سورۃ الفلق؛ سورۃ الناس

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
سورۃ الفلق
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾ مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ ۙ﴿۲﴾ وَ مِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۙ﴿۳﴾ وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ ۙ﴿۴﴾ وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٪﴿۵﴾﴾
سورۃ الناس
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲﴾ اِلٰہِ النَّاسِ ۙ﴿۳﴾ مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾﴾
معوذتین کا شان نزول:
یہ دونوں سورتیں اکٹھی نازل ہوئی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مدینہ کے یہودی لبید بن اعصم نے اپنی بیٹیوں کے ذریعے جادو کروایا۔ جادو کا اثر یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک کام فرما لیتے اور آپ کے ذہن میں ہوتا کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ بس اتنا سا اس جادو کا اثر ہوا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے تو خواب میں دو فرشتے آئے۔ ایک فرشتہ آپ کے سر کی جانب اور ایک فرشتہ آپ کے پاؤں کی جانب بیٹھ گیا۔ سرہانے والے فرشتے نے دوسرے فرشتے سے پوچھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا ہے۔ پوچھا: کس نے کرایا ہے؟ کہا: لبید بن اعصم یہودی نے۔ کس چیز پر کرایا ہے؟اس نے تفصیل بتائی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس کنگھی مبارک سے بال سنوارتے تھے اس کنگھی کے کچھ دندانے لیے ہیں اور ایک رسی لی ہے، اس رسی میں گیارہ گرہیں لگائی ہیں اور ہر گرہ میں ایک سوئی لگائی ہے، پھر اس کو کھجور کے پھل کے غلاف میں رکھ کر ایک کنواں -جسے بئر ذروان کہتے ہیں- اس میں ایک پتھر کے نیچے اس کو رکھ دیا گیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خواب سے بیدار ہوئے تو آپ سیدھا اس کنویں پر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پتھر کو ہٹوایا تو نیچے یہ سب کچھ رکھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ آپ ایک آیت پڑھتے اور ایک گرہ کھولتے، آپ کو یوں محسوس ہوتا کہ جیسےمیرے جسم سے بوجھ اتر رہا ہے، گیارہ آیتیں پڑھ لیں تو گیارہ گرہیں کھل گئیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کا نام نہیں بتایا کہ کہیں اس کو قتل نہ کر دیا جائے، فرمایا کہ اللہ نے مجھے تو صحت دے دی ہے، اب میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف ہو، اور بعض روایات میں ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پتا چلا تو انہوں نے اجازت چاہی اس کو قتل کر دیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی ذات کے لیے انتقام کو پسند نہیں کرتا۔ آپ نے منع فرما دیا۔
ہمیں بھی صبح وشام ان دونوں سورتوں کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان سورتوں کو پڑھتے تھے، اپنے مبارک ہاتھوں پر پھونک مارتے پھر ان کو پورے جسم پر مل لیتے تھے۔ آخری عمر میں حضرت ام المؤمنین امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ دونوں سورتیں پڑھتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں پر پھونک دیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ جسم پر مل لیا کرتے تھے۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے ہاتھوں پر دم کر کے اپنے ہاتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لیے نہیں پھیرتی تھی کہ جو برکت آپ کے ہاتھوں میں ہے وہ میرے ہاتھوں میں کہاں ہو سکتی ہے؟!
