ریاستی استحکام میں امن کی اہمیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ریاستی استحکام میں امن کی اہمیت
امن نام ہے سماجی انصاف، وسائل اور اقتدار میں منصفانہ طرز معاشرت کا۔ یہ ایک کیفیت ہے جس کی بدولت سماج میں سکون و اطمینان، خوشی و راحت اور چین و سرور پیدا ہوتا ہےاور یہی چیز قوموں کی ترقیات کا پہلا زینہ ہوتی ہے۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست کی کامیابی، ترقی اور خوشحالی کی بنیاد امن، علم اور معیشت سے وابستہ ہوتی ہے۔ پھر ان تینوں میں سے امن کو اولیت حاصل ہے۔ جس ریاست میں امن کا پائیدار قیام موجود ہووہاں علم اور معیشت کا استحکام خود بخود وجود پذیر ہو جاتا ہے۔
تعلیم و صحت:
اس لیے ریاست کی ذمہ داریوں میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ وہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرے، جہالت کے خاتمے کے لیے معیاری نظام تعلیم اور مثالی تعلیمی ادارے قائم کرےاس کے لیے ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کرے۔ بیماریوں کے خاتمے کے لیے معیاری محکمہ صحت اور مثالی کلینکس اور ہسپتال قائم کرے، ان کے لیے ماہر ڈاکٹرزکی خدمات حاصل کرے۔
عدل و انصاف:
ناانصافی کے خاتمے کے لیے معیاری عدالتی نظام اور مثالی عدالتیں قائم کرے اس کے لیے ماہر وکلاء اور ججز کی خدمات حاصل کرے۔بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے معیاری ادارے اور مثالی اقدامات کرے، الغرض امیر و غریب، ہررنگ نسل اور قوم کے لوگوں کے لیے بالخصوص بھوکوں، پیاسوں، مفلسوں اور ضرورتمندوں کے لیے وسائل کی فراہمی کا معقول اور مناسب بندوبست کرے تاکہ عوام خوشحال زندگی بسر کر سکے۔
ان سب باتوں سے بڑھ کر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کے لیے پرامن ماحول پیدا کرے، تاکہ وہ آزادی کے ساتھ آگے بڑھیں جب تک امن کا ماحول سازگار نہیں ہو گا اس وقت تک ریاست کے استحکام و ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے شرمندہ ہی ہوتا رہے گا۔
شدت پسندی کا خاتمہ:
اس وقت تک ریاست کے عوام احساسِ محرومی، احساس غلامی، عدم مساوات، سماجی و معاشی عدم تحفظ،غیر متوازن سیاسی حالات سے دوچار ہو کر قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی، شدت پسندی کی اندھی راہوں کے مسافر بنیں رہیں گے۔ یکساں شہری حقوق اور عدل و انصاف سے محروم رہے گی اور جہالت، غربت، بیماری، ناانصافی کا شکنجہ چاروں طرف سے اس پر مزید کستا جائے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا یہ قوم بے کار ہو کر رہ جائے گی اور قوم ایک لاش سے دوسری لاش گرنے تک کے عارضی وقفے کو ہی امن سمجھتی رہے گی۔
اس وقت وطن عزیز پاکستان بری طرح بدامنی کی لپیٹ میں ہے، شرپسند سازشی و فسادی تخریب کاروں اور دہشت گردوں نے وطن کی سالمیت کو دولخت کرنے کے لیے اسی وطن کے کئی لخت جگر معصوم ذہنوں کو خود کش بمبار بنایا ، درگاہوں کو مقتل گاہوں میں بدل دیا، سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگوں پر حملہ آور ہوئے۔
فتنہ پرور، سفاک درندوں نے چند دنوں میں منظم منصوبہ بندی سے ایسا خونی کھیل کھیلاجس میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے، وطن کے سجیلے جوانوں کے جسمانی اعضاء فضا میں بکھر کر رہ گئے، زخمیوں کے اعضاء ناکارہ ہو گئے، شہداء کے لواحقین و پسماندگان کی چیخ و پکار سے عرش الہی کانپ نہیں لرز اٹھا۔ حالات نے ایک کروٹ بدلی امن کی راہیں ہموار کرنےوالے خود اس راہ میں ہموار ہوگئے۔
سنجیدہ اقدامات کی ضرورت:
دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد اسے ختم کرنے کے لیے حکومتی لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے، کچھ دن بعد پھر کوئی سانحہ پیش آتا ہے اس کے بعد پھر نئی حکمت عملی ترتیب دی جانے لگتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قیام امن کے لیے ہماری عسکری، سیاسی اور مذہبی قوتوں نے سر جوڑ لیا ہے اور سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے غور و فکر سے بڑھ کر عملی تدابیر بھی اختیار کرنا شروع کر دیں ہیں قوم نے اس سے ایک امید باندھ لی ہے خدا کرے کہ ہماری عسکری، مذہبی اور سیاسی قوتیں عوام کی امیدوں پر پورا اتریں۔
غلط فہمی کا شکار نہ ہوں:
اس سارے منظر نامے میں ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارےپڑوسی ملک ہماری ریاست پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ جب سے وطن عزیز میں سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا ہے اسی دن سے دشمنوں نے بھی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ جیسے جیسے وطن عزیز میں معیشت مضبوطی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے ویسے ویسے دشمن بھی مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ان مقامات کا انتخاب کر کے حملے کر رہا ہے جہاں سے وہ خود تو نکل جاتا ہے اور غلط فہمی کی بنیاد پر باہمی خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور دونوں اطراف کے بے گناہ لوگ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ گویا دو طرح کے حملے ہو رہے ہیں ایک وہ جہاں سے دشمن ہمیں مارتا ہے اور دوسرا وہ جہاں ہم خود غلط فہمی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔
وقت آن پڑا ہے:
وقت آن پڑا ہے! قوم کی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت دشمن کی سازشوں کو سمجھے بھی، ناکام بھی بنائے اور باہمی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے اپنا کردار بھی ادا کرےتاکہ ہمارا ملک بھی محفوظ ہو اور اس ملک میں ہم بھی ایک دوسرے سے محفوظ ہوں اور یہ سب کچھ باہمی اتحاد و اتفاق سے ممکن ہے۔ ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک معیشت مضبوط نہ ہو، معیشت اس وقت مضبوط ہو سکتی ہے جب علمی دنیا میں آگے بڑھا جائے اور علمی دنیا میں ہم اس وقت آگے بڑھیں گے جب امن آئے گا۔ اس لیے ریاستی استحکام میں امن کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
دردمندانہ گزارش:
میری پوری قوم سے گزارش ہے کہ اس کڑے وقت میں ہم سب کو اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں، عسکری و حکومتی لائحہ عمل کی تکمیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ پاکستان کا وجود دہشت گردی، تخریب کاری، بدامنی کے وجود سے پاک ہو سکے۔ اس وطن کی جغرافیائی سرحدات ہمارے آباء و اجداد، ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں تک کی محافظ ہیں اس لیے ہمیں بھی اس کی سالمیت و استحکام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