سورۃ التکاثر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ التکاثر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾﴾
مال پر فخر کا انجام:
کافر اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہمارے پاس مال بہت ہے، ہمارے پاس دولت بہت ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: تم کو فخر کرنے نے غافل کر کے رکھ دیا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ جاتے ہو!
یہاں
”التَّکَاثُرُ“
سے مراد کثرت نہیں ہے بلکہ کثر ت پر فخر کرنا ہے۔
﴿کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾﴾
یہ جو تم مال کو قابلِ فخر سمجھتے ہو اور آخرت کو قابلِ غفلت سمجھتے ہو تو فرمایا:
﴿کَلَّا ﴾
ایسا ہرگز نہیں ہے یعنی مال قابلِ فخر چیز نہیں ہے،
﴿سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴾
جب تم مرو گے تو عنقریب تمہیں سمجھ آئے گی کہ دولت قابل فخر نہیں ہے،
﴿ثُمَّ کَلَّا﴾
پھر سنو! یہ جو تمہاری سوچ ہے کہ دولت قابلِ فخر چیز ہے تمہاری یہ بات ٹھیک نہیں ہے،
﴿سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴾
جب تم موت کے بعد دوبارہ اٹھو گے پھر تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ یہ مال قابلِ فخر چیز نہیں ہے۔ تو پہلے
﴿سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴾
سے مراد مرتے وقت پتا چلنا ہے اور دوسرے
﴿سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴾
سے مراد مر کر دوبارہ اٹھتے وقت پتا چلنا ہے۔ اب تکرار نہیں ہو گا کلام میں۔
﴿کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾﴾
اگر تمہارا خیال ہے کہ تم جو مال جمع کرتے ہو، کماتے ہو ؛ اس کا کوئی حساب نہیں ہو گا تو تمہاری یہ رائے بالکل غلط ہے۔ اگر تم دیکھ لو اور تمہیں یقینی علم آ جائے تو تم ایسی باتیں کبھی نہ کرو، پھر تمہیں یہ چیزیں غفلت میں نہیں ڈالیں گی۔
﴿لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾﴾
تم یقیناً جہنم کو دیکھو گے، پھر یقیناً تم اسے اپنی یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔
﴿ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ٪﴿۸﴾﴾
پھر قیامت کے دن تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
سورۃ التکاثر کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی تلاوت کرنے پر ایک ہزار آیتیں پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔
یقین کے تین درجات:
یقین کے تین درجے ہوتے ہیں؛ ایک ہوتا ہے علم الیقین، ایک ہوتا ہے عین الیقین اور ایک ہوتا ہے حق الیقین۔
(1): علم الیقین کا معنی ہے کہ کوئی بتائے اور ہم مان لیں۔
(2): عین الیقین کا معنی ہے کہ دیکھیں اور مان لیں ۔
(3): حق الیقین کامعنی ہے کہ تجربہ کریں اور مان لیں۔
سب سے اوپر کا مقام حق الیقین ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے دو کا تو تذکرہ کیا لیکن حق الیقین کا نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کوعین الیقین ہو گا تو ان کو حق الیقین بھی ہو گا۔ تو یہاں جو فرمایا
﴿لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ﴾
کہ تم نے جہنم کو دیکھنا ہے تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے جہنم میں داخل ہونا ہے، کیونکہ جہنم کو مؤمن بھی دیکھے گا اور کافر بھی دیکھے گا لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل صرف کافر ہو گا۔ جب وہاں جائے گا تو اسے حق الیقین بھی حاصل ہو جائے گا۔ اس لیے یہاں پر حق الیقین کا ذکر نہیں ہے، ورنہ یقین کے تین درجے ہوتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․