عبادات کا اَخلاقی پہلو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عبادات کا اَخلاقی پہلو
اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ ان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادت (اللہ کے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے مطابق بجالانا )ہےاور عبادت کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے ۔
کرم بالائے کرم:
ہم اللہ کی مخلوق ہیں اگر وہ ذات ہمیں عبادت کا حکم نہ بھی دیتی تب بھی عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ اس ذات کا کرم یہ ہے کہ اس نے ہمیں اس کا حکم بھی دے دیا ۔ کرم بالائے کرم یہ ہے کہ اس کی یاددہانی اور اس کے بارے نفع و نقصان بتلانے کےلیے انبیاء کرام علیہم السلام کو ہماری طرف مبعوث فرمایا۔
مرادِخدواندی تک رسائی:
چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وقت میں اللہ کے احکام کی علمی اورعملی تبلیغ فرما کر رخصت ہونا ہی تھا لہذا اللہ نے مزید کرم یہ فرمایا کہ اپنی جانب سے ہمیشہ رہنے والی کتاب قرآن مجید بھی نازل فرما دی اور اس میں اپنی مراد تک رسائی کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اس کی وضاحت اپنے قول و عمل (سنت) سے بھی فرما دیں۔
عبادات کے اخلاقی پہلو:
جب یہ بات معلوم ہوچکی کہ عبادات کا مقصد اللہ کو نبی کے طریقے کے مطابق راضی کرنا ہے۔ اب آتے ہیں چند اہم ترین عبادات کے اخلاقی پہلؤوں کی طرف۔ جس سے معلوم ہوگا کہ دین اسلام کی اہم ترین عبادات میں ہمیں جن باتوں کی تعلیم دی گئی ہے وہ کس قدر بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔
نماز کا اخلاقی پہلو :
نماز وہ عبادت ہے جسے شریعت میں اہم العبادات کا درجہ حاصل ہے ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نماز کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس سے جہاں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے وہاں پر انسان کے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنانے میں اس کا بنیادی کردار ہے ۔ قرآن کریم میں ہے :
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ
سورۃ العنکبوت، رقم الآیۃ:45
ترجمہ: بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے منع کرتی ہے ۔
احمد عیسیٰ دجال کا دھوکہ:
دورحاضر کا دجال احمد عیسیٰ کذاب نے امت مسلمہ کو دھوکے میں ڈالنے کے لیےیہ شبہ کیا ہے کہ مسلمانو! تم کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ نماز بے حیائی سے روک دیتی ہےجبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان شخص نماز بھی پڑھتا ہے لیکن گناہ بھی کرتا ہے اگر اس سے یہی نماز مراد ہے جو تم پڑھتے ہو تو پھر اس کو ادا کرنے والا کبھی گناہ نہ کرتا ۔ نماز پڑھنے والے کا گناہ میں مبتلا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان جو دن رات میں پانچ مرتبہ نماز کے نام پر عبادت کرتے ہیں، یہ وہ نماز نہیں ہے ورنہ اس کو ادا کرنے والا گناہ ہی نہ کرتا۔
بے حیائی سے روکتی ہے ، زبردستی چھڑواتی نہیں:
اس شبہ کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ نماز ؛ نمازی سے گناہ چھڑوا دے گی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ نماز ؛ نمازی کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ بندوں کو گناہوں سے منع کرتے ہیں اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ گناہ کر ہی نہ سکے کیونکہ اللہ نے منع کر دیا ہے بلکہ بندے کو اختیار دیتے ہیں اگربندہ اپنے اختیار سے گناہ سے رک جاتا ہے تو اللہ اس پر ثواب دیتے ہیں اور اگر اپنے اختیار سے گناہ کرتا ہے تو اللہ اس پر عذاب دیتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ گناہوں سے منع کرتے ہیں زبردستی چھڑواتے نہیں ہیں اسی طرح نماز بھی بے حیائی سے منع کرتی ہے، زبردستی چھڑواتی نہیں ہے ۔
نماز کی حالت احساس دلاتی ہے:
دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز کی حالت یہ احساس دلاتی ہے کہ اے انسان! سب کچھ چھوڑ کر جس ذات کے سامنےتو نے ہاتھ باندھ لیے ہیں ، رکوع یعنی جھک کر عاجزی کا اظہار کر لیا ہے اور سر سجدے میں رکھ کر اطاعت گزاروں والی شکل بنا لی ہے اس کے باوجود بھی تو بے حیائی اور برے کام کرتا ہے ! بہت شرم کی بات ہے ۔ تجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
نماز گناہ چھڑا بھی سکتی ہے لیکن:
تیسرا جواب یہ ہے کہ نماز گناہ چھڑا بھی دیتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے تمام آداب کی رعایت کی جائے ۔ نماز میں جو کچھ پڑھ رہا ہے اس کو اچھی طرح سمجھے۔نماز کی شکل سنت کے مطابق ہو ۔ خشوع اور خضوع کو ہر حال میں ملحوظ رکھے ۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہی نماز بندے سے بے حیائی اور برے کام چھڑا دیتی ہے ۔
زکوٰۃ کا اخلاقی پہلو:
زکوٰۃ ادا کرنے کا حقیقی اور اصلی مقصد تو محض اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اخلاقی پہلو وہ بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ کے ساتھ رہنمائی کی ہے:
