عقیدہ 77

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جہاد وحج
عقیدہ 77:
متن:
وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ فَرْضَانِ مَاضِيَانِ مَعَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْ الْمُسْلِمِيْنَ بَرِّهِمْ وَفَاجِرِهِمْ إِلٰى قِيَامِ السَّاعَةِ لَا يُبْطِلُهُمَا شَىْءٌ وَلَا يَنْقُضُهُمَا.
ترجمہ: حج اور جہاد ایسے دو فریضے ہیں جو مسلمانوں کے امیر کی زیر قیادت (قیامت قائم ہونے تک) جاری رہیں گے، چاہے امیر نیک ہو یا گناہ گار۔ کوئی چیز ان کو منسوخ کر سکتی ہے نہ ختم کر سکتی ہے۔
شرح:
جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے چند باتیں ملاحظہ ہوں:
1: ”جہاد“ کا ایک شرعی مفہوم و معنی ہے۔ اس کا معنی ”قتال فی سبیل اللہ“ متعین ہے۔ محض لغوی معنی کے پیش نظر ہر مشقت والے کام کو جہاد قرار دینا جائز نہیں۔ اس روش سے شرعی اصطلاحات کا مفہوم مسخ ہو جائے گا اور تحریف فی الدین کا ایسا دروزاہ کھلے گا جو کبھی بند نہ ہو سکے گا۔ اس لیے محض لغت کو دیکھتے ہوئے شرعی معانی کا تعین کبھی نہ کیا جائے۔
2: عرف عام میں بھی قتال کرنے والوں کو ہی ”مجاہدین“ کہا جاتا ہے اور عرف عام کو بھی حکم شریعت بیان کرنے میں بہت دخل ہے۔ معنی جہاد میں تحریف یا تاویل کرنا عرف عام کو بھی بدل دے گا۔
3: جہاد فی سبیل اللہ کے فضائل قتال کے لیے ہی ہیں۔ باقی کسی دینی عمل پر فضائل جہاد کو چسپاں کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر عمل کے لیے شریعت مطہرہ میں فضائل بیان کر دیے گئے ہیں۔
4: جس طرح نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج کرنے والا شخص جہاد نہ کرے تو جہاد نہ کرنے کا گناہ تو ہو گا مگر اس کے مذکورہ اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوں گے۔ اسی طرح اگر جہاد کرنے والا نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج نہ کرے تو ان اعمال کے نہ کرنے کا گناہ تو ہو گا مگر جہاد قبول ہو گا۔ ہر عمل کا اپنا اپنا مقام ہے۔
فائدہ: ” حج اور جہاد قیامت تک جاری رہیں گے “ کا یہ معنی نہیں کہ قیامت تک حج اور جہاد عملاً ہوتے رہیں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کا حکم قیامت تک باقی رہے گا کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کسی سال کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے حج نہ ہو سکے یا دنیا میں کسی وقت عملاً جہاد نہ ہو سکے۔ تو اس وقت حکم حج و جہاد تو ہو گا اگرچہ عمل نہ ہو گا۔