حضرت تھانوی قائد اعظم کی نگاہ میں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حضرت تھانوی قائد اعظم کی نگاہ میں
قائد اعظم کے دل میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی بہت قدر و منزلت تھی، جس پر کئی تاریخی واقعات موجود ہیں۔
1: قائداعظم فرماتے ہیں: ”مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں تمام علماء کا علم و تقدس رکھا جائے تو اس کا پلڑا بھاری ہوگا اور وہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ہیں جو ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے اور کوئی موافقت کرے یا نہ کرے ہمیں پرواہ نہیں۔ “
)روئیداد،مولانا شبیر علی تھانوی(
2: حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد مجلس دعوۃ الحق بمبئی کے پانچ ممبران خانقاہ تھانہ بھون تعزیت کی غرض سے تشریف لائے، وہ بتاتے ہیں کہ
”ہم لوگ کچھ تبلیغ کے سلسلے میں قائد اعظم صاحب کے پاس گئے تھے دوران گفتگو قائد اعظم نے بڑے جوش سے فرمایااس قریب زمانہ میں ہندوستان میں سب سے بڑا عالم کون گزرا ہے؟“ہمارے ذہن میں حضرت )تھانوی رحمہ اللہ( تھے، مگر ہم نے سوچا کہ نہ معلوم ان کے ذہن میں کون ہے؟
اس لیے ہم نے قائد اعظم ہی سے دریافت کیا کہ آپ ہی بتائیے؟ اس پر قائد اعظم اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئے اور ایک فائل لا کر کھول کر دکھلایاکہ” آپ لوگ پہچانتے ہیں کہ یہ تحریر کس کی ہے؟ “ہم سب نے حضرت کی تحریر پہچان کر کہا کہ یہ تحریر تو حضرت )مولانا اشرف علی (تھانوی رحمہ اللہ کی ہے۔ اس پر قائد اعظم نے بڑے جوش سے کہا کہ
” ہاں! اور یہی شخص اس زمانہ کا سب سے بڑا عالم گزرا ہے اور بہت سے کلمات حضرت کی تعریف میں کہے۔ “
)بحوالہ تعمیرپاکستان، از منشی عبدالرحمان۔ ص73(
مولانا شبیر علی تھانوی قائد اعظم محمد علی جناح سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئےقائد اعظم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
”اگرآپ کا مطلب یہ ہے کہ میں بے چوں چراں آپ کا کہا مانوں تو میں تیار ہوں آج تک تو میں آپ سے سمجھنے کے لیے بحث بھی کیا کرتا تھا۔ لیکن آج کے بعد میں خاموش بیٹھ کر سنوں گا اور مذہبی معاملات میں جو ہدایات آپ دیں گے ان کو تسلیم کروں گا کیونکہ مجھے حضرت تھانوی پر پورا پورا اعتماد ہے کہ مذہبی معاملات میں ان کا پایہ بہت بلند ہے اور ان کی رائے درست ہوتی ہے۔ “
)روئیداد از مولانا شبیر علی تھانوی ص 10(
نواب جمشید علی خان کا تجزیہ:
نواب جمشید علی خان قائد اعظم کو ”یارِ غار“ تصور کرتے تھے۔ عموماً موسم سرما میں اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے ہمراہ نواب صاحب کے ہاں باغ پت میں تشریف لے جایا کرتے۔ نواب صاحب اپنے ایک مکتوب مورخہ 4 اپریل 1955میں لکھتے ہیں:
”یہ بالکل حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی تمام تر دینی تربیت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا فیضان تھا اور ان کا اسلامی شعور حضرت والا)حضرت تھانوی رحمہ اللہ (کی بدولت تھا۔ مولوی شبیر علی صاحب نے قائد اعظم کو حضرت والا کے قریب لانے میں بڑا کام کیا۔ “اپنے اسی مکتوب میں چند سطور کے بعد لکھتے ہیں کہ ”قائد اعظم باغ پت کے دوران قیام میں حضرت والا کا بہت خلوص اور ادب سے تذکرہ فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ قائد اعظم کو تھانہ بھون حاضر ہونے کا انتہائی شوق تھا لیکن افسوس چند در چند وجوہات کی بناء پر ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔ “