3]: بیعت علی ارکان الاسلام... کہ کلمہ پڑھ لیا ہے، جہاد بھی کرتے ہیں ، اب ہم بیعت کرتے ہیں کہ احکامِ شریعت پر عمل کرتے رہیں گے اور ہم گناہوں سے بچیں گے۔
یہ تین قسم کی بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں آج جو مشائخ بیعت لیتے ہیں یہ نہ تو بیعت علی الایمان ہے، نہ بیعت علی الجہاد ہے بلکہ یہ بیعت علی ارکان الاسلام ہے۔ تو یہ تین قسم کی بیعت مشروع ہے ۔
بیعت کی ضرورت و اہمیت:
اس لیے جو شخص کسی سے بیعت نہ ہو اس کو بیعت کرنی چاہیے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ بیعت ضروری ہے لیکن یہ کہتا ہوں کہ تزکیہ نفس ضروری ہے اور مشاہدہ یہ ہےکہ تزکیہ نفس بغیر بیعت کے ہوتا ہی نہیں ہے، اس لیے بیعت ضروری ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اور جب کسی کے ہاتھ پر بیعت ہوں تو پھر فنائے کلی حاصل کریں۔ پھر اپنی خواہشات کو شیخ کی خواہشات کے تابع کریں تو پھر بیعت کرنے کا فائدہ ہوتا ہے وگرنہ بیعت کا فائدہ نہیں ہوتا۔ بیعت کا مقصد اپنی روح کا علاج ہے اور علاج تب ہوتا ہے جب مریض اپنا پورا مرض معالج کے سامنے رکھے اور اگر اپنا مرض معالج کے سامنے نہ رکھے تو پھر علاج نہیں ہوتا۔ اگر مریض یہ سمجھے کہ میں ڈاکٹر کو اپنا مرض بتاؤں گا تو ڈاکٹر کیا محسوس کرے گا تو علاج نہیں ہو گا۔ تو جس طرح مریض جسمانی مرض کے لیے ڈاکٹر کے سامنے اپنا مرض رکھتا ہے اور اس کو ڈاکٹر پر پورا اعتماد ہوتا ہے، مثلاً کہ ڈاکٹر مجھ سے نفرت نہیں کرے گا، علاج اچھی طرح کرے گا، میری یہ کمزوری کسی اور کو نہیں بتا ئے گا بالکل اسی طرح اپنے طبیب روحانی یعنی اپنے شیخ پر اعتماد ہونا چاہیے کہ میں اپنے گناہ بتاؤں گا تو میرا شیخ مجھ سے نفرت نہیں کرے گا، پوری ہمت اور کوشش سے میرا علاج کرے گا،یہ میرا مرض کسی اور کو نہیں بتائے گا۔ جب یہ اعتماد ہو تو پھر کھل کر اپنا مرض بتائیں۔
ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ اس پر شبہ ہے کہ جب گناہ کرو تو گناہ کسی کو بتانا نہیں چاہیے چونکہ اللہ نے گناہ پر پردہ ڈالا ہے ۔اس لیے اگر شیخ کو اپنا گناہ بتا دیا تو گویا اپنے گناہ پر اسے گواہ بنا لیا! میں نے کہا کہ وہ تب ہے کہ جب بندہ گناہ کرے اور لذت کے لیے دوسروں کو بتائے تو پھر تو جائز نہیں ہے اور اگر گناہ ہو گیا ہو اور معالج کو بتائے اپنی اصلاح کے لیے تو اس سے مقصد نہ تو گناہ کا اظہار ہے نہ لذت لینا ہے بلکہ اپنے گناہ کو ختم کرنا ہے۔ نیت کے بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے۔
مغضوب علیہم سے دوستی کی ممانعت:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ قَدۡ یَئِسُوۡا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الۡکُفَّارُ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡقُبُوۡرِ ﴿٪۱۳﴾﴾
فرمایا کہ اے ایمان والو! ان لوگوں سے پیار نہ کرو جن پر اللہ کا غضب ہے اور وہ آخرت سے ایسے مایوس ہو چکے ہیں جیسے قبر میں پڑے کافر خدا کی رحمت سے مایوس ہیں۔
جب کافر مر کر قبر میں چلا جاتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اب مجھےجنت نہیں ملنی ۔فرمایا کہ ان یہودیوں کو بھی پتا ہے کہ مسلمان حق پر ہیں اور ہم کفر پر ہیں اور ان کو پتا ہے کہ موت کے بعد ہمیں جہنم ملنی ہے جس طرح قبر میں پڑے کافر کو یقین ہے اسی طرح ان کو بھی یقین ہے۔ تو ایسے کفار سے پیار نہ کرو، ان سے دوریاں اختیار کرو۔
اللہ رب العزت ہم سب کی حفاظت فرمائیں، اللہ ہم سب کو خالص ایمان کی نعمت عطا فرمائیں۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․