جادو کا ہو جانا برحق ہے:
یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ جادو کا ہوجانا برحق ہے۔ برحق ہونے کا معنی یہ نہیں کہ جادو ٹھیک ہے بلکہ برحق ہونے کا معنی یہ ہےکہ جادو ثابت ہے، جادو کیا جائے تو ہو جاتا ہے اور یہ کوئی قابلِ اشکال چیز نہیں ہے۔ جس طرح زہر کھانے کی وجہ سے بندہ مر جاتا ہے تو زہر کا ایک اثر ہے، نمک کھائیں تو نمک کا اثر ہے، مرچ کھائیں تو مرچ کا اپنا اثر ہے، پانی کا اپنا اثر ہے، ہر چیز کا اپنا ایک اثر ہے۔ اسی طرح کلمات میں اللہ نے تاثیر رکھی ہے اور وہ کلمہ اپنی تاثیر دکھاتا ہے، نبی پر بھی اثر ہوتا ہے اور غیر نبی پر بھی ہوتا ہے۔
جادوگر کامیاب نہیں ہوتا کا مطلب:
جو لوگ نبی پر جادو ہونے کے قائل نہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لَا یُفۡلِحُ السّٰحِرُوۡنَ ﴿۷۷﴾﴾
یونس10: 77
کہ جادو گر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مان لیں کہ نبی پر جادو ہوا ہے تو اس کا معنی ہے کہ جادو گر تو کامیاب ہو گئے۔
ہم کہتے ہیں کہ آیت نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ ذہن بنا ہے۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھیں کہ ایک ہوتا ہے جادو گر کا جادو چل جانا اور ایک ہوتا ہے جادو گر کا اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانا۔ جادو چلنا اور ہے اور مقصد میں کامیاب ہونا اور ہے۔ مثلاً کچھ لوگ کسی شخص پر قاتلانہ حملہ کرتے ہیں تاکہ اس کو مار دیں اور حملہ ہو بھی جاتا ہے لیکن بندہ بچ جاتا ہے۔ اب یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حملہ ہوا ہی نہیں، ہاں حملہ ہوا ہے لیکن قاتل اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آپ نبوت کے کام کو چھوڑ دیں، دعوت نہ دیں، تبلیغ نہ کریں لیکن اس جادو کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کی دعوت دیتے رہے۔ تو جادو گر کا جو مقصد تھا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا ہی نہیں۔
دیکھو! حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدِ مقابل ستر ہزار جادوگر آئے تھے، انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکیں تو وہ سانپ بنتی ہوئی نظر بھی آئیں اور اس کا اثریہ ہوا کہ
﴿فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿۶۷﴾﴾
طٰہٰ20: 67
موسیٰ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا۔ جادو تو ہوا اور اس کا اثر بھی ہوا۔ اب ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ جائیں لیکن وہ غالب نہیں آسکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان جادو گروں نے جادو کیا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ تو جادو کرنا اور ہے اور جادو میں کامیاب ہو جانا اور ہے۔ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس لیے جس طرح عام آدمی پر جادو ہو جاتا ہے تو نبی پربھی ہو جاتا ہے۔
جادو سے بچنے کا وظیفہ:
جادو سے بچنے کے لیے سور ت یونس کی آیت نمبر 80 اور آیت نمبر 81 صبح و شام پڑھ لیا کریں :
﴿فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَۃُ قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰۤی اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ ﴿۸۰﴾ فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا قَالَ مُوۡسٰی مَا جِئۡتُمۡ بِہِ ۙ السِّحۡرُ ؕ اِنَّ اللہَ سَیُبۡطِلُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُصۡلِحُ عَمَلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾﴾
اسی طرح یہ دعا
”بِسْمِ اللّهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ“
سنن ابن ماجۃ، رقم: 3869
