سورۃ الم نشرح

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الم نشرح
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ ۙ﴿۱﴾ وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ﴿۲﴾﴾
اس سورت مبارکہ میں اللہ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمتوں کا اظہار فرما رہے ہیں۔ سورۃ الضحیٰ سے لے کر آخر تک جو سورتیں ہیں- تقریباً بائیس ہیں- ان تمام سورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا ذکر ہے، درمیان میں کچھ قیامت کا ذکر بھی ہے لیکن اصل ذکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا ہے۔ جب قرآن مجید شروع ہوا تو:
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ﴾
وہاں قرآن کی عظمت بیان کی اور جہاں قرآن ختم ہوا ہے تو وہاں صاحبِ قرآن کا ذکر کیا ہے۔ قرآن کا آغاز ہوا تو وہاں قرآن کی عظمت کا بیان تھا اور جہاں قرآن ختم ہو رہا ہے تو وہاں صاحبِ قرآ ن کی عظمت کا بیان ہے۔ فرمایا:
شرحِ صدر کا معنی:
﴿اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ ۙ﴿۱﴾﴾
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟!
اس کے دومعنی ہیں:
نمبر 1: جو شقِ صدر ہوا تھا ؛ باضابطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کیا گیا، قلب مبارک کو باہر نکالا گیا اور زمزم کے پانی سے دھو کر علوم ومعرفت سے اس کو بھر دیا گیا۔
نمبر 2: ہم نے آپ کو علوم کی وسعت عطا کی ہے اور مخالفین کی مخالفت کو برداشت کرنے کا تحمل دیا ہے۔ ہم نے آپ کا سینہ بڑا کر دیا ہے۔
”آپ کا بوجھ اتار دیا“ کا معنی:
﴿وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ۝ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ۝﴾
ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتا ردیا ہے وہ بوجھ جس نے آپ کی پشت کو جھکا کے رکھ دیا تھا۔
اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے تھے اور بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا کام فرما لیتے کہ آپ سمجھتے کہ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا تو اس پر آپ کو بہت زیادہ افسوس ہوتا، اتنا افسوس ہوتا کہ گویا مجھ سے خطا ہوگئی ہے۔ اللہ رب العزت نے تسلی دی ہے کہ نہ ان باتوں کا آپ سے مواخذہ ہے اور نہ ان پر آپ کی پکڑ ہے۔ آپ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ آپ میں جب حساسیت پیدا ہو گی یہ آیت پھر سمجھ آئے گی کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے! بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ کہتا ہے کہ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا، یار میں نے کر لیا! حالانکہ آدمی اپنے ذوق سے اس کو ٹھیک سمجھ رہا ہوتا ہے اور پھر اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔
دوسرا اس کا معنی یہ ہے کہ آپ چونکہ پورے عالَم کے نبی تھے اور یہ ایسا بڑا بوجھ تھا کہ جب آپ سوچتے تو کانپ جاتے حتی کہ جوانی میں بڑھاپے کے آثار نظر آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس چیز نے بوڑھا کیا؟ فرمایا کہ سورت ھود نے۔ سورت ھود کی کون سی آیت؟ فرمایا:
” فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ“
تفسیر الدر المنثور: ج3ص576 تفسیر سورۃ ھود
اب اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوچتے کہ میں پوری دنیا کا نبی ہوں، پوری دنیا کو سنبھالنا ہے، پوری دنیا کو دعوت دینی ہے اور تنہا مکہ میں ہوں، ساتھ گھر کے بندے بھی نہیں ہیں، خاندان کے بھی نہیں ہیں، جان کے دشمن ہیں تو پوری دنیا میں کیسے پہنچوں گا، فرمایا:
﴿وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ ۙ﴿۳﴾﴾
ہم نے آپ کو اتنا بڑا دل دیا ہے کہ آپ کے لیے تحمل آسان ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ جس بوجھ نے آپ کی کمر کو توڑ دینا تھا ہم نے اس بوجھ سے بھی آپ کو بچا لیا۔ آپ کا دل اتنا بڑا ہو گیا کہ مشکل آپ کو مشکل محسوس نہیں ہوتی۔
ایکسیڈنٹ کا واقعہ:
