عقیدہ 29

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رسالت
عقیدہ 29:
متن:
وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدُهُ الْمُصْطَفٰى وَنَبِيُّهُ الْمُجْتَبٰى وَرَسُوْلُهُ الْمُرْتَضٰى.
ترجمہ: اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے، چنے ہوئے نبی اور پسندیدہ رسول ہیں۔
شرح:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین لفظ استعمال کیے ہیں : عبد ، نبی اور رسول۔ عبد کا معنی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر اور انسان ہیں ، نبی کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی ہے اور چونکہ نئی شریعت بھی آئی ہے اس لیے رسول بھی ہیں۔ تو ترتیب کے ساتھ ان تین اوصاف کو ذکر کیا ہے ۔
چند فوائد:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں لفظ ”نبی“ استعمال فرمایا ہے۔ اس لیے نبی کے متعلق چند فوائد پیش ہیں:
فائدہ نمبر 1: نبی کی تعریف
إِنْسَانٌ مَبْعُوْثٌ مِنَ اللہِ مَعْصُوْمٌ عَنِ الْخَطَأِ مَفْرُوْضُ الإتِّبَاعِ.
ترجمہ: نبی اس انسان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجا گیا ہو، خطا سے معصوم ہو اور اس کی پیروی کرنا فرض ہو۔
اس تعریف میں چند الفاظ سمجھ لینے چاہییں:
۱: انسان: جو محسوس اور ذوعقل ہو۔
ذو عقل کی دو قسمیں ہیں: کامل اور ناقص۔ ذو عقل کامل ”مرد“ اور ناقص ”عورت“ ہے۔ نبی کامل العقل ہوتا ہے، اس لیے عورت نبی نہیں بن سکتی۔ عورت ناقص العقل اور ناقص دین ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
خَرَجَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ أَضْحٰى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلّٰى فَمَرَّ عَلَى النِّسَآءِ فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! تَصَدَّقْنَ فَإِنِّيْ أُرِيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ" فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ؟ قَالَ: "تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيْرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِيْنٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ". قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِيْنِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُوْلَ اللّهِ؟ قَالَ: "أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟" قُلْنَ: بَلٰى! قَالَ: "فَذٰلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟: قُلْنَ: بَلٰى! قَالَ: "فَذٰلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا".
(صحیح البخاری: ج1 ص44 کتاب الحیض باب ترک الحائضِ الصومَ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ یا عید الفطر کے لیے عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے: اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ و خیرات کیا کرو، مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری تعداد زیادہ ہو گی۔ عورتیں کہنے لگیں:یا رسول اللہ! وہ کیوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو، میں نے دین اور عقل میں تم سے زیادہ ایسا ناقص کوئی نہیں دیکھا جو ایک اچھے بھلے شخص کی عقل کو خراب کر دے۔ عورتیں کہنے لگیں: یا رسول اللہ! ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقص کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی مرد کی نصف گواہی کے برابر نہیں؟ کہنے لگیں: کیوں نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کی عقل کا نقصان ہے اور جب کسی عورت کو ایام آ جائیں تو کیا وہ نماز اور روزہ نہیں چھوڑتی؟ عورتیں کہنے لگیں: کیوں نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی اس عورت کے دین کا نقصان ہے ۔
۲: مبعوث من اللہ
نبوت وھبی ہے نہ کہ کسبی، یہ سلیکشن سے ملتی ہے نہ کہ الیکشن سے۔ الیکشن کہتے ہیں جسے لوگ چنیں اور سلیکشن کہتے ہیں جسے حکومت چنے۔ ارشاد باری ہے:
﴿یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗئُ مِنْ عِبَادِہٖ ﴾
(النحل:2)
ترجمہ: وہ اس وحی کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے فرشتوں کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے۔
۳: معصوم عن الخطا
تمام انبیاء علیہم السلام چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔
 ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾
(الاحزاب: 21)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
پیغمبر اسوۂ حسنہ اس وقت بن سکتے ہیں جب خود گناہوں سے پاک ہوں۔
 ﴿وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ هٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَاۗﺊِ نَفْسِيْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓی اِلَيَّ﴾
(یونس: 15)
ترجمہ: جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اس میں تبدیلی کرو۔ اے پیغمبر! ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔
پیغمبر حکم شرعی کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تو حکم شرعی کی خلاف ورزی کیسے کر سکتے ہیں؟!
۴: مفروض الاتباع
”اِتِّباع“ یہ
”تَبِیْعَۃٌ“
سے ہے اور
”تَبِیْعَۃٌ“
جانور کے اس بچے کو کہتے ہیں جو ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ ماں کدھر جاتی ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ ماں کیوں جاتی ہے؟ نبوت کی اتباع بھی یوں کی جائے کہ ہر حکم کو من و عن تسلیم کر کے عمل کیا جائے، سمجھ میں آئے تب بھی مانیں اور سمجھ میں نہ آئے تب بھی مانیں۔
فائدہ نمبر 2: نبی کی ذات بشر، صفت نور
نبی اپنی ذات کے اعتبار سے بشر اور انسان ہوتے ہیں اور اپنی صفت کے لحاظ سے نور ہوتے ہیں۔ جن آیات اور احادیث میں انبیاء علیہم السلام کو ”بشر“ فرمایا گیا وہاں مراد ذاتِ نبوت ہے اور جہاں ”نور“ فرمایا گیا وہاں مراد صفتِ نبوت ہے۔
1: ﴿اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًااَنْ اَوْحَیْنَآاِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ﴾.
ترجمہ: کیا لوگوں کویہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کے پاس وحی بھیجی۔
2: ﴿وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلَّارِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی﴾.
(یوسف:109)
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے جتنے پیغمبر بھیجے وہ مردہی تھے کہ جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے(اوروہ)بستیوں کے رہنے والے تھے۔
3: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ اَنْسٰى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيْتُ فَذَكِّرُوْنِيْ․
(صحیح البخاری: ج1ص58 باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان)
ترجمہ:بے شک میں بشرہوں‘ بھول جاتاہوں جیسے تم بھول جاتے ہو۔پس مجھے یاددلاؤجب میں بھول جاؤں۔
4: عَنْ عَبْدِ اللّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَىْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيْدُ حِفْظَهُ فَنَهَتْنِىْ قُرَيْشٌ وَقَالُوْا أَتَكْتُبُ كُلَّ شَىْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِى الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِرَسُوْلِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَوْمَأَ بِاِصْبَعِهٖ إِلٰى فِيْهٖ فَقَالَ: "اُكْتُبْ فَوَالَّذِىْ نَفْسِىْ بِيَدِهٖ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ".
(سنن ابی داؤد: ج2ص514 کتاب العلم باب فی کتابۃ العلم)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا تھااس کو لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کروں۔ قریش نے مجھے اس بات سے روکا اور کہنے لگے کہ آپ؛ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہر بات لکھ لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تو انسان ہیں، خوشی اور غمی میں کلام کرتے ہیں۔ تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ میں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کا اشارہ اپنے منہ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا : تم لکھا کرو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔
فائدہ نمبر 3:
نبی کے لیے خدائی اختیارات اور صفات خاصہ ثابت کرنا جائز نہیں جیسے علم غیب، حاضر ناظر، مختار کل وغیرہ۔ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔
 ﴿وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ﴾.
ترجمہ: اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
 ﴿قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّهُ﴾.
(یونس:49)
ترجمہ: (اے پیغمبر!) آپ کہہ دیجیے میں تو خود اپنی ذات کو بھی نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں نہ فائدہ پہچانے کا ، سب کچھ اللہ کی چاہت پر موقوف ہے۔
 ﴿قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّهُ﴾.
( سورۃ النمل: 65)
ترجمہ: کَہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا قَالَتْ ... مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهٗ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ وَهُوَ يَقُوْلُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ․
( صحیح البخاری: ج 2 ص 1098 باب قول الله تعالىٰ عالم الغیب فلا يظهر على غیبہ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے تو وہ شخص جھوٹا ہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ اللہ کے علاوہ غیب کوئی نہیں جانتا۔
فائدہ:
”عَبْدُهُ الْمُصْطَفٰى“
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عبدیت بہت نمایاں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے ایک اعلیٰ وصف ہے ۔
 ﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا﴾.
(الاسراء: 1)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ۔
سفر اسراء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے اور اعزاز کے موقع پر اعلیٰ اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں۔ لفظ ”عبد“ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف عبدیت تمام کمالات میں اعلیٰ و ارفع شان کا حامل ہے ۔