یومِ تکبیر کاپیغام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

یومِ تکبیر کاپیغام

28مئی 1998ء کا یادگاردن:
اللہ کی کبریائی، قوت، طاقت، حشمت، جبروت اور عظمت کے سامنے دنیابھر کی طاقتوں کی حیثیت پرِکاہ کی بھی نہیں، یہی ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے۔ اہلیان پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ جس خطے میں بستے ہیں اس کی بنیاد اسی نظریے پر قائم ہے،اس لیے پاکستانی قوم اللہ کی کبریائی کے آگے سرنگوں جبکہ مغربی و استعماری قوتوں کے سامنے سینہ سپررہتی ہے، یہ قوم دنیا بھر میں امن و آشتی کی نہ صرف دعوے دار بلکہ علمبردار ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ بین الاقوامی سطح پرریاست پاکستان نےہمیشہ اپنے قومی و ملی مفادات سے بالاتر ہو کرخطے میں قیام امن کےلیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ؛اسلامی، فلاحی، جمہوری اور خود مختار آزاد جوہری ریاست ہونے کے ناطے دنیا میں اپنا بلند مقام اور غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ حدود اربعہ کے اعتبار سےجہاں یہ معاشرتی طور پرحسن و جمال اور خوبصورتی کا حامل ملک ہے وہاں پر معاشی و اقتصادی طور پر بھی پائیدار اور مضبوط مملکت ہے، یہی وجہ ہے اسے عالمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس کی ان ہمہ جہت خوبیوں کی بدولت بعض ممالک بالخصوص ہمسایہ ملک ہندوستان ازحد حسدکا شکار ہے۔ اپنی آزادی سے لے کر اب تلک پاکستان نے جن مشکل حالات میں اپنا تعمیر و ترقی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ کریم کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی قوت اور جوہری طاقت بنا کر ناقابل تسخیر ریاست بنایا، جس پر پوری قوم کے سر سجدہ شکر سے کبھی نہیں اٹھ سکتے۔
ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کرتے ہوں کہ آخر اسے ایٹمی طاقت بننے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
کیا پاکستان اس جوہری قوت کے بل بوتے دنیا پر بالخصوص ہمسایہ ممالک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے؟
اور کیا ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان کے رویے میں تشدد دَر آیا ہے؟
کیا بین الاقوامی دنیا میں یہ کام صرف پاکستان نے ہی کیا ہے؟
کیا پاکستان کی ایٹمی طاقت سے دنیا کو کوئی خطرہ ہے؟
ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے معمولی سا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
28جولائی 1914ء کو پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی اور11نومبر 1918ء کو ختم ہوئی، اس میں دو کروڑ تیس لاکھ افراد لقمہ اجل بنے، اس کے بعد دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر1939ء کو شروع ہوئی اور اگست 1945ء میں ساڑھے سات کروڑ انسانی ہلاکتوں کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔
اگرچہ اس جنگ سے بہت نقصان ہوا لیکن برصغیر کے عالمی منظر نامے پر اس کے بہتر اثرات مرتب ہوئے برطانیہ جو پہلے برصغیر پر قابض تھا وہ اس جنگ میں معاشی طور پر کمزور ہوا، دوسری طرف برصغیر کے لوگوں نے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی زیر قیادت برطانیہ کے تسلط کو جرات و بہادری اور حکمت عملی کی بدولت ختم کردیا۔
اس دوسری جنگ عظیم میں پی ایس گل نامی ہندوستانی شخص بھی شریک تھا جو جنگ ختم ہونے کے بعد ہندوستان واپس پلٹا، کچھ ہی عرصہ کے بعد پاکستان اور ہندوستان الگ الگ ہو گئے اور متحدہ برصغیر تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرا۔