بھی صبح وشام تین تین بار پڑھ لیا کریں اور معوذتین بھی صبح وشام پڑھ لیا کریں۔ یہ مسنون اعمال ہیں۔ ان کی برکت سے انسان جادو سے محفوظ رہتا ہے۔
ان دونوں سورتوں میں اللہ رب العزت نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ہمیں تعلیم دی ہے کہ شر دو قسم کے ہیں جن سے تمہیں بچنا چاہیے۔ ایک شر وہ ہے جس کا اثر دنیا میں ہے اور ایک شر وہ ہے جس کا اثر آخرت میں ہے۔
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾ مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ ۙ﴿۲﴾﴾
میں پناہ مانگتا ہو ں صبح کے رب کی مخلوقات کے شر سے۔
اس شر کا نقصان انسان کی دنیا پر ہوتا ہے۔
﴿وَ مِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۙ﴿۳﴾﴾
اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔
اب رات کے اندھیرے میں اگر کسی پر حملہ ہو جائےاور بندہ قتل ہو جائے تو یہ دنیا کا نقصان ہو گا، کوئی حملہ کرے اور بندہ زخمی ہو جائے تو دنیا کا نقصان ہو گا۔
﴿وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ ۙ﴿۴﴾ وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٪﴿۵﴾﴾
اور گرہوں پر پھونک مارنے والیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے۔
دشمن اگر جادو کرے اور کامیاب بھی ہو جائے تو دنیا کا نقصان ہو گا، حاسد اگر کسی سے حسد کرے تو بھی دنیا کا نقصان ہو گا۔تو پہلی سورت سورۃ الفلق میں اس شر کا ذکر ہے جس کا تعلق دنیاوی نقصان سے ہے اور سورۃ الناس میں اس شر کا ذکر ہے جس کا تعلق اخروی نقصان سے ہے۔ چونکہ دنیا کا نقصان پہلے ہے اس لیے اس کا ذکر پہلے فرمایا اور اخروی نقصان بعد میں ہے اس لیے اس کا ذکر بعد میں فرمایا ہے۔
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾ مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ ۙ﴿۲﴾﴾
یہاں
”مَا خَلَقَ“
یعنی تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد رات کے شر سے، گرہوں پر پھونکنے والی جادوگرنیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ تو اصل تو مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم ہے باقی مزید تین چیزوں کے شر کا ذکر کیوں فرمایا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی اپنے بیٹے کو سرگودھا سے کراچی کے لیے ٹرین پر بٹھائے اور کہے کہ بیٹا! راستے میں اپنا بہت خیال رکھنا، خاص طور پر ا پنے موبائل سے کسی کو فون نہ کرنے دینا، خاص طور پر کسی کا کھانا نہ کھانا، خاص طور پر کسی آدمی کا سامان اپنے پاس نہ رکھنا۔ تو اصل تھا کہ اپنا خیال رکھنا، اس کے بعد بعض وہ خاص خاص چیزیں جن کا خیال کرنا چاہیے ان کی نشاندہی بھی کر دی۔
بالکل اسی طرح اصل تو تمام مخلوقات کے شر سے اللہ کی پناہ میں آنا ہے، ہاں خاص طور پر اس شر سے جو رات میں ہوتا ہے کیونکہ دن والے شر تو نظر آتے ہیں جبکہ رات والے نظر نہیں آتے،اور خاص طور پر اس شر سے جو جادو کا ہوتا ہے کیونکہ کوئی آدمی گولی مارے تو نظر آتی ہے اور جادو کرے تو کلمات نظر نہیں آتے، اسی طرح خاص طور پر حاسد کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ حاسد کا شر مخفی ہوتا ہے، حاسد ساتھ بھی رہتا ہے، اوپر اوپر سے محبت کا دعویٰ بھی کرتا ہے لیکن اندر اندر سے جل رہا ہوتا ہے۔ تو اسے تخصیص بعد التعمیم کہتے ہیں کہ پہلے عام بات کہہ دی جائے اور بعد میں بعض خاص باتیں کہی جائیں۔
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ﴾
یہاں دیکھیں! اللہ کی صفت بیان فرمائی ہے
” بِرَبِّ الۡفَلَقِ“
کہ جو صبح کا رب ہے اور آگے جس سے پناہ مانگی ہے اس کا چار بار تذکرہ کیا، اور اگلی سورت میں آیا ہے :
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲﴾ اِلٰہِ النَّاسِ ۙ﴿۳﴾﴾