جب دل بہت بڑا ہوتا ہے تو پھر مشکلیں مشکل محسوس نہیں ہوتیں، بندہ مشکلات میں بھی ہنس رہا ہوتا ہے، کھیل رہا ہوتا ہے جیسے آپ کہتے ہیں کہ انجوائے کر رہا ہوتا ہے۔ میرے ساتھ ایک تو ایکسیڈنٹ؛ حادثے بہت ہوئے ہیں، آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ ایک بار یہ ہماری سڑک بن رہی تھی اور میں خود گاڑی چلا رہا تھا۔ مولانا شمس الرحمٰن صاحب ہمارے کراچی کے امیر ہیں، ان کا نکاح تھا لاہور میں، مجھے کہا کہ استاد جی میری بڑی خواہش ہے کہ نکاح آپ پڑھائیں! میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
میں خود سرف گاڑی لے گیا، ساتھ لڑکا بیٹھا ہوا تھا، مجھے بخار بھی تھا اور گاڑی بھی چلا رہا تھا۔ واپسی پر مغرب کے بعد سخت بارش ہوئی اور اندھیرا بھی تھا۔ گاڑی کی لائٹوں میں بھی دیکھنا مشکل تھا۔ تو پیچھے ایک پُل ہے ”پُل مانگنی“وہاں سے میں آیا تو جیسے ہی میں نے کراس کیا تو میں نے پوچھا کہ کون سی جگہ ہے؟ لڑکا کہتا ہے کہ استاد جی! یہ 84 چک ہے - یہ ہمارے 87 کے ساتھ والا- ہم قریب آ گئے ہیں۔ تو میں نے سمجھا کہ دسواں میل [چک 87 کے بالکل قریب ایک پُل کا نام] ہو گا، اسی طرح کا پل تھا۔ آگے روڈ ٹوٹا ہوا تھا، جب میں نے اس طرف گاڑی موڑی اور سیدھی لانے لگا تو تقریباً دو فٹ کی گہرائی کھودی ہوئی تھی، اسی سپیڈ سے گاڑی سیدھی اندر گئی، گاڑی بڑی تھی پھر ایسے اوپر اٹھی پھر نیچے گری، گاڑی الٹی ہو گئی، اب ظاہر ہے کہ پٹرول گرنا بھی شروع ہو گیا اور بارش بھی ہو رہی تھی، شیشہ ٹوٹا تو میں وہاں سے باہر نکلا، لوگ دوڑے کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہو گا۔ باہرنکلا تو میں ہنس رہا تھا۔
اب ان لوگوں کو دیکھ کر تعجب ہو رہا تھا کہ یار ہم آئے کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہو گا اور یہ ہنس رہا ہے! میں نے کہا کہ بس گاڑی بند کرو، بارش ہو رہی تھی اس لیے بارش سے آگ نہیں لگی۔ اس کے بعد میں نے فون کیا اور رینٹ کی گاڑی منگوائی۔ میں نے کہا کہ میں مرکز جاتا ہوں، گاڑی صبح لے آنا۔ مرکز گاڑی لے آئے۔ میں نے پٹیاں لگائیں، کپڑے سیٹ کیے اور ٹھیک تھا۔ میں طلبہ میں آ گیا، میں نے کہا جب اللہ نے بچا لیا تو اب کیا رونا دھونا!
ہم نے آپ کا نام بلند کر دیا:
﴿وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ﴿۴﴾﴾
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا نام بلند کر دیا ہے۔
جہاں اللہ کا نام ہو گا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی ہو گا۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
إِذَا ذُكِرْتُ ذُكِرْتَ مَعِيْ.
صحیح ابن حبان : ص944 کتاب الزکاۃ باب فی ذکر نعم المنعم رقم الحدیث 3382
میرے ساتھ آپ کا بھی تذکرہ کیا جائے گا، ہمیشہ آپ کا نام لیا جائے گا۔
ایک تکلیف اور دو راحتیں:
﴿فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾ اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾﴾
میرے پیغمبر! اگر آپ پر مشکلات ہیں تو مشکلات کے بعد آسانیاں بھی ہیں، ہم مشکل دیں گے تو مشکل کے بعد آسانی بھی دیں گے۔
یہ آپ نے پڑھا ہو گا
”الْعُسْرِ“
پر ا لف لام تعریف کا ہے جس سے عسر کا لفظ معرفہ بنا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ معرف باللام کا اگر تکرار ہو تو اس دوسرے لفظ سے مراد ایک چیز یعنی وہی پہلے والی چیز ہوتی ہے اور اگر نکرہ کا تکرار ہو تو اس سے مراد دو چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ یہاں
﴿فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾ اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾﴾
میں
”الْعُسْرِ“
معرفہ ہے اور تکرار کے ساتھ ہے اور
”یُسْرًا“
نکرہ ہے اور یہ بھی تکرار کے ساتھ آیا ہے، اس کا معنی کہ ایک ”عُسْر“ پر اللہ دو ”یُسْر“ دیں گے، ایک تنگی پر اللہ دو آسانیاں دیں گے۔ آپ نے نور الانوار میں یہ شعر پڑھا ہو گا:
اِذَا اشْتَدْتَّ بِکَ الْبَلْویٰ

فَفَکِّرْ فِیْ اَلَمْ نَشْرَحْ

فَعُسْرٌ بَیْنَ یُسْرَیْنِ اِذَا

فَکَّرْتَہٗ فَافْرَحْ

نورالانوار:ص90
کہ جب پریشانیاں اور مصیبتیں تمہیں گھیر لیں تو سورۃ الم نشرح میں غور کیا کرو! اس میں دو یسر کے درمیان ایک عسر ہے، کیا مطلب کہ ایک مصیبت پر اللہ دو خوشیاں دیتے ہیں، جب اس کو پڑھو گے، اس میں غور کرو گے تو خوش ہو جاؤ گے!
