کب زندگی اور کب موت بہتر ہے؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کب زندگی اور کب موت بہتر ہے؟
اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر جنہوں نے زندگی گزارنے کے بہترین طریقے سکھلائے اور ان باتوں کی نشاندہی فرما دی جن سے نقصان اور خسارہ ہوتا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ شُورٰى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث :2266
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوں ، تمہارے مال دار لوگ سخی ہوں اور تمہارے باہمی معاملات مشورے سے طے پاتے ہوں تو )اِن حالات میں( تمہارے لیےزمین کا اوپر والا حصہ ؛اندرونی حصے سے بہتر ہے ۔) یعنی زندگی موت سے بہتر ہوگی(اور جب تم میں سے بدترین لوگ حاکم بن جائیں ، تمہارے مال دار لوگ بخیل بن جائیں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتیں طے کرنے لگ جائیں تو ان حالات میں تمہارے لیے زمین کا اندرونی حصہ ؛اوپر والے حصے سے بہتر ہے۔ )یعنی موت زندگی سے بہتر ہوگی (
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی مجموعی طور پر تین خوبیوں کا فائدہ اور تین برائیوں کا نقصان ذکر فرمایا ہے ، جن کی مختصر مختصر تشریح ذیل میں ذکر کی جا رہی ہے ۔
پہلی خوبی …نیک حکمران:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوجائیں۔ ایسے حاکم عدل و انصاف، امن وامان، ترقی و خوشحالی، تعلیم و صحت الغرض تمہاری تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کریں گے تو ظلم و ناانصافی، بدامنی،تنزلی،جہالت اور بیماریوں سے پاک معاشرہ ہو گا۔ یہی وہ معاشرہ ہے جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے ۔اسلام کی روشن تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں توایسے ہی معاشرے کی نمایاں تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ عدل و انصاف ، امن و امان اور تعمیر وترقی کی وجہ سے عوام خوشحال تھے ،پرامن تھے اور صحت افزاء ماحول میں پرورش پاتے تھے ۔
آج کی دنیا جمہوری نظام سیاست کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہم اپنے حکمران خود منتخب کرتے ہیں اس لیے ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا حکمران اسے چنیں جو عدل و انصاف، امن وامان، تعمیر و ترقی، تعلیم وصحت کے قیام کی صلاحیت رکھتا ہو، دین اسلام کی تعلیمات سے واقف ہو اور عوام کا ہمدرد ہو۔ جب ہمیں ایسا حکمران مل جائے گا تو ہمارا معاشرہ عدل وانصاف ، تعمیر و ترقی ، امن وامان اور خوشحالی سے بھر جائے گا ۔
اور جب معاشرہ امن و امان ، عدل و انصاف سے بھر جائے تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر عدل وانصاف اور امن و امان قائم کرتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے ۔
دوسری خوبی۔سخی مال دار:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سےمال دار لوگ سخی ہو جائیں ۔ایسے مال دار لوگ راہِ حق میں خرچ کرنے والے ہوں گے، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں گے، زکوٰۃ کا نظام فعال ہو گا، اسلام کا رفاہی نظام عام ہوگا صدقات ، خیرات کا ماحول ہوگا اور مذکورہ بالا نیکیوں کی وجہ سے مصیبتیں اور پریشانیاں ختم ہوں گی ، جرائم کی شرح کم ہوگی ۔
آج دنیا میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ بعض تنظیمیں تو کفر کی اشاعت کے لیے کام کر رہی ہیں اور بعض بے حیائی اور برائیوں کو معاشرے میں عام کرنے کی محنت کر رہی ہیں ۔ ایسے حالات میں اہل اسلام کا وہ طبقہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اسے چاہیے کہ وہ غریبوں، یتیموں ،مسکینوں ، بیواؤں اور ضرورتمندوں اور مفت دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کےلیے اپنے مال کو دل کھول کر خرچ کریں۔ جب ایسے سخی مال دار مل جائیں گے تو ہمارے معاشرے میں ضرورتمندوں کو سہارا ملے گا ۔
جب معاشرہ میں ضرورت مند لوگ خود کفیل ہوجائیں تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچاتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے ۔