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا
سورۃ التوبۃ ، رقم الآیۃ: 103
ترجمہ: اے پیغمبر!آپ لوگوں کے مالوں میں سے صدقہ(زکوٰۃ)وصول کیجیے جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک اور صاف کر دیں ۔
فائدہ: قرآن پاک میں جس صفائی اور پاکی کا ذکر ہے اس سے مراد باطنی صفائی یعنی دل سے مال و دولت کی محبت ، حرص ، طمع ، لالچ ، تکبر اور بڑائی وغیرہ سے پاک کرنا ہے۔ مزید یہ کہ اس سے غریبوں کا احساس ، ہمدردی اور مساکین سے محبت پیدا ہوتی ہے یہ سب اس عبادت کے اخلاقی پہلو ہیں ۔
روزہ کا اخلاقی پہلو :
دین اسلام کے احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ مسلمان پورے سال میں سے رمضان المبارک والے مہینے میں فرض روزے رکھے ۔ اس کا حقیقی مقصد تو اللہ کی رضا ہے لیکن اس عبادت کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر برائیوں سے دور رہنے کا عادی بنائے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ وَ شَهْرُ الْمُوَاسَاةِ وَ شَهْرٌ يُزْدَادُ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَ عِتْقَ رَقَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ وَ كَانَ لَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُّنْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهٖ شَيْءٌ قَالُوْا: لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ فَقَالَ: يُعْطِي اللّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰى تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللّهُ لَہُ وَ أَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ۔
صحیح ابن خزیمۃ، رقم الحدیث : 1887
ترجمہ: یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائےگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ( یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں بلکہ) اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔

اس میں صبر،غم خواری ،ہمدردی اورنرمی کے اخلاقی پہلو نکلتے ہیں۔
جھوٹ سے پرہیز:
روزے کے ایک اہم اخلاقی پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن لَم یَدَعْ قَولَ الزُّورَ وَالعَمَلَ بِہٖ فَلَیسَ لِلّہِ حَاجَۃٌ فِي أن یَدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ
صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1903
ترجمہ: جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کے ہاں اس کے بھوکا پیاسا رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
بے حیائی اور جھگڑے سے رکنا:
روزے کے اخلاقی پہلؤوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ
صحیح البخاری،رقم الحدیث :1904
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھے تو اسے چاہیے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام نہ کرے اور نہ ہی کسی سے جھگڑے ۔ ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو یہ اس جھگڑا کرنے والے سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔
صدقۃ الفطر کا اخلاقی پہلو:
صدقۃ الفطر ایک اہم عبادت ہے ، جس کو ادا کرنے کا مقصد جہاں روزے میں کوتاہی کا ازالہ ہے وہاں پر اس کا ایک اخلاقی پہلو غریبوں سے ہمدردی کرنا بھی ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ۔
سنن ابی داؤد ، رقم الحدیث : 1611
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کی فضول و بے مقصد باتوں سے پاکیزگی کے لیے اور غریبوں کے کھانے کے لیے صدقۃ الفطر کو ضروری )واجب( قرار دیا۔
حج کا اخلاقی پہلو:
حج جامع العبادات ہے یہ ایک مشقت والی عبادت ہے جس میں اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کراللہ کے در پر پڑا رہنا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں اخلاقی تربیت کے کئی پہلو ہیں ۔جس کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ سے رہنمائی فرمائی ہے :
فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ
سورۃ البقرۃ ، رقم الآیۃ: 197
ترجمہ: جو شخص (حج کے)ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو اسے اس بات کا مکمل خیال رکھنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے شہوانی گناہ ، بدعملی اور لڑائی جھگڑے کی کوئی بات سرزد نہ ہو ۔
حج میں گناہوں سے بچنا:
ایک حدیث مبارک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ حَجَّ لِلّہِ فَلَم یَرفُثْ وَلَم یَفسُقْ رَجَعَ مِن ذُنُوبِہٖ کَیَوم وَلَدَتْہُ أمُّہٗ۔
صحیح البخاری،رقم الحدیث :1521
ترجمہ: جس شخص نے محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کےلیے حج ادا کیا،اس دوران گناہوں سے بچتا رہا،وہ اپنے سابقہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا جیسے اس دن گناہوں سے پاک تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ سید النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات ،27 فروری ،2020ء