یہاں اللہ کی تین صفتیں بیان فرمائی ہیں ؛ رب، ملِک اور الٰہ، اور جس سے پناہ مانگی ہے اس کا ایک بار ذکر کیا یعنی
﴿مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾﴾
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شر بہت خطرناک ہے۔ دنیا کا شر مضرت میں کم ہوتا ہے اور آخرت کا شر مضرت میں بڑا ہوتا ہے۔ ا س لیے اللہ کی تین صفتیں بیان کر کے اِس ایک شر سے پناہ مانگی ہے۔
﴿مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾﴾
وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے۔
یہاں فرمایا:
”الۡخَنَّاسِ“ ․․․
یہ خَنْس سے ہے جس کا معنی ہے چھپنا۔ جب انسان اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان جو اپنا منہ انسان کے دل پر رکھ کر بیٹھا ہوتا ہے وہ ذکر اللہ کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب ذکر ختم کرتا ہے تو پھر وہاں پر بیٹھ جاتا ہے، جب پھر ذکر شروع کرے تو پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے، جب ذکر ختم کرے تو پھر واپس آ جاتا ہے۔ اس لیے شیطان کو خناس کہتے ہیں۔
﴿الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾﴾
جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنات میں سے بھی ہےاور انسانوں میں سے بھی ۔
وسوسہ ڈال کر تباہ کرنے والے دونوں قسم کے لوگ ہیں یعنی شیاطین بھی ہیں اور انسان بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کے شرور سے ہم سب کو محفوظ فرمائیں۔ آمین
قرآن کریم کے آغاز واختتام میں ربط:
قرآن کریم کی سب سےپہلی سورت؛ سورۃ الفاتحہ ہے اور قرآن کریم کی سب سے آخری دو سورتیں؛ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہیں۔ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے۔ عام آدمی جو اچھی گفتگو کرنے والا ہو اس کے کلام کے شروع اور کلام کے آخر میں ربط ہوتا ہے، مناسبت ہوتی ہے، ایسا شخص بے ربط کلام کبھی نہیں کرتا۔ اللہ رب العزت سے بہتر کلام کس کا ہو سکتا ہے؟! اس لیے اللہ کے کلام کی ابتدا اور انتہا میں ربط بہت عجیب ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالی نے پہلے اپنی صفتیں بیان فرمائی ہیں:
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾﴾
اس کے بعد بندے نے اللہ سے اپنا تعلق بیان کیاہے :
﴿اِیَّاکَ نَعۡبُدُ﴾
کہ اے اللہ! ہمارا آپ سے تعلق ہے کہ ہم آپ کی عبادت کرتے ہیں۔
اس کے بعد بندے نے پھر دو چیزیں مانگی ہیں:
1: ﴿اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾
2: ﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾
یہ دوچیزیں مانگی ہیں۔ دنیا میں جب بھی کسی سے کوئی چیز مانگی جائے تو پہلے اس کی تعریف کرتے ہیں، پھر اس کا اور اپنا تعلق بتاتے ہیں اور اس کے بعد مانگنا شروع کر تے ہیں۔ سورۃ الفاتحہ میں ہم پہلے اللہ کی تعریف کرتے ہیں، پھر اللہ سے اپنا تعلق بتاتے ہیں، پھر مانگنا شروع کر دیتے ہیں، اور مانگی دو چیزیں ہیں:
1: ﴿اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾
اے اللہ! ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
2: ﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾
اے اللہ! ہم آپ سے صراطِ مستقیم مانگتے ہیں۔
الفاتحہ میں دو چیزیں اللہ سے مانگی ہیں اور قرآن کریم کے آخر میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں بھی دو چیزوں سے پناہ مانگی ہے۔
1: ﴿مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ﴾
2 : ﴿مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِۙ الۡخَنَّاسِ﴾
سورۃ الفاتحہ میں دو چیزیں مانگی ہیں کہ یہ دو ہمیں چاہییں اور سورۃ الفلق او ر سورۃ الناس میں دوچیزوں سے پناہ مانگی ہے کہ یہ دو چیزیں ہمیں نہیں چاہییں!