تیسری خوبی …شورائی نظام:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے باہمی معاملات شوریٰ سے طے پائے جانے لگیں ۔ مشورہ میں اللہ تعالیٰ نے خیر اور برکت رکھی ہے اس کی تاثیر یہ ہے کہ غلط فیصلوں اور ان کے برے انجام سے حفاظت ہو جاتی ہے ۔ ورنہ فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے گھریلو معاملات سے لے کر جماعتوں ، اداروں اور دفاتر تک اس کا اہتمام کرنا چاہیے ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہی مشورہ لیا جائے جماعتیں ، ادارے اور دفاتر وغیرہ میں صاحب رائے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے ۔
جب تک باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جاتے رہیں گے اس وقت تک اس امت میں خیر رہے گی اب اس کا زندہ رہنا اس کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے ۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے ۔
پہلی برائی…بدترین حکمران:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے بدترین لوگ تمہارے حاکم بن جائیں ۔ایسےحاکم ظلم وناانصافی ، بدامنی اور فتنہ و فساد برپا کریں گے ۔ اور جب معاشرے میں کھلم کھلا خدا تعالیٰ کی نافرمانی او ر ظلم و ناانصافی پھیل جائے تو اب دنیا میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے ۔
یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حدیث مبارک کے مذکورہ بالا مفہوم سے خود کشی جیسا برا جرم ثابت نہیں ہو رہا اور نہ ہی اس میں کم ہمتی کی تعلیم دی جارہی ہے بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایسے ماحول میں لوگ خدا کی زمین پر بوجھ بن جائیں گے اور موت تمہارے لیے زندگی سے بہتر ہو گی کہ اس کی وجہ سے کم از کم انسان مزید اللہ کی نافرمانیاں کرنے سے بچ جائے گا اور اس کے ایمان اور نیک اعمال کی حفاظت کا بندوبست بھی ہو جائے گا ۔ایمان کی حفاظت ، نیک اعمال کی حفاظت اور مزید گناہوں سے بچنے کی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ موت زندگی سے بہتر ہے ۔
دوسری برائی…بخیل مال دار:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ بخیل بن جائیں ۔ایسے لوگ مال کی محبت کا شکار ہوجائیں گے راہ خدا میں خرچ کرنے کا تصور مٹ جائے گا،ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی تو معاشرتی جرائم چوری، ڈاکہ اور رشوت وغیرہ بڑھ جائیں گے، اسلام کا رفاہی نظام بالخصوص زکوٰۃ ، صدقات وغیرہ کا نظام ٹھپ ہو کر جائے گا۔
جب ماحول ایسا بن جائے کہ جرائم عام ہوجائیں اسلامی احکامات صدقات اور زکوٰۃ وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو خدا کا عذاب نازل ہوگا ۔ زندہ رہ کر اس عذاب کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوجائے ۔
تیسری برائی …تمام معاملات عورتوں کے سپرد:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے تمام معاملات تمہاری خواتین کے سپرد ہوجائیں ۔
اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھیے کہ صنف نازک )خواتین) میں قوتِ فیصلہ کو فطری طور پر بہت کم رکھا گیا ہے تاکہ گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جا سکے اور یہ اپنے گھریلو نظام کو پرسکون بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کریں لیکن جب تمام معاملات ہی عورتوں کے سپرد کر دیے جائیں تو ان کی حیثیت سے بڑھ کر ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ آئے گا جس کی وجہ سے یہ درست فیصلہ نہ کر پائیں گی۔
جبکہ عورت کے مقابلے میں مرد )مجموعی طور پر(بہادر ، معاملہ فہم ، دور اندیش اور جفاکش ہوتاہے اور معاملات کے حل میں انہی مذکورہ اوصاف کو اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن جب فطری طور پر عورت کے کمزور ہونے کے باوجوداس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے گا تو دنیوی نظام زندگی میں بہتری کے بجائے خرابیاں پیدا ہوں گی اور یہ بڑھتے بڑھتے فتنہ و فساد تک جا پہنچیں گی اس لیے فتنہ وفساد میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ انسان زندگی کو خیر باد کہہ کر موت کا خیر مقدم کر لے۔ اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا حدیث مبارک پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جمعرات،13 اگست ، 2020ء