لیکن یہ بات سمجھ لیں کہ یہاں
”الْعُسْرِ“
سے مراد عام عسر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسر ہےکہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف ہے اللہ ہر تکلیف پر کم ازکم دو آسانیاں دیں گے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی ہے کہ مشکلات ختم ہو جائیں گی اور آسانیاں شروع ہو جائیں گی۔ اگر کسی بندے کو مشکلات کے بعد راحت نہ ملے، مشکلات ہی ملیں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس آیت کے خلاف ہے کیونکہ یہ ہر فرد کے لیے نہیں ہے بلکہ خالصتاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اللہ اپنے کرم سے ایسا ہی کرتے ہیں کہ جب کوئی تکلیف آئے اور بندہ ڈٹ جائے اور برداشت کرے تو اللہ اس کے بعد آسانیاں پیدا فرما دیتے ہیں لیکن اصلاً یہ وعدہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔
رجوع الی اللہ؛ کام بڑھانے کا ذریعہ
﴿فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ ۙ﴿۷﴾ وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ ٪﴿۸﴾﴾
جب آپ عبادات سے فارغ ہو جائیں -ایسی عبادات جسے تبلیغ کہتے ہیں- پھر آپ ذاتی عبادات میں مشعول ہو جائیں، اور اپنے اللہ کی طرف متوجہ رہیں۔
عبادات دو قسم کی ہیں؛ بعض وہ ہیں کہ جن سے اجر تو ملتا ہے لیکن مقصود اس سے دوسروں کو نفع پہنچانا ہوتا ہے اور بعض عبادات وہ ہیں کہ جن سے مقصود اپنے آپ کو نفع پہنچانا ہوتا ہے۔ مثلاً میں ابھی آپ کو سبق پڑھا رہا ہوں، آپ کا مقصد بھی اجر ہے اور میرا مقصد بھی اجر ہے تو سب کا مقصود ثواب ہی ہےلیکن سبق پڑھانے سے آپ کو سمجھانا مقصود ہے خود سمجھنا مقصود نہیں ہے۔ ایک شخص مصلیٰ پر امام بنتا ہے اس کا مقصد اپنی نماز نہیں بلکہ دوسروں کو جماعت کرانا ہوتا ہے، قاری صاحب درسگاہ میں بیٹھتے ہیں تو ان کا مقصد قرآن کو خود پڑھنا نہیں بلکہ بچوں کو پڑھانا ہوتا ہے۔
تو بعض عبادات وہ ہیں کہ جن سے مقصود دوسروں کونفع ہوتا ہے اور فرض سے پہلے جو ہم سنتیں پڑھتے ہیں تو ان سے مقصود اپنی ذات ہوتی ہے، جب رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں تو اس کا نفع اپنی ذات کو دینا مقصود ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت اپنے پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہے ہیں کہ جب آپ ان عبادات سے فارغ ہو جائیں جن کا مقصد امت کو نفع دینا ہے تو اب اُن عبادات میں مشعول ہو جائیں جن کا مقصد اپنی ذات کونفع دینا ہے، جب دعوت اور تبلیغ سے آپ فارغ ہو جائیں تو پھر ذکر کریں، پھر نوافل پڑھیں، پھر تلاوت کریں، پھر غور وفکر کریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح یہ حکم پیغمبر کو ہوتا ہے یہی حکم پیغمبر کے وارث کو بھی ہے۔ علماء کو چاہیے کہ کچھ وقت ایسا نکالیں کہ جو خالص اپنی ذات کے لیے ہو، اس میں ذکر کا اہتمام کریں، تلاوت کا اہتمام کریں، تہجد کا اہتمام کریں خالص اپنی ذات کے لیے۔ میں اسی لیے روتا ہوں کہ علماء کو ذکر دوسروں سے زیادہ کرنا ضروری ہے، علماء کے لیے تہجد دوسروں سے زیادہ ضروری ہے۔
