سورۃ الیل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الیل
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الَّیۡلِ اِذَا یَغۡشٰی ۙ﴿۱﴾ وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی ۙ﴿۲﴾ وَ مَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰۤی ۙ﴿۳﴾﴾
قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے اور دن کی جب وہ روشن ہو جائے اور قسم ہے اس اللہ کی جس نے مرد کو پیدا کیا ااور عورت کو پیدا کیا۔
انسانی کوشش کا تنوع:
﴿اِنَّ سَعۡیَکُمۡ لَشَتّٰی ؕ﴿۴﴾ فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾ وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾﴾
تمہاری کوشش مختلف ہے یعنی تمہارے اعمال مختلف ہیں؛ کسی کے اعمال نیک ہیں، کسی کے اعمال بد ہیں۔ جو شخص اللہ کے رستے میں مال دے اور اللہ سے ڈرے اور سب سے اچھی بات کی تصدیق کرے۔ سب سے اچھی بات سے مراد دینِ اسلام ہے جس کو ماننے اور عمل کرنے پر جنت کا وعدہ ہے۔
نیکی اور بدی کا نتیجہ:
﴿فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾﴾
تو ہم اس بندے کو سامان دے دیتے ہیں راحت کی چیز کے لیے۔
﴿وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۸﴾ وَ کَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۹﴾ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ﴿ؕ۱۰﴾﴾
اور جو شخص بخل کرے اور بے پرواہی اختیار کرے اور اسلام کی تکذیب کرے، اسلام کو جھٹلائے تو ہم اس کو سامان دے دیتے ہیں مشکل اور تکلیف دہ چیز کے لیے۔
”نُیَسِّرُ“
کا معنی ہوتا ہے اسباب دینا۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صدقات دے، تقویٰ اختیارکرے اور دینِ اسلام کی تصدیق کرے، یہ تین کام کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسے اسباب عطا فرما دیتے ہیں کہ اس کے لیے دین کا کام کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے ․․․ اور جو شخص بخل کرے، یتیموں اور غریبوں کی پرواہ نہ کرے اور دینِ اسلام کی تکذیب کرے تو اللہ اسے ایسے اسباب دیتے ہیں جن کی وجہ سے اس کے لیے کفر اور فسق پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
انسان جیسی محنت کرتا ہے اسی کے مطابق اللہ اس کو اسباب عطا فرماتے ہیں۔ جو انسان مسلسل نیکی کے راستے کی تلاش کرے تو اللہ ایسے اسباب دے گا کہ نیکی کرنا آسان ہو جائے گا اور جو چوبیس گھنٹے گناہ سوچے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے اسباب دے گا کہ گناہ کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے گا۔ یہ انسان کی محنت کی وجہ سے ہے۔ جیسی محنت کرتا ہے اللہ اس کو دنیا میں اس کا رزلٹ دے دیتے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے یہ دنیا دار الجزاء نہیں ہے۔
شریعت بنے گی طبیعت لیکن کب؟
﴿فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾﴾
پر یہاں ایک بات سمجھیں۔ اب قواعد کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں
”فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰی“
نہ کہا جاتا بلکہ اللہ فرماتے
”فَسَنُیَسِّرُ لَهُ الْیُسْرٰی“
کہ جو شخص صدقات دیتا ہے، تقویٰ اختیار کرتا ہے اور دینِ اسلام کی تصدیق کرتا ہے تو ہم اس کے لیے شریعت پر چلنا آسان کر دیتے ہیں۔ انسان؛ ذات ہے اور آسانی یا مشکل؛ صفت ہے۔ آسان ہونا اور مشکل ہونا کسی ذات کی صفت نہیں ہے کہ یہ بندہ مشکل ہے اور یہ بندہ آسان ہے، آسان ہونا یا مشکل ہونا یہ بندہ کی صفت تو نہیں ہو سکتی نا! آسان ہونا یا مشکل ہونا یہ عمل کی صفت ہوتی ہے کہ یہ عمل مشکل ہے یا یہ عمل آسان ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتے کہ ہم اس بندے کے لیے عمل کو آسان کر دیتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہوتی، ہم اس بندے کے لیے شریعت پر عمل کرنا مشکل بنا دیتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہوتی․․․ لیکن اللہ نے یہاں یہ فرمایا: ہم اس بندے کو آسان کر دیتے ہیں شریعت پر عمل کے لیے اور ہم اس بندے کو مشکل بنا دیتے ہیں شریعت پر عمل کے لیے۔ حالانکہ آسان یا مشکل ہو نا یہ عمل کی صفت ہے یہ بندے کی ذات کی صفت نہیں۔ تو یہاں یہی بتانا مقصود ہے کہ جب بندہ اب تین چیزوں کا قصد کرتا ہے اور ان پر محنت کرتا ہے تو اللہ اس کی طبیعت ایسی بنا دیتے ہیں کہ شریعت پر عمل کرنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے اور اگر وہ ان تین برائیوں کے لیے محنت کرتا ہے تو اللہ اس کی طبیعت ایسی بنا دیتے ہیں کہ اس کے لیے شریعت پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
”الْیُسْرٰی“
سے مراد جنت ہے کیونکہ جنت نیک اعمال سے ملتی ہے اور
”الْعُسْرٰی“
سے مراد جہنم ہے اور جہنم اعمال بد سے ملتی ہے۔ اللہ پاک ہمارا مزاج بھی ایسا فرما دے کہ ہمارے لیے شریعت پر چلنا آسان ہو جائے۔ آمین
﴿وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُ مَا لُہٗۤ اِذَا تَرَدّٰی ﴿ؕ۱۱﴾﴾
آج جس شخص کے پاس مال ہے اور وہ بخل کرتا ہے تو جب یہ جہنم میں داخل ہو گا تو یہ مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
﴿اِنَّ عَلَیۡنَا لَلۡہُدٰی ﴿۫۱۲﴾﴾
ہمارے ذمہ سمجھانا ہے۔ اس لیے سمجھاتے ہیں۔
﴿وَ اِنَّ لَنَا لَلۡاٰخِرَۃَ وَ الۡاُوۡلٰی ﴿۱۳﴾﴾
اور دنیا اور آخرت ہمارے قبضے میں ہیں۔ جو انسان نیک اعمال کرتا ہے اس کو جنت دے دیں گے اور جو برے اعمال کرتا ہے اس کو جہنم دے دیں گے۔
اشقیٰ اور اتقیٰ کے انجام میں فرق:
﴿فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾ لَا یَصۡلٰىہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی ﴿ۙ۱۵﴾ الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۶﴾﴾
میں نے تمہیں بھڑکنے والی آگ سے خبردار کر دیا ہے جس میں بد بخت ہی داخل ہو گا، جس نے دینِ حق کو جھٹلایا تھا اور اس سے اعراض کیا تھا۔
یہاں ایک بات سمجھیں!
﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی ﴿ۙ۱۷﴾ الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾﴾
اور وہ شخص جو متقی ہے وہ اس آگ میں داخل ہونے سے بچا لیا جائے گا۔ یہ وہ شخص ہے جو اپنا مال خدا کی راہ میں دیتا ہے تاکہ اس کا مال پاکیزہ ہو جائے۔
صحابہ کرام محفوظ ہیں:
اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین محفوظ ہیں۔ محفوظ کا معنی کہ وہ گناہ نہیں کرتے اگر گناہ کر لیتے ہیں تو اللہ ان کے نامہ اعمال میں رہنے نہیں دیتا، اس لیے وہ جہنم میں بھی داخل نہیں ہو ں گے۔ صحابی کبھی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ میں آپ کو یہ بات سمجھا چکا ہوں اعتراضات اور جوابات کے ساتھ -شاید آپ کو یاد ہو گا- کہ نبی معصوم ہو تا ہے اور صحابی محفوظ ہوتا ہے، نبی سے اللہ گناہ ہونے نہیں دیتے اور صحابی سے ہو جاتا ہے لیکن اللہ نامہ اعمال میں رہنے نہیں دیتے۔ صحابہ عذاب سے بھی محفوظ ہیں اور بد عملی سے بھی محفوظ ہیں۔
حضرت سعد اور قبر کا جھٹکا (توجیہات)
اس پر اشکالات تھے کہ صحابہ کرام کے کتنے واقعات ہیں کہ جن کو قبر کی تکلیف ہوئی ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ قبر میں گئے تو قبر نے ان کو دبایا ، پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے اور ان کے لیے دعائیں مانگیں تو ان کی قبر کھل گئی۔ تکلیف تو ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم یہ کیسے مان لیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو عذاب نہیں ہوتا۔ اس سوال کے جوابات آپ کے ذہن میں ہوں گے۔ میں نے ایک جواب یہ عرض کیا تھا کہ عذاب کہتے ہیں:
”اِیْلَامُ الْحَیِّ عَلٰی سَبِیْلِ الْھُوَانِ“
کو کہ زندہ کو تکلیف دینا ذلت کے لیے، اور جب ذلیل کرنا مقصود نہ ہو تو اس کو عذاب کہتے ہی نہیں۔ باقی جو صورتِ عذاب ہے تو یہ کیوں ہوئی؟ اس کا میں نے جواب یہ دیا تھا کہ یہ جو صحابہ کرام کے بارے میں ہے کہ ان کو عذاب نہیں ہو گا تو اس سے مراد برزخ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد جہنم ہے اور کوئی صحابی جہنم میں داخل ہو گا اس کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔
اور قبر کے جھٹکے اس کے خلاف نہیں ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں صحابہ کو عذاب نہیں ہو گا تو اس سے مراد جہنم کا عذاب ہے اور یہ جو قبر ہے یہ جہنم نہیں ہے، اس میں عرض ِنار ہوتا ہے دخولِ نار نہیں ہوتا۔
ایک جواب شاید آپ کو یاد ہو گا یہ تھا کہ یہ جو موت سے لے کر حشر تک کی زندگی ہے اس کی حیثیت کیا ہے؟ یہ دنیا کا تتمہ ہے اور آخرت کا مقدمہ ہے۔ یہ نہ تو پوری آخرت ہے اور نہ ہی پوری دنیا ہے، من وجہٍ یہ دنیا ہے اور من وجہٍ یہ آخرت ہے اور مؤمن کو دنیا میں تکلیف کا آ جانا یہ ایمان کے خلاف نہیں ہے تو چونکہ من وجہٍ یہ دنیا ہے اس لیے اس میں تکلیف کاآ جانا ایمان کے خلاف نہیں ہے۔
﴿الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَۃٍ تُجۡزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی ﴿ۚ۲۰﴾﴾
متقی وہ شخص ہے جو اپنا مال خدا کی راہ میں دیتا ہے تاکہ اس کا مال پاکیزہ ہو جائے۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں کہ جس کا وہ بدلہ اتار رہا ہو بلکہ یہ شخص صرف اپنے رب کی رضا کے لیے مال خرچ کرتا ہے جس کی اونچی شان ہے۔
﴿وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی ﴿٪۲۱﴾﴾
عنقریب یہ شخص راضی ہو جائے گا۔ اللہ اس کو راضی کر دیں گے۔ روایات میں آتاہے کہ اس سے مراد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ آیات ان کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ مکہ مکرمہ میں سات ایسے غلام صحابہ کرام جن کو کفار تکلیفیں دیتے تھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مال خرچ کر کے ان کو آزاد کروا دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد کہتے ہیں: تم کمزور آدمی کو آزاد کرتے ہو کسی طاقت ور کو خرید کر آزاد کرو جو تمہارے مشکل وقت میں کام آئے گا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنی ذات کے لیے آزاد نہیں کرتا صرف اللہ کی رضا کے لیے آزاد کرتا ہوں۔
اللہ ہم سب کو اپنی آخرت اور رضا کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․