پورے قرآن کا خلاصہ:
پورے قرآن کریم اور پورے دین کا خلاصہ دو چیزیں ہیں:
نمبر 1
․․․ ﴿وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو!
نمبر 2
․․․ ﴿وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا﴾
اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔
پیغمبر جو چیز دیں اس کا نام ”خیر“ ہے اور جس چیز سے منع کر دیں اس کا نام ”شر“ ہے۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾﴾
جس شخص نے ذرہ برابر بھی خیر اور نیکی کی ہو گی تو اسے اس کا بدلہ ملے گا اور جس نے ذرہ برابر شر یعنی گناہ کیا ہو گا تو اسے اس کا بدلہ ملے گا۔
تو خیر لینی چاہیے اور شر سے بچنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا خلاصہ دو صفتیں ہیں ؛ بشیر اور نذیر۔ صفتِ بشیر کہ جنت کی طرف دعوت دے کر بلانے والا اور صفتِ نذیر کہ وعیدیں سنا کر ڈرانے والا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ موت کے بعد انسان کے ابدی ٹھکانے دو ہی ہیں ؛جنت یا جہنم۔ اس سے پہلے عالمِ ارواح ٹھکانہ تھا لیکن وہ ابدی نہیں تھا، اس کے بعد عالمِ دنیا ہے لیکن یہ بھی ابدی نہیں ہے، اس کے بعد عالمِ برزخ ہے اور یہ بھی ابدی نہیں ہے، عالمِ برزخ کے بعد حشر ہے یہ بھی ابدی نہیں اور حشر کے بعد جو ٹھکانے ہیں جنت یا جہنم وہ ابدی ہیں لیکن وہ دونوں ازلی نہیں ہیں کہ ہمیشہ سے ہوں، ہاں ابدی ہیں کہ ہمیشہ رہیں گے، جنت بھی ہمیشہ رہے گی اور جہنم بھی ہمیشہ رہے گی، نہ جنت ختم ہو گی اور نہ جہنم ختم ہو گی۔
جنت اہلِ خیر کی جگہ ہے اور جہنم اہلِ شر کی جگہ ہے۔ جو صاحبِ خیر ہیں وہ جنت میں رہیں گے اور جو صاحبِ شر ہیں وہ جہنم میں رہیں گے۔ ہاں اگر کسی آدمی کا شر چھوٹا ہے یعنی اس کے پاس ایمان تو ہے لیکن ایمان کے ساتھ ساتھ اعمالِ سیئہ بھی ہیں تو وہ کچھ وقت جہنم میں رہے گا اور بالآخر جہنم سے نکال کر جنت میں بھیج دیا جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اپنے کرم سے اسے جہنم میں نہ بھیجیں بلکہ براہِ راست خیر یعنی ایمان کی وجہ سے جنت میں بھیج دیں۔
موت کے بعد خیر والے جنت میں جائیں گے اور شر والے جہنم میں جائیں گے، اور ہمیں حکم ہے کہ ہم اللہ سے جنت کو مانگیں اور جہنم سے پناہ مانگیں:
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ النَّارِ․․․
”خیر“جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور ”شر“ جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔
تو اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی پہلی سورت سورۃ الفاتحہ میں دوخیریں بتائی ہیں اور آخری دوسورتوں میں دو شر بتائے ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں دوخیر یں بتائیں؛
1: ﴿اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴾
2: ﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾
اور آخری دو سورتوں میں دوشر بتائے؛
1: ﴿مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ﴾
2 : ﴿مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۙالۡخَنَّاسِ﴾
یہ دو خیر اور دو شر کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی نے دنیا میں رہنا ہے تو دنیا میں انسان کو عافیت چاہیے، عزت چاہیے، سہولت چاہیے، امن چاہیے، راحت چاہیے۔ اس لیے فرمایا کہ دنیا میں تم ہم سے ہماری مدد مانگو! اگر اللہ کی مدد انسان کو مل جائے تو اس سے انسان کو عزت ملتی ہے،راحت ملتی ہے،سکون ملتا ہے،سہولت ملتی ہے۔ آدمی اگر شر سے بچ جائےتو دنیا میں راحت سے رہتا ہے، اسی لیے فرمایا:
﴿مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ﴾
کہ مخلوق کے شر سے پناہ مانگو! جس آدمی کو دنیا میں اللہ کی مدد مل گئی تو یہ غالب ہو گا، مخلوق کے شر سے پناہ مل گئی یہ انسان پر امن ہو گا اور عافیت و امن کے ساتھ دین کے کام میں لگا ہو گا اور آخرت کی طرف اس کا سفر جاری رہے گا۔ہم اللہ پاک سے دعا مانگتے ہیں :
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً
ہمیں دنیا بھی اچھی عطا فرما اور آخرت بھی اچھی عطا فرما!
