علامہ عثمانی کی آزادی پاکستان میں جدوجہد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
علامہ عثمانی کی آزادی پاکستان میں جدوجہد
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی حیات کے تمام پہلو ؤں پر بات کرنا مقصود نہیں صرف تحریک پاکستان میں ان کے مجاہدانہ کردار کی ایک جھلک دکھلانا مقصود ہے۔
حصول پاکستان کی خواہش:
26 دسمبر 1945ء کو دارالعلوم دیوبند کے ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
”ایک عرصہ سے عافیت نشین تھا اور میری طویل علالت و خرابی صحت کا اقتضاء بھی یہی تھا لیکن آج ملت اسلامیہ ایسی جدوجہد سے دوچار ہے اور اس کے نتائج و عواقب اس قدر اہم ہیں کہ وہ مجھے اس بیماری کی حالت میں بھی سیاست میں کھینچ لائے۔ تحریک خلافت کے بعد سے میں سیاست سے کنارہ کش ہوں۔لیکن عرصہ دراز کی کاوشوں اور غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر حصول پاکستان کے لیے میرے خون کی ضرورت ہو تو میں اس راہ میں اپنا خون دینا باعث افتخار سمجھوں گا، اور اس سے ہرگز دریغ نہ کروں گا۔اس ملک میں ملت اسلامیہ کا وجود وبقاء اور مسلمانوں کی باعزت زندگی قیامِ پاکستان سے وابستہ ہے میں اپنی زندگی کو کامیاب سمجھوں گا اگر اس مقصد کے حصول میں کام آ جاؤں۔ “
)حیات محمد علی جناح، بحوالہ تعمیر پاکستان،ص 118(
مسلم لیگ کی حمایت کی وجہ:
30 دسمبر 1945ء کو میرٹھ مسلم لیگ کے خطبہ صدارت میں فرمایا:
”مدت دراز تک اس شش و پنج میں رہا اور یہی وجہ ہے خاصی تاخیر سے میں نے مسلم لیگ کی حمایت میں قلم اٹھایا، میں نے اپنی قدرت کی حد تک مسئلہ کی نوعیت پر قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں غور و فکر کیا۔ اللہ سے دعائیں کی اور استخارے کیے۔ بالآخر ایک چیز میرے اطمینان اور شرح صدر کا سبب بنی۔ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کی ایک تصریح ہے جو ان کی کتاب ”السیر الکبیر“ میں موجود ہے۔“
)خطبات عثمانی، ص174(
پاکستان سے وابستہ امید:
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”مسلم لیگ کلمہ گو مسلمانوں کی جماعت ہے، اس میں ہزار عیب سہی تاہم غیر مسلم قوموں کی نسبت تو وہ ہم سے قریب تر اور مفید تر ہے۔ اگر مسلم لیگ ناکام ہو گئی تو قوی اندیشہ ہے کہ ایک سچا اصول ہی ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے اور مسلمانوں کے قومی و سیاسی استقلال کی آواز فضائے ہندوستان میں پھر کبھی سنائی نہ دے۔
”پاکستان“ ایک اصطلاحی نام ہے، یہ نام سن کر کسی کو بھی یہ غلط فہمی یا خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس خطہ میں فوراً بلا تاخیر خلافت راشدہ یا خالص قرآنی اور اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی، ضرورت سے زیادہ امیدیں دلانا توقعات باندھنا کسی عاقبت اندیش، حقیقت پسند کے لیے زیبا نہیں۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ابتدائی قدم ہے جو انجام کار قرآنی اصول کے مطابق احکم الحاکمین کی حکومت عادلہ قائم ہونے پر کسی وقت منتہی ہو سکتا ہے۔ “
)عصر جدید کلکتہ، منشور دہلی۔ 12نومبر 1945ء (
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس مقصد کے پیش نظر میں مسلم لیگ کو اس وقت کے مسلمانوں کے قومی و سیاسی استقلال کے لیے” سفینۂ نجات“ تصور کرتا ہوں۔ “
)مکتوب بنام مولانا بہاء الحق قاسمی ، خطبات عثمانی ص 142(
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت الٰہیہ کے حصول کے لیے پاکستان ہی زمین تیار کرے گا۔ “
)مکتوب بنام بشیر الدین احمد، خطبات عثمانی ص 141(
قائد اعظم پر اعتماد:
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”مجھے یقین ہے کہ مسٹر جناح آج کل کی سیاست کے داؤ پیچ سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ واقف ہے پھر وہ کسی قیمت پر خریدا جا سکتا ہے اور نہ کسی دباؤ کے سامنے سر جھکا سکتا ہے۔ “
)خطبات عثمانی، مرتب پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی۔ ص 77(