برصغیر کو برطانیہ سے آزادی دلانے میں مسلمان رہنما پیش پیش رہے لیکن برا ہو عصبیت کا ہندو وہ احسان فراموش قوم ہے جو آزادی دلانے والے مسلم رہنماؤں کے احسانات بھی فراموش کر بیٹھی، ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے، مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، اس لیے مظلوم مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت پیش آئی، جو اللہ نے پاکستان کی صورت میں یہاں کے اہل اسلام کو عطاء کی۔
تقسیم برصغیر کے بعد1947ء سے لے کر 1964ء تک ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو رہے۔ نہرو نے 1954ء میں ہندوستانی جوہری منصوبہ کے لیے بطور خاص پی ایس گل کو تعینات کیا چونکہ پی ایس گل جو دوسری جنگ عظیم میں جوہری ہتھیاروں سے واقف ہو چکے تھے،اسی دوران ہندوستان نے ایٹمی طاقت بننے کے لیے ابتدائی عملی اقدامات رفتہ رفتہ شروع کر دیے تھے۔
1965ء میں ہندوستان نے پاکستان پر حملے کی حماقت کی جس کا خمیازہ اسے بری طرح بھگتنا پڑا، یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے جارحانہ عزائم رکھنے والے اس دشمن سے اپنے تحفظ کے بارے میں سوچنا شروع کیا، ہندوستان کو دہشت گردی سے باز رہنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
ہندوستان کے مذموم مقاصد اس وقت عیاں ہونا شروع ہوئے جب 1968ء میں اس نے جوہری عدمِ انتشار کے معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔
1974ء میں ہندوستان نے اندرا گاندھی کے زیرِ قیادت اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا۔اس کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں پڑنا شروع ہو گیا تھا، طاقت اور قوت کے بل بوتے ہندوستان کی بد مست آنکھوں میں پاکستان کو مسخر کرنے کے خواب آنا شروع ہوئے۔
3 جون1994ء کو ہندوستان نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا، یہ پاکستانی شہروں کے اندر ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے اوسط رینج کے میزائل تھے جسے اسی مقصد کے لیے بنایا گیاتھا۔
جون 1997ءمیں ہندوستان نے اپنے میزائل پاکستانی سرحدوں کے قریب منتقل کر دیے۔
13 مئی 1998ء راجستھان کے پوکھرن علاقہ میں ہندوستان نے وزیرِ اعظم مسٹر اٹل بہاری واجپائی کی زیرِ قیادت زیرِ زمین جوہری تجربہ کیااور ساتھ ہی تمام سفارتی معیاروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
جس کا خدشہ تھا وہی ہونے لگا، ہندوستان کے پاکستان مخالف جارحانہ عزائم سے دنیا آگاہ ہوئی، یہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پر حملہ اور اس کی عام شہری آبادی پر جوہری بمباری کا خطرہ تھا، بلکہ ایک عاقبت نااندیش پڑوسی کےمستقل قبضہ اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک غیر محفوظ مستقبل کا عندیہ تھا۔
مذکورہ بالا تمام حالات و واقعات اس بات کے متقاضی تھے کہ اب اہلیان پاکستان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، قوم کا مورال بلند کیا جائے اور حوصلوں کو پست نہ ہونے دیا جائے، دشمن کے غرور کا سر نیچا کیا جائے۔ اب پاکستان کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو عالمی برادری کے ذریعے ہندوستان کے جارحانہ عزائم کو ختم کیا جاتا یا پھر خود جوہری قوت کا مظاہرہ کیا جاتا۔
پہلی بات بے سود تھی کیونکہ ہندوستان اس کے لیے قطعاً آمادہ نہیں تھاچونکہ اس کا مشاہدہ 1968 ء میں جوہری عدم انتشار کے معاہدے سے انکار کی صورت میں وہ پہلے بھی کر چکا تھا۔
اب دوسری صورت یقینی تھی اور وہ تھی کہ پاکستان خود ایٹمی طاقت بن کر تمام کمزورممالک خصوصاً مسلم دنیا کے لیے مضبوط سہارا بنے، چنانچہ تمام دھونس دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود پاکستان کی قیادت نے جرات مندانہ قدم اٹھایا اور 28 مئی 1998ء کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بلوچستان کے راس کوہ چاغی علاقہ میں غوری میزائل کا کامیاب جوہری تجربہ کیا۔
