رمضان المبارک کے روزوں اور عید الفطر کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کی احادیث میں بہت فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عیدین کی نماز دو رکعت ہے جوچھ زائد تکبیروں کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قرأت سے پہلے تین زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین زائد تکبیریں کہہ کررکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جاتے ہیں۔پہلی رکعت میں تین زائد تکبیرات چونکہ تکبیرِ تحریمہ کہہ کر ثناء کے متصل بعد کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں یہ تکبیرات کہہ کر متصل رکوع کی تکبیر کہی جاتی ہے، اس لیے اس اتصال کی وجہ سے پہلی رکعت میں تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ مل کریہ تکبیرات چار ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر سے مل کر چار۔گویا ہر رکعت میں چار تکبیرات شمار ہوں گی۔بعض روایات میں پہلی رکعت میں تکبیرِ تحریمہ، تین زائد تکبیرات اوررکوع کی تکبیر کو ملا کر پانچ اور دوسری رکعت میں تین زائد تکبیرات اوررکوع کی تکبیر کو ملا کرچاربتایا گیا ہے اور مجموعی طور پر نو تکبیرات شمار کی گئی ہیں۔ دونوں صورتوں میں زائد تکبیرات چھ ہی بنتی ہیں۔
جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں کا یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہوتوایسےمردوعورت پرصدقۃ الفطراداکرناواجب ہے۔ (الجوہرۃ النیرۃ:ج1ص160،باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لایجوز)
قرآن کریم کےپانچویں پارے میں سورۃ نساء کی آیت نمبر 103میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ إنَّ الصَّلـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا اللہ تعالی نے اہل ایمان پر نماز کو مقررہ اوقات میں فرض کیا ہے۔ اس لیے اپنے وقت پر نماز کو ادا کرنا ضروری ہے، ہاں اگر کبھی کبھار کسی عذر، بیماری یا کسی مجبوری کی وجہ سے نماز وقت میں ادا نہ کر سکیں تو شریعت نے اس عبادت کی اہمیت کے پیش نظر اسے بعد میں ادا کرنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔ آج کل تساہل پسندی کا زمانہ ہے، اول تو بہت سے مسلمان نماز ادا ہی نہیں کرتے، اگر کبھی پڑھ بھی لیں تو شرائط و آداب کا بالکل خیال نہیں کرتے اور خشوع خضوع سے خالی نماز محض اٹھک بیٹھک کا نمونہ پیش کرتی ہے اور بس۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ۔ )صحیح بخاری ج1ص270باب فضل لیلۃ القدر (
جس شخص نے ایمان کی حالت میں خلوص نیت سے لیلۃ القدر میں عبادت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