عبادات کی دو قسمیں:
قرآن کریم میں اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ عبادات جن سے دوسروں کو نفع پہنچانا مقصود ہوتا ہے ان کے ساتھ ہے ”فَرَغْتَ“ کہ جب آپ ان سے فارغ ہو جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ عبادات جن کا مقصد اپنی ذات کو نفع پہنچانا ہے ان سے بندہ کبھی فارغ نہیں ہوتا اور جن سے مقصد دوسروں کو نفع پہنچانا ہوتا ہےان سے بندہ فارغ ہو جاتا ہے۔ سبق پڑھانے کا تو خاص وقت ہو گا، تقریر کا خاص وقت ہو گا اور تصنیف کا خاص وقت ہو گا لیکن اپنی ذات کے لیے اللہ اللہ کرنے کے لیے کوئی خاص وقت نہیں ہوگا! اس لیے کوشش کر کے ہمیں اس میں مشغول رہناچاہیے۔
خود کو تھکا دیں!
اور پھر لفظ
”فَانْصَبْ“
یہ نصب سے ہے،
”فَانْصَبْ“
کا معنی ہے ایسے مشغول ہوں کہ آپ تھکاوٹ محسوس کریں۔ اتنا ذکر نہیں جس پر طبیعت خوش ہو بلکہ اتنا ذکر کریں کہ تھکاوٹ محسوس ہو، اتنے نوافل نہیں جن سے ہشاش بشاش ہوں بلکہ اتنے نوافل پڑھیں جن سے جسم کو تھکاوٹ محسوس ہو۔
اب ہم خود اندازہ کریں کہ ہم کتنا ذکر کرتے ہیں؟ ہم تلاوت کتنی کرتے ہیں؟ ہم تہجد کتنی پڑھتے ہیں؟ اس لیے ہم تمام یہ نیت کریں کہ موت تک تہجد نہیں چھوڑیں گے․․․ اوابین، اشراق نہیں چھوڑیں گے، تلاوت کریں گے؛ یہ مزاج بنا لیں۔ ہمارے جتنے مشائخ ہیں ہم سب کی قدر کرتےہیں اور بہت عزت کی نگاہ سے ان کے فرمودات کو دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن ہر کسی کا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ میرا اپنا ذوق یہ ہے کہ مسنون اعمال کااہتمام کروں، بس مسنون اعمال پر زور دوں۔
مصیبت کے وقت کی دعا:
مجھ سے اکثر ساتھی پوچھتے ہیں کہ ہم مصیبت میں کیا پڑھیں؟ میں کہتا ہوں کہ
”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی پڑھتے تھے اس لیے آپ بھی یہی پڑھیں۔ اسی طرح اگر کوئی تکلیف ہو گئی ہو تو یہ پڑھیں:
بِسْمِ اللّهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ․
سنن ابن ماجۃ، رقم: 3869
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھتے تھے۔ آپ بھی یہ پڑھیں۔ جو مسنون چیزیں ہیں ان کا اہتمام کریں۔ مجھے لوگ کہتے ہیں جی! ہمارے لیے دعاکرو۔ میں کہتا ہوں کہ فرض نماز کے بعد آپ خود اپنے لیے دعا کیا کرو، جب فرض نماز کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے تو بس اسی کا اہتمام کرو، اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ جی! میرا مسئلہ ہے اس کے لیے آپ استخارہ کریں۔ میں کہتا ہوں کہ بھائی! کام آپ کاہے اور استخارہ ہم کریں، آپ خود استخارہ کر لیں۔ اور استخارے والے لوگ بھی عجیب تماشے ہیں، اُس لڑکی کی تصویر بھی دیں گے کہ اس کو ذرا دیکھ لو اس سے میں نے شادی کرنی ہے! -اللہ حفاظت فرمائے- بس ان خرافات سے بچو! یقین کرو کہ اس سے کچھ بھی نہیں ہوتا، وقتی خواہشات پوری ہوتی ہیں․․ وقتی شہوتیں پوری ہوتی ہیں․․ وقتی طور پر دو چار روپے مل جاتے ہیں اور انجام اس کا ذلت ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․