دنیا اچھی ملتی ہے جب اللہ کی مدد مل جائے، دنیا اچھی ہوتی ہے جب انسان مخلوقات کے شر سے بچ جائے اور آخرت اچھی ہوتی ہے جب
﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾
انسان کو صراطِ مستقیم مل جائے، جب
﴿مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِۙ الۡخَنَّاسِ﴾
شیطان کے وساوس سے بچ جائے پھر انسان کی آخرت بھی اچھی ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم کی ابتدا اور انتہا میں کتنی بہترین مناسبت ہے!
بطورِ خاص یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کی خیر کی طرف رہنمائی کریں اور امت کو شر سے بچائیں۔ جو عالم امت کو خیر بتاتا ہے اور امت کو شر سے نہیں بچاتا وہ آدھا کام کرتا ہے اور جو خیر بھی بتاتا ہے اور شر سے بھی بچاتا ہے وہ پورا کام کرتا ہے۔ پیغمبر کی پوری وراثت
﴿وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا﴾
ہے۔ نبوت کی پوری وراثت صرف خیر بتانا نہیں بلکہ نبوت کی پوری وراثت خیر بتانے کے ساتھ ساتھ شر سے بچانا بھی ہے۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا مزاج تھا:
كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِيْ․
صحیح البخاری، رقم: 2606
کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی باتیں پوچھتے تھے اور میں آپ سے شر کی باتیں پوچھتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں اس شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ امت کو خیر کی طرف بلانا ہے اور امت کو شر سے بچانا ہے۔ سورۃ الفاتحہ اور معوذتین کا خلاصہ بھی یہی ہے۔
خیر میں یہ عرض کر رہا تھا کہ قرآن کی ابتدا اور انتہا میں مناسبت بہت پیاری ہے اور ہمیں ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے ا ور ہم اس پر اللہ کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے کہ بحمداللہ تعالیٰ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ اسی راستے پر چل رہا ہے، ہم دونوں کاموں کا اہتمام کرتے ہیں، دونوں چیزیں بتانے کی بھر پور فکر کرتے ہیں اور یہ فکر کرنی بھی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائیں اور اللہ پاک آپ کو بھی توفیق عطا فرمائیں۔
یہ ہمارے دروس القرآن کا آخری سبق تھا جس میں آپ نے شرکت فرمائی ہے۔ دعا کریں کہ آئندہ سال کوئی ایسی ترتیب بن جائے کہ پورے قرآن کریم کا آیت وار ترجمہ کیا جائے۔ اس کا بہت زیادہ فائدہ ہو گا ان شاء اللہ۔
لفظ رب، مالک، الٰہ لانے کا مقصد:
یہاں بس صرف ایک بات سمجھ لیں!