اس جوہری تجربے نے پاکستان کو فخریہ طور پر عالمی سطح کی ایک باصلاحیت جوہری طاقت کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ پاکستان مسلم امت کی واحد جوہری طاقت ہے،آج اس بات کو کئی سال ہو گئے لیکن قوم کا جذبہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا سالوں پہلے تھا۔ آج بھی پاکستانی قوم بجاطور پر خود کو ناقابل تسخیر شمار کرتی ہے اور اقوام عالم میں اس کا سر فخر سے بلند ہے، اسی دن کو یوم تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اسی بات کا عزم دہرانے کے لیے یوم تکبیر منایا جا تا ہے کہ پاکستانی قوم اللہ کے فضل و کرم سے ناقابل تسخیر قوم ہے اور مملکت خداداد پاکستان کے استحکام، تحفظ اور سالمیت و بقاء کے لیے کسی دباؤ کو قبول نہیں کرتی۔
یہ جوہری منصوبہ پرامن پاکستان کا ضامن ہے۔ یہ ہر ملک کا ریاستی حق ہے کہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست کرے، ہر ملک اپنی سرحد کو دشمن کے جارحانہ اقدامات سے محفوظ کرنے کے لیے دفاعی حق رکھتا ہے، اسی طرح پاکستان بھی اس کا حقدار ہے۔
آج ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ ایٹمی قوت بننے کے باوجود پاکستان نے ہمسایہ ممالک کے ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں کیا۔ ایٹمی قوت بننے کے باوجود پاکستان کے رویے میں نرمی ختم نہیں ہوئی، ایٹمی قوت بننے کے باوجود بھی دنیا کے کسی ملک کو پاکستان سے خطرہ نہیں۔
ایٹمی قوت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اور بہت سارے ممالک ہیں لیکن ان میں اور پاکستان کے ایٹمی قوت بننے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ باقی ممالک ایٹمی قوت کی بدولت دنیا پر قبضے کے خواب دیکھتے ہیں، تباہی مچاتے ہیں، انسانیت کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں جبکہ پاکستان اسے صرف اپنے دفاع کے لیے استعمال کرنے کا حق اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔
اہلیان پاکستان اس دن تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہماری بہادر افواج، ہمارے ادارے، قانون دان، قانون نافذ کرنے والے ادارے، ہماری تاجر برادری، سیاسی و مذہبی رہنما اور عوام سب ملک کی حفاظت اور استحکام کو یقینی بنائیں گےجان کی بازی لگادیں گے لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
آج ہم سب کو پاکستان کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے اپنی صلاحیتیں خرچ کرنا ہوں گی، کیونکہ بین الاقوامی میڈیا اس تریاق کو زہر کا لیبل لگا کر پیش کر رہا ہے، اور سیاسی محاذوں پر اس کو منفی شکل دینے پر تلا ہوا ہے، آج وطن عزیز پاکستان کی معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی سے خائف ہو کر ہندوستان اور اس کے حلیف ممالک دہشت گردانہ کارروائیاں کرا کے کھوکھلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان مخالف بھارت دوست ممالک کے گٹھ جوڑ کے شاخسانے آئے دن ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور بین الاقوامی دنیا محض تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس لیے ہمیں کسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے یوم تکبیر کے اس پیغام کو سمجھنا ہو گا کہ اللہ کی کبریائی، قوت، طاقت، حشمت، جبروت اور عظمت کے سامنے دنیابھر کی طاقتوں کی حیثیت پرِکاہ کی بھی نہیں، یہی ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے۔