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲﴾ اِلٰہِ النَّاسِ ۙ﴿۳﴾﴾
یہاں بظاہر عربی ترکیب کا تقاضا یہ تھا کہ آگے
”مَلِکِہِمْ“
اور
”اِلٰہِھِمْ“
ضمیریں ہوتیں جو
”النَّاسِ“
کی طرف لوٹتیں۔ تو
النَّاسِ․․․ النَّاسِ․․․ النَّاسِ․․․
کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ رب ا لعزت نے ایسا اسلوب اختیار فرمایا ہے یہ بتانے کے لیے کہ یہاں ہر مرتبہ
”النَّاسِ“
کی مراد الگ ہے، انسانوں کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے
”النَّاسِ“
کا بار بار تذکرہ آیا ہے۔
جب پہلے فرمایا:
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
تو یہاں
”الناس“
سے مراد انسان کی بچپن کی حالت ہے۔ اس پر دلیل لفظِ رب ہے۔ جوانی میں بھی انسان تربیت محتاج ہوتا ہے لیکن بچپن میں بچہ تربیت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے، نہ اٹھ سکتاہے، نہ چل سکتا ہے تو اس کے ظاہری اختیارات بالکل ختم ہوتے ہیں۔
﴿مَلِکِ النَّاسِ﴾
میں
”الناس“
سے انسان کی جوانی کی حالت بیان فرمائی ہے۔ دلیل اس پر لفظ ملک ہے۔ کیونکہ اس حالت میں انسان کو جوانی کا نشہ ہوتا ہے تو اس کے لیے ملک اور حکمران ضروری ہوتا ہے جو ان کی اس حالت میں ان کو کنٹرول کرے اور قوت اور طاقت کے ساتھ راہِ راست پر رکھے۔
﴿اِلٰہِ النَّاسِ﴾
یہاں پر انسان کی بڑھاپے کی حالت مراد ہے۔ دلیل اس پر لفظ الہ ہے۔ چونکہ عبادت کی طرف بندہ بچپن اور جوانی میں بھی مائل ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں سوائے عبادت کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
﴿مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾﴾
یہاں
”النَّاسِ“
سے مراد وہ انسان ہے جس کی حالت اچھی ہو، خیر والی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً شیطان وسوسے وہیں ڈالتا ہے جہاں پر آدمی اچھا ہو، برے آدمی کو مزید وسواس میں مبتلا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
﴿مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾﴾
یہاں
”النَّاسِ“
سے مراد وہ انسان ہے جو شر والا ہو، اس لیے کہ وسوسے ڈالنے والا اچھا آدمی نہیں ہوتا، وسوسے ڈالنے والا آدمی برا ہوتا ہے۔ تو چونکہ انسان کی پانچ حالتوں کا ذکر تھا اس لیے پانچوں مرتبہ ضمیر کے بجائے مستقل اسم ظاہر الناس کا ذکر فرما دیا ہے۔
قرآن کریم کے اختتام پر یہ ذہن نشین فرما لیں کہ اصل علم قرآن کریم اور حدیث مبارک کا علم ہے، یہ بنیادی علوم ہیں، آگے علم الفقہ یہ قرآن کریم اور حدیث پاک کا خلاصہ، نچوڑ اور مغزہے۔ سب سے زیادہ محنت قرآن کریم اور حدیث پاک پر کرنی چاہیے۔ قرآن کریم کو پڑھنا چاہیے، قرآن کریم کو سمجھنا چاہیے، قرآن کریم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جس کا قرآن کریم سے رابطہ اور تعلق بہت مضبوط ہو۔ اس لیے جس قد ر تعلق مضبوط کر سکیں تو کریں اور قرآن کریم کو سب سے زیادہ تہجد میں پڑھنا چاہیے۔ تہجد کا وقت بہت بہترین وقت ہوتا ہے قرآن کریم پڑھنے کے لیے۔ فجرکی نماز میں تلاوت عام نمازوں کی بنسبت زیادہ ہوتی ہے تو یہ بطورِ خاص قرآن کریم کی تلاوت کا وقت ہے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